تیسرا دور طاقت کا تعاقب

طلعت حسین  اتوار 2 مارچ 2014
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12

www.facebook.com/syedtalathussain.official twitter.com/talathussain12

یہ ایک پہیلی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کے پاس ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی دہشت گردی سے دودو ہاتھ کرنے کے لیے کوئی لائحہ عمل ہے یا نہیں۔ زمینی حقائق اور عمو می شواہد تو یہ بتلا رہے ہیں کہ تیسرے دور میں اس اہم ترین قومی مسئلہ کو یہ حکومت ایسے ہی دیکھ رہی ہے جیسے ایک رکشے والا سواری کو دیکھتا ہے۔ مل گئی تو اٹھا لیں گے نہیں تو اپنی جگہ کھڑے انتظار کرتے رہیں گے۔ جمہوریت کی پو ری قوت، فیصلہ سازی کی دانش مندی اور نظام میں موجود مختلف اداروں کو اکٹھا کر کے طویل المدت اقدامات کرنے کی کو شش نہ ہونے کے برابر ہے۔ آٹھ ماہ میں سو صفحات پر مشتمل ایک مسودہ اور کل جماعتی کانفرنس کا مشترکہ اعلامیہ ان دو کاغذی کارروائیوں کے علا وہ، نواز شریف دہشت گردی اور ریاست کے اختیار کی مسلسل کمزوری کو روکنے کے لیے نظر یہ وقتی ضرورت سے زیادہ کی سوچ نہیں رکھتے۔ پاکستان اندرونی طور پر جگہ جگہ سے کمزور کیا جا رہا ہے۔

جوہری صلاحتیوں اور عسکری اثاثوں کے علاوہ اس وقت اس ملک میں کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جس کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ وہ ممکنہ دہشت گردی سے مکمل طور پر محفوظ ہے۔ مگر ان حا لات کے باوجود آپ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں کہ کا بینہ کے ایجنڈے پر یہ معاملہ کتنی دفعہ اولین ترجیع کے طور پر اٹھا یا گیا۔ کا بینہ کی دفاعی کمیٹی کا ا جلاس کتنی دفعہ بلوایا گیا۔ قو می سلا متی کی کمیٹی کے جیسے ادارے بنانے کے بعد اُن کو کیسے ردی کی ٹو کر ی کی نذر کر دیا گیا۔ کتنی مرتبہ صوبائی وزراء اعلی اور مختلف جماعتو ں کے نمایندگان کو بڑھتے ہوئے قومی خطرات کے پیش نظر اکھٹا کیا گیا۔ ان سوالوں کے جوابات میں آپ کو اس حکومت کی اس معاملے سے متعلق عدم توجہی کی مثالیں مل جائیں گی۔

ہاں چند ایک ہر وقت حاضر لکھاریوں کے ذریعے اخبارات میں طرح طرح کی خبر یں چھپوا کر یہ تصور ضرور پیدا کر دیا گیا ہے کہ جیسے وزیراعظم دن رات اسی مسئلہ کے بارے میں سوچتے ر ہتے ہیں۔ اور پھر ٹیلی ویژن تو ہے ہی۔ اپنے تیسر ے دور کے شروع میں نواز لیگ کے ذرایع ابلاغ کو سنبھالنے والوں نے پاکستان کے ایک بڑے نیٹ ورک سے خوش اسلوبی سے معاملات طے کر لیے ہیں۔ جو اس حکومت کے خارجہ اور دفاعی پالیسی کے ایجنڈے کی تکمیل اور اندرونی خا میوں کو چھپانے میں اپنی  خدمات پیش کر تا ہے۔ ذرایع ابلاغ کو میاں نواز شریف نے پچھلے دو ادوار میں ڈنڈے کے ذریعے سیدھا کرنے کی کوشش کی تھی‘ اس مرتبہ گاجریں کھلا کھلا کر من پسند ادارو ں کا پیٹ اتنا بھر دیا ہے کہ ان کے منہ بند ہو گئے ہیں۔ لہذا دہشت گردی پر حکومت کے گول چکر اُس مخصوص ٹی وی چینل اور اس کے اخبارات کے ذریعے سیدھی لکیر کی طرح پیش کیے جاتے ہیں۔ حکومت کا گھامڑ پن اس کی عقل مندی اور اُس کی بے وقوفیاں دانش مندی کی شمع کی طرح پیش کی جا تی ہیں۔

بڑا سوال یہ ہے کہ اگر یہ حکومت اہم ترین معاملات پر اپنا وقت صرف نہیں کر رہی تو پھر کیا کر رہی ہے۔ جو اب اتنا سادہ ہے کہ شاید نا قابل یقین لگے۔ لیکن حقیقت یہی ہے کہ پہلے دو ادوار کی طرح اس مرتبہ بھی میاں نواز شریف خود کو اتنا طاقت ور بنوانا چاہتے ہیں کہ ملک میں ان کی داستان کے علاوہ کوئی اور سیاسی داستان باقی نہ رہے۔ اس ضمن میں نواز لیگ کی پالیسی تین عناصر پر مبنی ہے۔ پہلا عنصر پیپلز پارٹی کے ساتھ بذریعہ سابق صدر آصف علی زرداری بہتر ین دوستی اور اچھے تعلقات قائم رکھنا ہے۔ اکا دکا واقعات کے علاوہ نواز لیگ نے پچھلے ادوار کی نسبت اس مرتبہ  طاقت میں آنے کے بعد  پیپلز پارٹی کو رگڑنے کی کوشش نہیں کی۔ ظا ہرا ًیہ ایک بہترین جمہوری رویہ ہے۔ لیکن اصل میں یہ آصف علی زرداری اور وزیراعظم نواز شریف کے درمیان اُس خاموش معاہدے کا عکس ہے جس کے تحت سابق صدر نے تمام تر تنازعوں کے باوجود اپنے اثاثوں کو مکمل طور پر بچاتے ہوئے انتہائی خوش دلی سے پانچ سال مکمل کیے۔

اور اب بغیر کسی پریشانی کے آرام سے زندگی گزار  رہے ہیں۔ نواز لیگ کی طرف سے الیکشن کے دنوں میں سابق وزراء کی مبینہ بدعنوانیوں کے بارے میں کان کے پردے پھاڑ دینے والی چیخ و پکار ہوا کرتی تھی۔ کیا خواجہ آصف کیا چوہدری نثار، کیا سعد رفیق اور کیا مشاہد اللہ۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ یہ شیر بدعنوانی کو موقع ملتے ہی چیڑ پھاڑ کر رکھ دے گا۔ وزیراعلی شہباز شریف نے بدعنوانی کے خلاف بات کرتے ہوئے ناجانے کتنے مائیک توڑ دیے۔ مگر آج یہ سب مجاہد انتہائی خاموشی سے اس معاہدے کی اطاعت میں اپنا اپنا کا م رہے ہیں جو وزیراعظم نواز شریف نے خود کو مستحکم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کی قیادت سے کیا ہوا ہے (معاہدے کے لیے دستاویز کی ضرورت نہیں پیغام پہنچانے والے چرند پرند ہی کافی ہیں)  دوسرا عنصر کھلائو پلائو اور خوش رکھو کی آزمودہ پالیسی پر مبنی ہے۔ ٹوٹی پھوٹی قاف لیگ کے بے کس ممبران کی دل جوئی،  مولانا فضل الرحمن کی اوطاق پر اشیاء خور و نوش کی مسلسل فراہمی وغیرہ اس پالیسی کا نتیجہ ہے۔ جماعت اسلامی کو پنجاب میں خوب خوش رکھا ہوا ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچ جماعتوں کو ’’کبھی نہ چھیڑیں گے ہم‘‘ کے اصول کے تحت سیاسی طور پر مثبت رابطے میں رکھا ہوا ہے۔ تیسرے عنصر کا تعلق پاکستان تحریک انصاف کا ہر حالت میں ناطقہ بند کرنے کے عمل سے ہے (اگرچہ  جس طریقے سے پاکستان تحریک انصاف اپنی سیاست کر رہی ہے اسکو جکڑنے کے لیے کسی خاص اہتمام کی ضرورت نہیں۔ یہ موضوع تفصیل کے ساتھ کسی اور کالم میں اٹھائوں گا) صوبہ پنجاب میں افسر شاہی، پٹواری، تھانہ، کچہری، مقامی میڈیا اور اُن تمام ذرایع پر قابو پانا ہے جو بلدیاتی انتخابات میں اہم کر دار ادا کر سکتے ہیں، نواز لیگ کی اس پالیسی کا حصہ ہے۔ کوئی ایسا موقع جس کے ذریعے پا کستان تحر یک انصاف کو سیاسی نقصان پہنچ سکتا ہے ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔ ملک میں سیاسی مخالفین کے ساتھ یہ رویہ نیا نہیں ہے۔ مگر جس توجہ اور دل جمعی کے ساتھ نواز لیگ نے اپنی تمام توانائیاں پاکستان تحر یک انصاف کو لگام ڈالنے کے لیے استعمال کی ہوئی ہیں اُس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔ ظا ہر ہے وزیر اعظم نواز شریف خود کو کسی ایسی صورت حال سے دوچار ہونے نہیں دینا چاہتے جہاں پنجاب سیاسی طور پر ان کے ہاتھ سے نکل جائے یا وہاں پر سیا سی طاقت اس بری طرح ٹو ٹ جائے کہ نواز لیگ کی بنیا د متاثر ہونے لگے۔

دوسرے دو ادوار کی طرح تیسرے دور کا آغاز بھی میاں نواز شریف نے طاقت اکھٹا کرنے کے اس عمل سے کیا ہے جو ایک خاص حد سے آگے ایسی بیماری میں تبدیل ہو جا تا ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔ جمہوریت میں خود کو استحکام دینے کی بڑی گنجا ئش موجود ہے۔ ووٹ حاصل کرنے کے بعد حکومتیں اور جماعتیں بہت سے ایسے کام بھی کر سکتی ہیں جو عمومی طور پر معیوب اور اوچھے ہتھکنڈوں کے زمرے میں آتے ہیں۔ لیکن جب نصب العین مکمل طاقت کا نہ ختم ہونے والا تعاقب ہو تو جمہوریت کی گنجائش وہ پھندہ بن جاتی ہے جس میں پھنسنے کے بعد حکومت اور قوم کے لیے سانس لینا دوبھر ہو جاتا ہے۔ شریف برادران پہلے دو ادوار میں جن تجربات سے گزرے تھے اُس کے بعد طاقت کے تعا قب میں کمی آنی چاہیے تھی۔ بد قسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا۔ مشیران بدل گئے ہیں۔ لیکن ابھی بھی میاں نواز شریف کو وہی مشورہ دیا جا رہا ہے جو اُن کے کانوں کو ہمیشہ بھاتا ہے (پے جائو میاں صاحب)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔