سارے رنگ

رضوان طاہر مبین  اتوار 15 مئ 2022
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

کیا ’ لکھنا‘ کوئی مفت کا کام ہے۔۔۔؟
خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

گذشتہ دنوں شہر کے ایک ناشر نے ہم سے رابطہ کیا اور کہا کہ ہم آپ کے کیے گئے مختلف شخصیات کے انٹرویو کو کتابی صورت میں شایع کرنا چاہتے ہیں۔ ہم نے کہا ضرور، آپ دیکھ لیجیے اور پھر بتائیے کہ کیا کیجیے گا۔

انھوں نے ہمارے انٹرویو ملاحظہ کیے اور پھر فرمایا کہ جی بالکل، ہم یہ شایع کریں گے۔ چلیے جناب، بہت خوشی کی بات ہے، ہم نے دل کی بات کا اظہار زبان سے بھی کیا، مگر بات نہیں بنی یا شاید ہمارے مخاطب ’’سمجھنا‘‘ ہی نہیں چاہ رہے تھے۔ فرمایا کہ آپ کو جتنے نسخے چاہیے ہوں گے، ہم نصف قیمت پر عطا کریں گے۔

ہم نے کہا وہ تو ٹھیک ہے، لیکن آپ ہماری کتاب شایع کریں گے، اس کی آپ ہمیں کیا ادائی کریں گے۔۔۔؟ تو انھوں نے روایتی عذر کیے اور کہا یہاں تو کوئی بھی معاوضہ نہیں دیتا، پھر بھی ہم نے اصرار کیا، تو ان کی بات بدلے میں صرف 10 نسخوں کی ’’مفت‘‘ فراہمی تک ہی آسکی، تو ہم نے شکریے کے ساتھ ان کی یہ پیش کش واپس کر دی اور کہا کہ فی الحال ہمارا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں تحریر کی اور لکھنے والے کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے، آپ کتاب ہی کی مثال لے لیجیے، کتابت، طباعت واشاعت سے لے کر اس کی تقسیم کاری تک۔ ہر ایک مرحلے پر مکمل محنتانہ دیا جائے گا، لیکن یہ سب مراحل جس کی تحریر پر استوار ہیں، اسے ایک دھیلا دینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی جائے گی۔

الٹا اِس پر یہ احسان ہوگا کہ ہم نے اس کی کتاب شایع کر دی ہے، کیوں کہ ہمارے بدقسمت ملک میں لکھنے والے اپنی محنت استحصال کرنے کو مختلف بدنام زمانہ ناشرین کے پاس چھوڑ آتے ہیں، اور وہ کتاب چھاپ کر اس کے ہزاروں نسخے فروخت کر دینے کے باوجود یہی عذر کرتے رہتے ہیں کہ ابھی تک پہلا ایڈیشن ہی ختم نہیں ہوا اور انھیں تو یہ کتاب شایع کر کے بہت خسارہ ہوا یا کوئی فائدہ ہی نہیں ہوا، تاکہ کہیں مصنف اپنے معاوضے کا تقاضا نہ کر بیٹھے۔ بہت سے لکھنے والے اپنی جیب سے ہزاروں روپے خرچ کر کے بھی اپنی کتاب چھپواتے ہیں اور پھر انھیں مفت بٹواتے بھی پھرتے ہیں۔

بھئی، اگر بھاری رقم دے کر یا 100، 50 نسخے خریدنے کی شرط پر ہی کتاب شایع کرانی پڑ رہی ہے، تو پھر اس کو کسی نام نہاد ’ناشر‘ کا محتاج کیوں بنایا جائے۔ اچھا ہے کہ خود ہی طباعت واشاعت سے لے کر آگے تک کے مراحل بھی طے کر لیے جائیں، اس سے کم سے کم لکھنے والے کی محنت ظالم ناشرین کی جیب میں جانے سے تو محفوظ رہے گی۔

اور اگر کوئی کتاب کسی ’ناشر‘ ہی سے شایع کرانی ہے، تو پھر اس کے لیے مصنف اور ناشر کے درمیان ایک باقاعدہ معاہدہ ہونا ضروری ہے، جس میں کتاب کے حقوق اشاعت سے لے کر ’حقِ مصنف‘ تک کے سارے معاملات طے کیے جائیں۔ یہ بات درست ہے کہ کاغذ سے لے کر طباعت واشاعت سرکاری کرم فرمائی کے سبب بالکل بھی ارزاں نہیں رہے، لیکن اس کے باوجود بھی یہ کیسا اصول ہے کہ جس کی تحریر کی وجہ سے کتاب، دراصل کتاب بنی ہے، اسی کا حق تلف کر دیا جائے۔۔۔!

لکھنے والوں کی حق تلفی کا سلسلہ صرف کتاب تک محدود نہیں ہے۔ بدقسمتی سے اخبارات کے حوالے سے بھی لکھنے والے یا اخباری متن کے حوالے سے محنت مشقت کرنے والوں کو وہ مقام ومرتبہ نہیں دیا جاتا، جو اخبارات کے لیے اشتہار لانے والوں کو دیا جاتا ہے اور باقاعدہ جتایا بھی جاتا ہے کہ جناب والا یہ تو اخبار کے لیے آمدنی لاتے ہیں، لیکن ہمارے ایک سینئر نے کیا خوب صورت بات کی تھی کہ اگر اشتہار اتنا ہی اہم ہے تو پھر کسی کورے کاغذ پر ہی اشتہار لے آئیے۔۔۔! ہم لکھنے والوں ہی کے الفاظ موجود ہوتے ہیں، تو کسی بھی ویب سائٹ، اخبار یا رسالے کو اشتہار ملتے ہیں ورنہ آپ خود سوچیے کہ باقی رہ کیا جاتا ہے۔

اور ستم ظریفی دیکھیے کہ ہمی لکھنے والوں کو معاوضہ دیتے ہوئے ایسا تاثر دیا جاتا ہے کہ گویا یہ تو کوئی کام ہی نہیں۔۔۔ یہی نہیں بہت سے احباب تو کتاب کی ادارت، اور پروف خوانی کے حوالے سے بھی اچھی خاصی سنگ دلی کا مظاہرہ کر جاتے ہیں۔ یہ مرحلہ بھی لکھنے سے کسی طرح بھی کم محنت طلب نہیں ہے، اور بعضے وقت تو لکھنے سے زیادہ مشقت مانگتا ہے۔

کیوں کہ جملوں کی بُنت، ساخت اور املا وانشا کی دسیوں قسم کی اغلاط ایسی ہوتی ہیں، جو کسی بھی اچھی بھلی تحریر کا ستیا ناس کر دیتی ہیں، جب کہ کتاب کی طباعت واشاعت کرنے والے بہت آسانی سے کتاب کی ادارت اور پروف خوانی کرنے والوں سے بھی ’معذرت‘ کر لیتے ہیں کہ ’دیکھیے، تھوڑا سا سمجھنے کی کوشش کیجیے۔۔۔ ہمارا بجٹ محدود تھا، اخراجات بڑھ گئے۔۔۔ یا لاگت بہت زیادہ ہوگئی۔

وغیرہ وغیرہ۔ بھئی، یہ سارے عذر آپ نے چھاپہ خانے میں کیوں نہ دیے کہ بھائی ذرا کتاب مفت میں چھاپ دو، کاغذ کے بیوپاری سے کہتے کہ اپنے بھاؤ ذرا کام کر دو، ہمارے جیب پر گراں گزر رہا ہے، یا کتاب کی ڈیزائننگ کرنے والوں کو کہا ہو کہ بھیا، اس کام کے پیسے نہ لیجیو، اس بار ہمارا ہاتھ نہیں پڑ رہا۔ یا کچھ نہیں تو کتاب کے تقسیم کنندگان ہی سے کہہ دیجیے کہ ایسے ہی گلی گلی اور شہر شہر لے جانا ہماری نئی نویلی کتاب، کیوں کہ ہمارے پاس پیسے کم پڑ رہے ہیں! نہیں ناں۔

آپ نے سوچا بھی نہیں ہوگا کہ بھلا بغیر پیسوں میں کون یہ سارے کام کرے گا۔۔۔! لیکن آپ نے جھٹ سے لکھنے والے کا ضرور سوچ لیا، کہ اِسے بھلا کیا ضرورت۔۔۔! یعنی کوئی بھی تحریر یا کتاب لکھنے اور اس کی نوک پلک سنوارنے میں جو مہینے اور ہفتے صرف ہوئے وہ کسی گنتی میں ہی نہیں! اس کا مطلب تو یہی ہے کہ اِسے کوئی مذاق یا کھیل تماشا سمجھ رکھا ہے۔۔۔ انھیں لگتا ہے کہ کچھ لگتا ہی نہیں ہے۔

بس ایسے ہی بیٹھیے بٹھائے، کمپیوٹر پر انگلیاں چلا لیجیے، کاغذ قلم لے کر صفحات کے صفحات سیاہ کر دیجیے، کون سا مشکل ہے۔۔۔۔!! نہیں جناب، لکھنا لکھانا کوئی بچوں کا کھیل نہیں ہے۔۔۔ اس میں دماغی عرق ریزی کے ساتھ ساتھ ایک معقول وقت بھی صرف ہوتا ہے۔

لکھنے والے کی سوچ بچار اور خون جگر کو تو آپ معاوضے کے کسی ترازو میں طول ہی نہیں سکتے۔۔۔ اب چاہے، وہ کوئی کہانی یا ادبی شہ پارہ ہو، یا کوئی مضمون، کالم یا بلاگ وغیرہ۔ ہر تحریر اپنا الگ مرتبہ رکھتی ہے اور ہمارا فرض ہے کہ اس تحریر کے وقار کو پائمال نہ کریں اور لکھنے والے کو کتاب کے کسی بھی مرحلے کو پُر کرنے والے سے کہیں زیادہ عزت اور اہمیت دیں اور جائز معاوضہ دے کر اس کا اظہار کریں۔

۔۔۔

ادبی سرقہ اور تَوارُد
 امجد محمود چشتی، میاں چنوں

ادبی اصناف کی چوری کو ادبی سرقہ کہتے ہیں۔ اس کی دو قسمیں ہیں۔ سرقۂ معروف اور سرقۂ مجہول

کسی معروف شاعر کے کلام کو خود سے منسوب کرنا سرقۂ معروف ہے جو ادبی سرقہ کی روایتی اور عام قسم ہے۔ اس سے بڑھ کر ادب کی بے ادبی کیا ہوگی کہ کسی کی ادبی تخلیق کو چرا کر اپنی ادبی اولاد ثابت کیا جائے۔ ادبی سرقہ کی روایتی قسم میں دوسروں کے اشعار و نثر اپنے نام سے متعارف کروانا ہے۔

کسی مشاعرہ میں احمد ندیم قاسمی کے روبرو ایک نوجوان نے انھیں کی غزل پڑھ دی۔ پھر ان کے پاس آکر قدم چھو کر کہا ’’ہم آپ کے بچے ہیں اور بچوں کا بڑوں پر اتنا تو حق ہوتا ہے۔ اسی طرح بے شمار قابضین دوسروں کی زمینوں میں ہل چلا رہے ہیں۔ کچھ مزارعین ہیں تو کچھ ٹھیکے دار! مگر سبھی ادبی راہ زنی میں ملوث ہیں۔

اپنی یا کسی اجنبی کی نگارشات مشہور شعرا سے منسوب کرنا سرقہ کی جدید قسم ہے جسے سرقۂ مجہول کہا جا سکتا ہے۔ بے شمار اوٹ پٹانگ اشعار اقبال و فراز اور سیکڑوں اقتباس سعدی و جبران کے کھاتوں میں ملتے ہیں۔ ایک کتاب سے چوری سرقہ اور بہت سی کتابوں سے ڈاکے مارنا ریسرچ کہلاتا ہے۔

حال ہی میں خبر سنی کہ وطنِ عزیز کے 900 اسکالرز ڈاکٹریٹ کی ڈگری لیتے لیتے سرقے میں پکڑے جا چکے ہیں۔ اسلام میں چوری کی سزا ہاتھ قلم کرنا ہے تو پھر ادبی چوری (سرقہ) کی سزا ہاتھ سے قلم کا قلع قمع تو بنتی ہے۔ ویسے بھی تحقیقی مقالوں کی حیثیت ایک قبرستان سے دوسرے قبرستان تک ہڈیوں کی منتقلی کے سوا کچھ نہیں ہوا کرتی۔

تَوَارُد:  بظاہر ’’توارد‘‘ سرقے سے ملتا جلتا عمل ہے، مگر فرق رکھنا ضروری ہے۔ سرقہ کسی کی ادبی تخلیق یا تخیل کو چُرا کر خود سے منسوب کرنا ہے، جب کہ توارد اتفاقاً کسی کے کلام یا خیال سے مماثلت کو کہتے ہیں۔

اکثر شعرا اور ادبا کے اشعار یا تصورات ملتے جلتے ہیں، مگر ان میں سرقہ کا عنصر نہیں ہوتا۔ سرقہ غیرادبی اور غیراخلاقی عمل ہے، جب کہ توارد معیوب نہیں سمجھا جاتا۔ ادب کی تاریخ کے تمام بڑے شعرا پر سرقوں کا الزام ہے۔ حتیٰ کہ علامہ اقبال کے ناقدین کے مطابق اقبال کے کلام میں انگریزی، عربی اور فارسی سے کیا گیا سرقہ یا چربہ شامل ہے۔ اصل میں وہ سرقہ ہے نہ توارد، بلکہ مختلف زبانوں کے اشعار اور نظموں کا اردو ترجمہ ہے۔ اقبال نے انگریزی اور فارسی کے بہت کلاموں کے منظوم تراجم لکھے اور ساتھ ان کی تفصیلات بھی درج کیں۔ مثلاً خوش حال خان خٹک کے شعروں کا ترجمہ یوں کیا ہے،

۱۔ د خوشحال سلام پہ ھغہ شا زلمو دے کمندونہ چی دستوروپہ اسمان رِد ی

جب کہ علامہ اقبال لکھتے ہیں،

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

….

۲۔ حہ ھغہ شھباز شہ چی خائی پہ سردروئی

نہ لکہ دکلی کارغہ کر حہغم دنس کا

(خوش حال خان)

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں

( علامہ اقبال)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔