دہشت گردی ، دشمن کی ایک چال

ایڈیٹوریل  ہفتہ 14 مئ 2022
ایک طرف جہاں پاکستان اندرونی سیکیورٹی مسائل میں الجھا ہوا ہے وہیں دنیا میں بھی سیکیورٹی کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ فوٹو: فائل

ایک طرف جہاں پاکستان اندرونی سیکیورٹی مسائل میں الجھا ہوا ہے وہیں دنیا میں بھی سیکیورٹی کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ فوٹو: فائل

کراچی کے مصروف کاروباری علاقے صدر میں بم دھماکے کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق جب کہ تیرہ افراد زخمی ہوگئے، چھ سے زائد گاڑیاں تباہ جب کہ املاک کو بھی نقصان پہنچا ، بم ڈسپوزل اسکواڈ کے مطابق دھماکا خیز مواد سائیکل کے پیچھے کیریئر میں نصب تھا ۔ بم دو سے ڈھائی کلوگرام وزنی اور دیسی ساختہ تھا ، بم میں بال بیئرنگ استعمال کیے گئے۔

کراچی میں دہشت گردی کے واقعات کا جنم لینا انتہائی خطرناک ہے ، ایک ہفتے قبل کراچی یونیورسٹی کے گیٹ پر خاتون خودکش بمبار نے خود کو اڑا لیا تھا جس کے نتیجے میں چینی اساتذہ ہلاک ہوگئے تھے ، خدانخواستہ اس طرح کے مزید واقعات رونما ہوتے ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دشمن ہمارے ملک کے اہم ترین معاشی و تجارتی شہر میں خوف و ہراس پیدا کرکے ملکی معیشت کا پہیہ جام کرنا چاہتا ہے ۔

درحقیقت ملک بھر میں ماہ جنوری سے شروع ہونے والی دہشت گردی کی نئی لہر افسوسناک اور ملکی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔ اخبارات کی فائلیں اٹھا کر دیکھ لیجیے ، ملک کے طول و عرض میں دہشت گردی کے واقعات تسلسل سے ملک کے چھوٹے، بڑے تقریباً تمام شہروں میں رونما ہوئے ہیں، جن کے نتیجے میں متعدد قیمتی جانوں کا ضیاع ہوچکا ہے۔ پہلے ایسے واقعات کا سلسلہ زیادہ تر خیبرپختونخوا کے جنوبی اور قبائلی اضلاع تک ہی محدود تھا۔

ایسے میں سوال اٹھ رہا ہے کہ ان واقعات میں اضافے کی وجوہات کیا ہیں اور وہ کون سے عوامل ہیں جن کے باعث اس وقت دہشت گردی کی ایک نئی لہر جنم لے رہی ہے جس کے دوران ملک کے شہری علاقوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کی لہر میں 2017ء کے بعد بتدریج کمی آنا شروع ہو چکی تھی۔ اس کا اندازہ اعداد و شمار کی مدد سے لگایا جائے تو ساؤتھ ایشیا ٹیریئر ازم پورٹل کے مطابق 2013 میں پاکستان میں دہشت گردی کے تقریباً چار ہزار واقعات ہوئے تھے جو 2020 میں کم ہو کر 319 رہ چکے تھے۔

ان میں سے بھی کئی واقعات ایسے تھے جن میں کالعدم تحریک طالبان، القاعدہ جیسے شدت پسند گروہوں کا کوئی عمل دخل نہیں تھا اور خیال کیا جا رہا تھا کہ ملک میں موجود دہشت گردوں کی کارروائیوں کا دائرہ کار انتہائی محدود ہو چکا ہے اور دہشت گرد گروہ ملک بدر کر دیے گئے ہیں۔ اس دورانیے میں ایسی رپورٹس بھی موصول ہوئیں کہ کالعدم تحریک طالبان کے زیادہ تر اراکین افغانستان فرار ہو چکے تھے اور کئی جیلوں میں قید ہیں۔

اگلے تین سالوں میں پاکستان میں امن کی واپسی ہوئی جسے بین الاقوامی طور پر بھی تسلیم کیا گیا۔ اس کا ایک اظہار پاکستان میں کرکٹ کی واپسی کی شکل میں بھی ہوا۔ گزشتہ برس اگست میں افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا اور اس کے نتیجے میں حکومت کی اچانک تبدیلی ایک ایسا واقعہ تھا جس کے اثرات پاکستان میں بھی محسوس کیے گئے۔

سیکیورٹی صورتحال کے تناظر میں اس تبدیلی کا تعلق ایسے گروہوں سے تھا جن کے بارے میں پاکستان کا مؤقف تھا کہ یہ گروپ افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں اور پاکستان میں دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث ہیں۔افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی تو پاکستان میں دو مختلف آرا پائی جاتی تھیں۔

حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان مذاکرات کی ناکامی دائمی ہے یا وقتی، اس سوال سے قطع نظر یہ بات واضح ہے کہ گزشتہ چار ماہ کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان نے نہ صرف دہشت گردی کے خاتمہ بلکہ افغانستان میں امن و استحکام کی بحالی کے لیے بھی عالمی اور علاقائی فورموں پر بھرپور کردار ادا کیا اور امریکا اور طالبان کے مابین امن مذاکرات بھی یقینی بنائے۔

پاکستان کے اس موثر کردار کی بنیاد پر ہی امریکی نیٹو فورسز اور ان کے شہریوں کے لیے افغانستان سے پرامن واپسی ممکن ہوئی جس کے بعد طالبان کو بغیر کسی مزاحمت کے کابل تک پہنچنے اور دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کا موقع ملا۔ جب طالبان حکومت پر عائد امریکی پابندیوں کے باعث افغانستان میں انسانی بحران کا آغاز ہوا تو پاکستان نے اس بحران سے نکالنے کے لیے بھی طالبان حکومت کے حق میں علاقائی اور عالمی فورموں پر آواز اٹھائی اور عالمی سطح کی کانفرنسوں کا بھی انعقاد کیا مگر طالبان نے اس کا صلہ پاک افغان سرحد پر لگائی گئی باڑ اکھاڑ کر دیا۔

اس طرح جن پتوں پر تکیہ تھا وہی پاکستان کو ہوا دیتے نظر آئے جب کہ طالبان حکومت کے ذمے دار افراد نے پاکستان کے ساتھ دھمکی آمیز لہجہ بھی اختیار کرلیا۔ طالبان حکومت کی اسی آشیرباد نے بھارتی دہشت گردوں کو پاکستان میں داخل ہونے اور یہاں دہشت و وحشت کا بازار گرم کرنے کا نادر موقع فراہم کیا۔

اس وقت پاکستان میں دہشت گردی کا جو نیا سلسلہ شروع ہوا ہے جس میں بطور خاص پاکستان کی سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے ، وہ طالبان کے دور میں بھی افغانستان کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مخاصمت کی پالیسی کا تسلسل برقرار رکھنے کا ہی شاخسانہ ہے۔

جس طرح افغان سیکیورٹی فورسز کی جانب سے پاکستانی علاقوں پر متعدد بار بمباری کی گئی ہے اور جنوبی وزیرستان میں پاکستان سیکیورٹی فورسز کے قافلے پر دہشت گردوں کی جانب سے حملے کیے جارہے ہیں۔ اس سے آنیوالے دنوں میں افغان سرحد کی جانب سے پاکستان کی سلامتی کو مزید خطرات لاحق ہونا خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ہمارے دشمن بھارت کو بھی یقیناً طالبان حکومت کی اس مخاصمانہ پالیسی کے باعث ہی اپنے تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں داخل کرنے اور یہاں دہشت گردی کے ذریعے عدم استحکام پیدا کرنے کا نادر موقع مل رہا ہے اس لیے افسوس ناک واقعات پر محض افغان ناظم الامور کو طلب کرکے انھیں رسمی احتجاجی مراسلے تھمانا ہی کافی نہیں بلکہ پاکستان کی اعلیٰ قیادت کو افغان اعلیٰ قیادت سے اس سلسلے کو روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنے پر بات چیت کرنا چاہیے۔

طالبان پر واضح کیا جائے کہ اگران کے پاس دہشت گردوں کو روکنے کے لیے کوئی نظام موجود نہیں تو پھر پاکستان ازخود آگے بڑھ کر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔یہ پاکستان کی سلامتی اور بقا کو مسئلہ ہے جس سے کسی بھی طور صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔

درحقیقت بھارت اپنے اندرونی معاملات سے توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہا ہے، لیکن اس منفی ہتھکنڈوں سے اسے پہلے کچھ ملا اور نہ ہی آیندہ ملے گا۔ بھارت کو چاہیے کہ اپنے اندرونی معاملات کو درست کرے اور مذہبی اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں سے جو نفرت روا رکھی جا رہی ہے، اسے دور کرے۔ پاکستان کے دشمن آسان ٹارگٹ تلاش کرتے رہتے ہیں۔

آرمی پبلک اسکول کے بدترین سانحہ کے بعد ریاست، حکومت، سیاسی و سماجی رہنماؤں کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف متفقہ ایجنڈا بنایا گیا تھا۔ یہ متفقہ ایجنڈا آج بھی موجود ہے اور یہی دہشت گردی کا خاتمہ کرسکتا ہے، نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ریاست و حکومت کی ذمے داری ہے۔ گڈ اور بیڈ طالبان کی تفریق کے بغیر تمام دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائیاں کرنی ہوں گی۔

بدقسمتی سے ہمارے ملک میں سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کی گزشتہ کچھ عرصے سے جاری مناقشت کی وجہ سے ملک میں جو سیاسی عدم استحکام اور انارکی کی صورتحال پیدا ہوئی ہے ، اسی سے ہمارے بیرونی دشمنوں بالخصوص بھارت کو بھی ہماری سلامتی کے خلاف سازشیں بروئے کار لانے کا نادر موقع مل رہا ہے اور پاکستان کے اندر محفوظ ٹھکانے بنانے والے دہشت گردوں کو بھی دوبارہ متحرک ہو کر دہشت گردی کی وارداتیں کرنے کا موقع ملا ہے۔

یہ صورتحال ملک کی سلامتی کے حوالے سے ہمارے نئے حکمرانوں کے لیے بھی یقیناً ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس سے ٹھوس حکمت عملی کے ساتھ عہدہ برآ ہونا ہی وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان نے بارہا افغان حکومت سے سرحدی علاقہ محفوظ بنانے کی درخواست کی ہے، دہشت گرد افغان سر زمین کو پاکستان کے اندر کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

ایک طرف جہاں پاکستان اندرونی سیکیورٹی مسائل میں الجھا ہوا ہے وہیں دنیا میں بھی سیکیورٹی کے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے۔ ایک طرف یمن کے تنازعہ کی وجہ سے خلیجی ممالک میں تلخی بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف یوکرین کی وجہ سے امریکا اور روس ایک دوسرے کے ساتھ پنجہ آزما ہیں۔ دنیا میں تیزی سے بدلتے حالات کو نظر انداز کرنا کسی صورت ممکن نہیں ہے کیونکہ یمن کا تنازعہ ہو یا یوکرین میں جاری جنگ دونوں میں شدت کے اثرات پاکستان پر ہونا لازمی امر ہے۔

ایسے میں پاکستان کو اندرونی محاذوں پر الجھانا دشمن کی ایک چال ہوسکتی ہے جس کے تحت مختلف اوقات میں مذہبی نمایندوں اور فورسز کو نشانہ بناکر الجھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ نو منتخب حکومت کے لیے یہ ضروری ہے کہ حالات کی سنگینی کا ادراک کرتے ہوئے اندرونی و بیرونی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے فوری اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ پاکستان کو اندرونی اور بیرونی محاذوں پر محفوظ بنایا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔