- ایف بی آر نے آئی ایم ایف کے طے کردہ ہدف سے زیادہ ٹیکس وصول کرلیا
- چین سے قرض ملنے کے بعد زرمبادلہ کے ذخائر 10 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئے
- کراچی میں کورونا کے مثبت کیسز کی شرح 18 فیصد سے زیادہ ہوگئی
- پیپلز بس سروس کے روٹ 2 کا آغاز یکم جولائی سے ہوگا، شرجیل انعام میمن
- پیٹرول کی فی لیٹر قیمت میں تقریباً 5روپے اضافے کی سفارش
- آن لائن کمپیوٹر پروگرامنگ پلیٹ فارم ٹیورنگ نے پاکستان کا رخ کر لیا
- عہدے آنی جانی چیز ہے اصل کام مخلوق کو راضی کرنا ہے، حمزہ شہباز
- ترکی میں کئی فٹ بلندی سے گرنے والا شیرخوار بچہ محفوظ رہا
- نیٹو نے چین کو مغربی ممالک کے مفادات اور سلامتی کیلیے چیلنج قرار دے دیا
- ایک برس قبل انتقال کرجانے والا شخص بیٹی کو رخصت کرنے پہنچ گیا
- روپے کی نسبت ڈالر مزید تنزلی سے دوچار
- پنجاب کے مینڈیٹ کو ہتھیانے کی کوشش کرنے والے انتخاب روکنے پر بضد ہیں، مریم نواز
- ٹک ٹاک چیلنج سے فلوریڈا ساحل پر گہرے گڑھے پڑگئے
- بلوچستان میں ٹرک اور کار میں تصادم، خاتون سمیت چار جاں بحق
- سونے کی فی تولہ قیمت میں 350 روپے کمی
- خیبرپختونخوا میں بجلی کا شارٹ فال 1600 میگا واٹ تک پہنچ گیا
- نیوٹرلز کو بتادیا ملک غیرمستحکم ہوا تو یہ لوگ سنبھال نہیں سکیں گے، عمران خان
- برازیلی درخت میں لیوکیمیا کا علاج دریافت
- چینی خلائی جہاز نے پورے سیارہ مریخ کی تصاویر اتارلیں
- کورونا کیسز میں اضافہ: سرکاری دفاتر کیلئے نئے ایس او پیز جاری
سپریم کورٹ کا ڈیم فنڈ کہاں گیا؟ قومی اسمبلی میں بازگشت

(فوٹو: فائل)
اسلام آباد: ارکان قومی اسمبلی نے سپریم کورٹ کے ڈیم فنڈ سے متعلق سوال اٹھادیا اور کہا کہ ڈیڑھ سال پہلے بھی پوچھا تھا کہ فنڈ کہاں ہے لیکن جواب نہیں آیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ڈپٹی اسپیکر زاہد درانی کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا۔ وقفہ سوالات کے دوران سپریم کورٹ میں ڈیم فنڈ کے لیے رکھی گئی رقم کے استعمال پر سوال پیش ہوا اور بتایا گیا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے ڈیڑھ سال سے جواب نہیں دیا گیا۔
ن لیگی رکن اسمبلیی فقیر احمد نے سوال کیا کہ ڈیم فنڈ کے استعمال کیا ہوا؟ اور اس فنڈ پر کیا کسی نے بیرونی دورہ کیا؟ جس پر ڈپٹی اسپیکر زاہد اکرم درانی نے کہا کہ سپریم کورٹ سے سوال کا جواب لینے کے لیے ااٹارنی جنرل سے رابطہ کیا جائے گا۔
وفاقی وزیر پارلیمانی امور مرتضی جاوید عباسی نے کہا کہ ڈیم فنڈ کی تفصیلات پر اسپیکر نے ایک بار پہلے بھی رولنگ دی مگر جواب نہیں آیا۔ اپوزیشن کی رکن ڈاکٹر فہمیدہ مرزا اور حکومت کی رکن شازیہ صوبیہ اسلم سوالات کے جوابات نہ ملنے پر برہم ہوگئیں۔ ارکان نے شکوہ کیا کہ وقفہ سوالات میں جوابات ہی نہیں دیئے جارہے تو ہم یہاں کیا لینے آتے ہیں؟
مرتضی جاوید عباسی نے کہا کہ پچھلے چار سال میں اس ایوان کو بے توقیر کیا گیا اب ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اس پر ڈپٹی اسپیکر نے کہا کہ رولنگ دیتا ہوں سوالات کے جوابات بھی دیئے جائیں اور افسران بھی موجود ہوں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔