وزیرستان: کلاشنکوف کلچر ختم ہوچکا ہے

عبدالکریم  بدھ 25 مئ 2022
وزیرستان سیاحت کے لحاظ سے ایک زرخیز خطہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

وزیرستان سیاحت کے لحاظ سے ایک زرخیز خطہ ہے۔ (فوٹو: فائل)

وزیرستان کا نام سنتے ہی دہشت گردی، قتل و غارت، ٹارگٹ کلنگ، خودکش دھماکوں کے خونیں مناظر کی متحرک تصاویر ذہن کے پردے پر چلنے لگتی ہیں۔ یہی مناظر ہمارے ذہن میں بھی گردش کرنے لگے جب ہم نے فیصلہ کیا کہ ہمیں وزیرستان جانا ہے۔

رخت سفر باندھ کر جب کوئٹہ سے وزیرستان کی طرف روانہ ہوئے تو ایک خبر موبائل اسکرین پر نمودار ہوئی جس میں ایک جرگے کا فیصلہ تھا کہ وہ نہیں چاہتے کہ ایک بار پھر اپنا گھر بار چھوڑ کر نقل مکانی کریں۔ اس بابت جرگہ خود تحریک طالبان پاکستان کے لیڈرشپ سے جاکر بات کرے گا۔ یاد رہے گزشتہ ماہ سے سیکیورٹی اداروں پر متعدد حملے ہوئے جس کی بنیاد پر فوج شمالی وزیرستان میں محسود قوم کے علاقے اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں آپریشن کرنا چاہتی ہے۔

مذکورہ خبر پڑھ کر ہمارے خوف میں مزید اضافہ ہوا کہ کہیں ہم اس دوران پھنس نہ جائیں۔ لیکن ہم اپنے فیصلے پر ڈٹے رہے اور اپنا سفر جاری رکھا۔ رات کے 12 بجے ہم ڈیرہ اسماعیل خان پہنچے، وہاں رات گزاری اور صبح دوبارہ سفر شروع کیا۔ ہم نے اپنے روٹ میں تبدیلی بھی کی۔ پہلے ہم چاہتے تھے کہ ٹانک کے راستے جنوبی وزیرستان میں داخل ہوں۔ لیکن وزیرستان میں موجود اپنے میزبان کی تجویز پر ہم نے اپنا روٹ تبدیل کردیا اور بنوں کے راستے شمالی وزیرستان میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا۔

جب ہماری گاڑی بنوں شہر سے کچھ فاصلے پر موجود سیدگئی چیک پوسٹ پہنچی، جوکہ وزیرستان کی حدود میں پہلی چیک پوسٹ ہے۔ یہاں پر ہم تلخ تجربے سے گزرے۔ مذکورہ چیک پوسٹ پر ہمیں ڈھائی گھنٹے تک انتظار کرنا پڑا۔ ہمیں بتایا گیا چونکہ ہم بلوچستان سے آئے ہیں تو ہمیں پہلے شمالی وزیرستان کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں انٹری لازمی کروانی چاہیے تھی۔ چونکہ ہم نے انٹری نہیں کی تو اپنے میزبان کو کال کی۔ انہوں نے انٹری کا عمل مکمل کیا اور اس کے بعد ہمیں وزیرستان میں داخلے کی اجازت ملی۔

سیدگئی چیک پوسٹ پر سیکیورٹی اداروں کے چاق و چوبند دستوں کی زیادہ آمدورفت سے ہمیں لگا کہ ہم ایک جنگ زدہ علاقے میں خطرہ مول لے کر جارہے ہیں۔ میرانشاہ تک ہمارے ذہنوں میں خوف منڈلا رہا تھا کہ ہم کسی بھی وقت ایک خطرناک حملے میں گھر سکتے ہیں۔ لیکن سیدگئی چیک پوسٹ سے میرانشاہ تک ہمیں جنگ سے متاثرہ مکانات نظر نہیں آئے۔

جب میرانشاہ پہنچے تو سہ پہر کے تین بج رہے تھے۔ ہمارا میزبان ہمارا منتظر تھا، وہ نہایت گرم جوشی سے ملا اور پہلے پہل نماز پڑھنے کےلیے مسجد لے گیا۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد پاکستان مارکیٹ کے قریب واقع ہوٹل میں دوپہر کا کھانا تناول کیا۔ اس کے بعد میرانشاہ بازار دیکھنے کا قصد کیا۔ چونکہ عید کے دن تھے تو بازار میں گہماگہمی معمول سے کم تھی۔ ہمارے میزبان نے بتایا کہ میرانشاہ کا بہت بڑا بازار تھا جو تقریباً سات ہزار سے زائد دکانوں پر مشتمل تھا۔ روزانہ کروڑوں کا کاروبار ہوتا تھا لیکن آپریشن کے دوران مکمل بازار ملیامیٹ ہوگیا۔

میزبان نے گاڑی ایک جدید طرز پر بنی مارکیٹ کی طرف موڑتے ہوئے کہا کہ یہ مارکیٹ حکومت نے پہلے والے بازار کے مقام پر بنائی ہے۔ لیکن یہ آدھی مارکیٹ جائیداد کے تنازعات کی وجہ سے بند پڑی ہوئی ہے۔ گاڑی مارکیٹ کے پیچھے والے حصے میں پارک کرکے ہمیں بتایا گیا کہ اس مقام پر اسحلہ کی ایک بہت بڑی مارکیٹ تھی اور اس کے ساتھ کئی منزلہ پلازے ایستادہ تھے جو کہ بارود کی نذر ہوگئے ہیں۔ وہاں پر اب پلازوں کی جگہ ملبہ نظر آتا ہے۔

میرانشاہ سرحدی شہر ہونے کی وجہ سے کاروباری مرکز تھا لیکن اب سرمایہ کار یہاں سرمایہ کاری کرنے سے کتراتے ہیں۔ میرانشاہ سے بارہ کلومیٹر مشرق کی طرف غلام خان سرحد واقع ہے، جس کو حکومت نے بہتر طور پر تعمیر کیا ہے۔ یہ سرحد پاکستان کو وسط ایشیا سے ملاتی ہے۔ تجارت کےلیے یہ ایک بہترین روٹ ہے۔

دن ڈھلنے کو تھا، رات گزارنے کےلیے ہم نے سروبی علاقے کا رخ کیا جو کہ ہمارے میزبان کا گاؤں ہے۔ میرانشاہ سے ہمارے ساتھ سرسبز پہاڑوں نے بھی سفر شروع کیا اور یہاں سے ہمارے ذہنوں میں وزیرستان کے بارے میں جو نقشہ تھا، وہ تبدیل ہونا شروع ہوا۔

ہمیں وزیرستان کا وہ چہرہ نظرآنے لگا جو دنیا سے کئی سال سے چھپا رہا ہے۔ وزیرستان کی خوبصورتی دیکھ کر مجھ سمت میرے دوست حیرت زدہ ہوگئے۔ بل کھاتی سڑک کی طرح ہمارے چہروں کے تاثرات بھی دیکھنے کے لائق تھے۔ بلند وبالا چنار اور نشتر کے درخت بارش کے پانی سے نہائے ہوئے تھے۔ ان کے صاف وجود سے پانی کی بوندیں ٹپک رہی تھیں۔ جب ہوا ان درختوں کے نرم پتوں سے ٹکرا کر انسانی وجود کو چھوتی ہے تو آپ کے وجود میں ایک رومانویت انگڑائی لیتی ہے۔

جو ہم سوچ کر آئے تھا، ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ اس دوران ہم نے اپنے میزبان سے سوال پوچھا۔ اس کی آواز میں بیس سال کا درد چھپا تھا۔ کہنے لگا کہ آپ لوگ بھی ہمیں دہشت گرد، قاتل، وحشی اور انسانیت دشمن سمجھتے تھے؟ مجھ سے جھوٹ نہ کہا گیا اور میں نے اقرار کرلیا کہ ہم بھی انھیں اسی میڈیا کی نظر سے دیکھ رہے ہیں جو خبریں ہم تک پہنچتی ہیں۔

سروبی میرانشاہ سے پندرہ منٹ کی مسافت پر واقع ایک خوبصورت علاقہ ہے۔ ہم نے سروبی کے علاقے میں عصر کی نماز پڑھی۔ نماز کے بعد مسجد میں موجود بزرگوں سے علیک سلیک کے بعد ان سے اجازت چاہی تو مہمان نوازی کےلیے مشہور وزیرستان کے غیور بزرگوں نے رات کو ٹھہرنے کےلیے سختی سے اصرار کیا۔ لیکن ہمارے میزبان نے بزرگوں کو سمجھایا کہ ہم ان کے مہمان ہیں، اسی لیے ہم سروبی کے طرف جارہے ہیں۔

مسجد سے باہر نکلے تو دیکھا مسجد کے قریب میدان میں فٹبال کا مقابلہ ہورہا تھا۔ جس کو دیکھنے کےلیے بڑی تعداد میں مقامی تماشائی بیٹھے ہوئے تھے جو کھلاڑیوں کو وقتاً فوقتاً داد رہے تھے۔

رات کے اندھیروں نے وزیرستان کو اپنی آغوش میں لے لیا تھا۔ ہر سو ایک عجب سی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ انٹرنیٹ بند تھا اور بجلی دن میں زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے ہوتی تھی۔ لوگوں کا انحصار شمسی توانائی پر تھا۔ انٹرنیٹ بند ہونے سے ہمیں یہ فائدہ ہوا کہ ہم نے مقامی لوگوں سے مختلف موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی۔ لیکن مقامی لوگوں کو بہت زیادہ مشکلات درپیش ہیں۔ وہ انٹرنیٹ کے حصول کےلیے میرانشاہ کا رخ کرتے ہیں۔ وہاں پی ٹی سی ایل کا انٹرنیٹ موجود ہے۔

ہمارے میزبان نے عشائیہ پر قبائلی روایات کے مطابق بہترین انتظام کیا ہوا تھا۔ خصوصی طور پر وزیرستان کی مشہور ڈش دم پخت مرغی تھی۔ یہ ڈش بے حد لذیذ اور ذائقہ دار تھی۔ کھانا تناول کرنے کے بعد تھکن اور اگلے دن کی مصروفیات کا سوچ کر جلد ہی ہم نیند کی وادیوں میں اتر گئے۔ چنار کے درختوں پر پرندوں کی چہچہاہٹ سے ہم نے نئی صبح کا آغاز کیا۔ اب ہماری منزل رزمک اور جنوبی وزیرستان کا علاقہ شوال تھا۔

تقریباً ایک بجے کے قریب ہم رزمک کے مقام پر پہنچے۔ رزمک کی خوبصورتی دیکھنے کے لائق ہے۔ مقامی لوگوں کے مطابق یہاں روز بارش لازمی برستی ہے، جس سے اس وادی کی خوبصورتی میں نکھار آجاتا ہے۔ جس وقت ہم وہاں پہنچے تو بادل اپنی صفیں ترتیب دے رہے تھے۔ تھوڑی دیر کے بعد گرج چمک نے بادلوں سے بوندوں کے برسنے کی نوید سنا دی۔ ہمیں لگا کہ ہم رزمک میں نہیں بلکہ یورپ کے کسی ملک میں ہیں۔ کیونکہ بارش کے برستے ہی رزمک مزید صاف ہوگیا، عموماً پاکستان کے شہری اور دیہی علاقوں میں بارش کے ساتھ ہی گندگی باہر سڑکوں پر آجاتی ہے۔ لیکن یہاں ایسا نہ تھا۔

رزمک سے ہم جنوبی وزیرستان کے علاقے شوال تک گئے۔ اگر میں یہ کہوں کہ شوال روئے زمین پر خوبصورت ترین علاقہ ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ سرسبز میدان، چنار اور نشتر کے درختوں سے بھرے خوبصورت پہاڑ اور اس کے ساتھ ایک رومان پرور موسم جو کسی بھی انسان کو اس کے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ زندگی میں اگر کبھی بھی موقع ملے تو وزیرستان اور وہاں کا علاقہ شوال اور رزمک لازمی جانا چاہیے۔ شوال کے علاقے میں چلغوزے کی پیداوار بھی وافرمقدار میں ہوتی ہے لیکن مقامی لوگ اس پیداوار سے بدامنی کے باعث مستفید نہیں ہوپارہے ہیں۔

شوال سے واپس ہم مکین کی طرف آئے۔ مکین محسود قوم کا مسکن ہے۔ سیکیورٹی اداروں کے مطابق یہ علاقہ ابھی تک کلیئر نہیں ہے تو وہ اس علاقے میں دوبارہ آپریشن کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن مقامی لوگ واپس اپنے گھروں کو چھوڑنے کےلیے تیار نہیں ہیں۔ ان کے مطابق دس سال تک انہوں نے کیمپوں میں دربدری کی زندگی گزاری ہے۔ اب وہ مزید کیمپوں میں نہیں رہنا چاہتے۔ اس مناسبت سے محسود قبائل نے ٹانک میں جرگہ منعقد کیا اور اس میں یہ فیصلہ ہوا کہ محسود قوم کے مشران تحریک طالبان پاکستان سے بات کریں گے کہ وہ مکین اور اس کے آس پاس دہشتگردانہ کارروائی نہ کریں۔ یاد رہے عید کے بعد شمالی وزیرستان میں اِکا دُکا دہشت گردی کے واقعات سامنے آئے جس کی بنیاد پر حکومت اس علاقے میں ایک بار پھر آپریشن کرنا چاہتی ہے۔

ہم نے مکین بازار کو پرسکون پایا، کوئی ایسی بات محسوس نہیں کی جس سے لگے کہ یہاں مسقبل میں کوئی جنگ ہونے جارہی ہے۔ اتفاق سے ہمیں وہ لوگ بھی دکھائی نہیں دیئے جو ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہیں، جن کی وجہ سے یہاں کے مقامی لوگ بھی زیر عتاب آئے ہوئے ہیں۔ ہم نے مسلسل دو گھنٹے بلند وبالا پہاڑوں کے درمیان مسلسل سفر کیا۔ مجموعی طور پر وزرستان کے لوگ زندگی سے محبت کرنے والے ہیں۔ اس کا اندازہ وزیرستان کے نوجوانوں کی مخصوص ٹوپیوں میں لگے تازہ پھولوں سے لگا سکتے ہیں۔

آپریشن ضرب عضب کے بعد وزیرستان میں جو اہم تبدیلی ہمیں دیکھنے کو ملی وہ کلاشنکوف کلچر کا خاتمہ ہے۔ ہم نے پورے شمالی وزیرستان میں کسی شخص کے ساتھ اسلحہ نہیں دیکھا، جو کہ ایک مثبت تبدیلی ہے۔ دوسری اہم تبدیلی وزیرستان کے لوگوں میں سیاسی شعور بیدار ہوچکا ہے۔ اور اس کے ساتھ جو بات ہم نے اپنے سفر کے دوران محسوس کی وہ نوجوانوں میں شعر و شاعری سے لگاؤ تھا۔ نوجوان اپنے شعروں میں مٹی اور زندگی سے محبت کا درس دیتے ہوئے ہمیں نظر آئے۔

حیرت کی بات یہ تھی کہ زرخیز زمین ہونے کے باوجود زراعت اور گلہ بانی ہمیں دیکھنے کو نہیں ملی۔ وزیرستان سیاحت کے لحاظ سے ایک زرخیز خطہ ہے، بس اس پر توجہ کی ضرورت ہے۔ سیاح اب بھی بنا کسی خوف کے وہاں جاسکتے ہیں۔ ہم جب وزیرستان سے نکلے تو ہماری رائے وزیرستان کے بارے میں مکمل طور پر تبدیل ہوچکی تھی۔ وہاں کے لوگوں سے، مٹی سے، چرند پرند، ہوا اور دراز قامت درختوں سے زندگی، پیار و محبت اور انسانیت کی خوشبو محسوس ہوئی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عبدالکریم

عبدالکریم

بلاگر جامعہ بلوچستان سے ابلاغیات میں ماسٹرز ڈگری کے حامل اور کوئٹہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ معاشرتی مسائل اور تفتیشی اسٹوریز لکھنا پسند کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔