پاکستان اسٹیل ملز: لوہے کی فصیل ریت کی دیوار بن کر ڈھے رہی ہے

سید بابر علی  اتوار 2 مارچ 2014
موجودہ حکومت نے پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔۔ فوٹو: فائل

موجودہ حکومت نے پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔۔ فوٹو: فائل

روس کی تیکنیکی معاونت سے بننے والے پاکستان کے پہلے فولاد ساز ادارے ’’پاکستان اسٹیل ملز‘‘ کا سنگ بنیاد 30دسمبر 1973کو اُس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے رکھا تھا۔

شہرِقائد سے 40کلومیٹر کی مسافت پر تعمیر ہونے والے اس عظیم ادارے کی پیداواری صلاحیت11لاکھ ٹن سے 30 لاکھ ٹن سالانہ ہے، لیکن کرپشن، سیاسی بنیادوں پر ہونے والی تقرریوں اور دیگر عوامل نے پاکستان میں صنعتوں کی ماں کہلانے والے اس ادارے کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ 18ہزار600 ایکڑ سے زاید رقبے پر محیط اس ادارے کو پاکستان کا سب سے بڑا انڈسٹریل کمپلیکس ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ تاہم خام مال کی قلت اور بدعنوانیوں کی وجہ سے یہ ادارہ اب تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور گذشتہ چھے سال میں صرف خام مال کی خریداری میں بدعنوانی کے بیس کیسز سامنے آچکے ہیں، جب کہ معاشی سال 2008میں3ارب سے زاید خالص منافع کمانے والے ادارے کو 2008کے بعد سے ڈرامائی طور پر ہر سال خسارے کا سامنا ہے۔ دوسری طرف تقریباً ایک دہائی سے پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری کی کوششیں جاری ہیں اور 2006 میں اس ادارے کو تقریباً فروخت کر ہی دیا گیا تھا، تاہم وطن پارٹی نے اس حکومتی فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ آف پاکستان میں سیکشن184(3) کے تحت پٹیشن دائر کردی، جس پر کارروائی کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے نو رکنی بینچ نے نج کاری کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔ اب موجودہ حکومت نے بھی پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری کی کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔

دوسری جانب پاکستان اسٹیل ملز میں تن خواہوں کی عدم ادائیگی نے مزدوروں کو ایک ایسی معاشی صورت حال سے دوچار کردیا ہے جس نے نہ صرف اُن کی عزت نفس بل کہ اُن کے مضبوط ارادوں کو بھی پاش پاش کردیا ہے۔ کسی ورکر کو کرایہ نہ دینے پر روز مالک مکان کی جھڑکیاں سننی پڑتی ہیں تو کسی مزدور کے بچے فیس نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ کر ذریعۂ معاش کے حصول کے لیے کوشاں ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز میں ہر ورکر کے دن کا آغاز روز نئی آس کے ساتھ ہوتا ہے۔ ہر ورکر کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ کیا ’’خام مال‘‘ آگیا؟ کیا آج تن خواہ مل جائے گی؟ ہر مزدور کو اپنی تن خواہ ملنے سے زیادہ انتظار خام مال ملنے کا ہوتا ہے، کیوں کہ یہ خام مال اُن کے لیے نسوں میں دوڑنے والے خون کی مانند ہے، یہ حوصلہ مند، باہمت ملازمین اس وقت بدترین معاشی مشکلات کا سامنا کرنے کے با وجود اپنے ادارے کے ساتھ مخلص ہیں۔ انہیں ابھی بھی اچھے دنوں کی آس ہے اور یہی وجہ ہے کہ بچوںکی ادھوری تعلیم، دو وقت کی روٹی کی فکر اور سر چھپانے کے لیے کسی کم کرائے کے مکان کے لیے سرگرداں ہونے کے باوجود یہ پُرعزم ملازمین ان سب مشکلات کے باوجود نج کاری کے خلاف ہیں، یہ ورکر دوبارہ پاکستان اسٹیل ملز کواپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے پر عزم ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز کی تمام مزدور یونینز بھی اپنے اختلافات بھلا کر نج کاری کے خلاف متفق ہیں۔

ملک کا یہ اہم دولت اگلتا ادارہ اس نہج تک کیسے پہنچا؟ عام آدمی سے اقتصادی ماہرین تک سب اس سوال کا ایک ہی جواب دیتے ہیں، بدعنوانی۔

اس حوالے سے ممتاز ماہرِمعیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان اسٹیل ملز کو صنعتوں کی ماں کہا جاتا ہے لیکن بڑے پیمانے پر ہونے والی بد عنوانی، اقربا پروری اور نااہلی نے اس منافع بخش ادارے کو زبردست نقصان سے دو چار کر دیا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر اس ادارے کو پیشہ ورانہ اصولوں پر چلانے کے لیے مناسب حکمت عملی وضح کی جائے، اعلیٰ انتظامی عہدوں اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تقرریاں پیشہ ورانہ اصولوں پر کی جائیں تو یہ ادارہ دوبارہ منافع بخش ہو سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بات کے بھی واضح شواہد موجود ہیں کہ موجودہ حکومت اس ادارے کے خسارے کو مزید بڑھا رہی ہے، تاکہ آئی ایم ایف سے طے کی گئی شرائط کے مطابق پاکستان اسٹیل ملز کو نجی شعبے کے حوالے کرنے کا جواز پیدا کیا جاسکے، جب کہ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو وزارت صنعت و پیداوار کی جانب سے بھی بتایا جا چکا ہے کہ میرٹ پر تقرریاں نہ ہونے کی وجہ سے اسٹیل ملز سمیت کئی ادارے خسارے میں چلے گئے ہیں۔

 photo Pakistansteelmill_zps9fb8c608.jpg

ڈاکٹر شاہد حسن کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز ایک قیمتی اثاثہ ہے اور اسے ہر قیمت پر حکومتی شعبے میں رہنا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ گذشتہ سال 19اگست کو حکومت پاکستان کی طرف سے آئی ایم ایف (بین الاقوامی مالیاتی ادارے)کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹائن لیگارڈ (Ms. Christine Lagarde ) کو بھیجے گئے خط میں وزیرخزانہ اسحاق ڈار کی جانب سے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ حالیہ میٹنگ میں مشترکہ مفادات کی کونسل نے پاکستان اسٹیل ملز سمیت مختلف اداروں کی نج کاری کی منظوری دے دی ہے۔ یعنی چاروں صوبے اِن اداروں کی نج کاری کی منظوری پر اپنی مہر ثبت کر چکے ہیں۔ دوسری جانب خیبر پختون خوا حکومت میں شامل جماعت، جماعتِ اسلامی کے امیر سید منور حسن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رضا ربانی اور وزیر اعلیٰ سندھ قائم علی شاہ کہہ چکے ہیں کہ مشترکہ مفادات کی کونسل نے ایسی کوئی منظوری دی ہی نہیں ہے۔

اس حوالے سے سینیٹ میں حکم راں جماعت کی نمائندگی کرنے والے سینیٹر راجہ ظفر الحق نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کو کرائی گئی ’’یہ‘‘ یقین دہانی درست نہیں تھی، اور مشترکہ مفادات کی کونسل کی اگلی میٹنگ میں نج کاری کی منظوری لی جائے گی۔ ڈاکٹر شاہد حسن نے بتایا کہ مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کے بغیر پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری کسی صورت ممکن نہیں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے اس ضمن میں سڑکوں پر احتجاج کرنے کا کوئی جواز نہیں، البتہ حکومت آئی ایم ایف سے کیے گئے وعدے کے مطابق جلد از جلد اِن اداروں کی نج کاری کا عمل مکمل کرنا چاہتی ہے، لیکن2014 میں یہ عمل ممکن ہونے کا امکان نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ گذشتہ دنوں نج کاری کمیشن نے جن اداروں کی نج کاری کا فیصلہ کیا ہے، یہ دستورِ پاکستان سے متصادم ہے۔ نج کاری کمیشن کو یہ فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی کا کہنا ہے کہ گذشتہ 23 برسوں میں پاکستان میں نج کاری کا عمل مکمل طور پر ناکام رہا ہے اور بہت سے ادارے نج کاری کے بعد بند ہوگئے۔ نوازشریف کے پچھلے دور حکومت میں نج کاری کمیشن کے چیئرمین ، اور نجی تحویل میں دیے گئے بینکوں کے دو سابق صدور کو گرفتار جب کہ تیسرے کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ نج کاری کے بعد ایک بینک نے 6ارب کا نقصان دکھایا تھا، جب کہ اِس کے 26 فی صد حصص40کروڑ روپے میں فروخت کیے گئے تھے۔ خسارے کے بعد حکومت نے اس بینک کو واپس لے لیا تھا۔ دوسرے بینک کے بھی 26 فیصد حصص40کروڑ روپے میں فروخت کیے گئے تھے، لیکن یہ معاملہ سپریم کورٹ تک گیا اور مقدمہ کرنے والی پارٹی کو حکومت کی جانب سے مختلف بینکوں سے 2ارب روپے کے قرضے دلائے گئے، جو بعد میں معاف کرنے پڑے۔ اس بینک کے صدر اور چیئرمین بھی ملک سے فرار ہوگئے تھے۔ یہ حقائق قومی اسمبلی اور سینیٹ کی کارروائی کے ریکارڈ میں محفوظ ہیں۔ ڈاکٹر شاہد حسن کہتے ہیں کہ قومی اداروں کی نج کاری مسلم لیگ ن کے منشور میں شامل نہیں تھی، لیکن حکومت بجٹ خسارے میں کمی کے لیے اِس کی نج کاری کر رہی ہے، جو خسارے کا سودا ہے۔

دوسری طرف پاکستان اسٹیل ملز کی معاشی بدحالی کے حوالے سے منیجر تعلقات عامہ شاہ زم اختر کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کو اِس وقت مختلف اداروں کے واجبات اور تن خواہوں کی مد میں115 ارب روپے کی ادائیگیاں کرنی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ادارے کو مالی بحران سے نکالنے اور اسے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے گذشتہ سال اکتوبر میں ہم نے حکومت کو 29 ارب روپے کا ایک بزنس پلان پیش کیا تھا۔ تاہم اس پلان پر مزید کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی اور ادارہ دن بہ دن خسارے میں جاتا گیا۔ مالی بحران کا سب سے اہم سبب خام مال کی عدم دست یابی ہے، جس کی وجہ سے یومیہ اوسطاً  5 فی صد پروڈکشن ہورہی ہے اور پلانٹ کو اتنی کم پیداواری صلاحیت پر چلانا ہماری مجبوری ہے، کیوں کہ بلاسٹ فرنیس اور کوک اوون بیٹری کو ایک مخصوص درجۂ حرارت پر رکھنا ضروری ہوتا ہے، اگر ایسا نہ کیا جائے اور انہیں مطلوبہ درجۂ حرارت پر نہیں چلایا جائے تو پھر یہ دوبارہ قابل استعمال نہیں رہیں گے اور پھر اِن کو صرف اسکریپ میں ہی فروخت کیا جاسکتا ہے۔

 photo Pakistansteelmill1_zpsdd9f253d.jpg

شاہ زم اختر نے بتایا کہ خام مال کی عدم دست یابی کی وجہ سے ہمارے گیس اور بجلی کے بلوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے ہم آسٹریلیا اور کینیڈا سے درآمدکردہ ’’میٹالرجی کوک‘‘ استعمال کرتے تھے، جس سے اسٹیل بنانے کے دوران ہمیں بائی پروڈکٹ ’’کول تار‘‘ اور ’’کوک اون گیس‘‘ حاصل ہوتی تھی، جسے ہم ’’تھرمل پاور پلانٹ ‘‘ چلانے کے لیے بطور ایندھن استعمال کرتے تھے۔ اس طریقۂ کار کی وجہ سے ہمیں گیس اور بجلی کی مد میں ماہانہ تقریباً 25کروڑ روپے کی بچت ہوتی تھی، لیکن اب 110میگاواٹ گنجائش کے حامل اس تھرمل پاور پلانٹ کو چلانے کے لیے بجلی اور گیس کا سہارا لینا پڑ رہا ہے، جو ہمارے خسارے میں مزید اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ 2011تک پاکستان اسٹیل ملز کے ای ایس سی کو بجلی فروخت کرتا تھا جس سے ہمیں ماہانہ 6سے7کروڑ روپے کا ریونیو حاصل ہوتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ’’میٹالر جی کوک ‘‘ کے لیے ہمیں کم ازکم 55ہزار ٹن کا جہاز منگوانا پڑتا ہے، جس کے لیے ایک ارب روپے چاہییں اور موجودہ صورت حال میں ہم اسے منگوانے سے قاصر ہیں اور پلانٹ کو زندہ رکھنے کے لیے خام کوئلے کو کوک میں تبدیل کر رہے ہیں۔

پاکستان اسٹیل ملز اور مارکیٹ میں موجود دوسری متعلقہ مصنوعات کی قیمتوں میں واضح فرق کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ قیمتوں میں فرق کی سب سے اہم وجہ گر ے مارکیٹ (ایسی مارکیٹ جہاں چیزیں مقرر کردہ قیمت سے کم پر فروخت کی جاتی ہیں) ہے، کیوں کہ WTO(ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن) کی وجہ سے اسٹیل شیٹس کی درآمد کُھل گئی ہے۔ اسٹیل بنانے والے مقامی تیار کنندگان تقریباً تیس فی صد سبسڈی (حکومت کی جانب سے قیمت پر رعایت) پر اسٹیل شیٹس درآمد کرتے ہیں۔ تاہم اُس میں سے 70فی صد شیٹس کم قیمت پر مارکیٹ میں فروخت کردی جاتی ہے۔ اسی وجہ سے بہت سے ادارے خصوصاً کارساز ادارے پاکستان اسٹیل ملز کے بجائے مارکیٹ سے کم قیمت اسٹیل شیٹس خریدنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

شاہ زم اختر کا کہنا ہے کہ مالی خسارے میں دن بہ دن اضافے کی سب سے بڑی اور اہم وجہ خام مال کا نہ ہونا ہے، کیوںکہ ادارے کے روزانہ کے اخراجات تو اپنی جگہ پر ہیں، چاہے پروڈکشن 100فی صد ہو یا 5 فیصد، ہمیں پلانٹ کو 70فی صد پیداواری لاگت پر چلانے کے لیے تقریباً ایک لاکھ ٹن خام لوہا اور50ہزار ٹن کوئلہ چاہیے، اگر ضرورت کے مطابق خام مال مل جائے تو ہم اپنے خسارے پر قابو پاکر ادارے کو منافع میں لاسکتے ہیں، حکومت کو دیے گئے 29ارب کے بزنس پلان میں ہم نے11ارب روپے صرف خام مال کے لیے مختص کیے تھے۔ اس وقت ہمارے پاس 50 ہزار ٹن خام لوہا اور16ہزار ٹن کوک اسٹاک میں موجود ہے، جس سے ہم صرف پلانٹ کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر اُس وقت حکومت ہمارے پیش کیے گئے بزنس پلان کو منظور کر لیتی تو آج پاکستان اسٹیل ملز کی حالت یکسر مختلف ہوتی اور اِس کا شمار ملک کے منافع بخش اداروں میں ہو رہا ہوتا۔

تن خواہوں اور دیگر یوٹیلیٹی بلز کی مد میں پاکستان اسٹیل ملز کے ذمے واجب الادا رقوم کے حوالے سے ان کا کہنا ہے کہ ملازمین کی مجموعی تن خواہیں کم و بیش ایک ارب روپے ماہانہ بنتی ہیں۔ تاہم ادارے کی معاشی بدحالی کی وجہ سے ملازمین کو فی الوقت نیٹ تن خواہیں ادا کی جارہی ہیں، جو 48کروڑ روپے ماہانہ بنتی ہیں۔ تمام ملازمین کو تیس نومبر تک کی تنخواہیں ادا کر دی گئی ہیں، جب کہ ملازمین کو طبی سہولیات کی مستقل فراہمی کے لیے گذشتہ سال نومبر میں اسپتالوں اور میڈیکل اسٹورز کو 18کروڑ 10لاکھ روپے ادا کیے گئے ہیں۔ تاہم ابھی اِس مد میں اچھی خاصی رقوم کی ادائیگیاں باقی ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کو سوئی سدرن گیس کمپنی کے 12ارب روپے ادا کرنا ہیں، جس میں 5 ارب روپے لیٹ پیمنٹ اور دیگر سرچارج کی مد میں دینا ہیں۔ اس معاملے پر ابھی سوئی گیس حکام سے بات چیت چل رہی ہے، جب کہ کے ای ایس سی کے تقریباً 50کروڑ روپے واجب الادا ہیں۔ شاہ زِم اختر کا کہنا ہے کہ واٹر بورڈ کو گذشتہ سال نومبر میں 2کروڑ 20لاکھ روپے ادا کیے گئے ہیں۔ تاہم اس کے بعد کے بل ابھی ہمارے ذمے واجب الادا ہیں۔

 photo Pakistansteelmill2_zpscd890289.jpg

پاکستان اسٹیل ملز کے خسارے میں جانے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے ’’پاکستان اسٹیل لیبر یونین‘‘ (پاسلو) کے جنرل سیکریٹری طارق اعوان نے کہا کہ گذشتہ چند سالوں میں انتظامیہ کی بدترین کرپشن نے پاکستان کے اس منافع بخش ادارے کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے اسے بیساکھیوں پر کھڑا کردیا ہے۔ 2008 تک تمام ملازمین کو سال میں بیسک تن خواہ پر مشتمل چار بونس اور ورکرز پارٹیسیپیشن فنڈ (منافع کا 5فی صد) ملتا تھا۔ اُس وقت پاکستان اسٹیل ملز میں خوش حالی کا دور دورہ تھا اور یہ ادارہ ایک روپے کا بھی مقروض نہیں تھا۔ دو اعشاریہ تین بلین روپے تو صرف اس کے ریزرو (محفوظ رقم ) تھے، لیکن 2008کے بعد آنے والی حکومت اور اُس کی من پسند سی بی اے نے ادارے کو کھوکھلا کردیا اور آج پاکستان کی ایک منافع بخش صنعت 2 سو ارب روپے خسارے کا شکار ہے۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ ملازمین کے ’’پروویڈینٹ فنڈز‘‘،’’گریجویٹی‘‘ اور ’’گلشن حدید ہائوسنگ اسکیم‘‘ کے 22 ارب روپے بھی اس کرپشن کی نظر ہوچکے ہیں۔ آپ پاکستان اسٹیل ملز میں ہونے والی کرپشن کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ کرپشن کی وجہ سے اُس وقت کے وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو اپنے ہی لگائے گئے پاکستان اسٹیل ملز کے چیئرمین معین آفتاب شیخ کو برطرف کرنا پڑا تھا۔

ادارے کی تباہی کے پیچھے کارفرما عوامل کی وجوہات بیان کرتے ہوئے پاکستان اسٹیل پیپلز ورکرز یونین، سی بی اے کے سیکریٹری اطلاعات مرزا طارق جاوید کا کہنا ہے کہ اس عظیم ادارے کی تباہی کے دو تین عوامل ہیں۔ آپ کو پتا ہے کہ 2008میں دنیا بھر میں آنے والے معاشی بحران نے بہت سے اداروں اور صنعتوں کو دیوالیہ کر دیا تھا اور اس بحران سے دنیا بھر میں اسٹیل کی صنعت پر بھی برے اثرات مرتب کیے تھے۔ ایک وجہ تو یہ ہے اور دوسری سب سے بڑی وجہ 2006میں کی گئی پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری کا فیصلہ ہے۔ اُس وقت ہمارے خام مال کے طویل المدتی (لانگ ٹرم) معاہدے ختم کردیے گئے اور ہمیں اسپاٹ چارٹرنگ (بندرگاہ پر آنے والے کسی بھی جہاز سے مال خریدنا)کرنا پڑی، جس سے ہماری پیداواری لاگت میں بھی اضافہ ہوا، لانگ ٹرم معاہدے میںخام مال کی قیمت بھی نسبتاً کم ہوتی تھی۔ طویل المدتی معاہدے ختم ہونے سے جہاں ہمارے پاس خال مال کی قلت ہوئی تو دوسری جانب معاہدہ منسوخ کرنے پر ہمیں ایک بھارتی کمپنی ’’فومنٹو‘‘کو ایک ارب روپے ہرجانہ بھی بھرنا پڑا تھا۔ انہوں نے کہا کہ خسارے کی تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ ادارے کی بحالی کے لیے پیپلزپارٹی کی حکومت میں دونوں وزرائے اعظم نے بیل آئوٹ پیکیج منظور کیے لیکن ایک ساتھ نہیں دیے گئے، جس کی وجہ سے ادارہ اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہوسکا۔ اِس وقت پاکستان اسٹیل ملز کو روزانہ سات کروڑ (دو ارب دس کروڑ ماہانہ ) خسارہ ہورہا ہے۔ گذشتہ آٹھ مہینوں میں سولہ ارب روپے سے زاید کا نقصان تو ویسے ہی ہوچکا ہے اور ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس خسارے کو ہم کسی صورت نہیں روک سکتے، کیوںکہ یہ تو فکسڈ کاسٹ ہے۔ اگر بیل آئوٹ پیکیج بروقت دے دیا جاتا تو آج صورت حال مختلف ہوتی۔

پاکستان اسٹیل ملز کے خسارے میں جانے کے اسباب بیان کرتے ہوئے اسٹیل ملز بچائو تحریک کے راہ نمااکبر ناریجو نے بتایا کہ ادارے کو اس وقت ایک سو ارب روپے سے زاید خسارے کا سامنا ہے اور اس خسارے میں ہر دن اضافہ ہورہا ہے کیوں کہ مزدور تو اپنی نوکری پر آرہے ہیں لیکن جب خام مال ہی نہیں ہے تو پھر پیداوار کیسے ہوگی۔ اکبر ناریجو نے کہا کہ میں آپ یہ بات دعوے کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ اگر پاکستان اسٹیل کو صرف 30ارب روپے کا بیل آئوٹ پیکیج دیا جائے تو یہ ادارہ نہ صرف اپنے پیروں پر کھڑا ہوجائے گا، بل کہ چھے ماہ کے اندر اندر واجب الادا قرضے اتارنا بھی شروع کردے گا، جب کہ اس حوالے سے ’’پاسلو‘‘ کے طارق اعوان نے بتایا کہ ہم ہر حالت میں نج کاری کے خلاف ہیں اور سپریم کورٹ کی جانب سے پاکستان اسٹیل ملز میں ہونے والی کرپشن کے حوالے سے ازخود نوٹس لینے باوجود آج پانچ سال گزر جانے کے بعد بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی ہے، کیوں کہ پاکستان اسٹیل ملز کی انتظامیہ اور وفاقی حکومت اس کیس میں فریق نہیں ہیں، جس پر ہمارا سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ پاکستان اسٹیل کی وہی انتظامیہ جو کرپشن میں ملوث تھی اب وہی فریق بننے پر تیار نہیں ہے، کیوں کہ یہ ساری کرپشن ملی بھگت کے ساتھ ہوئی ہے، جب کہ سپریم کورٹ کے نیب کو تین ماہ میں اس کیس کی رپورٹ مرتب کرنے کے واضح احکامات کے باوجود آج تک ایسی کوئی رپورٹ جمع نہیں کی گئی، جس سے یہی تاثر پیدا ہوتا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں میں کی گئی کرپشن پر کچھ نہیں ہوسکے گا، جب کہ بیل آئوٹ پیکیج کی مد میں ملنے والی رقوم بھی اس کرپشن کی نظر ہوچکی ہیں۔

 photo Pakistansteelmill3_zps82d0ba88.jpg

پروڈکشن کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں طارق جاوید کا کہنا ہے کہ پیداواری صلاحیت تو نہ ہونے کے برابر ہے، ہم نے تو صرف پلانٹ کو زندہ رکھا ہوا ہے، اور ایک بات میں آپ کے علم میں بھی لانا چاہتا ہوں کہ کم پروڈکشن پر پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے۔ اس کی تیکنیکی وجہ یہ ہے کہ بلاسٹ فرنیس کو فُل پر چلانے کے لیے 300 ٹن کوک چاہیے، لیکن فرنیس کو صرف زندہ رکھنے (گرم رکھنے) کے لیے 700ٹن کوک چاہیے، کیوں کہ فُل پر چلانے میں پگھلا ہوا کوک پلانٹ کو زیادہ گرم رکھتا ہے۔

اس وقت پاکستان اسٹیل ملز کے72 ڈیپارٹمنٹس میں سے ’’کوک اوون بیٹری‘‘،’’آئی ایم ڈی‘‘،’’ایس ایم ڈی‘‘،’’ٹی بی پی ٹی بی ایس‘‘، ’’آکسیجن پلانٹ‘‘، ’’ری فیکٹریز‘‘،’’سینٹرنگ‘‘، ’’کولڈ رولنگ مل‘‘،’’ہاٹ رولنگ مل‘‘ اور ’’انجینئرنگ لیب‘‘،’’سی ایم ڈی‘‘ اور ’’ٹرانسپورٹ‘‘ کے علاوہ کچھ چھوٹے ڈیپارٹمنٹ بھی آپریشنل ہیں۔

ادارے کی نج کاری کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں مرزا طارق جاوید نے کہا کہ نج کاری کبھی بھی مزدور کے مفاد میں نہیں رہی اور خصوصاً پاکستان میں نج کاری کبھی بھی کام یاب نہیں رہی اور اس کی کئی مثالیں بھی موجود ہیں۔ ہم نج کاری کی ہر شکل کو مسترد کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ادارے کو خسارے سے نکالنے کے لیے نج کاری ہی واحد حل ہے۔ آپ (حکومت ) کہتے ہیں کہ اسٹیل ملز والے چور ہیں، تو ٹھیک ہے، آپ ہمیں پیسے نہ دیں، ایل سی (لیٹر آف کریڈٹ) بھی خود کھولیں، اپنی مرضی کا سی ای او لے آئیں، بورڈ آف ڈائریکٹرز بھی اپنا لے آئیں، ہمیں صرف چھے ماہ باقاعدگی سے خام مال فراہم کردیں، اُن چھے ماہ میں ہم آپ کے پیسے ادا کرنے کے ذمے دار ہیں، لیکن موجودہ حکومت اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ برسر اقتدار آنے کے بعد سے اسٹیل ملز کے لیے سنجیدگی سے اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ حکومت آئی ایم ایف کے ساتھ میٹنگ میں قومی اداروں کی نج کاری کا وعدہ کرکے آئی ہے۔ مرزا طارق کا کہنا ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل کی منظوری کے بغیر پاکستان اسٹیل ملز ہی کیا کسی بھی ادارے کی نج کاری نہیں ہوسکتی۔ 2006 میں پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری ہوچکی تھی، شیئر پرچیز ایگریمنٹ بھی جاری ہوگیا تھا لیکن سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے واضح طور پر کہا تھا، ’’کیوں کہ نج کاری کا فیصلہ مشترکہ مفادات کی کونسل کی منظوری کے بغیر کیا گیا ہے، اس لیے حکومت کا یہ اقدام غیرقانونی ہے۔‘‘

اسٹیل ملز بچائو تحریک کے راہ نما اکبر ناریجو کا نج کاری کے بارے میں کہنا ہے کہ حکومتِ وقت اس بات پر زور دے رہی ہے کہ ملک کی معیشت اداروں کو قومی تحویل میں دینے سے بہتر ہوگی، لیکن یہ سوچ نہایت غلط ہے اور اس بارے میں ہمارے پاس چین کی بہترین مثال موجود ہے، جہاں تمام صنعتیں حکومت کی ملکیت میں ہیں اور اُس کی معیشت بہت مستحکم ہے۔ دوسری طرف نجی معیشت رکھنے والا ملک یوکرائن گذشتہ چار سال سے تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے۔ 2013 میں یوکرائن کو باقاعدہ دیوالیہ قرار دیا جارہا تھا، لیکن اُ س کو روس نے 15ارب ڈالر دے کر وقتی سہارا دیا۔ یہ ہمارے حکم رانوں کے لیے بہت بڑی مثال ہے کہ اگر قومی اداروں کو نجی شعبے میں دینے سے ملک ترقی کرتے تو پھر آج یوکرائن کا یہ حال نہیں ہوتا۔ لہٰذا میری حکم رانوں سے یہی درخواست ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری ملکی معیشت اور اُس کے ملازمین کے لیے تباہ کن ثابت ہوگی۔

اس ادارے کو خسارے سے نکالنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ کرپٹ انتظامیہ کو ہٹاکر ایمان دار انتظامیہ لائی جائے اور اُسے مطلوبہ بیل آئوٹ پیکیج دیا جائے تو چھے ماہ کے اندر اندر یہ ادارہ نہ صرف منافع میں آجائے گا، بلکہ اقساط میں اپنا قرضہ بھی اتارنے کا اہل ہوجائے گا، لیکن اگر پاکستان اسٹیل ملز کو نج کاری کی بھینٹ چڑھایا گیا تو نہ پاکستان اسٹیل ملز بل کہ ’’پی آئی اے‘‘ اور ’’او جی ڈی سی ایل‘‘ سمیت نج کاری کی فہرست میں شامل تمام اداروں کے ملازمین ملک بھر میں بھرپور احتجاج کرتے ہوئے بیک وقت پورے ملک کو جام کردیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ نج کاری کے زہریلے انجکشن لگانے کے بجائے ملکی اداروں کو کرپٹ عناصر سے پاک کرکے دوبارہ اپنے پیروں پر کھڑا کیا جائے۔ سابق حکومت نے آئی ایف سے شرائط کے باوجود کوئی ادارہ فروخت نہیں کیا، لیکن آئی ایم ایف ہی کے لگائے گئے وزیر خزانہ شیخ حفیظ اور جہانگیر ترین نے بروقت بیل آئو ٹ پیکیج نہ دے کر قومی اداروں کو ڈبونے میں اہم کردار ادا کیا اور موجودہ حکم راں بھی آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے دبائو پر پاکستان کے تما م بڑے اداروں کو نج کاری کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں۔

 photo Pakistansteelmill4_zps3732fcde.jpg

اکبر ناریجو نے کہا کہ ہم اس بات کو مانتے ہیں کہ پاکستان اسٹیل میں لوٹ مار ہوئی ہے، لیکن چند افراد کی بدعنوانی کی سزا اس ادارے سے وابستہ ہزاروں ملازمین کو نہ دی جائے۔ ہم تمام ملازمین کی جانب سے لوٹ مار کرنے والے عناصر کے کڑے احتساب اور سزا کا مطالبہ کرتے ہیں۔ پاکستان اسٹیل ملز کے تمام محنت کش حکومت کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ایجنڈے پر چلتے ہوئے کسی صورت نج کاری نہیں کرنے دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہمارے پاس صرف ایک مہینے کا خام مال موجود ہے اور حکومت کہہ چکی ہے کہ اب پاکستان اسٹیل ملز کو مزید رقم فراہم نہیں کی جائے گی۔ ایسا ہوا تو اِس کا مطلب یہی ہے کہ حکومت پاکستان اسٹیل ملز کو بیچنے کا مصمم ارادہ کر چکی ہے، کیوں کہ اسٹیل مل اس وقت وینٹی لیٹر پر ہے اور اس کے لیے مناسب بیل آئو ٹ پیکج کی منظوری کے لیے کوششیں نہیں کی گئیں تو ایک دن اس ادارے کے دیوالیہ پن کا اعلان کر دیا جائے گا، اور ہزاروں محنت کشوں کے گھر کے چولہے بجھ جائیں گے۔ میں آپ کو یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ نج کاری کی صورت میں اس ادارے کی صرف تباہی ہی ہے، حکومتِ وقت اپنے دوستوں، رشتے داروں، سرمایہ داروں کو نوازنا چاہتی ہے۔

ان سب کی نظریں پاکستان اسٹیل ملز کی قیمتی زمین پر ہیں۔ یہ سب پاکستان اسٹیل ملز اور اُس کے ملازمین کو تباہ و برباد کردیں گے۔ پاکستان تحریک انصاف لیبر ونگ کے چیف آرگنائزر تنویر ایوب کا کہنا ہے کہ ہم نج کاری کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے کیوں کہ یہ ہم تمام مزدوروں کے حق پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف اور ہمارا معاشی قتل ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنویر ایوب کا کہنا ہے کہ یہ (حکومت) نج کاری کی آڑ میں اسٹیل ملز کی قیمتی زمین کوڑیوں کے مول فروخت کرنا چاہتے ہیں صرف زمین کی قیمت ہی کھربوں میں ہیں اور ستر کی دہائی میں پاکستان اسٹیل ملز کا پلانٹ 25 ارب روپے میں لگایا گیا تھا۔ اُس وقت ایک ڈالر کی قیمت پاکستانی چار روپے کے برابر تھی اور آج 105سے زاید ہے، جس سے آپ خود پاکستان اسٹیل ملز کی مالیت کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اسٹیل ملز کو چلانے اور بچانے کے لیے مزدور یونینز اور ورکرز کا کردار ہمیشہ مثبت رہا ہے اور آج تن خواہیں نہ ملنے پر بھی وہ ادارے کے ساتھ مخلص ہیں، جب کہ موجودہ حکومت نے خود اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کو 7سے 8 کروڑ روپے روزانہ نقصان ہو رہا ہے تو حکومت نے یہ سب جانتے ہوئے بھی سات ماہ سے مناسب اقدامات کیوں نہیں کیے، ہم حکومت سے صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ سوا ارب روپے ماہانہ نقصان کس کے کھاتے میں ڈالا جائے؟ یہ سب جانتے بوجھتے بھی حکومت کوئی بیل آئوٹ پیکیج کیوں نہیں دے رہی؟ ہمیں تو تن خواہیں بھی قرضے کی مد میں دی گئی ہیں۔

حکومت آج بیل آئوٹ پیکیج دیں ہم ایک ہفتے میں پروڈکشن 50 فی صد سے زاید کردیں گے۔ قانون داں اور پاکستان اسٹیل ملز کی مزدور یونین ’’پروگریسیوورکرز یونین‘‘ کے سابق جنرل سیکریٹری محمد مشفع کا کہنا ہے کہ یہ حبیب بینک یا یوبی ایل نہیں ہے، جسے آپ نجی ادارے کو فروخت کر کے فارغ ہوجائیں، پاکستان اسٹیل ملز ملک کا واحد فولاد ساز ادارہ ہے، جو ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، اور ایک وقت ایسا بھی تھا جب 26ہزار ملازمین ہونے کے باوجود یہ ادارہ منافع میں تھا، اس ادارے نے ایک وقت میں سو فی صد پروڈکشن بھی دی ہے۔ پاکستان اسٹیل ملز کی نج کاری مسئلے کا حل نہیں ہے اور میں یہ سمجھتا ہو کہ اسے بیچنے کے بلند و بانگ نعرے لگانے والوں کی نظریں پاکستان اسٹیل ملز کی اربوں روپے مالیت کی ہزاروں ایکڑ زمینوں پر ہے، نج کاری کی صورت میں اس قیمتی زمین کو بیچ کر ادارے کو ٹھکانے لگا دیا جائے گا۔ محمد مشفع کا کہنا ہے کہ اس ادارے کو خسارے سے نکالنے کا واحد طریقہ یہی ہے کہ اسے سمجھ دار اور ایمان دار افسران/ بیوروکریٹ کے حوالے کیا جائے، اس کی زمینوں پر ’’ڈائون اسٹریم انڈسٹریز‘‘ لگائی جائیں، تو یہ دوبارہ ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرنا شروع کردے گا۔

 photo Pakistansteelmill5_zps8848d6b4.jpg

پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کے بارے میں مرزا طارق جاوید کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل کی ورک فورس بہت تربیت یافتہ اور اپنے ادارے کے ساتھ مخلص ہے اور آپ نے ایسے ورکر کہیں نہیں دیکھے ہوں گے جو تن خواہ سے پہلے خام مال کا پوچھتے ہیں، بس سے اترتے ہی اُن کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ ’’ کہیں کوئی شپ لگا ہے؟‘‘، ہم سب اپنے ادارے سے محبت کرتے ہیں اور اس ادارے نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے۔ سیاسی بنیادوں پر بھرتی کے بارے میں اکبر ناریجو اور اور مرزا طارق جاوید کا موقف ایک ہی ہے۔ ان کا کہنا ہے پاکستان اسٹیل ملز وہ ادارہ ہے جہاں پچھلے پانچ سالوں میں سیاسی بنیادوں پر ایک بھی بھرتی نہیں کی گئی ہے اور جن 5 ہزار سات سو ملازمین کو مستقل کیا گیا ہے وہ پندرہ، بیس سالوں سے ڈیلی ویجز پر کام کر رہے تھے۔ طارق جاوید کا کہنا ہے کہ اب تو کُل ملازمین کی تعداد ہی پندرہ ہزار ہے، اگلے پانچ سالوں میں ہمارے پانچ ہزار ملازمین ویسے ہی ریٹائر ہو رہے ہیں تو پھر ملازمین ادارے پر کہاں سے بوجھ ہیں۔ آج ہمارے ملازمین کی تن خواہ دوسرے اداروں سے زیادہ ہے۔ ہمارے ایک چپڑاسی اور ڈرائیور کی تن خواہ 35 ہزار ہے لیکن وہ ادارے پر بوجھ نہیں ہے۔ ماضی میں تو پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین کی تعداد 25ہزار سے زاید تھی اور اس کے باوجود ادارہ منافع میں تھا۔

ملازمین کو دست یاب طبی سہولتوں کے حوالے سے اسٹیل ملز بچائو تحریک کے راہ نما یاسین جاموٹ کا کہنا ہے کہ اس وقت پاکستان اسٹیل ملز کے ملازمین طبی سہولیات سے مکمل طور محروم ہیں۔ نہ انہیں دوائیں مل رہی ہیں اور نہ ہی پینل پر موجود ہسپتال اُن کا علاج کر رہے ہیں۔ اور کسی ایمرجنسی کی صورت میں بھی پینل پر موجود ہسپتال مریض کو طبی امداد فراہم نہیں کر رہے، جب کہ تنویر ایوب کا کہنا ہے کہ تن خواہوں کی عدم ادائیگی پر ملازمین بہت کسمپرسی کی حالت میں جی رہے ہیں۔ زیادہ تر ملازمین کے بچوں کو فیس نہ دینے پر اسکولوں سے نکال دیا گیا ہے، اُن کے گھروں میں فاقوں کی نوبت آگئی ہے اور میں آپ کو یہ بات بھی بتادوں کہ معاشی مشکلات کی وجہ سے گذشتہ دو ماہ میں 27 ملازمین دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر چکے ہیں، آپ اس بات کی تصدیق پاکستان اسٹیل ملز کے میڈیکل ڈیپارٹمنٹ سے بھی کر سکتے ہیں اور حال ہی میں ہمارے سی آر ایم ڈیپارٹمنٹ کے ساتھی شریف بھٹو بھی دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوئے ہیں۔

پاکستان اسٹیل ملز کی موجودہ مالی حالت کے بارے میں پاکستان اسٹیل ملز کی ’’پروگریسیو ورکرز یونین‘‘ کے سابق جنرل سیکریٹری محمد مشفع کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز ایک ’’مدر انڈسٹری‘‘ ہے اور یہاں میں ایک بات یہ واضح کردوں کہ کسی بھی ملک میں مدر انڈسٹری کما کر نہیں دیتی بلکہ اس کی کمائی ’’ڈائون اسٹریم اسٹیل انڈسٹری ‘‘ ہوتی ہے، جس سے آپ اسٹیل ملز میں بننے والے فولاد سے سوئی سے لے کر جہاز تک بناسکتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کے قیام کے وقت ہزاروں ایکڑ زمین بھی فراہم کی گئی تھی، جس کا مقصد وہاں ’’ڈائون اسٹریم انڈسٹری‘‘ کا قیام تھا، لیکن بھٹو حکومت کے بعد آمر ضیاء الحق کی حکومت نے وہاں ’’ڈائون اسٹریم انڈسٹری‘‘ نہیں بنائی اور مفاد پرست عناصر نے اس ادارے کو اپنے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان اسٹیل ملز کی تباہی کی ذمے دارالحکومت ہے، کیوں کہ اس ادارے کے اعلیٰ عہدوں پر نان ٹیکنیکل اور نا اہل افراد بٹھا دیے گئے۔ اُس وقت پاکستان اسٹیل ملز کو ترقی کی راہ پر گام زن کرنے میں عابد حسین مرحوم اور حق نواز اختر کا اہم کردار تھا، کیوں کہ یہ دونوں افسران منجھے ہوئے اور ایمان دار بیوروکریٹ تھے۔ ادارے کی معاشی بدحالی میں مزدور یونینز کے کردار پر محمد مشفع کا کہنا ہے کہ مزدور یونینز مزدوروں اور انتظامیہ کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتی ہیں اور پاکستان اسٹیل ملز کی حدود میں آج تک مزدوروں کی وجہ سے کوئی بڑا دنگا فساد نہیں ہوا ہے اور اس کی بنیادی وجہ پُر امن یونین ہے، ادارے کی موجودہ صورت حال کی ذمے داری کافی حد تک انتظامیہ پر عاید ہوتی ہے تو اس میں کچھ کردار یونین کی عاقبت نااندیشی کا بھی ہے۔

 photo Pakistansteelmill6_zps765d78f6.jpg

’’گھر ادھار پر چل رہا ہے‘‘

پاکستان اسٹیل ملز میں بہ طور ڈرائیور کام کرنے والے علی محمد کا کہنا ہے کہ میرے 5 بچے ہیں اور سب زیرتعلیم ہیں، چھوٹی بچی کے اسکول والوں نے نوٹس دیا ہوا ہے کہ فیس جمع نہ کروانے پر اسے اسکول سے نکال دیا جائے گا، صرف 2 ہزار امتحانی فیس جمع نہ کرنے پر ایک بیٹا میٹرک کا امتحان نہیں دے سکا اور اس کا قیمتی سال ضایع ہوگیا، بڑے بیٹے کی پڑھائی چھڑوا کر اُسے کام سیکھنے پر لگا دیا ہے، کیوں کہ میرے پاس اُس کی کالج کی فیس بھرنے کے لیے پیسے نہیں ہیں، مالک مکان نے اگلے ماہ گھر خالی کرنے کا نوٹس دے دیا ہے، کیوں کہ اُسے دیا گیا ایڈوانس بھی ختم ہو چکا ہے اور دو ماہ کا کرایہ بھی مجھ پر قر ض ہو گیا ہے۔ علی محمد کا کہنا ہے ہمارے گھر کا دال دلیہ صرف ادھار پر چل رہا ہے۔ علی محمد نے بتایا کہ ابھی جو تنخواہ ملی وہ لوگوں کے ادھار میں چلی گئی اور اب صرف اﷲ کا ہی آسرا ہے۔ ان سب مشکلات کے باوجود علی محمد کو پاکستان اسٹیل کے حالات بہتر ہونے کی امید ہے۔ علی محمد کا کہنا ہے کہ اِس ادارے میں ہم نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب ایک سال میں دو بونس ملتے تھے، تن خواہ مقررہ تاریخ سے پہلے ہی مل جایا کرتی تھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔