شہر قائد کے تعمیراتی منصوبے اور درختوں کا قتلِ عام

سلیمان عبداللہ  ہفتہ 7 مئ 2022
تعمیراتی منصوبوں کے لیے درختوں کا بے دریغ صفایا کیا جارہا ہے۔ (تصاویر: بلاگر)

تعمیراتی منصوبوں کے لیے درختوں کا بے دریغ صفایا کیا جارہا ہے۔ (تصاویر: بلاگر)

 کراچی: ایک وقت تھا جب شہرِ قائد میں جابجا ہریالی نظر آیا کرتی تھی۔ کراچی کے کئی علاقے ایسے تھے جہاں قدیم درخت موجود تھے۔ گرین بیلٹ پر بھی درختوں کی بہتات نظر آیا کرتی تھی۔ لیکن پھر ایسا وقت بھی آیا کہ یہ شہر مکمل طور پر کنکریٹ کا جنگل بن گیا۔ تعمیراتی منصوبوں کی خاطر درختوں کا بے دردی سے قتل عام کیا گیا۔

گرین بس منصوبہ بھی سبزہ دشمن نکلا، کیونکہ اس کی تعمیر کےلیے گرین بیلٹ کی جگہ ہی استعمال کی گئی۔ اس ضمن میں اولڈ ایم اے جناح روڈ کے عشروں پرانے ایسے درخت بھی کاٹے گئے جو یہاں کی شناخت ہوا کرتے تھے۔

اب جہاں سے درخت اکھاڑے گئے ہیں وہاں مٹی کا ڈھیر ہے اور ملبہ پڑا ہے لیکن اس سے قبل، اولڈ ایریا میں اس راہ سے متصل گلیوں کے درخت بھی اکھاڑے گئے تھے۔ ایک صحافی کے مطابق پاک کالونی  کے اطراف بھی حکومت یا کسی مافیا کو سبزہ اچھا نہ لگا تو وہاں بھی درختوں کا صفایا کردیا گیا۔

سرجانی ٹاؤن سے جامع کلاتھ مارکیٹ تک تقریباً 23 کلومیٹر طویل گرین لائن میٹروبس کے بارے میں پہلے بہت پرزور دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس میں ماحول دوست ایندھن استعمال ہوگا اور ایندھن (گوبر) کے حصول کےلیے بھینس کالونی میں جگہ کا انتخاب بھی ہوچکا ہے۔ لیکن یہ دعویٰ بھی صدا بہ صحرا ہی ثابت ہوا۔

فی الحال نمائش اسٹیشن تک آنے والی گرین بس میں ماحول دوست ایندھن استعمال ہورہا ہے یا نہیں، اس سے متعلق کوئی معلومات دستیاب نہیں ہوسکیں، تاہم یہ حقیقت ہے کہ ایک گرین بس کو متحرک کرنے کےلیے اس کے روٹ میں آنے والے تمام گرین بیلٹ سمیت فٹ پاتھ پر لگے نیم، گل مہر، پیپل، لگنم اور برگد کے درختوں کو تہس نہس کردیا گیا ہے۔

اس وقت جب آپ یہ سطریں پڑھ رہے ہیں صرف سعید منزل سے ریڈیو پاکستان کا تقریباً تین سو فٹ کا علاقہ محفوظ ہے، تاہم  کراچی  کے تاریخی مقام ریڈیو پاکستان پر لگے قد آور اور سایہ دار نیم اور برگد کے درختوں کے بچنے کی امیدیں بھی دم توڑتی جارہی ہیں۔  گرین بس کی قیمت کراچی کے کمزور ماحولیاتی نظام کو ادھیڑ کر ادا کی گئی ہے۔

گرین لائن میٹرو بس کا کراچی میں آغاز کرنے سے قبل ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس کا کراچی کے ماحول پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا جاتا اور اس ضمن میں ای پی اے، آئی یو سی این اور ڈبلیو ڈبلیو ایف کی تجاویز یا مشاورت کی جانی چاہیے تھی۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔

یہ بھی ممکن تھا کہ کچھ رقم خرچ کرکے ان درختوں کو کسی اور جگہ منتقل کردیا جاتا لیکن افسوس کہ اس پر عمل نہ کیا جاسکا۔ اس طرح نیم، گل مہر اور پیپل وغیرہ کے نایاب درخت اب قصہ پارینہ ہوچکے ہیں۔ شہری ٹرانسپورٹ کےلیے ایسے منصوبوں میں بطورِ خاص گرین بیلٹ کو شامل کیا جاتا ہے لیکن یہاں یہ حال ہے کہ ترقی کے نام پر سبزے سے دشمنی نباہی گئی ہے۔ بس سروس کے راستے میں آنے والے ہر گرین بیلٹ اور فٹ پاتھ کی وسعت کےلیے کسی چنگیز خان کی طرح درختوں کو تباہ و برباد کرتے ہوئے یہ منصوبہ آگے بڑھایا گیا ہے۔

گرین بس کچھ جگہوں سے اوورپاس (Over Pass) گزر رہی ہے، جن میں گولیمار چورنگی اور بزنس ریکارڈر روڈ شامل ہے۔ مگر اوور پاس کے نیچے سے بھی گرین بیلٹ کو مکمل ختم کردیا گیا اور کئی حصوں کو کنکریٹ سے بھر دیا گیا ہے۔

کراچی کی بدقسمتی کہ یہاں سرکاری تعمیراتی منصوبوں میں  اداروں کے درمیان اشتراک نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ یہی معاملہ گرین لائن بس کے ساتھ ہوا ہے۔ دوسری جانب سندھ ماحولیاتی ایجنسی اور محکمہ باغات خوابیدہ رہے اور اس عظیم نقصان پر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔

ریڈیو پاکستان سے سعید منزل تک کئی درخت ایسے بھی تھے جو قیامِ پاکستان سے پہلے موجود تھے، جو اب اس منصوبے کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

سرجانی سے پٹیل پاڑہ تک جو ماحول دشمن کارروائی ہونی تھی وہ ہوچکی۔ یہاں ہم صرف بندر روڈ کا ذکر کریں گے کہ گرومندر سے سعید منزل تک کے تقریباً دو کلومیٹر کے علاقے کی گرین بیلٹ کو کیسے اور کس طرح تباہ و برباد کیا گیا۔

پہلے ہم  گرومندر سے تبت سینٹر تک کا جائزہ لیتے ہیں۔ گرومندر پر کوئٹہ ہوٹل کی جانب ایک برگد اور دو نیم، شیل اور سی این جی اسٹیشن کے قریب تین برگد اور ایک نیم، قائداعظم اکیڈمی پر ایک نیم، نوائے وقت کے قریب ایک نیم، سیلانی کے قریب فٹ پاتھ پر ایک پیپل اور ایک نیم کے بچنے کی واحد وجہ سامنے بانی پاکستان کا مزار ہے، جس کی وجہ سے بجائے اوور پاس کے گرین بس کو انڈر پاس کیا گیا اور اس طرح گرین بیلٹ کو ادھیڑ کر رکھ دیا مگر مذکورہ بالا جگہوں پر فٹ  پاتھ پر لگے درخت محفوظ رہے۔

اب ہم گرومندر سے نمائش کی طرف آتے ہیں۔ یہاں ایک قطعہ پر سبزہ موجود ہے اور ان میں جنگل جلیبی کے تین، تین بادام، ایک پیپل، دو گل مہراور ایک جامن کا پودا موجود ہے۔ اس سے آگے کے قطعے پر دو کھجور اور سات عدد دیگر پودے موجود ہیں۔ یہ بیس پودے حال ہی میں لگائے گئے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ تقریباً ڈھائی کلومیٹر کے رقبے کو تباہ و برباد کرنے کے بعد صرف بیس پودے ؟ اور وہ بھی سارے بیماری کی حالت میں موجود ہیں، کہاں کی دانشمندی ہے؟

اس کے بعد کیپری سینما کا مقام آتا ہے۔ یہاں سبزے کے قطعات (پیچز)  تھے، مگر گرین بیلٹ کا کیا حال ہے وہ تصاویر میں ملاحظہ کرسکتے ہیں۔

کچھ ایسی ہی صورتحال کیپری سینما سے نمائش کی جانب فٹ پاتھ کی ہے۔ جہاں فٹ پاتھ کو وسیع کرنے کےلیے تمام دیسی درختوں کا صفایا کردیا گیا اور یہی حال کیپری سے تھوڑا آگے سیونتھ ڈے اسپتال کے سامنے پرنس سینما کے گرین بیلٹ اور فٹ پاتھ کا ہے۔

یہاں  گل مہر اور نیم پر کلہاڑے چلادیے گئے۔ اس سے تھوڑا آگے نشاط سنیما کے نذر آتش ہونے کے بعد یعنی اگست 2012 کے بعد کا منظر تصویر میں اور موجود حالت دیکھ کر اندازہ لگائیں کہ نشاط سینما پر تخریب کاری  کے بعد ماحولیاتی دہشت گردی بھی کی گئی ہے۔

یہاں گرین بیلٹ پر نیم اور نشاط سینما کے فٹ پاتھ پر پیپل موجود ہے اور نشاط سینما کی اسی ماہ کی تصویر بھی ملاحظہ کیجیے۔

نشاط سینما سے ہم پلازہ کی طرف آئے تو یہاں تقریباً پچاس فٹ بلند اور گھنا پیپل موجود تھا۔ اس کے سائےمیں کار کے ڈیکوریشن کا کام کرنے والے بیٹھے ہوتے تھے اور یہی جگہ پلازہ کا بس اسٹاپ تھا۔ اور اب یہاں سے بھی اس گھنے پیپل کو اکھاڑ دیا گیا۔ پلازہ سے ہم تھوڑا آگے تبت سینٹر آتے ہیں، اس جگہ گرین بیلٹ پر ایک پیپل لگا تھا، اس کا بھی خاتمہ ہوگیا۔

تبت سینٹرسے جب ہم آگے بڑھے تو سعید منزل پر کھڑے تھے۔ سعید منزل کے اسٹاپ کو ہم صرف سعید منزل ہی سمجھتے تھے، بالکل اسی طرح جس طرح شاہراہِ لیاقت اور ایم اے جناح روڈ کے ڈینسو ہال، لائٹ ہاؤس، آرام باغ اور نیو چالی کے بس اسٹاپ یعنی دو جانب ایک ہی نام کے بس اسٹاپ ہیں۔

جب ہم سعید منزل پر پہنچے تو پہلی بار سعید منزل کو بھرپور دیکھا اور علم ہوا کہ ’’یہ سعید منزل ہے‘‘ اس کی وجہ سعید منزل سے جوبلی سینما کی طرف جانے والے فٹ پاتھ پر تقریباً 45 فٹ اونچے اور گھنے پیپل کے درخت کا کٹنا تھا، اس گھنے درخت نے سعید منزل پر سایہ کر رکھا تھا۔

کراچی میں ماضی میں کے ٹی سی اور ایس آر ٹی سی کے تجربے  شاید کسی کو یاد نہ ہوں، مگر اس گرین بس تجربے کو آنے والی نسلیں اُس وقت یاد رکھیں گی جب کراچی کا پارہ 45 سے  اوپر جائے گا اور جان لیوا ہیٹ اسٹروک بار بار حملہ آور ہوگا۔

نجانے مجھے کیوں لگتا ہے کہ اس خونخوار واردات کے بعد درختوں کا مزید لہو بہے گا۔ ریڈیو پاکستان کی اطراف اب بھی دو پیپل، تین برگد اور کافی تعداد میں نیم کے درخت موجود ہیں۔ شاید یہ درخت بقیہ ساتھیوں کا حشر دیکھ کر ڈر رہے ہیں کہ جلاد اب آیا کہ تب آیا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سلیمان عبداللہ

سلیمان عبداللہ

بلاگر ماحولیاتی کارکن اور مصنف ہیں۔ بالخصوص شجرکاری، شہری سہولیات اور جانداروں کے حقوق پر آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔