عمران خان سے انتظار نہیں ہوگا

احتشام بشیر  جمعـء 20 مئ 2022
عمران خان نے خبردار کردیا تھا کہ حکومت سے باہر ہوکر وہ زیادہ خطرناک ہوجائیں گے۔ (فوٹو: فائل)

عمران خان نے خبردار کردیا تھا کہ حکومت سے باہر ہوکر وہ زیادہ خطرناک ہوجائیں گے۔ (فوٹو: فائل)

12 اکتوبر 1999 کو ملک میں چوتھا مارشل لاء لگایا گیا۔ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی دو تہائی اکثریت والی حکومت کو ختم کرکے اقتدار حاصل کیا۔ اس سے قبل پہلا مارشل لاء 7 اکتوبر 1958 کو اسکندر مرزا، دوسرا مارشل لاء 25 مارچ 1969 کو جنرل یحییٰ خان، تیسرا مارشل لاء 5 جولائی 1977 کو جنرل ضیاء الحق نے لگایا اور ملک میں پانچواں مارشل لاء 10 اپریل کی شب لگتے لگتے رہ گیا۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 22 سال کی جدوجہد کے بعد اقتدار حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔ تحریک اںصاف نے 2018 کے انتخابات میں سولو فلائٹ کیا اور وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی لیکن مخالف جماعتوں نے انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کیا۔ تحریک انصاف پر الزام لگایا گیا کہ پی ٹی آئی حکومت سلیکٹڈ ہے، اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد سے پی ٹی آئی اقتدار کے ایوان تک پہنچی ہے۔ تین سال کے دوران اپوزیشن جماعتیں بھی آرام سے نہیں بیٹھیں۔ مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام ف نے پی ٹی آئی حکومت کے خلاف مسلسل احتجاج کیا۔ اسلام آباد مارچ بھی کیا گیا لیکن اپوزیشن جماعتیں تحریک انصاف کی حکومت کو ہلا بھی نہ سکیں۔ تاہم رواں سال 2022 کا سورج پی ٹی آئی کےلیے کڑے امتحانات لایا۔

جنوری سے ہی اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا۔ اس بار اپوزیشن نے پارلیمنٹ کے اندر سے حکومت پر ضرب لگانے کی منصوبہ بندی کی۔ حکومت کو ایوان میں کمزور کرنے کےلیے اتحادی جماعتوں سے رابطے کیے اور اپوزیشن جماعتیں اپریل میں پی ٹی آئی کو ایوان میں کمزور کرنے میں کامیاب ہوگئیں۔ اس دوران سابق وزیراعظم عمران خان نے 27 مارچ کو اسلام آباد میں ہونے والے جلسے میں ایک خط لہرایا اور الزام لگایا کہ ان کی حکومت کو بیرونی سازش کے تحت ختم کیا جارہا ہے۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان کو ایک سفارتکار کے ذریعے دھمکی دی گئی ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت کو ختم نہ کیا گیا تو خطرناک نتائج کا سامانا کرنا ہوگا، تاہم اگر حکومت کا خاتمہ ہوتا ہے تو معاف کردیا جائے گا۔ غیرملکی سازش کے بیانیے کو عمران خان لے کر چلے اور اب تک عمران خان اپنے بیانیے پر قائم ہیں۔ عمران خان نے اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جیسا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ وہ آخری گیند تک مقابلہ کریں گے، اسی طرح وہ 10 اپریل کو رات گیارہ بجے تک تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرتے رہے۔

10 اپریل کی رات جو ہوا وہ کہانی اب سب کے سامنے آچکی ہے۔ اگر تحریک عدم اعتماد پر کارروائی دس اپریل کی رات 11 بج کر 59 منٹ سے پہلے مکمل نہ کی جاتی تو امکان یہی تھا کہ ملک کو پانچویں مارشل لاء کا سامنا کرنا پڑتا۔ تحریک عدم اعتماد پر کارروائی نے جمہوریت کو بچا لیا لیکن حالات ابھی تک کچھ بہتر دکھائی نہیں دے رہے۔

چیئرمین عمران خان نے حکومت کے خاتمے سے قبل یہ کہا تھا کہ وہ حکومت سے باہر ہونے کے بعد اور زیادہ خطرناک ہوجائیں گے اور آج کل عمران خان جس آب و تاب سے اپنی تحریک کو آگے بڑھا رہے ہیں مستقبل کا سیاسی منظرنامہ کچھ اچھا دکھائی نہیں دے رہا۔

ملک ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشی، سیاسی اور آئینی بحرانوں کا شکار ہوتا جارہا ہے۔ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے قبل غلطی عمران خان سے بھی ہوئی۔ جب اس وقت عمران خان سمیت تحریک اںصاف کی قیادت کو معلوم ہوگیا تھا کہ اب ان کی حکومت کی خلاف گھیرا تنگ ہوگیا ہے اور عدم اعتماد نے کامیاب ہونا ہے تو تحریک عدم اعتماد پیش ہونے سے قبل ہی عمران خان صدر مملکت کو اسمبلیاں تحلیل کرنے کی ایڈوائس بھیج دیتے۔ اس سے سیاسی و آئینی بحران اتنا سنگین صورت اختیار نہ کرتا۔ یہی آئینی اختیار انہوں نے سر سے پانی گزرنے کے بعد استعمال کیا۔ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد غلطی اپوزیشن جماعتوں سے بھی ہوئی۔ اپوزیشن کا بیانیہ یہ تھا کہ عمران خان کی حکومت مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام ہوچکی ہے اور ملک کے معاشی حالات ٹھیک نہیں۔ جب اس ساری صورتحال سے تمام اپوزیشن جماعتیں باخبر تھیں تو پھر حکومت کو چھیڑنے کی کیا ضرورت تھی؟ حکومتی مدت پوری ہونے میں ڈیڑھ سال ہی تھا۔ عمران خان کو مدت پوری کرنے دی جاتی تو ابھی کے معاشی حالات کا ملبہ پی ڈی ایم کی جماعتوں پر نہ آتا۔ ابھی بھی موجودہ حکومت کو الیکشن کی طرف جانا چاہیے اور انتخابات کے بعد جس پارٹی کی بھی حکومت بنتی ہے وہ حالات کی درستی کےلیے جامع اور مؤثر معاشی پالیسی تشکیل دے۔

حکومت سے جانے کے بعد عمران خان خطرناک ہوگئے ہیں۔ عمران خان آزادی مارچ کے نام پر اسلام آباد دھرنے کا اعلان کرچکے ہیں اور دھرنے کی تاریخ کا اعلان کرنے والے ہیں۔ حکومت سے جانے کے بعد انہوں نے موجودہ حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ جس طرح پی ڈی ایم جماعتوں نے پی ٹی آئی کی حکومت کو سلیکٹڈ قرار دیا تھا اسی طرح عمران خان بھی موجودہ حکومت کو امپورٹڈ قرار دے رہے ہیں۔ عمران خان ملک میں فوری الیکشن چاہتے ہیں۔ نواز شریف اور ن لیگ کے اکثریتی رہنما ملک میں انتخابات کے حق میں ہیں لیکن آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان فوری الیکشن کےلیے تیار نہیں۔ اگر حکومت فوری الیکشن کا اعلان نہیں کرتی تو عمران خان نے اسی مہینے کے آخر میں اسلام آباد میں بیٹھ جانا ہے۔ اگر حکومت عمران خان کے مارچ کو روکتی ہے تو حالات تصادم کی طرف جائیں گے اور عمران خان اسلام آباد میں بیٹھنے میں کامیاب بھی ہوجاتا ہے تو آزادی مارچ میں اسلام آباد تک پہنچنے والے شرپسند نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔

یہ بات تو طے ہے کہ ملک کے معاشی حالات مہینوں میں ٹھیک ہونے والے نہیں۔ اس کےلیے طویل المدتی پالیسی کی ضرورت ہے اور عمران خان سے اب صبر ہونے والا نہیں۔ اسی لیے ملک کو مزید بحرانی کیفیت سے دوچار کرنے کے بجائے الیکشن کی جانب جانا چاہیے اور اس میں تیسری قوت کو ضامن بننا ہوگا، کیونکہ عمران خان موجودہ الیکشن کمشنر کی نگرانی میں انتخابات کرانے کے حق میں نہیں۔ وہ الیکشن کمشنر کی تبدیلی چاہتے ہیں جبکہ موجودہ حکومت بھی الیکشن اصلاحات چاہتی ہے۔ اس لیے فوری الیکشن اصلاحات کرکے حکومت کو فوری الیکشن کی طرف جانا چاہیے۔ اگر حکومت بھی ڈٹ گئی اور عمران خان بھی پیچھے نہ ہٹے تو پھر پانچویں بار ’’میرے عزیز ہم وطنو‘‘ سننے کےلیے تیار رہیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔