افرادی قوت اور ترسیلات زر

ایم آئی خلیل  جمعـء 28 فروری 2014

حکومت نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے سعودی عرب اور خلیجی ملکوں کو 6 لاکھ تربیت یافتہ پاکستانی کارکنوں کی خدمات فراہم کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستانی حکام نے گزشتہ دنوں سعودی ولی عہد شہزادہ سلمان بن عبدالعزیز کے ہمراہ آئے ہوئے سعودی ترقیاتی فنڈ کے وفد سے ابتدائی بات چیت مکمل کرلی ہے۔ سعودی عرب کی طرف سے پاکستانی کارکنوں کی تربیت پر آمادگی ظاہر کی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کویت اور قطر نے بھی پاکستانی کارکنوں کی درآمد پر عاید پابندی ختم کردی ہے۔ قطر نے گزشتہ 8 سال اور کویت نے گزشتہ 12سال سے پاکستانی افرادی قوت پر پابندی عاید کر رکھی تھی۔ 1990 میں کویت عراق جنگ کے نتیجے میں لاکھوں کی تعداد میں پاکستانی اپنا مال و متاع، بھری ہوئی دکانیں، ورکشاپس اور دیگر تجارتی و کاروباری ذرایع ہنگامی طور پر چھوڑ کر پاکستان واپس آگئے تھے۔

اس دوران بہت سے پاکستانیوں کو شدید نقصان بھی اٹھانا پڑا تھا۔ لیکن بعد میں بحالی کا عمل شروع ہونے کے ساتھ بڑی تعداد میں پاکستانی کویت لوٹ گئے تھے۔ کویت جانے والے پاکستانیوں نے وہاں کی تعمیر وترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ یہی حال مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک میں جانے والے پاکستانیوں کا ہے۔ مشرق وسطیٰ جانے والے پاکستانیوں کے عمل کا آغاز 1973 کے بعد سے ہوا تھا، جب تیل کی پیداوار کے حامل عرب ممالک نے پٹرولیم کی قیمتیں 2 ڈالر فی بیرل سے بڑھاکر 10 ڈالر فی بیرل کردیا تھا۔ اور ان ملکوں میں دولت کی ریل پیل شروع ہوچکی تھی۔ ان ہی دنوں ترقی یافتہ ممالک کی بڑی بڑی کمپنیوں نے ان ملکوں میں ترقیاتی منصوبوں کا آغاز کیا جس کے لیے بڑی تعداد میں افرادی قوت کی ضرورت تھی۔ لیکن اس وقت کی حکومت نے کارکنوں کو باقاعدہ تربیت دے کر انھیں فنی و تکنیکی تربیت سے لیس کرکے برآمد کرنے کے بجائے بحیثیت مزدور انتہائی کم تربیت یافتہ بلکہ ناخواندہ افراد کو بھی بیرون ملک جانے دیا ۔ جس کے باعث جلد ہی وہاں منصوبوں کی تکمیل کے بعد ان لوگوں کی ضرورت باقی نہ رہی اور 1980 کی دہائی میں بڑی تعداد میں پاکستانی وطن واپس لوٹ آئے۔

پاکستان کو اس وقت بڑی تعداد میں بیرونی زرمبادلہ کی ضرورت ہے اور بیرون ملک پاکستانی مختلف ممالک میں جاکر مختلف معاشی سرگرمیوں میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن خصوصاً مشرق وسطیٰ کے ممالک میں پاکستانی غیر تربیت یافتہ کم تعلیم یافتہ ہونے کے باعث زیادہ معاوضہ حاصل نہیں کرپاتے۔ جس کی وجہ سے انھیں بہت سے مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ان میں سے بہت سے پاکستانی دیار غیر میں غیر قانونی طور پر مقیم ہوجاتے ہیں۔ گزشتہ کچھ عرصے سے سعودی عرب نے اپنے ہاں مقیم غیر ملکی کارکنوں کی اس بات پر پکڑ دھکڑ شروع کی تھی کہ آیا وہ وہاں رہنے اور کام کرنے سے متعلق تمام قانونی شرائط پوری کرتے ہیں یا نہیں؟ تو بہت سے پاکستانیوں کو کئی قانونی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ چند دن قبل کی یہ خبر اطمینان بخش ہے کہ سعودی عرب نے اپنے ہاں مقیم غیر قانونی پاکستانیوں کو قانونی درجہ دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ سعودی عرب میں 20 لاکھ سے زاید پاکستانی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ یہ تمام پاکستانی وہاں کے معاشرے میں مدغم بھی ہوچکے ہیں۔ عربی زبان باآسانی بول لیتے ہیں۔ وہاں پر چھوٹا موٹا کاروبار اور ملازمت غرض جس شعبے میں بھی کام کر رہے ہیں یہ تمام پاکستانی قابل تحسین خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اور یہ بات بھی ہے کہ سعودی عرب میں مزید افرادی قوت کی ضرورت ہے۔ لیکن دیگر ممالک کے شہریوں نے بھرپور کوشش کرکے اپنی جگہ بنا رکھی ہے اور وہ لوگ مزید افرادی قوت لاتے چلے جا رہے ہیں۔ جب کہ پاکستانی ناخواندہ کم ہنرمند اور غیر تربیت یافتہ ہونے کی بنیاد پر دیگر ممالک کی طرح تیزی سے پاکستانیوں کی آمد کا سلسلہ جاری نہیں ہے۔ اب جب کہ حکومت نے اس بات کا تہیہ کرلیا ہے کہ سعودی عرب، کویت، قطر وغیرہ کو افرادی قوت برآمد کی جائے گی اور انھیں تربیت بھی فراہم کی جائے گی تو اس عمل کو انتہائی شفاف طریقے سے انجام دینے کی ضرورت ہے۔

یہ بات درست ہے کہ افرادی قوت ملکی تعمیر و ترقی کے لیے انتہائی اہم ترین کردار ادا کرتی ہے۔ پاکستان جسے زرمبادلہ کی انتہائی سخت ضرورت ہے اپنی افرادی قوت برآمد کرنے پر مجبور ہے۔ اس وقت پاکستان کو لگ بھگ سالانہ 12 ارب ڈالرز تک کا زرمبادلہ حاصل ہورہا ہے جسے دگنا کرنے کے لیے موجودہ حکومت کوشاں ہے۔ ملک میں جہاں ہر تیسرا شخص بیروزگار نظر آرہا ہے خصوصاً دیہی علاقوں میں مستور بیروزگاری بڑے پیمانے پر موجود ہے جوکہ پاکستان کی زرعی معیشت کی لازمی جز کی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ پاکستان جہاں چھوٹے پیمانے پر زمینیں رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ وہاں ایک کنبے کے جتنے بھی افراد ہوتے ہیں وہ ایک چھوٹے سے قطعہ اراضی پر ہی اپنی محنت کر رہے ہوتے ہیں۔ جہاں 7 یا 8 افراد اسی چھوٹی سی زمینداری پر گزارہ کر رہے ہوتے ہیں۔ جب ملک میں صنعتی ترقی ہو رہی تھی نئے نئے کارخانے اور ملیں قائم ہو رہی تھیں ان دنوں یہ افراد دیہی علاقوں سے نکل کر قریبی قصبوں یا شہروں میں جاکر ملوں اور کارخانوں میں ملازمتیں اختیار کرلیتے تھے۔ لیکن اب ایسی صورتحال نہ ہونے کے باعث زرعی شعبے میں مستور بیروزگاری پائی جاتی ہے۔ لہٰذا حکومت اس طرف توجہ دے کر ایسے افراد کو فنی تربیت مہیا کرے تاکہ وہ خلیجی ممالک جاکر زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ بھجوا سکیں۔

اس کے علاوہ اس امر کی بھی ضرورت ہے کہ حکومت خلیجی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو ایسی سہولیات فراہم کرے یا ایسے ذرایع کی طرف راغب کرے جس سے ان ملکوں میں مقیم پاکستانیوں کے لیے زرمبادلہ بھیجنے میں آسانی ہو۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک پاکستانی بینک نے سعودی عرب کے ایک بینک کے ساتھ شراکت کا معاہدہ کیا ہے تاکہ سعودی عرب میں مقیم پاکستانیوں کو ملک میں رقوم کی ترسیل میں آسانی فراہم ہو۔ اس طرح ان دونوں بینکوں کے اشتراک سے پاکستانیوں کو سعودی عرب کے ہر اطراف سے پاکستان رقوم کی ترسیل میں انتہائی آسانی میسر آجائے گی۔ زرمبادلہ کی ترسیل کے مسائل پر قابو پایا جاسکے گا۔

گزشتہ نومبر میں پاکستان اور کویت کے مابین افرادی قوت بھجوانے کے حوالے سے معاہدہ ہوا تھا۔ کویت میں ایک لاکھ 20 ہزار پاکستانی برسر روزگار ہیں۔ حکومت کو سعودی عرب کویت قطر اور دیگر کئی ممالک کو مین پاور ایکسپورٹ کے لیے مختلف سیکٹرز پر بھرپور توجہ دینا ہوگی۔ پاکستانی افرادی قوت کی سب سے بڑی برآمدی مارکیٹ سعودی عرب ہے۔ جہاں سے پاکستانی ورکرز سب سے زیادہ رقوم وطن بھجواتے ہیں۔ جولائی 2013 تا جنوری 2014 کے دوران سعودی عرب سے 2 ارب 59 کروڑ 66 لاکھ 60 ہزار ڈالرز پاکستان ترسیل کی گئیں جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی مدت یعنی 7 ماہ کے دوران 2 ارب 19 کروڑ 20 لاکھ 20 ہزار ڈالرز کی ترسیلات زر ہوئیں۔ رواں مالی سال جولائی 2013 تا جنوری 2014 کے 7 ماہ کے دوران بیرون ملک پاکستانی ورکرز کی جانب سے 9 ارب 3 کروڑ 34 لاکھ 10 ہزار ڈالر کی ترسیلات زر ہوئیں۔ جب کہ گزشتہ مالی سال کے اسی مدت کے دوران 8 ارب 20 کروڑ 63 لاکھ 40 ہزار ڈالرز کی ترسیلات زر کے ساتھ 10.08 فیصد اضافہ ہوا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو افرادی قوت کو ضروری اور فنی و تکنیکی تربیت کی فراہمی کے ساتھ برآمد کی جانب بھرپور توجہ دینا ہوگی تاکہ ملک کو زیادہ سے زیادہ زرمبادلہ حاصل ہوسکے جس سے ترسیلات زر میں اضافہ ممکن ہوسکے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔