موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات

ایڈیٹوریل  جمعـء 13 مئ 2022

اس وقت ملک کے بیشتر شہر اور دیہات ہیٹ ویو کی لپیٹ میں ہیں ۔سندھ کے کچھ علاقوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری تک پہنچ چکا ہے ، جب کہ سبی ، جیکب آباد ، دادو ، لاڑکانہ ، سکھر اور کراچی میں آج سے دو روزہ ہیٹ ویو کا امکان بھی ظاہر کیا جارہا ہے، پنجاب کے تمام شہر اور دیہات بھی گرمی کی لپیٹ میں ہیں ۔

ہمارا المیہ ہے کہ پاکستان میں اکثر افراد موسمی تبدیلی پر یقین نہیں رکھتے۔ ماحولیاتی تباہی کے بارے میں خدشات کے ساتھ انفرادی واقعات اور موسمیاتی تبدیلیوں کے درمیان تعلق کو اجتماعی شعور کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔

دراصل گلوبل وارمنگ کے باعث سطح سمندر گرم ہونے سے لو پریشر بنتا ہے جس سے سمندری ہوائیں شہر کی طرف آنا بند ہوجاتی ہیں اور لو پریشر کی وجہ سے بلوچستان اور سندھ کے میدانی علاقوں کی ہوا کراچی کو چھوتے ہوئے سمندر کی جانب چلنے لگتی ہے جس کے باعث ہیٹ ویو مزید سنگین ہوجاتی ہے۔

اس دوران بجلی کی کھپت میں اضافے کے باعث لوڈ شیڈنگ عام بات ہے اور جس کے بعد بلند و بالا عمارتوں میں پانی نہیں آتا، اس لیے کراچی میں ہیٹ ویو مزید سنگین ہوجاتی ہے۔یادش بخیر ! لاہور سے گزرنے والے دریائے راوی کا پانی گرمیوں میں انتہائی ٹھنڈا ہوتا ہے کیونکہ اس میں گلیشیئرزکے پگھلنے سے یہ پانی شامل ہوتا تھا ۔

گرمی اور دھوپ کے ان ایام میں رواوی پانی سے بھرا ہوتا اور اس کی وجہ لاہور شہر کا موسم خاصا بہتر ہوجاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔روای خشک ہونے، آبادی میں ہوشربا اضافے، دریا کے گرد جنگل کا خاتمہ ہونے اور شہر کی شاہراہوں پر قائم درختوں کی کٹائی کی وجہ سے لاہور شہر بھی ان دنوں شدید لو اور دھوپ کی لپیٹ میں ہے۔

ہیٹ ویو کو پاکستان کے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھا جارہاہے۔ جیکب آباد کو ’’ایشیا کا گرم ترین‘‘ شہر اور ’دنیا کے گرم ترین شہروں میں سے ایک‘ کا درجہ دیا جارہا ہے، جب کہ کراچی میں 2015 میں آنے والی ہیٹ ویو نے ماضی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے تھے۔

2015 کے موسم گرما کے دوران کراچی شہر میں درجہ حرارت 49 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔ اس ہیٹ ویو کے دوران سرکاری طور پر 1200 افراد ہلاک ہوگئے تھے جب کہ فلاحی اداروں کے مطابق بہت زیادہ اموات ہوئی تھیں۔ پاکستان کے ساحلی شہر تو شہری حکومتوں کی ناکامی اور موسمی تغیر کے بدقسمت امتزاج کا شکار ہیں لیکن لگتا ہے کہ اسلام آباد کے قریب رہنے والوں کو کوئی دوسری ہی صورتحال درپیش ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ گلوبل وارمنگ کئی گنا خطرناک ہے اور یہ پوری انسانیت کا اوّلین مسئلہ ہے۔ ہم اس گھمبیر مسئلے سے آنکھیں نہیں چر ا سکتے۔ پینے کا پانی کم ہو رہا ہے۔ پانی آلودہ ہو رہا ہے، فضا آلودہ ہو رہی ہے، کاروں کی تعداد گزشتہ بیس برسوں میں تین گنا بڑھ چکی ہے۔

یئرکنڈیشن ریفریجریٹر اور دیگر برقی آلات ہمارے اطراف کی فضا کو متاثر کر رہے ہیں، کھاد ، فصلوں پر چھڑکنے والی ادویات، فصلیں بوتے وقت زرعی زمین پر کیمیکل کا چھڑکاؤ یہ سب نہایت مضر ہیں جو زمین کو شدید متاثر اور آلودہ کر رہے ہیں، پھر کارخانوں، فیکٹریوں کا استعمال شدہ آلودہ پانی جس کو دریاؤں، سمندر اور ندی نالوں میں بہا دیا جاتا ہے۔

وہ آبی حیاتیات کو بُری طرح متاثر کر رہے ہیں۔ آبی حیات اور کئی قسم کی مچھلیاں رفتہ رفتہ کم ہو رہی ہیں۔ فضا میں کارخانوں، ٹرانسپورٹ، فضا میں اُڑنے والے ہزاروں طیاروں کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہے، بہت سے نایاب پرندے معدوم ہوچکے ہیں۔ سانس لینے میں دُشواری ہوتی ہے۔ پھیپھڑوں کی بیماریاں اور کینسر پھیل رہا ہے۔ آنکھوں کی بیماریاں عام ہو رہی ہیں۔

تازہ ترین میڈیا اطلاعات کے مطابق حیدر آباد کے قریب دریائے سندھ میں خاک اڑ رہی ہے ، ملک بھر کے دریاؤں میں پانی کی کمی اور خشک سالی کے باعث غذائی قلت اور زمینی حالات کی تبدیلی کا بھی خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ پاکستان کے تناظر میں یہ ایک اہم مسئلہ ہے کیونکہ یہاں ملکی غذائی ضروریات کو پورا کرنے اور برآمدات کا انحصار زرعی شعبے پر ہی ہے، جس وقت تک حکومت کو ہوش آئے گا۔

اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوگی۔ان موسمی آفات کی تعداد میں اب اضافہ ہوتا جائے گا اور ساتھ ہی جنوبی ایشیا میں امیروں اور غریبوں کے درمیان دولت کا فرق بھی بڑھتا جائے گا۔ یہ ایک مسئلہ ہے کیونکہ ہنگامی خدمات، قدرتی آفات کے انتظام اور ان سے بچاؤ اور اس حوالے سے عوامی آگہی ایسی چیزیں ہیں جن میں سرمایہ کاری کرنے سے کسی کو فائدہ نہیں ہوتا۔

وفاقی وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی شیری رحمٰن نے چند روز بیشتر قومی اور صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ حکام اور متعلقہ مقامی حکام پر زور دیا ہے کہ وہ مون سون کی معمول سے زیادہ بارشوں کے ممکنہ تباہ کن اثرات اور موسمی تغیرات سے نمٹنے کے لیے تمام تر پیشگی احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں، کیونکہ خاص طور پر موسم گرما کے مون سون کے اوقات میں سیلاب اور تیز بارشوں سے لوگوں کی زندگیوں اور معاش کے ساتھ ساتھ عوامی انفرا اسٹرکچر کو بھی شدید خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ جنوب مشرقی سندھ میں نسبتاً کم بارشوں کے نتیجے میں تھرپارکر اور عمر کوٹ کے اضلاع میں خشک سالی جیسی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔

گلگت بلتستان، شمال مغربی خیبر پختونخوا میں برف پگھلنے اور اس کے نتیجے میں علاقے میں سیلاب کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔پاکستان کے نقشے پر درمیان سے ایک لکیر کی صورت میں چلنے والے دریائے سندھ کے دونوں کناروں پر ایک سو کلومیٹر کی پٹی میں ملک کے اکثر بڑے شہر، زراعت اور صنعتیں واقع ہیں۔ یہاں دریائی سیلاب ایک بڑا چیلنج ہے۔

جنوبی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں سالانہ بنیاد پر کم بارشوں کے باعث قحط سالی تواتر سے ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ ملک میں سیلاب کے باعث کھڑی فصلیں تباہ ہوجاتی ہیں، جب کہ نچلے آدھے پاکستان میں زیادہ تر حصہ بارانی ہے یا وہاں بارشوں کے پانی پر زراعت کی جاتی ہے۔ وہاں مسلسل خشک سالی کی وجہ سے خوراک کی کمی کا سامنا ہے اور ان علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ نقل مکانی کرہے ہیں، جس سے پاکستان میں موسمیاتی مہاجرین کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔

ان بارانی علاقوں میں خشک سالی ہے اور دوسری طرف گزشتہ چند سالوں سے ٹڈی دل کے حملوں کے باعث ان علاقوں میں صورت حال ابتر ہوتی جارہی ہے۔جنوبی پنجاب کے روہی اور چولستان صحرا، سندھ کے صحرائے تھر، اچھڑو تھر یا وائٹ ڈیزرٹ، نارا صحرا، کاچھو، کوہستان اور لاڑ، بلوچستان کے مکران کوسٹ سمیت آواران، بلوچستان کے قلات، چاغی، نؤکنڈی اور ژوب میں گزشتہ کئی سالوں سے جاری قحط سالی کے باعث مقامی لوگوں کی اپنے مویشیوں کے ساتھ نقل مکانی کرنا عام بات سمجھی جاتی ہے۔

سندھ کا صحرائے تھر قحط سالی سے متاثر خطوں میں سرفہرست ہے ۔سمندر میں اضافہ یا سی لیول رائز پاکستان کاایک بڑا خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور پر سندھ میں سمندر کے قریب انسانی آبادی کو سطح سمندر میں اضافے سے شدید خطرہ ہے۔سندھ کے دارالحکومت اور پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور اقتصادی مرکز کراچی کے ساحل کے ساتھ سمندری سطح میں اضافے کے بعد بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا امکان ہے۔

ماضی میں کئی سالوں بعد کوئی ٹراپیکل سائیکلون بنتا تھا، مگر اب کلائمٹ چینچ کی وجہ سے ہر سال تین سے چار سائیکلون بننا عام بات ہوگئی ہے۔ پاکستان سے تو سائیکلون بڑی تعداد میں نہیں ٹکراتے مگر پاکستان کے نزدیک سے گزرنے کے باعث کراچی، حیدرآباد اور دیگر ساحلی شہروں میں تیز ہوائیں چلنے سے کافی نقصان کا خدشہ ہوتا ہے۔

موسمی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ ہنگامی حالات کی منصوبہ بندی اس خیال کے ساتھ کی جائے کہ شدید موسمی حالات کا سامنا اب کبھی کبھار نہیں بلکہ اکثر کرنا پڑے گا۔ وہ سیلاب جو کبھی 10 سال میں ایک مرتبہ آتا تھا وہ اب ہر سال آئے گا۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے گھروں میں ان جگہوں پر پودے لگائیں جہاں سورج کی روشنی پڑتی ہو، گھروں اور دفاتر میں نصب اے سی فلٹرز کو صاف رکھیں، گیزر کو کور سے ڈھانپ کر رکھیں، کپڑے دھونے کے لیے ٹھنڈے پانی کا استعمال کریں، گاڑیوں کا کم سے کم استعمال کریں اور یقینی بنائیں کہ انجن اچھی حالت میں ہو، واک، بائی سیکل یاپبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوںکوترجیح دیں۔

اپنے موبائل فونز اور دیگر اپلائنسز کے چارجرز بلاضرورت آن نہ رکھیں، کمپیوٹر کی جگہ لیپ ٹاپ کا استعمال کریں، پلاسٹک کا استعمال کم سے کم کریں اور خود بھی ماحولیاتی آلودگی اور اس کے اثرات پوری طرح سے سمجھیں، معاشرے میں بھی اس کے بارے میں آگاہی پھیلائیں اور آخر میں ایک منظم طریقے سے اپنی حکومتوں پر زور دیں کہ وہ جلد از جلد حقیقی معنوں میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کی ٹھوس منصوبہ بندی کریں اور عملی اقدامات کریں۔

ہم بطور مسلمان اور پاکستانی اپنی مثبت سرگرمیوں سے موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں رونما ہونے والے منفی اثرات پر کسی حد تک قابو پاسکتے ہیں اور اس کے لیے ہمیں ہنگامی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔ ہمیں سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ماحولیاتی تبدیلی ہر ایک کا مسئلہ ہے اور اسے صرف کوئی ادارہ، حکومت یا سائنسدان نہیں بلکہ ہم سب مل کر حل کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔