ایسے بھارتی ہندو بھی ہیں؟

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 13 مئ 2022
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

بھاری ریاست اُتر اکھنڈ ہمالیہ کے دامن میں واقع ہے۔ نینی تال ایسا خوبصورت، تاریخی اور ٹھندا شہر اِسی ریاست کا حصہ ہے۔ ہندوؤں کے کئی مذہبی اور مقدس مقامات بھی اُترا کھنڈ میں پائے جاتے ہیں۔ اس کا رقبہ تقریباً 50ہزار مربع کلومیٹر ہے۔

آبادی ایک کروڑ سے ذرا زیادہ۔ مسلمان 13فیصد ہیں۔ مئی 2022کے پہلے ہفتے،جب کہ پاکستان اور بھارت میں عیدالفطر منائی جارہی تھی، اِس بھارتی ریاست سے ایک دلکشا اور خوش کن خبر آئی ہے۔ اِس خبر کو بھارت کے تقریباً سبھی میڈیا نے شایع اور نشر کیا ہے ۔’’اُودھم سنگھ نگر ‘‘ کا ضلع ریاست اُترا کھنڈ کے 13اضلاع میں سے وہ ضلع ہے جہاں مسلمان زیادہ آباد ہیں ۔ اُودھم سنگھ نگر میں ’’کاشی پور‘‘نامی وہ چھوٹا سا قصبہ ہے جہاں اِس خبر نے جنم لیا۔

عید الفطر کے آس پاس ’’کاشی پور‘‘ کی دو شادی شدہ ہندو برہمن بہنوں( سروج اور انیتا) نے اپنے ہندو والد کی خواہش کے مطابق دو ایکڑ سے زائد  زمین ’’کاشی پور‘‘ کے مسلمانوں کو عطیہ کر دی تاکہ وہ اس زمین پر نئی مسجد بھی بنا سکیں اور پہلے سے قائم چھوٹی سی عید گاہ کو وسعت دے سکیں۔ اس زمین کی قیمت تقریباً دو کروڑ بھارتی روپے بتائی جا رہی ہے۔ کوئی 20برس قبل سروج اور انیتا کے ہندو برہمن والد، لالہ برج نندن رستوگی، کا انتقال ہو گیا تھا۔

اس دوران دونوں بہنوں کی شادی ہو گئی ۔ ایک دلّی میں بس گئی اور دوسری میرٹھ میں۔ چند ماہ قبل دونوں ہندو ہمشیرگان کو خاندان میں ایک شادی کی تقریب میں یہ خبر ملی کہ اُن کے والد زندگی میں اپنی دو ایکڑ زمین مقامی مسلمانوں کو عطیہ کرنا چاہتے تھے۔ خاندان کے چند بڑوں کو تو یہ بات معلوم تھی لیکن اس نیک خواہش کو آنجہانی لالہ برج نندن رستوگی اپنے بچوں کے سامنے ظاہر نہ کر سکے ۔

دونوں ہندو بہنیں (سروج اور انیتا) شادی کی تقریب سے فارغ ہو کر اپنے65سالہ اکلوتے بھائی، راکیش رستوگی، کے پاس پہنچیں اور اپنے آنجہانی والد کی اس خواہش بارے استفسار کیا۔ راکیش رستوگی نے بھی اس امر کی تصدیق کر دی ؛ چنانچہ کوئی وقت ضایع کیے بغیر دونوں بہنوں نے اپنے بھائی کے تعاون سے دو ایکڑ زمین مقامی مسلمانوں کی مسجد اور عید گاہ کے نام کر دی۔اُتر کھنڈ ہی نہیں، سارے بھارت کے کروڑوں مسلمانوں نے ہندو برہمن خاندان کی اس وسیع القلبی اور انسان دوستی کی تعریف و تحسین کی ہے ۔

میڈیا نے دونوں ہندو بہنوں اور ہندو بھائی سے رابطہ کیا تو انھوں نے بیک زبان کہا:’’ زندگی میں بھی ہمارے والد صاحب اُترا کھنڈ کے سبھی مسلمانوں سے دوستانہ تعلقات رکھتے تھے ۔ اُن کی مالی امداد بھی کرتے رہتے تھے۔ ہم نے اُن کی خواہش کے مطابق یہ زمین مسجد اور عید گاہ کے لیے وقف کردی ہے تاکہ ہمارے والد صاحب کی رُوح کو تسکین اور آرام ملے۔‘‘

یہ دلکشا واقعہ اور ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ایسے ایام میں سامنے آیا ہے جب گزشتہ چند ہفتوں کے دوران کچھ بھارتی ریاستوں میں مسلمان کش فسادات بھی سامنے آئے ہیں۔ بھارتی ریاست، اُتر پردیش، کی مساجد سے65ہزار کی تعداد میں لاؤڈ اسپیکرز بھی زبردستی اُتار لیے گئے ہیں ۔

جب یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ کچھ متعصب بھارتی ہندو مذہبی جماعتوں (جن میں راج ٹھاکرے کی پارٹی سر فہرست ہے) نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جب مسلمان اذان دیں تو ساتھ ہی ہندو مذہبی گیت بھی لاؤڈ اسپیکر پر چلانا شروع کر دیں تاکہ اذان کی آواز فضا میں دَب کر رہ جائے ۔

جب بھارتی مسلمانوں کو ریاستی سطح پر حکم دیا جارہا ہے کہ وہ اذان کی آواز کو نہائت مدہم رکھیں۔ ایسے واقعات کی موجودگی میں اُتر کھنڈ ریاست کے ایک کٹڑ ہندو برہمن خاندان کی دو بہنوں نے روا داری اور مسلمان دوستی کی اعلیٰ ترین نظیر قائم کی ہے۔ اس مثال کا سادہ مطلب یہ ہے کہ سبھی بھارتی ہندو راج ٹھاکرے، بال ٹھاکرے، نریندر مودی اور یوگی ادیتیا ناتھ کی طرح متعصب نہیں ہیں ۔

بھارتی ہندو برہمن بہنوں،سروج اور انیتا، نے جو مثال قائم کی ہے، اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ بھارت میں سبھی ہندو ایک ایسا دل اور ایک ایسی سوچ نہیں رکھتے ہیں ۔

ایسے بھارتیوں کے ساتھ پاکستان کا سرکاری مصافحہ اور معانقہ ہو سکتا ہے ۔ہم دونوں ہمسائے کب تک ایک دوسرے کے دشمن اور بَیری بنے رہیں گے ؟ روشنی اور اُمید کی اِنہی کرنوں کو پا کر ہماری طرف سے بھی کچھ طاقتور حلقوں کا یہ کہنا بجا ہے کہ ماضی کو دفن کرکے ہمیں بھارت کے ساتھ مصافحہ کرنا چاہیے، یوں کہ اپنے قومی مفادات کو زَک نہ پہنچنے پائے۔ سابق وزیر اعظم ، جناب عمران خان، بھی شاید ایسی ہی مثالوں کے پس منظر میں بار بار کہتے ہُوئے پائے گئے کہ بھارت سے ہم ’’بہت کچھ ‘‘ سیکھ سکتے ہیں ۔ نئے حالات میں شاید اِسی لیے ہماری نئی حکومت نے بھارت میں پاکستان کا ٹرید منسٹر تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

کاش، جناب عمران خان سمیت ہمارے وہ تمام وزرائے اعظم جنھوں نے پاکستان کے توشہ خانے پر ہاتھ صاف کیے، بھارتی وزیر اعظم ، نریندر مودی، کے اقدامات سے بھی کچھ سبق سیکھتے ۔ آجکل نریندر مودی کی ایک وڈیو بہت وائرل ہو رہی ہے ۔ مودی جی اپنے بہت سے سُننے اور دیکھنے والوں کو فخریہ بتا رہے ہیں :’’مجھے ملک کے اندر سے اور بیرونِ بھارت سے جتنے بھی تحفے تحائف ملے، مَیں نے سبھی سرکاری توشہ خانے میں جمع کروا دیے ۔

دل میرا بھی چاہتا تھا کہ ان خوبصورت اور قیمتی تحائف کو اپنے گھر لے  جاؤں ۔ مَیں نے مگر اپنی خواہشات کو لگام دی اور سبھی تحائف توشہ خانے میں جمع کروا دیے ۔ اور پھر توشہ خانے میں پڑے ان قیمتی تحائف کی مَیں نے اپنی نگرانی میں نیلامی کروائی۔ اس نیلامی سے 100کروڑ روپے سے زائد رقم اکٹھی ہُوئی ۔ اس بھاری رقم کو مَیں نے اُن بھارتی سرکاری تعلیمی اداروں کو عطیہ کر دیا جہاں غریب خاندانوں کی بچیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں ۔‘‘

ہم بھارت کی بجا طور پر مخالفت کرتے ہیں کیونکہ بھارت نے پاکستان کو کئی بار نقصان پہنچایا ہے۔ اب بھی داؤ لگا کر نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا ہے ۔ ہمیں اس کا مقابلہ کھلی آنکھوں سے کرنا ہے۔ واقعہ مگر یہ ہے کہ بھارتی سیاست و سماج میں اب بھی ایسی مثالیں پائی جاتی ہیں جن کی تعریف کی جانی چاہیے ۔مثال کے طور پر کئی بار منتخب ہونے والی مغربی بنگال کی دوریش صفت وزیر اعلیٰ، ممتا بینر جی، کا  کردار جو گیت لکھ کر ، گیتوں کی دُھنیں بنا کر اور کتابیں لکھ کر روزی روٹی کماتی ہیں اور پھر اپنی کمائی کا بیشتر حصہ دان اور خیرات میں بانٹ بھی دیتی ہیں ۔تری پورہ کا سابق درویش صفت وزیر اعلیٰ جو سیاست سے نکلا تو اُس کے بینک اکاؤنٹ میں صرف 45 ہزار روپے پڑے تھے۔

مثال کے طور پر بھارتی ریاست اُتر پردیش کا دوسری بار بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والا وزیر اعلیٰ ، یوگی ادیتیا ناتھ، جو پچھلے پانچ سال اپنے بہن بھائیوں اور والدین سے اس لیے نہ ملا کہ کہیں کسی کی ناجائز سفارش نہ کرنی پڑ جائے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔