یوسف صاحب آپ کس لیے ہیں؟

سلیم خالق  جمعرات 19 مئ 2022
یوسف جیسے ماضی کے اسٹارز کو قومی ٹیم کے ساتھ منسلک کرنے کے بجائے جونیئرز کی رہنمائی کا کام سونپنا چاہیے۔ فوٹو:فائل

یوسف جیسے ماضی کے اسٹارز کو قومی ٹیم کے ساتھ منسلک کرنے کے بجائے جونیئرز کی رہنمائی کا کام سونپنا چاہیے۔ فوٹو:فائل

’’اسد شفیق نے ڈومیسٹک کرکٹ میں تسلی بخش کارکردگی نہیں دکھائی،وہ 5 سنچریاں بنا کر خود کو دوسروں سے بہتر ثابت کریں تو قومی ٹیم میں واپس آ سکتے ہیں‘‘

آپ نے حال ہی میں میڈیا پر بیٹنگ کوچ محمد یوسف کا یہ بیان پڑھا ہوگا،شاید کچھ لوگوں کو حیرت بھی ہوئی ہو کہ یہ ایک ایسا کرکٹر جس نے طویل عرصے ملک کیلیے خدمات انجام دیں اس کے بارے میں کچھ زیادہ سخت بات کہہ دی گئیں۔

میں یہاں یہ واضح کر دوں کہ اسد شفیق میرا رشتہ دار ہے نہ دوست، میڈیا میں تعلقات نہ ہونے کی وجہ سے ان کے اسکواڈ سے باہر ہونے اور پھر بھولی بسری داستان بننے پر کسی نے کوئی شور بھی نہیں مچایا،یہ درست ہے کہ اسد کی کارکردگی غیرمعمولی نہیں تھی جس کی وجہ سے وہ سلیکٹرز کے دل سے اتر گئے،البتہ یہاں یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ ناکامیوں کے باوجود اظہر علی کو متواتر مواقع کیوں دیے گئے؟ کارکردگی میں تسلسل کے فقدان پر بھی وہ مسلسل کھیل رہے ہیں۔

اسد کے ساتھ ایسا نہ ہوا،ان کو دوسرا چانس نہ ملا، یونس خان اور مصباح الحق کی ریٹائرمنٹ کے بعد ہمیں اسد اور اظہر سے خاصی امیدیں وابستہ تھیں کہ یہ دونوں سینئرز کا خلا پْر کر دیں گے مگر افسوس ایسا نہ ہوا،اس میں ان کی اپنی کوتاہیاں بھی شامل ہیں،2010 میں ٹیسٹ ڈیبیو کے بعد اسد شفیق نے 10 سال ملک کی نمائندگی کا اعزاز پایا مگر خود کو اسٹار کرکٹرز میں شامل نہ کرا سکے،شاید اس کی وجہ نچلے نمبرز پر بیٹنگ کرنا بھی ہو، ان پر پاکستان کرکٹ بورڈ نے بھاری سرمایہ کاری کی، مگر پھر دودھ میں مکھی کی طرح باہر نکال دیا گیا۔

چلیں مان لیتے  ہیں کہ بیٹنگ میں تکنیکی خامیاں تھیں تو انھیں دور کرنے کے لیے کیا اقدامات ہوئے؟ گذشتہ برس جب ہم لوگوں نے شور مچایا تو انھیں چند روز کے لیے ہائی پرفارمنس سینٹر بلایا گیا، محمد یوسف نے چند دن ان کے ساتھ کام بھی کیا، اگر پھر بھی ان میں بہتری نہ آئی تو اس میں اسد کی صلاحیتوں کے ساتھ یوسف کی کوچنگ پر بھی سوال اٹھنا چاہیے، ویسے میں ابھی اسد شفیق کی حالیہ کارکردگی دیکھ رہا ہوں۔

آخری 10 میچز میں انھوں نے پاکستان کپ میں 2 سنچریوں اور 3 ففٹیز کی مدد سے120.75 کی اوسط سے 483 رنز بنائے، شاید یوسف کو یہ کسی نے نہیں بتایا،اس کارکردگی پر کم از کم وہ کنڈیشننگ کیمپ کے 60 کھلاڑیوں کا حصہ تو بن ہی سکتے تھے، بیٹنگ کوچ کو ان کی کارکردگی کے حوالے سے اتنا سخت بیان نہیں دینا چاہیے تھا، وہ کہہ سکتے تھے کہ اس حوالے سے سلیکٹرز سے پوچھنا چاہیے لیکن شاید وہ کوئی پرانی بات دل میں لیے بیٹھے ہیں۔

شان مسعود نے کاؤنٹی میں رنز کے ڈھیر لگا دیے، ان کی تعریفیں تو سب ہی کریں گے، اصل بات بْرے وقت میں کسی کو سپورٹ کرنے کی ہوتی ہے، پاکستان ٹیم کو فراغت کا کافی وقت ملا، اس وقت یوسف بھی فارغ ہوں گے،کیاانھوں نے دوبارہ کوئی کوشش کی کہ اسد یا ان جیسے دیگر نظرانداز شدہ کرکٹرز کو بلا کر مشورے دیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں سیٹ اپ سے باہر ہو کر سابق ٹیسٹ کرکٹرز کو خوب برائیاں دکھائی دیتی ہیں، میڈیا پر وہ پی سی بی پر بھرپور تنقید کرتے نظر آتے ہیں مگر پھر نوکری ملنے پر چیک پر موجود ہندسے آنکھوں پر پٹی باندھ دیتے ہیں، یوسف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا،ان کے لیے تو اب پاکستان کرکٹ میں دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں،دراصل یہ طریقہ ہی غلط ہے۔

یوسف جیسے ماضی کے اسٹارز کو قومی ٹیم کے ساتھ منسلک کرنے کے بجائے جونیئرز کی رہنمائی کا کام سونپنا چاہیے، وہ اب بابر اعظم یا محمد رضوان کی کیا رہنمائی کر سکتے ہیں؟ان بیٹرز کی کامیابی کا کریڈٹ بھی کوچ کو نہیں دیا جا سکتا، حیدر علی یا دیگر ایسے نوجوان جو تیزی سے ابھرے اور پھر کارکردگی میں فرق آیا یوسف کو ان جیسے کھلاڑیوں پر محنت کرنی چاہیے، قومی ٹیم میں جا کر کھلاڑیوں کو کوچنگ نہیں فائن ٹیوننگ کی ضرورت ہوتی ہے جو  کوئی بھی کر سکتا ہے، آپ میں سے بہت سے لوگ شاہد اسلم کا نام بھی نہیں جانتے ہوں گے کیونکہ انھوں نے ٹیسٹ کرکٹ کھیلی نہ رنز کے ڈھیر لگائے، میڈیا پر بھی وہ نظر نہیں آتے،البتہ اگر آپ قومی کرکٹرز سے پوچھیں تو وہ ان کے کام کا بتائیں گے۔

ایسے ہی لوپروفائل لوگ کرکٹرز کی زیادہ رہنمائی کر سکتے ہیں، بڑا کھلاڑی ضروری نہیں کہ اچھا کوچ بھی ہو، بہت سے لوگ تو خود اپنے شاٹس کے حوالے سے بھی تفصیل سے نہیں بتا سکتے، وہ خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے اعلیٰ مقام پانے میں کامیاب رہتے ہیں، اسی طرح بہت سے اوسط درجے کے کرکٹرز بہترین کوچ ثابت ہوتے ہیں۔

اس کی کئی مثالیں موجود ہیں، ثقلین مشتاق سے ہمیں بڑی امیدیں تھیں ان کی پرفارمنس کیسی ہے؟ اسپنرز کیا تیر مار رہے ہیں؟آپ کہیں گے کہ ٹیم نے اچھا پرفارم کیا بالکل ٹھیک بات ہے البتہ کوچنگ سے زیادہ اس کا کریڈٹ کھلاڑیوں کو جاتا ہے، اگر کسی ٹیم میں بابر اعظم، محمد رضوان اور شاہین شاہ آفریدی جیسے کھلاڑی ہوں تو یقین مانیے شاہد اسلم بھی ہیڈ کوچ ہوں تو ایسے ہی نتائج سامنے آئیں گے، پیسہ دے کر منہ ہی بند رکھنا ہے تو سابق کرکٹرز کو ہائی پرفارمنس سینٹر میں نوجوانوں کی رہنمائی کا کام سونپ دیں،وقتافوقتا کیمپس لگائیں جس میں خاص طور پر اسد شفیق، حیدر یا ایسے کھلاڑی جنھیں رہنمائی کی ضرورت ہے ان کو بلایا جائے۔

صرف میسکوٹ کے طور پر کوچز کی فوج رکھنے کا کوئی فائدہ نہیں، اس سے اچھا یہ ہے کہ جہاں کوئی بڑا ٹورنامنٹ یا سیریز ہو اس ملک کے کسی سابق کرکٹر سے جزوقتی کوچنگ کا معاہدہ کر لیا جائے تاکہ مقامی کنڈیشنز میں اس کے مشوروں سے مدد مل سکے،پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس اربوں روپے تو موجود ہیں مگر انھیں ایسے ملکی کوچزکو بھاری تنخواہیں دے کر ضائع نہ کریں،پرانے کھلاڑیوں نے ویسے ہی بہت پیسہ بنا لیا، بورڈ کی رقم موجودہ کرکٹرز اور لٹل اسٹارز پر صرف کریں جس کا ملک کو کوئی فائدہ تو ہو، تنقید سے ڈر کر کسی کو ملازمت دینا مسئلے کا حل نہیں، ہاں اگر کوئی ملکی کرکٹ کے کام آ سکتا ہے تو ضرور اس کی قدر کرنی چاہیے۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔