چیئرمین وہی جو حکومت کو بھائے

سلیم خالق  منگل 17 مئ 2022
حکومت کو ڈر ہے کہ اگر رمیز کو ہٹایا تو عمران خان کے جلسوں میں ایک اور سیاسی شہید نظر آیا کرے گا۔ فوٹو: فائل

حکومت کو ڈر ہے کہ اگر رمیز کو ہٹایا تو عمران خان کے جلسوں میں ایک اور سیاسی شہید نظر آیا کرے گا۔ فوٹو: فائل

آپ مانیں یا نہ مانیں حکومت تبدیل ہوتے ہی ایسا ظاہر کیا جا رہا ہے جیسے پاکستان کرکٹ میں دودھ کی نہریں بہنے لگی ہوں، یہ ملک کا سب سے بہترین ادارہ ہے،اس کے تمام آفیشلز دن رات کام کر کے کھیل کو عروج پر لے جا رہے ہیں، اس کے پاس اتنا خزانہ ہے کہ ملک کے قرضے بھی اتار سکتا ہے۔

گراس روٹ لیول پر کرکٹ کی بھرمار ہے،ویمنز کے لیے بھی کھیل میں مواقعوں کی کمی نہیں، پی ایس ایل فرنچائزز کے پاس اتنا پیسہ آ گیا کہ وہ دوسرے کام چھوڑ کر بس کرکٹ کا کاروبار ہی کر سکتی ہیں، پاتھ وے کرکٹ سے پاکستان جلد آسٹریلیا اور انگلینڈ جیسا بن جائے گا، جونیئر لیگ آئی تو ہمارے پاس ٹی ٹوئنٹی کا اتنا ٹیلنٹ ہو گا کہ 4انٹرنیشنل ٹیمیں بنا سکیں گے۔

آپ سوچیں گے کہ یہ اسے کیا ہو گیا ایسے سہانے خواب دکھا رہا ہے جیسے سیاستدان الیکشن سے پہلے دکھاتے ہیں، مگر یہ میں نہیں کہہ رہا آپ گذشتہ چند روز میں پی سی بی کی جانب سے جاری کردہ بیانات دیکھ لیں تو یہی سب کچھ سامنے آئے گا، اسے ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

جواب واضح ہے عمران خان کی حکومت ختم ہونے کے بعد پی سی بی میں تبدیلی یقینی تھی بلکہ ہے، ایسے میں موجودہ حکام نے اپنی کرسیاں بچانے کیلیے یہ اعلانات کیے تاکہ بتایا جا سکے کہ وہ کتنا کام کر رہے ہیں اور ادارے کے لیے ناگزیر ہیں، البتہ سب جانتے ہیں کہ کرکٹ بورڈ کا بڑا عہدہ کام نہیں انعام ہوتا ہے۔

سرپرست اعلیٰ یہاں ایسے افراد کو لاتے ہیں جو ان کے منظور نظر ہوں، عمران خان کا معاملہ ذرا الگ تھا وہ چونکہ خود سابق کرکٹر تھے اس لیے  اقتدار ملنے پر کرکٹ کے حوالے سے اپنے منصوبے پورے کرنے کیلیے ایسے افراد کو سامنے لائے جو تمام ہدایات پر چوں چراں کیے بغیرعمل کر دیں، جیسے بغیر کچھ سوچے سمجھے ڈومیسٹک کرکٹ نظام کو تبدیل کر دیا گیا۔

ڈپارٹمنٹل کرکٹ بند کرنے سے ہزاروں کھلاڑیوں اور آفیشلز کو بے روزگاری کی آگ میں جلنے پر مجبور کیا گیا،ایک فون کال پر کامیاب ترین کپتان سرفراز احمد کو سائیڈ لائن کر دیا گیا، احسان مانی لاکھ وضاحتیں دیں حقائق سب جانتے ہیں، رمیز راجہ بھی عمران خان کے بہت قریب ہیں لیکن ان کی بدقسمتی کہ عہدہ سنبھالنے کے چند ماہ بعد ہی وزیر اعظم تبدیل ہو گئے،جو لوگ پی سی بی میں ملازمت کر چکے یا کرتے ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ کسی امریکی کمپنی میں کام کرنے سے زیادہ فوائد یہاں ہیں۔

اگر آپ بظاہر اعزازی طور پر کام کر رہے ہوں تب بھی لاکھوں روپے کی مراعات ہر ماہ مل جاتی ہیں،اسی لیے جو ایک بار قذافی اسٹیڈیم آ جائے اسے جب تک گھر جا کر نہیں چھوڑا جائے جانے پر تیار نہیں ہوتا، جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو نجم سیٹھی نے اپنی کرسی بچانے کیلیے بہت ہاتھ پاؤں مارے مگر جانا ہی پڑا،اب ان کے دوست دوبارہ اقتدار میں آ گئے تو وہ پھر سے پی سی بی کے بڑے کمرے میں اپنے نام کی تختی دیکھنے کے لیے بے چین ہیں، گوکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ انھیں امریکا میں پاکستانی سفیر یا سرکاری ٹی وی کا ایم ڈی بننے کی بھی آفر ہے مگر میں ان سے متفق نہیں، کیا آپ امریکا میں پاکستانی سفیر یا پی ٹی وی کے سربراہ کا نام جانتے ہیں؟

زیادہ تر کا جواب ناں میں ہوگا لیکن پی سی بی کے چیئرمین کو سب جانتے ہوں گے، یقینا سفیر بننے کے بھی بڑے فوائد ہوں گے لیکن آپ نے سنا ہی ہوگا کہ ’’چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی‘‘ جو پی سی بی کا ہوا اسے جانے کے بعد بس دوسرا موقع چاہیے ہوتا ہے،ہر وقت میڈیا کی توجہ،غیرملکی دورے و دیگر ٹھاٹ باٹ بھلائے نہیں بھولتے، رمیز راجہ لاکھ پرفارمنس دکھا دیں لیکن جانا طے ہے، یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ حکومت کے پاس کرکٹ کیلیے سوچنے کا وقت نہیں، ویسے ہی اتنے مسائل کا انبار لگاہوا ہے۔

ایسے میں اگر پی سی بی میں تبدیلی کر دی تو نیا پینڈورا باکس کھل جائے گا، پہلے معیشت تھوڑی سنبھلنے دیں، پیٹرول اور ڈالر کا مسئلہ کنٹرول ہونے دیں تب پھر دوسری جانب بھی نگاہیں مرکوز کرنے کا موقع ملے گا، سیٹھی صاحب چونکہ سیاسی تجزیہ نگار ہیں، گذشتہ دنوں ان کے بعض پروگرامز بھی متنازع سے تھے، ایسے میں ان کو کوئی بڑی پوسٹ دی گئی تو بھی مسئلہ ہو سکتا ہے، اس لیے اب معاملہ ٹھنڈا ہونے کا انتظار کیا جائے گا، انھیں لانے کا پلان بڑا سادہ سا تھا لیکن عمل نہ ہو سکا، اندازے کی غلطی ہو گی۔

ارباب اختیار سوچ رہے تھے کہ اپنے باس عمران خان کے جانے پر رمیز راجہ خود نہیں رکیں گے اور فورا استعفیٰ دے دیں گے لیکن یہ پی سی بی ہے یہاں ایسا نہیں ہوتا، رمیز کا بھی دل لگ گیا ہے اس لیے وہ بھی جانے کو تیار نہیں، انھیں ان کا بیان بھی یاد دلایا گیا کہ ’’میرے کپتان گئے تو ایک منٹ بھی نہیں رکوں گا‘‘مگر وہ ڈٹے ہوئے ہیں، کئی پیغامات ملے مگر نہیں گئے، ان کے چاہنے والے بھی کم نہیں وہ بھی سپورٹ میں ساتھ کھڑے ہیں۔

حکومت کو ڈر ہے کہ اگر رمیز کو ہٹایا تو عمران خان کے جلسوں میں ایک اور سیاسی شہید نظر آیا کرے گا، اس لیے معاملات جمود کا شکار ہیں، البتہ چیئرمین نے جو منصوبے بنائے ان میں سے زیادہ تر طویل المدتی ہیں، ابھی وہ خود نہیں جانتے کہ کتنے دن یا ماہ عہدے پر برقرار رہیں گے، جو بھی نیا چیئرمین آیااس کا اپنا ویژن ہوگا، انھیں چاہیے کہ تھوڑا انتظار کریں، کم از کم اس وقت تک تو رک جائیں جب انھیں بورڈ کے نئے سرپرست اعلیٰ وزیر اعظم شہباز شریف ملاقات کے لیے طلب کریں۔

سوشل میڈیا یا روایتی میڈیا پر پی سی بی نے اپنی زبردست پرفارمنس دکھا دی لیکن اس کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا، چیئرمین وہی جو حکومت کو بھائے،اس لیے کرکٹ کی بہتری کے لیے ایسے حقیقی شارٹ ٹرم کام کریں جو خود ہی مکمل کر سکیں،اس کے لیے میڈیا پر ڈھنڈورا پیٹنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں پڑے گی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔