گھروں کو اپنی بجلی خود بنانے دیجیے

ترقی یافتہ ممالک لوگوں کو اپنے گھروں میں سولر پینل لگانے کی ترغیب دے کر سولر پی وی ٹیکنالوجی کو فروغ دے رہے ہیں


حکومت پاکستان سولر فنانس اسکیم کی شرائط میں نرمی کرکے سولر بجلی کو فروغ دے۔ (فوٹو: فائل)

RAWALPINDI: پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے اور اس سال موسم گرما میں قوم کو ایک بار پھر یومیہ 10 سے 12 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے۔ بیرونی درجہ حرارت میں اضافے کے نتیجے میں کولنگ اپلائنسز جیسے اے سی، کولر اور پنکھے کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔

ہمارے لولے لنگڑے پاور ہاؤس بجلی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔ ناقص معیار کے یو پی ایس اور بیٹریوں کی فروخت عروج پر ہے جبکہ صنعتوں میں لوڈشیڈنگ ملک کی اقتصادی ترقی کو بری متاثر کر رہی ہے۔

اگر ہم مختلف شعبوں کے بجلی کی کھپت کا حصہ دیکھیں تو ملک کی گرڈ بجلی کا 55 فیصد بلڈنگ سیکٹر میں استعمال ہورہا ہے۔ بہت سے ممالک ایسے ہیں جہاں بلڈنگ سیکٹر سولر پینلز کے ذریعے اپنی بجلی خود پیدا کررہا ہے اور اضافی بجلی نیشنل گرڈ میں فراہم کررہا ہے۔ پھر ہم اس ماڈل کو کیوں نہیں اپنا رہے ہیں؟ ایسا ماڈل جو نہ صرف ہمارے بڑھتے ہوئے بجلی کے بحران کو کم کرسکتا ہے بلکہ اس کے نتیجے میں مختلف سماجی، ماحولیاتی اور مالی فوائد بھی حاصل ہوسکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے پاکستان کو جنوبی ایشیائی خطے میں سب سے زیادہ شمسی وسائل سے نوازا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک نے اپنے لوگوں کو اپنے گھروں میں سولر پینل لگانے کی ترغیب دے کر سولر پی وی ٹیکنالوجی کو فروغ دیا ہے۔ مثال کے طور پر، جرمنی میں، جو گھر شمسی توانائی پیدا کرتا ہے اسے فیڈ ان ٹیرف (FiT) ملتا ہے۔ حکومتیں اپنے لوگوں کو ان کے گھروں میں سولر پی وی لگانے کےلیے قرض/ سبسڈی دیتی ہیں۔ اگرچہ نیٹ میٹرنگ پاکستان میں موجود ہے اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے سولر فنانسنگ اسکیم شروع کی ہے۔ اس اسکیم کی کچھ حدود ہیں۔ مثال کے طور پر، مارک اپ کی شرح، پروسیسنگ فیس اور فنانسنگ کی مدت محدود ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ اب تک کتنے لوگ اس اسکیم میں شامل ہوچکے ہیں۔

اوسطاً، پاکستان میں ایک عام ایئرکنڈیشنڈ گھر 5 کلو واٹ کے منسلک لوڈ کے ساتھ گرمیوں کے مہینے میں تقریباً 600 سے 700 کلو واٹ (بجلی کے یونٹ) استعمال کرتا ہے جس کی روزانہ اوسط کھپت 15 سے 25 یونٹ (kWh) کے درمیان ہوتی ہے۔ یومیہ بجلی کی اتنی مقدار اچھے معیار کے 5 کلو واٹ سولر پی وی سسٹم لگا کر پیدا کی جاسکتی ہے۔ فی الوقت، پاکستان میں 5 کلو واٹ کے اچھے معیار کے ٹائر-1 سولر پی وی سسٹم کی قیمت تقریباً 6 سے 7.5 لاکھ کے درمیان ہوسکتی ہے۔

اگر حکومت توانائی کے اس خطرناک بحران سے نمٹنے کےلیے سنجیدہ ہے تو اسے سولر فنانس اسکیم کی مذکورہ بالا شرائط میں نرمی کرتے ہوئے پاکستان کے بلڈنگ سیکٹر میں سولر پی وی ٹیکنالوجی کو فروغ دینا چاہیے۔ اسے مارک اپ کی رقم کے علاوہ پروسیسنگ فیس کےلیے سبسڈی ادا کرنی چاہیے جبکہ فنانسنگ کی مدت کم از کم 20 سال تک بڑھائی جاسکتی ہے۔ یعنی 5 کلو واٹ کے سولر سسٹم کےلیے ماہانہ قسط تقریباً 2500 سے 3000 روپے ہوگی۔ یہ سب کےلیے جیت کی صورت حال ہوسکتی ہے۔ اس طرح نیشنل گرڈ پر بوجھ کم ہوجائے گا اور لوگوں کو بجلی کی مسلسل فراہمی ہوگی، وہیں صنعتی شعبے کو نیشنل گرڈ سے بلاتعطل سپلائی ملے گی اور وہ پاکستان کی قومی معیشت میں زیادہ اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے