کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر۔۔۔۔!

حاجی محمد حنیف طیّب  جمعـء 20 مئ 2022
 فوٹو :فائل

فوٹو :فائل

اﷲ تعالیٰ نے اس کائنات میں باہمی تعارف و پہچان کے لیے انسانوں کو جس طرح مختلف قبیلوں، قوموں اور خان دانوں میں پیدا کیا۔

اسی طرح بعض انتظامی و تکوینی حکمتوں اور آزمائشوں کے تحت ان میں مال و دولت اور پیشہ و منصب کے اعتبار سے تفاوت (فرق) رکھا۔ کسی کو مال دار بنایا تو کسی کو نادار، کسی کو حاکم تو کسی کو محکوم، لیکن ربّانی تعلیمات اور الوہی ہدایت سے بے خبر یا نادان انسانوں نے اس تفاوت کو عزت و بڑائی کا معیار بنا لیا۔

مادی وسائل کی فراوانی اور جاہ منصب کے نشہ میں مست لوگوں نے غریب و مفلس اور محکوم لوگوں کو ناصرف ذلیل و حقیر جانا بل کہ ان بے چاروں کو ہر طرح کے مظالم اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ حضور اکرم ﷺ کی تشریف آوری سے قبل اس عالم میں جہاں اور بہت سی خرابیاں تھی وہاں ایک بہت بڑا فساد یہ تھا کہ دنیا میں ہر طرف غریب مفلس، مسکین اور بے کس لوگ ناصرف معاشی و معاشرتی عزت سے محروم تھے بل کہ وہ ظلم کی چکی میں پس رہے تھے اور ان کا کوئی پرسان حال نہ تھا۔

آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے آسمانوں اور زمینوں کے خزانوں کی چابیاں رکھنے کے باوجود فقراء کی دل جوئی کے لیے ساری زندگی فقر و فاقہ میں گزاری، خندق کھودی، بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھے، کئی ہفتوں کھانا بنانے کے لے کاشانہ مقدس میں آگ نہ جلی، قرض لیا اور ہر وہ کام کیا جس کا عام طور پر غرباء کو سامنا ہوتا ہے۔

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے، اس لیے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ وہ ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ نیکی کرے۔ (العلل المتناہیۃ)

حضرت ابُوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’بیواؤں اور محتاجوں کی خدمت و اعانت کرنے والا، اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے برابر ہے یا اس نیکو کا ر کے برابر ہے جو عمر بھر دن کے روزے اور ساری رات عبادت کرے۔‘‘ (بخاری)

حضور اکرم ﷺ نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کو نصیحت فرمائی، مفہوم: ’’اے عائشہ! کسی بھی محتاج و ضرورت مند کو مایوس نہ لوٹانا خواہ کھجور کی گٹھلی ہی کیوں نہ دے سکو۔ مزید یہ کے غریب اور محتاج لوگوں سے محبت کیا کرو اور ان سے قربت حاصل کیا کرو۔ بے شک! (اس کے صلے میں) اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت تمہیں اپنے قرب سے نوازیں گے ۔‘‘ (ترمذی)

مذکورہ بالا روایت ہمیں متوجہ کررہی ہیں کہ رب کریم کی رضا کے طلب گارو! اس کے بندوں سے محبت کرو۔ اس کی مخلوق کی مدد کرو۔ اس کے دکھ اور پریشان حال لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرو۔ یہی مقصود عبادت ہے اور یہی منشاء دین ہے۔

حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ ُ اﷲ علیہ سے منسوب ہے کہ آپ نے عالم کشف میں باری تعالیٰ سے پوچھا: بارِ الہ! تُو کہا ں رہتا ہے، میں تجھے ملنا چاہتا ہوں۔ بارگاہ الوہیت سے (الہام کی صورت میں) جواب آیا: اگر مجھے پانا چاہتا ہے تو شکستہ خاطر لوگوں کی دعوت کیا کر۔ ان کی دعوت سے تُو مجھے اپنے قریب پائے گا، ایک ماں کو اپنی اولاد سے جتنی محبت ہوتی ہے، باری تعالیٰ کو اس سے کئی گناہ زیادہ اپنی مخلوق سے محبت و شفقت ہوتی ہے۔

وہ ذات اسی سے زیادہ پیار کرے گی جو اس کے بندوں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتے ہوئے ان کی دل جوئی اور غم خواری کرے گا۔ اس لیے تاج دار کائنات ﷺ نے انسانوں میں اُس شخص کو افضل و بہتر قراردیا جو خالق کائنات کے بندوں کا زیادہ خیر خواہ اور نفع رساں ہوتا ہے ۔ ارشاد نبوی ﷺ کا مفہوم ہے کہ بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہو۔

ایک مرتبہ مسجد نبوی میں سرکا ر دو عالم ﷺ تشریف لائے، آپ ﷺ نے غریب مہاجر صحابہؓ کوایک طرف حلقہ باندھے دیکھا۔ آپ ﷺ بھی انہی کے ساتھ آکر بیٹھ گئے۔ حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاصؓ روایت کرتے ہیں کہ میں بھی اپنی جگہ سے اُٹھ کر ان کے قریب کھڑا ہوگیا۔ سرکار ﷺ نے فرمایا، مفہوم: فقراء مہاجرین کو بشارت ہو کہ وہ دولت مندوں سے چالیس برس پہلے جنّت میں داخل ہوں گے۔ اس بات سے ان فقراء کے چہرے خوشی سے چہک اُٹھے۔

غریبوں کے والی، فقیروں کے غم گسار آقا ﷺ کی عادت کریمہ تھی کہ سرکا ر دو عالم ﷺ مساکین کی عیادت فرماتے، فقراء کے پاس مجلس کرتے اور کوئی غلام بھی دعوت دیتا تو اسے قبول فرماتے۔ (ترمذی)

تاج دار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’وہ شخص (کامل) مومن نہیں ہوسکتا جو خود تو پیٹ بھر کر کھا لے اور اُس کے پہلو میں اس کا پڑوسی بھوکا پڑا ہو۔‘‘ (بیہقی)

اس حدیث پاک میں پڑوسی کی وضاحت میں حضرت امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کا قول توجہ طلب ہے کہ امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا کہ ارشاد رسول ﷺ میں پڑوسی سے کون مراد ہے؟ امام حسنؓ نے فرمایا: چالیس گھر سامنے اور پیچھے، چالیس گھر دائیں اور بائیں۔‘‘ (ادب المفرد)

توجہ طلب امر یہ ہے کہ معلم انسانیت ﷺ ہمسایوں کا اس قدر خیال رکھنے کی تعلیم دی کہ کوئی بھوکا نہ سوئے لیکن آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے اتنے بے نیا ز اور بے پروا ہیں کہ ہمسائے کی بھو ک دور کرنا تو دور کی بات ہے ہمیں سال ہا سال تک اتنا بھی پتا نہیں ہوتا کہ ہمارے دائیں بائیں یا فلیٹس کی صورت میں اوپر نیچے کون رہتا ہے ؟ آج کے کمپیوٹر اور مشینی دور نے دنیا کو تو ’’گلوبل ولیج ‘‘ بنا دیا ہے لیکن پاس رہنے والوں سے غافل کردیا۔

ہمیں مشہور صوفی بزرگ حضرت بشر حافیؒ کے اس عمل سے بھی راہ نمائی لینی چاہیے جو شدید سردی میں گرم اور موٹے کپڑے دیوار سے لٹکا کر خود عام کپڑوں میں ٹھٹھرتے تھے اور پوچھنے پر جواب دیتے کہ میں شہر یا گاؤں کے سارے محتاجوں اور ضرورت مندوں کو گرم کپڑے مہیّا تو نہیں کر سکتا البتہ ان کی تکلیف کو محسوس کرنے کے لیے میں اپنے اوپر بھی ان جیسی کیفیت طاری کر رہا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔