لہو رنگ ارض فلسطین…  (آخری حصہ)

نگہت فرمان  اتوار 8 مئ 2022

غزہ میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے حکومت تو قائم کرلی لیکن اسرائیل نے اپنے عالمی گماشتوں کی حمایت سے 2008 میں غزہ پر بڑا فضائی حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں سیکڑوں فلسطینی جام شہادت نوش کرگئے، غزہ کا موجودہ محاصرہ اسی محاصرے کا تسلسل ہے۔ حماس ہمیشہ کی طرح کامیابی سے مزاحمت کر رہی ہے۔

غاصب اسرائیل جو گزشتہ پینسٹھ برسوں سے فلسطین کے مظلوم عوام معصوم بچوں، خواتین، جوانوں اور بزرگوں کو خطرناک اور مہلک ہتھیاروں سے قتل کر رہا ہے اس کے مقابلے میں اسلام کی قوت سے سرشار مٹھی بھر یہ حماس کے جوان کس طرح دہشت گرد قرار دیے جا سکتے ہیں؟ کس نے امریکا کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اسرائیل جیسی سفاک ریاست کے جرائم کے سامنے سینہ سپر ہونے کے جرم میں کسی کو دہشت گرد قرار دے؟

امریکا نے اسرائیلی مظالم کے باوجود اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار کیوں نہیں دیا؟ آخر پوری دنیا کیوں فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے؟ اسرائیل، امریکا اور یورپی یونین کی جانب سے حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جاچکا ہے۔اسرائیل اور فلسطین کا تنازعہ گزشتہ ستر برسوں سے چلا آ رہا ہے، اس خطے پر برطانیہ کی حکومت تھی۔

1948 میں اس کی تقسیم کے ساتھ اسرائیل کا قیام ممکن ہوا۔ یوں دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کو ایک وطن تو ملا لیکن مشرق وسطیٰ ایک طرح کے انسانی اور سیاسی بحران کی زد میں آگیا۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کی آبادی تقریبا 70 لاکھ ہے جب کہ فلسطینی علاقوں میں 40 لاکھ افراد آباد ہیں۔ اس عرصے میں ہزاروں فلسطینی بے گھر ہو ئے جب کہ متعدد جنگیں ہوئیں جن میں مصر، اردن، شام اور لبنان شامل رہا ہے۔

مشرقی یروشلم کے ساتھ مغربی کنارے پر فلسطینی 1967 سے اسرائیلی تسلط میں رہے ہیں۔فلسطین نیشنل اتھارٹی میں جنوری 2006 میں پارلیمانی انتخابات ہوئے، جن میں حماس کی فتح سے فلسطینی دھڑوں میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ صدر محمود عباس کی جماعت فتح اور حماس کے درمیان پرتشدد کارروائیاں ہوئیں۔ فروری 2007 میں دونوں جماعتوں کے درمیان قومی حکومت کی تشکیل کا معاہدہ ہوا۔

بعدازاں غزہ کا کنٹرول عسکریت پسند تنطیم حماس کے ہاتھ آ گیا، یوں اسرائیل کے ساتھ تنازعہ اور بھی شدید ہوگیا۔ اگرچہ اسرائیل غزہ اور مغربی کنارے کا کنٹرول فلسطینیوں کو دے چکا ہے تاہم آزاد فلسطینی ریاست کا قیام ابھی تک ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ اس کی راہ میں بڑی رکاوٹوں میں یروشلم کی حیثیت، فلسطینی پناہ گزینوں اور یہودی آباد کاروں کے مسائل حائل ہیں۔ آزاد فلسطین ریاست کا قیام 2008 کے آخر تک عمل میں آنا تھا۔

مشرقی یروشلم اس ریاست کا متوقع دارالحکومت ہے، تاہم فلسطینی تنظیموں اور اسرائیل کے مابین مصر کی ثالثی سے طے پانے والا فائر بندی کا ایک معاہدہ ختم ہوگیا۔ یہ معاہدہ چھ ماہ تک قائم رہا، جس کے خاتمے پر عسکریت پسند فلسطینی تنظیم حماس کی جانب سے راکٹ حملوں کے بعد، اسرائیلی حکام نے غزہ پر چڑھائی کر دی۔ ان فضائی کارروائیوں کے پہلے چند روز میں ہی بچوں اور خواتین سمیت سیکڑوں فلسطینی ہلاک ہوگئے۔

غزہ پر فضائی بمباری سے قبل اسرائیلی فوجی طیاروں سے انتباہی پمفلٹ گرائے جاتے ہیں جن پر شہریوں کے لیے علاقہ چھوڑنے کے پیغامات درج ہوتے ہیں۔ گزشتہ دسمبر کے آخری ہفتے سے جاری غزہ پر اسرائیلی فضائی اور زمینی حملوں میں بچوں اور خواتین سمیت اب تک سیکڑوں فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، اور جو زندہ ہیں انھیں انسانی بنیادی ضرورتوں سے جڑے بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔

فلسطین ایک بار پھر لہو میں ڈوبا ہوا ہے ہر کچھ دن بعد وہاں ظالم ظلم کی ایک نئی داستان رقم کرتا ہے، لیکن تمام عالم میں سکوت طاری رہتا ہے،کچھ مسلمان ممالک میں ہلچل ہوتی ہے لیکن وہ بھی وقت کے ساتھ دم توڑدیتی ہے اور زندگی کا کاروبار یوں ہی رواں ہے۔ حقائق دل دہلا دینے والے ہیں لیکن حماس کی مزاحمت جاری ہے۔ یہ ایک ایسا تنازعہ ہے جو 1948 میں اسرائیل کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔

غزہ و فلسطین پر ڈھائے گئے اس ظلم پر بعض ماہرین اقوام متحدہ کی خاموشی پر سوالیہ نشان اٹھار رہے ہیں اب یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ اقوام متحدہ عالمی طاقتوں کی زرخرید غلام ہے۔ رہی ’’او آئی سی‘‘ تو اس کا کردار اتنا کم زور، قابل مذمت اور اس کی بے بسی عیاں ہے کہ اس تنظیم نے کاغذی قراردادیں پاس کرنے کے علاوہ کبھی کچھ نہیں کیا۔ اسرائیل نے یہاں آبادیاں بنا لی ہیں جہاں چھ لاکھ یہودی رہتے ہیں۔

فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ یہ بین الاقوامی قوانین کے مطابق غیر قانونی ہے اور امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں جب کہ اسرائیل اسے مسترد کرتا ہے۔ ایسے متعدد معاملات ہیں جن پر فلسطینی اور اسرائیلی اتفاق نہیں کر سکتے۔ ان میں یہ سوالات ہیں، فلسطینی پناہ گزینوں کا کیا ہوگا، غربِ اردن میں یہودی بستیاں رہیں گی یا نہیں، کیا دونوں فریق بیت المقدس میں اکھٹے رہ سکتے ہیں، اور شاید سب سے مشکل یہ کہ کیا اسرائیل کے ساتھ ایک آزاد فلسطینی ریاست بن جائے گی ؟

گزشتہ 25 سالوں میں امن مذاکرات وقتاً فوقتاً ہوتے رہے ہیں مگر معاملات حل نہیں ہو سکے۔اسرائیل نے حماس کے زیرِ کنٹرول علاقے غزہ پر سیکڑوں فضائی حملے کیے جب کہ حماس نے بھی اسرائیل کے شہروں تل ابیب اور بیئر شیبہ پر متعدد راکٹ فائر کی۔ غزہ پر حماس کے 2007 میں کنٹرول کے بعد سے اب تک اسرائیل اور حماس کے درمیان تین جنگیں لڑی جا چکی ہیں۔

اسرائیل کے ظلم کی داستان اتنی طویل ہے کہ صفحات کم اور الفاظ ختم ہوجائیں،ہر کچھ دن بعد بالخصوص رمضان المبارک میں اسرائیل کی طرف سے ضرور ایسا حملہ کیا جاتا ہے جس سے لگتا ایسا ہے کہ امت مسلمہ کا امتحان لینا مقصود ہے کہ ابھی رگوں میں خون ہے یا منجمد ہوگیا ہے اس ظلم پر مظلوموں کا ساتھ دینے کے لیے کہیں اور سے آواز بلند ہوتی ہے یا سکوت ہے ؟

آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ نہتے اور مظلوم فلسطینی مسلمانوں پر زندگی ہمیشہ کی طرح اذیت بنی رہے گی یا انھیں بھی انسان تصور کیا جائے گا اور وہ اپنی ایک آزاد ریاست کا خواب تعبیر ہوتا دیکھ پائیں گے۔ یہ بھی وقت ہی بتائے گا کہ امت مسلمہ کے حکمران صرف ہمیشہ کی طرح زبانی جمع خرچ کرتے رہیں گے یا غیرت اسلامی کا ثبوت دیتے ہوئے غاصب اسرائیل کو تاریخی سبق سکھائیں گے۔پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ! ڈاکٹر علامہ اقبال نے بالکل درست فرمایا تھا۔

عصا نہ ہو تو کلیمی ہے کارِ بے بنیاد

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔