بیرونی تجارت اور ٹریڈ آفیسرز

محمد ابراہیم خلیل  ہفتہ 14 مئ 2022

تازہ ترین معاشی صورت حال یہ ہے کہ ہماری اپنی کرنسی کی بے قدری کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے کوئی اقدامات نظر نہیں آ رہے، کرنسی کی کمزوری ملکی معیشت کی نڈھالی نزاکت اور بدحالی کو عیاں کر رہی ہے۔

پہلی ترجیح اسی طرف دی جانی چاہیے تھی کہ برآمدات میں بہت زیادہ اضافہ کرتے اور درآمدات میں ان شعبوں میں بہت زیادہ کمی یا کسی قدر پابندی عائد کرنے کی ضرورت تھی جن مدوں کے تحت لگژری آئٹمز ، غیر ضروری درآمدات ، ایسی مصنوعات جن کا معیاری متبادل موجود ہے درآمد ہو رہی ہے صرف تفاخر یا اپنی امارت ظاہر کرنے کے لیے درآمدی مصنوعات کے استعمال کی سخت حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔

معیشت کے بہت سے معاملات اصلاح طلب ہیں۔ ان کی اصلاح ضروری تھی لیکن ایسے واضح اقدامات جلد اٹھانے کی ضرورت ہے جس سے روپے کو کچھ ڈھارس ملے۔ کچھ توانائی حاصل ہو۔ اس میں کچھ مضبوطی پیدا ہو ، تاکہ لڑکھڑاتا، لرزتا، کانپتا ہوا ہمارا روپیہ حکومتی پالیسیوں سے توانا ہو ، اس کی بے قدری کا سلسلہ رک جائے۔ پاکستان کو اپنی کرنسی کی مضبوطی کے لیے بہت سے شعبے ایسے ہیں جن کے ذریعے سے روپے کو مضبوط سے مضبوط تر کیا جاسکتا ہے۔

دو سال قبل روپیہ 160 روپے فی ڈالر تک جا پہنچا تھا پھر چند ایسے اقدامات اٹھائے گئے اور 153 روپے فی ڈالر تک کچھ عرصہ برقرار رہا اور آج کل صورت حال یہ ہے کہ روپے کی بے قدری کی نئی تاریخ رقم ہو چکی ہے۔ گزشتہ دنوں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مزید 0.72 فیصد (1.36روپے) کم ہونے کے بعد ڈالر تاریخ کی بلند ترین سطح 194. روپے پر پہنچ گیا۔ روپے کی شدید بے قدری کے باعث اب سونے کے نرخ بھی آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔

بتایا جاتا ہے کہ عالمی مارکیٹ میں فی اونس سونا11 ڈالر سستا ہونے کے باوجود مقامی مارکیٹوں میں اس کے نرخ 1300 روپے فی تولہ بڑھ گئے ہیں جس کے بعد فی تولہ سونا ایک لاکھ 35 ہزار 700 روپے کی ریکارڈ سطح پر پہنچ گیا، اگر برآمدات میں اضافے کی بات کریں تو حکومت مختلف اوقات میں مختلف ملکوں میں اپنے ٹریڈ آفیسرز مقرر کرتی ہے تاکہ متعلقہ ملک کے ساتھ باہمی تجارت میں اضافہ کیا جائے۔

اضافے کے لیے نئی راہیں تلاش کی جائیں ، کیونکہ برآمدات میں زیادہ اضافہ روپے کی قدر میں بہتری کا سبب بنتا ہے۔ موجودہ حکومت نے اس سلسلے میں 15 ٹریڈ آفیسرز کے انتخاب کے لیے پچھلی حکومت کی سفارشات پر حتمی منظوری دی ہے۔

یقینی طور پر یہ افسران ایسے ہونے چاہئیں جوکہ تعیناتی والے ملک جا کر نئے عزم، ولولے و حوصلے کے ساتھ دونوں ممالک کے باہمی تجارتی تعلقات کو بڑھائیں۔ وہاں کے امپورٹرزکے ساتھ افہام و تفہیم کے ساتھ ایسے تجارتی معاملات طے کریں تاکہ پاکستان سے اس ملک کے لیے برآمدات میں اضافہ ہو۔ گزشتہ چند سالوں سے پاکستان کے مختلف ممالک کے ساتھ تجارتی روابط اور برآمدات میں اضافے پر نظر ڈالی جائے تو چین کے لیے پاکستان کی برآمدات کے شیئر میں اضافہ ہوا ہے اور اب چین کے لیے پاکستان کی برآمدات کا حصہ بڑھ کر تقریباً 10 فیصد ہو چکا ہے۔

پی بی ایسے کی شایع کردہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی کل برآمدات میں امریکا کا شیئر 20.95 ہے۔ یہ رپورٹ جولائی تا ستمبر2021 تک کے سہ ماہی کی ہے۔ اس کے مطابق پاکستان کی کل برآمدات میں سے پہلے 20 ممالک کے شیئرز کو ظاہر کیا گیا ہے۔ جن میں دوسرے نمبر پر براجمان ملک چین ہے۔ چین کو پاکستان کی کل برآمدات میں سے 9.76 فیصد برآمدات ہوئیں۔ تیسرے نمبر پر برطانیہ ہے اس کا حصہ پونے 8 فیصد ہے۔

چند سال قبل پاکستان اور برطانیہ کی قیادت نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ دونوں ممالک کی باہمی تجارت کو 5 ارب پونڈ سے بھی زائد تک لے کر جایا جائے گا۔ بعد میں کورونا چھا گیا۔ اب برطانیہ کورونا پابندیوں سے آزاد ہو چکا ہے۔

برطانیہ جس وقت یورپی یونین میں شامل تھا، برطانیہ نے پاکستان کو یورپی یونین سے جی ایس پی پلس کا درجہ دلانے میں سرگرمی کا مظاہرہ کیا تھا ، اگر ہم دنیا کے ان ٹاپ20 ممالک کا جائزہ لیں جن کی پاکستان سے درآمدات ہو رہی ہیں یا پاکستان ان کو زیادہ مقدار میں برآمد کر رہا ہے اور ان ملکوں کا پاکستان سے آنے والی اشیا و مصنوعات کا حصہ کتنا ہے تو ان میں چند اہم ممالک یورپی یونین کے ہیں۔

خاص طور پر جی ایس پی پلس کا درجہ ملنے کے بعد پاکستان کے کئی یورپی یونین کے ممبران ملکوں کے ساتھ برآمدات کے شیئرز میں اضافہ ہوا ہے۔ پہلے کسی وقت یعنی چند سال قبل ہی افغانستان سے پاکستان جو برآمدات کی جاتی تھیں ان میں افغانستان تیسرے یا چوتھے درجے پر فائز تھا۔ اب جرمنی تیسرا بڑا شراکت دار ملک بن گیا ہے جوکہ یورپی یونین کا ممبر ہے جس کے لیے پاکستان کی کل برآمدات کا تقریباً 6 فیصد بنتا ہے۔

پھر نیدرلینڈ کا شیئر5.38 فیصد اور اسپین کا شیئر 3.93 اس دورانیے یعنی جولائی تا ستمبر 2021 کی کل برآمدات میں سے ساتویں نمبر پر متحدہ عرب امارات ہے۔ پھر اٹلی یورپی یونین کا ممبر ملک جس کا برآمدات میں شیئر 3.38 فیصد ہے۔ برادر اسلامی ملک بنگلہ دیش کا حصہ 3.20 فیصد اس کے بعد دسویں نمبر پر بیلجیم 2.51 فیصد اور اب پاکستان اور افغانستان کے تجارتی رشتے اتنے کمزور ہو گئے ہیں کہ اب افغانستان کے لیے پاکستان کی کل برآمدات میں سے 2.16 فیصد بنتا ہے۔

اگرچہ وہاں کے مالی حالات صحیح نہیں ہیں لیکن نئی طالبان حکومت کی آمد کے بعد سے تجارتی راہداریوں پر کچھ ایسے معاملات بھی ہوئے جن کے منفی اثرات مرتب ہوئے اور اس سلسلے میں پاکستان کے تجارتی حکام نے بھی کوئی خاص نوٹس نہ لیا کہ برآمدات میں کمی وہ بھی اتنی زیادہ کمی کیونکر ہوئی۔ بہرحال بارہویں نمبر پر فرانس پھر ملائیشیا اور کینیڈا اور نمبر 15 پر برادر اسلامی ملک سعودی عرب ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔