ہم واقعی شرمندہ ہیں‘ اے قائد۔۔۔

رئیس فاطمہ  ہفتہ 1 مارچ 2014

بھٹو کو پھانسی چڑھوا کر اقتدار حاصل کرنے کے بعد ضیا الحق امیرالمومنین بننے کا خواب تو پورا ہوتے نہ دیکھ سکے البتہ آفاق میں گم ہونے کے بعد بہت سی بیماریوں کے جو جراثیم وہ فضا میں بکھر گئے تھے۔ وہ آج لہلہاتے کھیتوں کی صورت میں وطن کی زرخیز مٹی کو بارود کا ڈھیر بنا رہے ہیں۔ خیر کوئی بات نہیں، وطن کی مٹی پہ ضیا الحق کے ’’وارثوں‘‘ کا بھی اتنا ہی حق ہے، جتنا میرا یا آپ کا۔ بس اپنی اپنی سوچ کا فرق ہے۔

ایک عرصے سے وطن عزیز میں شریعت کے نفاذ کی خوش کن باتیں ہو رہی ہیں۔ اچھی بات ہے۔ خدا وہ وقت جلد لائے جب ایک خدا اور ایک رسولؐ کے ماننے والے کسی ایک شریعت کے نفاذ پر راضی ہوجائیں لیکن یہ کیونکر ممکن ہے؟ ایک گروہ مزاروں کو منہدم کرنا چاہتا ہے جب کہ اس ملک کے عوام کی اکثریت مزارات اور اولیائے کرام سے دلی عقیدت رکھتی ہے۔ ان میں ہندو بھی شامل ہیں کیونکہ صوفیوں اور بزرگان دین سے محبت اور عقیدت کا ٹھیکہ اللہ میاں نے صرف مسلمانوں کو نہیں دیا۔ کتنے ہی ہندو شعرا نے بارگاہ رسالت میں اپنی عقیدت کے اظہار کے لیے نعتیں کہی ہیں۔ کنورمہندر سنگھ بیدی اور ستیہ پال آنند کا نام تو آج کی ادبی تاریخ کا حصہ ہے لیکن برصغیر میں شاید ہی کوئی پڑھا لکھا آدمی ایسا ہوگا جو منشی نول کشور کے نام اور ان کے چھاپہ خانے سے واقف نہ ہو جنھوں نے عربی، فارسی، اردو کی علمی، ادبی اور مذہبی کتب کو شایع کیا۔ یہ حقائق کتابوں میں درج ہیں کہ مذہبی کتب کی اشاعت کے لیے وہ باوضو لوگوں کا انتخاب کرتے تھے اور جہاں یہ کتب چھپ رہی ہوتی تھیں وہاں وہ خود با وضو ہوکر ننگے پاؤں جاتے تھے۔ اور کسی کو بھی وہاں جوتیاں پہن کر جانے کی اجازت نہیں تھی ۔ نام ور محقق، ادیب، شاعر اور سات زبانوں کے ماہر قاضی احمد میاں جونا گڑھی نے اپنی تصنیف ’’میں ایک بھرپور مضمون‘‘ اسلامی ادبیات کا ناشر، منشی نول کشور پہ لکھا ہے۔ جسے انجمن ترقی اردو نے 1989 میں شایع کیا تھا۔ اس مضمون میں قاضی صاحب نے اس رویے پر افسوس کا اظہار کیا ہے کہ منشی نول کشور کی خدمات پر جتنا لکھا جانا چاہیے تھا۔ اتنا نہیں لکھا گیا جب کہ ان کی شہرت ہندوستان سے باہر تک تھی۔ قابل ستائش بات یہ تھی کہ منشی نول کشور نے اسلامی کتب کی اشاعت میں مال منفعت سے کہیں زیادہ اپنی عقیدت کو ترجیح دی تھی۔

ہمارے گھر کے قریب طارق روڈ پر دو مٹھائی کی دکانیں تھیں۔ سن شائن اور ’’مشٹی مکھ‘‘دونوں کے مالک ہندو حضرات تھے ۔’’سن شائن‘‘ کے مالک کو جب یہ بتادیا جاتا تھا کہ مٹھائی محفل میلاد کے لیے بنوائی جا رہی ہے تو وہ صرف مسلمان ملازمین سے ہی تمام کام کرواتے تھے۔ مٹھائی بنانے سے لے کر ڈبوں میں پیک کرنے تک کا تمام کام نہایت صاف ستھرے طریقے سے وہ اپنی نگرانی میں کرواتے تھے۔ اس کا مجھے ذاتی تجربہ ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم بظاہر تو مذہب کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں لیکن ہمارا عمل اس کے بالکل برعکس ہے۔ بابری مسجد بھارت میں شہید ہوتی ہے لیکن انسانوں کا قتل عام پاکستان کے مختلف شہروں میں ہوتا ہے۔ کوئی غیر مسلم ہمارے معاشرے سے محفوظ نہیں۔ دین اور شریعت کے خودساختہ ٹھیکیدار موقعے کی تاک میں رہتے ہیں کہ کس طرح اپنی سیاست چمکائی جائے۔ لیکن افسوس کہ بانی پاکستان محمد علی جناح کے مزار کے نیچے اصلی قبروں کے بیچ جن شرمناک واقعات کی خبریں افشا ہوئی ہیں اور جو گھناؤنے واقعات منظر عام پر آئے ہیں۔

اگر ان میں کوئی ہندو، کوئی عیسائی ، قادیانی، یہودی یا سکھ ملوث ہوتا، تو بھی ایسی ہی خاموشی چھائی رہتی۔۔۔؟ نہیں۔۔۔بلکہ اب تک کئی ڈنڈا بردار ریلیاں ان غیر مسلموں کے خلاف نکل چکی ہوتیں۔ ان کی کالونیاں اور گھر جلا دیے جاتے۔ ان کو واجب القتل قرار دے دیا جاتا۔ یہ واقعہ اسلامی مملکت کے نام پر دھبہ سمجھا جاتا۔ لیکن چونکہ اس میں وہ لوگ ملوث ہیں جو ’’ناقابل دست اندازی صحافت‘‘ ہیں۔ مسلمان کہلاتے ہیں اور مقتدر حلقوں کی سرپرستی بھی انھیں حاصل ہے۔ اس لیے نہ کسی مذہبی جماعت نے کوئی ریلی نکالی، نہ ہی کسی غیرت و حمیت سے بھرپور لیڈر نے ایم۔اے جناح روڈ پر ٹریفک روک کر ان بے غیرتوں کو بے نقاب کیا۔ کیونکہ ایسے ناپاک کام ہمیشہ کچھ بااختیار بڑے لوگوں کی سرپرستی میں کیے جاتے ہیں۔ افسوس کہ گورنر صاحب کے نوٹس لینے کے باوجود کچھ بھی نہ ہوا۔ کیا قائد اعظم کو پاکستان بنانے کی سزا دی جا رہی ہے؟ پہلے ان کی جائے پیدائش سے دارالحکومت کا استحقاق چھین کر اور اب ان کی قبر کی بے حرمتی کرنے کے عوض مال بنانے کے لیے؟ عام حساس آدمی پریشان ہے۔ لیکن قائد اعظم کمیٹی کے لوگ تمام گھناؤنے کاروبار کی سرپرستی کس طرح فرما رہے ہیں۔ یہ راز کئی سالوں پہلے کھل چکے ہیں؟

کیا علمائے دین اور شریعت کے مطالبے میں شریک مذہبی و سیاسی جماعتیں اس بات کا جواب دینا پسند کریں گی (اگر کوئی جواب ہے) کہ وہ تمام بنیادی مسائل جن کا تعلق روزمرہ کی زندگی سے ہے شریعت نافذ کیے بنا حل نہیں کیے جاسکتے۔ مجھے بتائیے کہ مزار قائد کے احاطے کے اندر قائد کی قبر پر جو فحاشی کے اڈے نگرانوںکی موجودگی میں چلائے جا رہے ہیں۔ ان کی بیخ کنی کے لیے کون سی شریعت کے نفاذ کی ضرورت ہے؟ کون سی شریعت اور کون سا مذہب ایسی حرکتوں کی اجازت دیتا ہے۔ گناہ یا جرم اگر کسی غیر مسلم کا ہو تو فوراً ہمارے علمائے کرام اور مولویوں کو نظرآجاتا ہے۔ جب کہ گزشتہ ہونے والے واقعات اس بات کے شاہد ہیں کہ مذہب کی آڑ میں گھر اور زمین پہ قبضے کا مذموم منصوبہ تھا۔

لیکن اس واقعے پر لوگ کیوں خاموش ہیں؟ سول سوسائٹی نے بھی احتجاج نہیں کیا۔۔۔!!۔۔۔۔ایک بار پھر اپنا سوال دہراتی ہوں کہ اگر سالوں سے ہونے والے اس گھناؤنے کاروبار میں ملوث اہل کاروں میں سے کوئی غیر مسلم ہوتا تو تب بھی مذہبی جماعتیں ایسی ہی پراسرار خاموشی اختیار کیے رہتیں؟ جو قوم مسلکوں کے اختلاف کی بنا پر ایک دوسرے کی مسجدوں میں نماز ادا کرنے سے قاصر ہو۔ وہ کسی ایک شریعت پہ متفق کیونکر ہوسکتی ہے؟ بھتہ خوری کا خاتمہ، عورتوں کی آبرو ریزی کے واقعات، جعلی دواؤں کے کاروبار کی روک تھام ، غیر صحت مند بکرے اور گائے کے گوشت کا کاروبار، گلی سڑی سبزیوں کی فروخت، مہنگائی کا عفریت، دودھ اور دہی کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتیں اور ان کی روک تھام، اسکولوں کی بڑھتی ہوئی فیسیں، عصمت فروشی، بھکاریوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے ساتھ ان کا چوریوں کی وارداتوں میں ملوث ہونا، سی این جی کی بندش اور اس کا بڑی گاڑیوں میں استعمال روکنے، سفارش کلچر کے خاتمے، بے روزگاری اور میرٹ کے قتل عام کے خاتمے کے لیے کون سی شریعت کے نفاذ کا انتظار ہے؟ اور کون سی شریعت ان مسائل کی طرف توجہ دینے سے روکتی ہے؟

دراصل یہ سب بہانے ہیں۔ عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے۔ کیونکہ ضیا الحق نے اپنے دور اقتدار میں اچھی طرح سمجھ لیا تھا کہ اس قوم کو صرف مذہب کا تڑکا لگا کر من پسند نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اسی لیے اس کے جانشین بھی یہی گر آزما رہے ہیں۔ لوگوں کو مذہب، مسلک اور شریعت کے گورکھ دھندے میں پھنسا کر مطلوبہ مکھن حاصل کرلو۔ بالکل ایسے ہی جیسے دودھ سے دہی جماکر اصلی مکھن نکال لو اور چھاچ بھی مہنگے دام بیچ کر فائدے میں رہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔