Prison Fight: تھائی لینڈ کی جیلوں میں قیدیوں کا غیرملکی کھلاڑیوں سے مقابلہ

ندیم سبحان  اتوار 2 مارچ 2014
فتح سزا میں کمی کی نوید لاتی ہے۔

فتح سزا میں کمی کی نوید لاتی ہے۔

جیلوں میں بہتر رویہ اپنانے پر تمام ممالک میں قیدیوں کی سزا میں تخفیف کردی جاتی ہے۔

پاکستان میں تو یوم آزادی اور عیدین کے مواقع پر بھی قیدیوں کی سزا میں کمی کا اعلان کیا جاتا ہے۔ مگر تھائی لینڈ میں اس حوالے سے قوانین مختلف بلکہ عجیب و غریب ہیں۔ وہاں بھی قیدیوں کی سزا میں تخفیف کی جاتی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ موزوں ہوگا کہ قیدی اپنی سزا میں کمی کروانے کے لیے لڑتے ہیں۔ جی ہاں! انھیں باقاعدہ فائٹ کرنی پڑتی ہے اور حریف کو شکست دینے پر ہی وہ سزا میں کمی اور بعض اوقات رہائی کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔

تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں قائم کلونگ پریم سینٹرل جیل میں باکسنگ کے مقابلوں کا انعقاد ہوتا ہے۔ یہ ٹورنامنٹ جسے Prison Fight کہا جاتا ہے، تھائی لینڈ کے شعبہ برائے اصلاح (Department of Corrections ) کے زیرنگرانی منعقد کیا جاتا ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں قیدیوں کے مدمقابل غیرملکی کھلاڑی ہوتے ہیں۔ فتح کی صورت میں قیدی کو نہ صرف نقد انعام ملتا ہے بلکہ اس کی سزا میں بھی تخفیف کردی جاتی ہے۔ باکسنگ کے یہ مقابلے مرحلہ وار تمام جیلوں میں منعقد کیے جاتے ہیں، اور حیرت انگیز طور پر ان میں حصہ لینے والے ہر دس میں سے نو قیدی حریف غیرملکی کھلاڑی کو شکست دینے میں کام یاب ہوجاتے ہیں۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی کے لیے لڑتے ہیں، اور یہی جذبہ انھیں حریف کھلاڑی پر فتح پانے کی طاقت بخشتا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ باکسنگ تھائی لینڈ میں بے حد مقبول ہے، اور ان مقابلوں میں ان ہی قیدیوں کو لڑنے کا موقع دیا جاتا ہے جو باکسنگ کا تجربہ رکھتے ہوں۔

تھائی لینڈ کی جیلوں میں قیدیوں کے باکسنگ مقابلوں کا آغاز جنوری 2013ء میں ہوا تھا۔ اس کی بنیاد ایک مقامی روایت بنی تھی۔ اس روایت کے مطابق 1774ء میں برما کی جیل میں ایک تھائی لڑاکا قید تھا۔ اس نوجوان فائٹر کا نام Khanomtom تھا۔ برما کے شاہ منگرا کی خوش نودی کے لیے اسے یکے بعد دیگرے برما کے نو چیمپیئنز سے لڑایا گیا۔ خانوم ٹوم نے اپنے تمام حریفوں کو خاک چاٹنے پر مجبور کردیا۔ بادشاہ خانوم ٹوم کی بہادری سے اتنا خوش ہوا کہ اس نے نہ صرف اسے آزاد کردیا بلکہ دو بیویاں بھی اسے سونپ دیں۔

Prison Fight کے کوآرڈینیٹر مسٹر پیک کہتے ہیں،’’ ان مقابلوں کا مقصد قیدیوں کی مدد کرنا ہے۔ ان سے نہ صرف ان کی مالی مدد ہوتی ہے بلکہ ان کی سزا بھی کم ہوجاتی ہے۔ اگر وہ غیرملکی باکسروں کو شکست دینے میں کام یاب ہوجائیں تو اس سے ملک کا نام بھی روشن ہوتا ہے۔ ‘‘

قیدی ان مقابلوں کے لیے بے حد سنجیدگی سے ٹریننگ کرتے ہیں۔ Prison Fight کے انعقاد سے کئی ماہ پہلے سے قیدی کوچ کے زیرنگرانی باکسنگ کی مشق شروع کردیتے ہیں۔  Saichon Somnet کلونگ پریم سینٹرل جیل میں قیدیوں کے باکسنگ کوچ ہیں۔ ان کا کہنا ہے،’’ جیل میں قیدیوں کے لیے زندگی بے حد دشوار ہوتی ہے۔ میں اپنے شاگردوں کو باکسنگ کے ساتھ ساتھ مارشل آرٹ کی قدیم شکلMuay Thai کی بھی تربیت دیتا ہوں تاکہ وہ غیرملکیوں کا جم کر مقابلہ کرسکیں۔‘‘

تھائی جیلوں میں Muay Thai  کی مشق کے لیے جگہ مخصوص ہوتی ہے اور یہیں باکسنگ کے مقابلے ہوتے ہیں۔ یہاں باقاعدہ رنگ بنا ہوتا ہے اور اطراف نصب اسٹینڈز پر بیٹھے ہوئے پُرجوش قیدی تماشائی نعرے لگا کر اپنے ساتھی کا حوصلہ بڑھاتے ہیں۔ بعض اوقات ان مقابلوں کے دوران خواتین چیئرلیڈرز بھی موجود ہوتی ہیں۔ مقابلہ شروع ہونے سے پہلے اصلاحی شعبے کا اہل کار اعلان کرتا ہے اور قد اور وزن کی بنیاد پر حریف کھلاڑیوں کا انتخاب عمل میں آتا ہے۔ یہ کھلاڑی ایک دوسرے سے پہلے کبھی نہیں ملے ہوتے اور نہ ہی ایک دوسرے کے فائٹنگ اسٹائل سے واقف ہوتے ہیں۔ حریف کھلاڑی مختصر سا رقص کرتے ہیں جسے Wai Khru Ram Muay کہا جاتا ہے اور پھر لڑائی شروع ہوجاتی ہے۔

Prison Fight کے مقابلے قیدیوں کے لیے تو سزا میں کمی اور رہائی کی نوید لے کر آتے ہیں مگر غیرملکی فائٹرز کے لیے بھی یہ کم اہم نہیں۔ ان دنوں فرانسسی باکسر Alexis Barateau فائٹ کے سلسلے میں بنکاک آیا ہوا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ان مقابلوں میں فتح مجھے عالمی شناخت عطا کرسکتی ہے کیوں کہ لوگ جیل میں باکسنگ کے مقابلوں کا سُن کر متجسس ہوجاتے ہیں اور ان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ باکسنگ کے مقابلوں کی کوریج کے لیے غیرملکی صحافی بھی تھائی لینڈ آتے ہیں، جن کے لیے یہ جیلوں کو اندر سے دیکھنے اور قیدیوں سے گفت و شنید کرنے کا اچھا موقع ہوتا ہے۔ عام حالات میں ان کے لیے جیلوں کے اندر جانا اور قیدیوں سے ملنا آسان نہیں ہوتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔