بچوں میں غصہ اور چڑچڑاپن

سروش بخت  منگل 5 ستمبر 2023
عمر کے ابتدائی برسوں میں والدین کی اچھی تربیت ہی بچوں کی آئندہ زندگی میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ (فوٹو: فائل)

عمر کے ابتدائی برسوں میں والدین کی اچھی تربیت ہی بچوں کی آئندہ زندگی میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ (فوٹو: فائل)

انسانی جذبات کی مختلف اقسام میں سے غصہ بھی ایک اہم قسم ہے۔ یوں تو ہر وقت غصے میں رہنے والے انسان کو دوسرے لوگ پسند نہیں کرتے اور نہ ہی کوئی انسان ہمیشہ غصے کی حالت میں رہنا چاہتا ہے لیکن پھر بھی یہ وہ جذبہ ہے جو انسان کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے اور چار و ناچار انسان کو غصہ آ ہی جاتا ہے۔

غصہ اور چڑچڑاپن صرف بالغ انسانوں تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ یہ بچوں میں بھی پایا جاتا ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ بچوں کے غصے اور چڑچڑے پن کی طرف عموماً لوگ خاص توجہ نہیں دیتے، جس کی وجہ سے معاملات بگڑ جاتے ہیں اور بچوں کی شخصیت پر ایک ہمیشہ رہنے والا برا اثر قائم ہوجاتا ہے۔ بچوں کے غصے اور چڑچڑے پن کے مختلف اسباب میں سے چند درج ذیل ہیں۔

تمام عوامل میں سے اول پر آتا ہے والدین کا کردار۔ بچوں کی شخصیت سازی اور جذباتی اتار چڑھاؤ میں والدین کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے۔ اگر والدین کی طرف سے بچوں کی تربیت میں کسی بھی قسم کی کمی رہ جائے تو اس چیز کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے کہ بچوں میں غصہ یا چرچڑا پن آجائے۔ مثال کے طور پر جن بچوں کو والدین کی طرف سے بے جا ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان بچوں میں چڑچڑا پن پیدا ہونے کے امکانات نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ ایک اور غلطی جو والدین عمومی طور پر کرتے ہیں، وہ بچے کی ہر ضد کو پوری کرنا ہے۔ ایک وقت آتا ہے جب والدین بچوں کی ضد پوری کرنے سے قاصر ہوتے ہیں لیکن چونکہ بچے کو اس بات کی عادت ہوگئی تھی اور اب اچانک سے والدین کے منع کرنے پر اس کے اندر چڑچڑاپن پیدا ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

والدین کے آپس کے معاملات بھی اس حوالے سے نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ وہ والدین جو ہر وقت آپس میں بچوں کے سامنے لڑتے رہتے ہیں، ان کے بچوں میں غصہ اور چڑچڑے پن کے جذبات تیزی سے پروان چڑھتے ہیں۔

بچوں کے اندر ان جذبات کے پیدا ہونے کی دوسری بڑی وجہ ان کے آس پاس کا ماحول ہے۔ بچوں کے اساتذہ، رشتے دار اور پڑوس کے لوگ اس میں شامل ہیں۔ اگر بچوں کو ان افراد کی طرف سے کسی بھی قسم کے منفی حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو یہ عین ممکن ہے کہ بچے کے اندر غصہ اور چڑچڑاپن پیدا ہونا شروع ہوجائے۔ مثلاً بچوں کے کاموں میں بے جا مداخلت، کسی غلطی پر مذاق اڑانا، بات بات پر طعنے دینا، یا پھر بچوں پر ہاتھ اٹھانا وغیرہ شامل ہیں۔

مندرجہ ذیل باتوں پر عمل کرکے بچوں کے اندر سے ان منفی جذبات کو ختم کیا جاسکتا ہے۔

سب سے پہلے تو والدین اور بڑوں کو چاہیے کہ وہ اس بات کو تسلیم کرلیں کہ غصہ ایک ایسا جذبہ ہے جو بڑوں کے ساتھ ساتھ بچوں میں بھی موجود ہوتا ہے۔ جب اس چیز کا ادراک ہوجائے گا تو علاج میں بھی آسانی ہوگی۔

والدین کے آپس میں چاہے کتنے ہی اختلافات کیوں نہ ہوں انہیں اپنی جنگ بچوں کے سامنے نہیں لڑنی چاہیے کہ اس سے بچوں کے اندر انتہائی منفی جذبات جنم لیتے ہیں، جو زندگی بھر ان کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں۔ کیا آپ چاہیں گے کہ آپ کی تھوڑی دیر کی لڑائی یا انا کی جیت آپ کے بچوں کی زندگی بھر کی شخصیت پر منفی اثرات مرتب کرے؟ ہرگز نہیں۔ تو آج سے احتیاط کیجیے۔

دوسری بات یہ کہ اپنے مزاج میں اور بچوں کی تربیت میں میانہ روی کو خاص جگہ دیجئے۔ مثلا آپ کچھ اپنی منوائیں اور کچھ ان کی مانیں۔ شروع سے یہ اصول اپنا لیجئے کہ بچے کی ہر جائز خواہش کو پورا کرنے کی ہر ممکن کوشش کریں لیکن کسی بھی قسم کی ناجائز ضد کو نرمی اور سمجھداری کے ساتھ رد کردیں۔

تیسری بات اس ضمن میں بچوں کے اردگرد کے ماحول اور ان کے مزاج پر نظر رکھنا ہے۔ آپ وقتاً فوقتاً بچوں کے اساتذہ اور ان کے دوستوں سے ملاقات کرتے رہیں اور اپنے بچے کی عادات پر بھی خاص نظر رکھیں کہ کہیں اس کی کسی عادت میں بہت تیزی سے کوئی تبدیلی رونما تو نہیں ہورہی؟ اگر ایسا ہے تو پیار و محبت کے ساتھ دوستوں کی طرح بیٹھ کر بچے سے اس چیز کو ڈسکس کریں۔

یاد رکھیے کہ عمر کے ابتدائی برسوں میں والدین اور بڑوں کی اچھی تربیت ہی بچوں کی آئندہ زندگی میں کامیابی کی ضمانت ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

سروش بخت

سروش بخت

بلاگر پیشے کے اعتبار سے انجینئر اور مختلف موضوعات پر ریسرچ کے شوقین ہیں۔ ان سے ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔