17 مزدوروں کا خون ناحق ،کس کی گردن پر؟

منظور رضی  جمعـء 20 مئ 2022
 فوٹوفائل

فوٹوفائل

ویسے توکراچی سمیت پورے سندھ، پنجاب ، بلوچستان اور خیبر پختون خوا کی عام سڑکوں، موٹر اور ہائی ویز پر آئے روز ٹریفک حادثات ہوتے رہتے ہیں اور چند دن کے بعد لوگ اور حکمران طبقات ان واقعات کو بھول کر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتے ہیں۔

زندگی پھر سے رواں دواں ہو جاتی ہے پہلے دن ٹی وی چینلز پر خبر آجاتی ہے اخبارات میں بھی خبریں چھپ جاتی ہیں اور کچھ وزیروں، مشیروں کا بیان بھی شایع ہو جاتا ہے اور پھر ہم سب بھول جاتے ہیں۔

میرا اکثر سندھ، بلوچستان، پنجاب اور کے پی کے میں آنا جانا لگا رہتا ہے مگر زیادہ تر سفر ٹرین کے ذریعہ ہی ہوتا ہے ، مگر انڈس ہائی ویز پر مانجھند کے قریب 17 مزدوروں کی ٹریفک حادثے میں جاں بحق ہونے کی خبر نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بڑا دکھ اور درد محسوس ہوا، آنکھیں نم ہوگئیں اور جسم کانپنے لگا۔

اخبارات میں تعزیت کی خبریں دیں ، دوستوں سے ملاقات کی اور اس الم ناک حادثے کے بارے میں کہا مگر وہی ردعمل تھا جو ہمارے معاشرے میں ہوتا ہے مگر میں بے چین تھا پھر میں نے اپنے گھر میں ذکر کیا کہ اس ملک میں محنت کشوں کا کیا حال ہے کوئی پوچھتا ہی نہیں کیوں اور کیسے یہ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔

میری بڑی بہو ارم کامران نے کہا کہ ’’ ابو آپ اس پر کالم لکھیں اور حکمرانوں سے پوچھیں کہ پاکستان سمیت سندھ میں حکومتیں کیا کام کر رہی ہیں اور ایک دو دوستوں نے بھی یہی مشورہ دیا۔ یہ واقعہ 11 مئی 2022 کو پیش آیا ، افسوس تو یہ ہے کہ نہ ہی حکومت سندھ کے وزیر خاص اور ہمارے ساتھی دوست عثمان غنی کے بیٹے سعید غنی اور نہ ہمارے ایک اور ہمدرد صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ اور وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے توجہ دی بلکہ تعزیتی بیان پر ہی اکتفا کیا۔ حالانکہ ان وزیروں کو ان کے گاؤں جانا چاہیے تھا جنازوں میں شرکت کرنی چاہیے تھی اور کم ازکم 20 لاکھ روپے کے معاوضے کا بھی اعلان کرنا چاہیے تھا جس میں15 مزدور جل کر جاں بحق ہوئے اور ایک خاتون اور بچہ بھی شہید ہوا۔ یہ بدنصیب تو نہیں تھے۔

عید کی چھٹیاں گزار کر اپنے گاؤں سے نکل کر ضلع نوشہرو فیروز تحصیل کنڈیارو اور تحصیل بھریاسٹی کے 15 مزدور ویگن اور ٹرک حادثے میں جل کر جاں بحق ہوئے اور 8 مزدور زخمی بھی ہوگئے ان کے جنازے میں صرف ڈپٹی کمشنر نوشہرو فیروز تاشفین عالم، اسسٹنٹ کمشنر احسان اللہ یوسفزئی، ایک سابق ایم این اے سید اصغر علی شاہ عالمانی اور سید حسن شاہ سمیت اہل علاقہ خاندان اور دوستوں نے شرکت کی حکومت کے کسی بھی وزیر مشیر نے شرکت نہیں کی اور دو ہفتے گزر جانے کے بعد بھی کوئی نہیں گیا۔

کوئی بڑا آدمی یا وزیر اگر خدانخواستہ اپنی موت یا دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہو جائے تو سوگ منایا جاتا ہے قومی اور صوبائی اسمبلی میں دعائے خیر یا پھر تعزیتی قرارداد پیش کی جاتی ہے مگر سندھ اسمبلی میں ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ نہ یوم سوگ نہ کوئی قرارداد نہ ہی کوئی امداد کا اعلان کیا گیا افسوس صد افسوس۔ فیض صاحب کا شعر یاد آگیا:

نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا

یہ خون خاکِ نشیناں تھا رزق خاک ہوا

اس طرح المناک حادثے اکثر ہوتے رہتے ہیں ، آئے روز کراچی میں موٹرسائیکل سوار بچوں سمیت جان دے چکے ۔ گزشتہ چند دنوں میں صدر اور بولٹن مارکیٹ کے قریب 2 بم دھماکے بھی ہوچکے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی میں خودکش حملے میں چار افراد جن میں 3 چینی باشندے اور پاکستانی وین کا ڈرائیور بھی جان دے چکا ہے۔

ملک میں سیاسی ہلچل ہے۔ عوام مہنگائی کے ہاتھوں پریشان ہیں ، ڈالر، آٹا، چینی، تیل ، گھی، گوشت، سبزی، دودھ دہی کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی کمر توڑ دی ہے ۔ اسی طرح بجلی کی لوڈ شیڈنگ اور گیس کی بندش نے رہی سہی کسر پوری کردی ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافے کو سبسڈی دے کر مصنوعی طریقے سے روکا ہوا ہے۔

مہنگائی، بے روزگاری، میڈیکل کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر، ساتھ ہی ملک بھر اور خاص کر سندھ میں پانی کا بڑا بحران ہے ،کہیں یہ سب کچھ ہمیں بڑی تباہی کی طرف نہ دھکیل دے۔ تو دوسری جانب سابق وزیر اعظم کی شاہ خرچیاں، ہیلی کاپٹر میں جلسے جلوسوں میں شرکت کرنا اور ’’امریکی سازش‘‘ سمیت الیکشن کمیشن، عدالت اور اسٹیبلشمنٹ پر حملہ کرنا یہ بھی اعلان کرنا کہ چور اور ڈاکو کو حکومت دینے سے بہتر ہے پاکستان پر ایٹم بم چلا دیتے ملک کے عوام یہ تماشا دیکھ دیکھ کر تنگ آچکے ہیں کس قسم کا انقلاب آئے گا۔

اسلامی مذہبی انقلاب یا پھر سرمایہ دارانہ انقلاب یا پھر کوئی خونی انقلاب ہوگا۔ عمران خان کہہ رہے ہیں 20 مئی کے بعد میں ایک کال یا پیغام دوں گا اور اسلام آباد میں 20 تا 25 لاکھ افراد کا مجمع اکٹھا کرکے اس وقت تک دھرنا دوں گا جب تک الیکشن کا اعلان نہیں ہو جاتا۔ الیکشن کرانا تو الیکشن کمیشن کا کام ہے نہ کہ حکومت کا نہ عدالت کا ۔ اس وقت اتحادی حکومت بنی ہوئی ہے، شاید کالم چھپنے تک حکومت اہم فیصلوں کا اعلان کر دے۔ مہنگائی کو روک لے، ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کے پاس جائیں دیکھیں کیا ہونے جا رہا ہے ملک دیوالیہ ہونے سے بچ سکتا ہے۔

ملک کے محنت کش، ہاری، کسان، جاگیردار، سرمایہ دار، مل مالکان، سیاستدان اور ملک سے محبت کرنے والے محب وطن دانشور، لکھاری، قلم کار، صحافی اس ملک کو بچا سکتے ہیں، ہمارے ملک میں سمندر ہے، دریا ہیں، جھیلیں ہیں، پہاڑ ہیں، کھیت کھلیان ہیں، پھل اور سبزیوں کے باغات ہیں، بڑے بڑے شہروں میں شاپنگ مال اشیا سے بھرے ہوئے ہیں۔

بڑی بڑی اور لمبی چوڑی گاڑیاں ہیں ہر سڑک اور ہر شہر میں کاروں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں پیدل چلنے والوں کی جگہ ہی نہیں۔  بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا محکمہ ہے، اینٹی کرپشن کا محکمہ ہے، نیب، احتساب کا محکمہ ہے، ہائی کورٹس ہیں، سپریم کورٹ موجود ہے، شرعی عدالت موجود ہے کیا کچھ نہیں ہے پھر بھی ہم غریب کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ ہمیں بس انصاف دے دو۔ زندہ رہنے کے لیے دو وقت کی روٹی دے دو۔ دو کمروں کا چھوٹا سا گھر دے دو۔

اسپتال دے دو اس میں دوائیں دے دو، سرکاری اسکول اور مدرسے جو بند پڑے ہیں انھیں کھول دو، استاد آجائیں گے، کئی بڑی بڑی این جی اوز ہیں بڑے بڑے فنڈز ملتے ہیں پھر ہمارے ہاں اخوت کا ادارہ، ایدھی سینٹر کا ادارہ، چھیپا کا ادارہ ہے انڈس اسپتال ہے، المصطفیٰ کا بڑا مفت علاج والا اسپتال بھی ہے۔

بڑے اور اچھے ڈاکٹر بھی ہیں بڑے بڑے علما بھی ہیں۔ جماعت اسلامی کا فلاحی ادارہ، ایم کیو ایم پاکستان کا فلاحی ادارہ ہے، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) ہے، جمعیت علمائے اسلام ہے۔ نیشنل پارٹی ہے، عوامی ورکرز پارٹی، بلوچ نیشنل پارٹی، کمیونسٹ اور سوشلسٹ پارٹیاں ہیں۔ ٹریڈ یونین ہے، لیبر کورٹ ہے، مگر پھر بھی مزدور بے روزگار، صحت نہیں، تعلیم نہیں ہے، بجلی نہیں ہے، گیس نہیں ہے اور چھوٹا سا گھر بھی نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔