کے الیکٹرک کا ادارہ لوگوں کو ذہنی مریض بنا رہا ہے؟

محمد عارف میمن  ہفتہ 14 مئ 2022
کراچی کی آدھی سے زیادہ آبادی آج بھی بدترین لوڈشیڈنگ سے متاثر ہے۔ (فوٹو: فائل)

کراچی کی آدھی سے زیادہ آبادی آج بھی بدترین لوڈشیڈنگ سے متاثر ہے۔ (فوٹو: فائل)

وفاقی وزیر خرم دستگیر نے گزشتہ دنوں کہا کہ پورے ملک سے لوڈشیڈنگ ختم کردی گئی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ یکم مئی سے پورا ملک لوڈشیڈنگ فری ہوچکا ہے۔ وفاقی وزیر کے بیان کے مطابق اگر دیکھا جائے تو کراچی والوں کو آج شدت سے یہ احساس ہورہا ہے کہ واقعی کراچی پاکستان کا حصہ نہیں، ورنہ یہ بات ایک وفاقی وزیر کبھی نہ کہتے۔

کراچی معاشی ہب ہے لیکن اس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ پانی، بجلی اور گیس بنیادی ضروریات ہیں، تاہم کراچی آج اس بنیادی ضروریات سے یکسر محروم ہوچکا ہے۔ کے الیکٹرک جیسے ادارے کو کراچی پر مسلط کرکے معاشی ہب کا پہلے ہی بیڑہ غرق کردیا گیا۔ اب واٹر بورڈ رہی سہی کسر پوری کرنے پر تلا ہوا ہے۔

کراچی کی آدھی سے زیادہ آبادی آج بھی بدترین لوڈشیڈنگ سے متاثر ہے۔ یہاں رہنے والے کراچی کی ترقی میں اپنا لہو شامل کررہے ہیں اور بدلے میں انہیں آرام تک میسر نہیں۔ غریب کی زندگی پہلے ہی عذاب ہوتی ہے، کے الیکٹرک اور واٹر بورڈ نے انہیں دہرے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔

کے الیکٹرک نے جس دن سے بجلی کی تقسیم کا ذمہ اٹھایا اس دن سے لوڈشیڈنگ بدستور جاری ہے، جب کہ اس ضمن میں کے الیکٹرک نے حکومت وقت سے کئی ایسے معاہدے کیے تھے جن کے مطابق وہ بجلی کی فراہمی کو بہتر، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ اور نئے پلانٹس کی تکمیل کا فریضہ بھی نبھائے گا۔ تاہم یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا، بلکہ اس کا الٹ کردیا۔ بجلی کی فراہمی مزید بدتر کردی، لوڈشیڈنگ میں اضافہ کردیا اور کسی بھی پلانٹ پر ایک پیسہ تک انویسٹ نہیں کیا گیا۔ نظام کی حالت یہ ہے کہ ہلکی بوندا باندی بھی برداشت نہیں کرسکتا۔ تھوڑی گرمی بڑھ جائے تو فیڈرز ٹرپ ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ یہ نظام کے الیکٹرک کا اپنا بنایا ہوا ہے جسے وہ دنیا کا سب سے کامیاب اور شاندار نظام کہتا ہے۔ کے الیکٹرک کے مطابق وہ تعلیم، صحت اور دیگر سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا ہے۔ لیکن جب اس سلسلے میں کراچی کے مختلف لوگوں سے معلوم کیا گیا تو کہیں بھی کے الیکٹرک کے تعاون سے ایک اسکول بھی دستیاب نہ ہوسکا۔ صحت اور دیگر سرگرمیوں کا بھی یہی حال ہے۔

کے الیکٹرک کو اگر وطن دشمن کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کیوں کہ کے الیکٹرک اپنے نظام کو بہتر کرنے کے بجائے کراچی کے لوگوں کو ذہنی مریض بنانے پر تلا ہوا ہے۔ معیشت کا پہلے ہی جنازہ نکال دیا ہے، اب مزدور طبقے کو اسپتالوں کے چکر لگوانے پر بھی مجبور کردیا ہے۔ کراچی کی زیادہ تر آبادی ایک، دو کمرے کے مکانوں میں رہتی ہے۔ جہاں بنیادی ضروریات پہلے ہی ناپید ہیں۔ ایسے میں لوڈشیڈنگ رہی سہی کسر بھی نکال دیتی ہے۔ چھوٹے اور بند گھروں میں گرمیوں کے دوران حبس کا عالم ہوتا ہے، جہاں کوئی انسان دو منٹ بھی بیٹھنے کے قابل نہیں رہتا۔

کل جب میں سر درد کی شکایت لے کر ڈاکٹر کے پاس گیا تو وہاں پر کافی رش دیکھنے میں آیا۔ ڈاکٹر صاحب سے اچھی خاصی سلام دعا ہے تو اس کی وجہ بھی پوچھ لی کہ اتنا رش کیوں بڑھ رہا ہے۔ جس پر ڈاکٹر صاحب نے جواب دیا کہ اللہ بھلا کرے کے الیکٹرک کا۔ اور مسکرانے لگے۔ میں نے تجسس سے ان کی طرف دیکھا تو وہ مسکرا کر کہنے لگے کہ یہ سب ڈپریشن کے شکار ہوچکے ہیں۔ یہاں تک کہ کراچی کی آدھی سے زیادہ آبادی اس وقت ڈپریشن میں مبتلا ہے۔ اور اس کے پیچھے کے الیکٹرک کا ہاتھ ہے۔ لوڈشیڈنگ کے باعث کوئی بھی شخص گرمی میں سو نہیں پاتا۔ نیند پوری نہیں ہوگی تو دماغ کام نہیں کرے گا، دل بھی متلی رہے گا۔ اس حالت میں بندہ دو دن تو گزارہ کرسکتا ہے مگر مستقل اگر یہ حالت ہو تو پھر یہ ڈپریشن سے بڑھ کر انسان کو خودکشی کی طرف لے جاتی ہے۔ لوڈشیڈنگ کے وجہ سے لوگوں کی نیند پوری نہیں ہورہی، جس کی وجہ سے ان میں چڑچڑا پن، جھنجلاہٹ اور غصے کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں، جو بعد میں مریض کے اندر کئی بیماریاں پیدا کرتی ہیں۔ میرے کلینک میں مریضوں کا رش اس لیے بھی زیادہ ہے کہ یہاں تقریباً لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ انہیں بیماری کیا ہے؟ بس بخار، سردرد، دل کا متلی ہونا، ٹانگوں میں درد، جسم میں درد کا کہتے ہیں۔ لیکن یہ ہمیں معلوم ہے کہ انہیں کیا بیماری ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ میرا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے تو وہ مسکرائے اور کہا کہ آپ بھی ان میں شامل ہیں۔ میں اپنی دوا لے کر گھر آگیا، جہاں توقع کے مطابق بجلی موجود نہیں تھی۔

یہ حال تقریباً لوگوں کا ہوچکا ہے۔ میری ملاقات جتنے بھی لوگوں سے ہوئی وہ سب اسی ڈپریشن کا شکار نظر آئے۔ کوئی مسجد میں سونے کی بات کررہا ہے تو کوئی دفتر میں اپنی کرسی پر بیٹھے بیٹھے اونگھ رہا ہے۔ کوئی پرسکون جگہ کی تلاش میں سرگرداں نظر آرہا ہے تاکہ کچھ پل کےلیے آرام کرسکے۔ کے الیکٹرک نے کراچی کو ڈپریشن کا مریض بنادیا ہے، اور یہ ڈپریشن اب انتہائی خطرناک صورت حال اختیار کرنے والا ہے۔ ایسے میں وفاقی حکومت کا کراچی کا علاج کرنے کے بجائے یہ کہنا کہ پورا ملک لوڈشیڈنگ فری ہوچکا ہے تو یہ کراچی واسیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے۔ یا پھر ہم اس بات کو تسلیم ہی کرلیں کہ کراچی درحقیقت پاکستان کا حصہ ہی نہیں، اس لیے یہاں کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔

لوڈشیڈنگ کے باعث پانی کی فراہمی کا سلسلہ بھی شدید متاثر ہوا ہے جس سے لوگوں میں مزید غصہ پایا جاتا ہے۔ بلدیہ ٹاؤن، اورنگی ٹاؤن، کیماڑی ٹاؤن، گڈاپ، ملیر، بن قاسم، گلشن اقبال، معمار اور کئی ایسے علاقے ہیں جہاں بجلی ہے اور نہ ہی پانی۔ یہاں کے لوگ بدترین حالات میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے میں ٹینکر مافیا کی بھی چاندی ہورہی ہے، فی ٹینکر تین ہزار سے پانچ ہزار تک کا بک رہا ہے۔ واٹر بورڈ کی مین لائنوں میں غیر قانونی کنکشن کرکے سیکڑوں چھوٹے ہائیڈرنٹس شہر میں بنا کسی خوف کے چل رہے ہیں، جہاں سے علاقہ پولیس سمیت واٹربورڈ کا عملہ بھی اپنا اپنا حصہ وصول کررہا ہے۔

سندھ حکومت پہلے ہی پانی کی قلت کا رونا رو رہی ہے، لیکن وہ پانی کے متبادل ذرائع تلاش کرنے کے بجائے سارا انحصار جھیلوں اور دریائے سندھ پر فوکس کیے ہوئے ہے۔ پانی بحران کے معاملے پر سندھ کو کئی سال سے وارننگ مل رہی تھی، مگر ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اب معاملات ان کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں تو سندھ حکومت کو یاد آرہا ہے کہ پانی کا بحران بڑھ گیا ہے اور اب وفاق مدد کرے۔ ہمیں ہمیشہ دوسروں سے ہی مدد چاہیے ہوتی ہے۔ کچرا اٹھانا ہو تو کراچی کو مدد چاہیے، پبلک ٹرانسپورٹس کا مسئلہ ہو تو ہمیں بیرونی مدد چاہیے، سرکلر ریلوے بحال کرنی ہو تو ہمیں مدد درکار ہے، سیوریج کا نظام ابتر صورت حال اختیار کرگیا ہے یہاں بھی ہمیں مدد چاہیے۔ لیکن ہم کچھ نہیں کریں گے، ہم صرف کراچی سے ٹیکس وصول کریں گے، کراچی پر ٹیکس لگائیں گے، کراچی پر عذاب بنے رہیں گے، لیکن کچھ نہیں کریں گے۔ کیوں کہ بغیر مدد کے ہم بالکل ہی بیکار ہیں۔

کراچی کے زخم آہستہ آہستہ اب ناسور بنتے جارہے ہیں۔ ان کا بروقت علاج نہ کیا گیا تو یہ زخم کراچی کی جان بھی لے سکتے ہیں یا پھر کراچی کو ہمیشہ کےلیے معذوری کی طرف بھی دھکیل سکتے ہیں۔ ایسے میں صوبائی اور لوکل گورنمنٹ کے ساتھ ساتھ وفاق اور سپریم کورٹ کو بھی فوری توجہ دینا ہوگی اور اس کا علاج بنا وقت ضائع کیے شروع کرنا ہوگا اور جنہوں نے کراچی کو زخم دیے ان کو بھی سزا دینی ہوگی۔ اگر خدانخواستہ کراچی بستر مرگ پر چلا گیا تو یہ پاکستان کی بربادی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔ کراچی آج بھی بیمار سہی مگر معاشی ہب ہے اور کوئی بھی حکومت معیشت کے بغیر کبھی ترقی نہیں کرسکتی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

محمد عارف میمن

محمد عارف میمن

بلاگر سولہ سال سے صحافت سے وابستہ ہیں؛ اور ایک مقامی اخبار میں گزشتہ آٹھ سال سے اسپورٹس ڈیسک پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ ان کا ٹوئیٹر ہینڈل @marifmemon ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔