سیاسی شدت پسندی کیسے کم ہو؟

عبید اللہ عابد / فریحہ حسین  اتوار 22 مئ 2022
عدم برداشت کیا ہے؟ کیوں پیدا ہوتی ہے؟ اس کے نقصانات کیا ہیں؟ معاشرے میں تحمل اور برداشت کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟ ۔ فوٹو : فائل

عدم برداشت کیا ہے؟ کیوں پیدا ہوتی ہے؟ اس کے نقصانات کیا ہیں؟ معاشرے میں تحمل اور برداشت کیسے پیدا ہو سکتی ہے؟ ۔ فوٹو : فائل

جب ایک سیاسی کارکن نے دوسری سیاسی کارکن کے سر پر لوہے کا راڈ رسید کیا ہوگا، ہو سکتا ہے مضروب نے چکراتے ہوئے سر کے ساتھ ایک نظر اپنے حملہ آور دوست کو دیکھا ہو اور آنکھوں ہی آنکھوں میں پوچھا ہو: یہ کیا ؟؟؟ تم تو میرے پکے دوست تھے !!!! برسوں کی دوستی کے دوران میں کئی بار نقطہ نظر میں اختلاف پیدا ہوا ، گرم بحثیں بھی ہوئیں ، لیکن آج کیا ہوا؟

یہ واقعہ حطار انڈسٹریل زون کی ایک فیکٹری میں پیش آیا ، دو پکے دوست یہاں ملازم تھے۔ ایک روز افطار کے بعد دونوں دوست بیٹھے مختلف موضوعات پر گپ شپ میں مصروف تھے، اچانک سیاسی موضوع چھڑ گیا ۔ دونوں دوستوں میں سے ایک کا تعلق چند روز پہلے تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں اقتدار سے محروم ہونے والی جماعت پی ٹی آئی سے تھا اور دوسرے کا تعلق نئے حکمران گروہ کی سب سے بڑی جماعت سے تھا۔ سیاسی بحث میں گرما گرمی درآئی تو پہلے دوست نے دوسرے دوست کے سر پر ایسی چوٹ لگائی کہ وہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی جاں بحق ہوگیا۔

اسی طرح پشاور میں بھی ایک واقعہ ہوا جہاں سیاسی موضوع پر گرما گرمی کے نتیجے میں ایک مذہبی سیاسی جماعت کے کارکن نے آج کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کے کارکن کو خنجر گھونپ دیا۔یہ پاکستان میں رونما ہونے والے متعدد واقعات میں سے دو واقعات ہیں جو ظاہر کرتے ہیں کہ پاکستان میں سیاسی شدت پسندی کس خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے، جس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

معاشرہ مختلف رائے رکھنے والے افراد کا مجموعہ ہوتا ہے۔ایک انسان معاشرتی حیوان ہونے کی وجہ سے معاشرے کے دیگر افراد سے معاشی، سیاسی اور مذہبی سمیت کئی پہلوؤ ں سے جڑا ہے۔ان تمام پہلوؤ ں سے جڑے رہنے کی وجہ سے وہ ان سب کی بنیادوں پر مختلف رائے رکھتا ہے۔ معاشرے میں ہر شخص کو اپنی رائے کے اظہار کا حق حاصل ہے۔کسی بھی معاشرے میں فرد یا گروہ کو اپنے نقطہ نظر کے اظہار کا مناسب موقع نہ ملے، لوگ دلائل کی بنیاد پر بات کرنے کے بجائے ذاتیات پر اتر آئیں تو اس کا مطلب ہے کہ اس معاشرے میں سیاسی شدت پسندی پائی جاتی ہے۔

پاکستان میں اب تک مذہبی انتہا پسندی ہی کو واحد ایک بڑا مسئلہ سمجھا جاتا تھا لیکن پھر ہرگزرتے دن ایسے واقعات رونما ہوئے، جن کے نتیجے میں معلوم ہوا کہ یہاں انتہاپسندی اور شدت پسندی زیادہ وسیع مفہوم میں موجود ہے۔ ہجوم کا ملزم کو قانون کے حوالے کرنے کے بجائے خود ہی ’’انصاف‘‘ کے تقاضے پورا کرنا بھی تو انتہاپسندی ہے۔ مخالف نقطہ نظر کے حامل کو کافر اور غدار وطن قرار دینا بھی تو انتہاپسندی اور شدت پسندی ہے۔

٭عدم برداشت کی تعریف اور نقصانات

ماہرین کی بیان کئی گئی تعریف کے مطابق کسی مختلف خیالات، نظریات، رویہ رکھنے والے کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہونا دراصل عدم برداشت ہے۔ ایک تعریف یہ بھی کی گئی ہے کہ کسی دوسرے کو یکساں اظہار رائے کی اجازت نہ دینا ، سماجی ، سیاسی اور پیشہ ورانہ حقوق فراہم نہ کرنا عدم برداشت ہے۔ اور ایسا فرد جو اپنے سے مختلف رویے اور موقف کا احترام نہ کرے ، وہ عدم برداشت کا حامل فرد ہوگا۔

برداشت والے معاشرے میں لوگ پرامن انداز میں زندگی بسر کرتے ہیں۔ ایک فرد جو تحمل و برداشت رکھتا ہے، وہ دوسرے افراد کے خیالات اور ترجیحات کو قبول کرتا ہے، چاہے وہ اختلافی ہوں۔ برداشت کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنی رائے کو دوسروں کی آراء پر نہ ٹھونسیں، چاہے آپ کو اپنی رائے درست ہی معلوم ہوتی ہو۔ وہ دوسروں کی روایات اور رواج کا احترام کرتا ہے۔

عدم برداشت بذات خود ظلم کی ایک شکل ہے۔ یہ معاشرتی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔ضروری نہیں کہ جو کچھ ایک فرد یا ایک گروہ سوچے ، وہی معاشرے کے لئے بہتر ہوتا ہے۔ مختلف فکر اور نقطہ نظر میں بھی کامیابی کے راز شامل ہو سکتے ہیں۔ اس لئے وہی معاشرہ آگے بڑھتا ہے جس کے ترقی کے لئے زیادہ دماغ سوچتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں نت نئے آئیڈیاز سامنے آتے ہیں۔ یہ عمل ارتقا کے لئے ازحد ضروری ہے۔ عدم برداشت کے نتیجے میں معاشرہ ترقی معکوس کا سفر طے کرتا ہے اور زوال پذیر ہوتا ہے۔ ایسے معاشروں سے دنیا کے دیگر معاشرے الگ رہنے میں عافیت محسوس کرتے ہیں۔

عدم برداشت کیوں پیدا ہوتی ہے؟

عدم برداشت کے معاشرے میں موجودگی کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں جیسے کہ سیاسی اداروں کی کمزوری، نظریات کا ٹکراؤ، میڈیا اور سیاسی جماعتوں کا عدم برداشت کو فروغ دینا۔ ان تمام اسباب میں سیاسی جماعتوں کا کردار کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ عمومی طور پر شدید قسم کی مذہبی اور نسلی شناخت عدم برداشت کی سب سے بڑی وجوہات میں شمار ہوتی ہے۔ اس ضمن میں مزید گہرائی میں جانے سے مندرجہ ذیل محرکات بھی سامنے آتے ہیں :

شدید قسم کی مذہبی شناخت ، جنونیت ، نسل پرستی، مختلف نظریات رکھنے والے افراد اور گروہوں پر عدم اعتماد، ان سے خطرات کا خوف اور سوشل میڈیا کا بہت زیادہ استعمال۔ یہ محرکات براہ راست عدم برداشت میں اضافہ کرتے ہیں۔ یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے، پھرکفر اور غداری کے سرٹیفکیٹس تقسیم ہوتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ جب کسی ایک فرد یا ایک گروہ کو کافر قرار دیا جائے گا تو اس کے بارے میں عدم برداشت میں شدت پیدا ہو گی، اسی طرح جب بلاجواز جھوٹ کی بنیاد پر کسی کو اسلام دشمن اور ملک دشمن قرار دینے کی مہمیں چلائی جاتی ہیں تو اس کے نتیجے میں بھی معاشرے میں ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔

دیکھنے میں آیا ہے کہ جب سے سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ ہوا ہے، شدت پسندی اور عدم برداشت کو فروغ ملا ہے۔ چونکہ پاکستان میں سوشل میڈیا کے صارفین ہر قسم کے قاعدے، قانون سے بے پروا ہوتے ہیں ، اس لئے وہ اپنے مخالفین کے لئے نہایت خطرناک مواد بھی شائع یا اپ لوڈ کرنے سے گریز نہیں کرتے۔

ممتاز دانش ور اور مصنف فاروق عادل کا کہنا ہے:’’ہمارے یہاں عجیب سی بات ہے، کسی مسئلے کا تجزیہ کیا جائے تو کبھی کوئی سبب اس کا نظر آتا ہے،کبھی دوسرا۔ پھر جیسے جیسے موضوع کی تہہ میں اترتے جائیں بات الجھتی جاتی ہے۔

ہمارے یہاں عدم برداشت کیوں ہے؟ پہلی نگاہ میں دیکھئے تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ اس کی بنیادیں ہماری سیاسی ثقافت سے اٹھی ہیں ۔ قیام پاکستان سے قبل ایک انتخابی مہم کے دوران ہمارے پیارے لاہور میں ایک شخص نے کسی ایرے غیرے کے ساتھ نہیں شاعر مشرق کے ساتھ بے ہودگی کی۔ بے ہودگی بھی ایسی جس کا کوئی تصور نہ کر سکے لیکن جب ہم اپنی ثقافت کا تجزیہ کرتے ہیں تو اس میں ہمیں اس کی گنجائش دکھائی نہیں دیتی۔ ہماری ثقافت میں بہت رواداری اور برداشت ہے۔

پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ایک روادار معاشرے میں عدم برداشت کیوں؟

اس جائزے کے بعد علم سماجیات کے مطالعے کی روشنی میں ایک جواب ملتا ہے کہ مسلسل ناکامی۔ ہمارا معاشرہ طویل عرصے سے ناکامیوں سے دوچار رہا ہے۔ نفسیات اور سماجیات ، یہ دونوں علوم بتاتے ہیں کہ جب کوئی معاشرہ بار بار کوشش کے باوجود اپنے مقاصد کے حصول میں ناکام رہے اور وہ اپنے حقوق غصب کرنے والے بالادست طبقات کا کچھ نہ بگاڑ پائے تو مایوسی میں ایسا ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی منزل کی درست تشخیص ہی نہیں کر پاتا اور راستے کی تلاش میں بھی ناکام رہتا ہے۔‘‘

اس سوال کے جواب کی تلاش میں ہمیں ایک اور پہلو پر بھی توجہ دینی ہوگی۔ یہاں ذکر کئے گئے پہلے دو عوامل اگر کسی معاشرے میں راسخ ہو جائیں تو اس کا حل سیاسی تنظیم میں تلاش کیا جاتا ہے۔ یہ سیاسی تنظیم یا جماعتیں ہی ہوتی ہیں جو ہمارے جیسے معاشرے میں جہاں فکری انتشار کے نتیجے میں مایوسی عام ہے، منتشر ذہنوں کی تربیت کر کے ان میں صرف برداشت پیدا نہیں کرتیں بلکہ ان کی توانائی کو چینلائز کر کے ناقابل یقین کارنامے انجام دیتی ہیں۔ ہماری اپنی تاریخ میں قیام پاکستان ایسا ہی ایک کارنامہ ہے۔ آج کے حالات میں اگر ہم دعویٰ کریں کہ ہمارا معاشرہ حقیقی سیاسی جماعتوں سے محروم ہے۔ سیاسی جماعتوں کے عدم وجود نے سیاسی تربیت کا فقدان پیدا کر دیا ہے تو یہ درست ہو گا ۔ہمارے یہاں عدم برداشت کا ایک سبب یہی ہے۔‘‘

اب اس جائزے کو ایک نئے تناظر میں دیکھیے۔ علم سماجیات میں ایک نظریہ ہے تشدد کا فروغ۔ اس نظریے کے مطابق اگر ذرائع ابلاغ کے مندرجات میں میں تشدد ، بدزبانی اور کشیدگی کا پرچار تسلسل کے ساتھ ہوتا رہے تو وہ معاشرہ تہذیبی انحطاط کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس نظریے کی روشنی ، میں میں نے 1958 سے لے کر موجودہ زمانے تک کے ذرائع ابلاغ کے مندرجات کا تجزیہ کیا ہے۔ ہمیں ہر دور میں اس قسم کا مواد وافر مقدار میں ملتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان سب عوامل نے ہمارے یہاں عدم برداشت پیدا کر رکھی ہے۔‘‘

ماہر تعلیم اور ایک بڑے نجی تعلیمی ادارے کے سربراہ یوسف ابراہیم کہتے ہیں :’’ کسی بھی معاشرے کا تہذیبی حسن رشتوں اور باہمی تعلقات کا تقدس، احترام، رواداری اور برداشت میں ہوتا ہے۔ انہی سماجی قدروں کی بدولت معاشرہ ادبی، تخلیقی، سیاسی اور معاشی طور پر ارتقا کے عمل سے گزرتا ہے۔ مگر ہماری بدبختی کہ ہمارے معاشرے کا تہذیبی حسن پنپنے کی بجائے تار تار ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس معاشرتی و سماجی بحران کا سبب ناخواندگی اور جہالت سمجھا جاتا ہے مگر وقت نے ثابت کیا کہ گریڈز، جماعتیں اور ڈگریاں بقول ممتاز ادیب اشفاق احمد محض رسیدیں ہیں۔ اصل تو تربیت اور تہذیب ہی ہیں، یہی بات حالی نے بھی کہی :

کورس تو لفظ ہی سکھاتے ہیں

آدمی ، آدمی بناتے ہیں

کسی بھی معاشرے میں موجود مختلف انسانی وابستگیوں کی بنیاد پر نظریاتی گروہ بندی ناگزیر حقیقت ہے۔ لیکن ان گروہ بندیوں میں جُڑے ہوئے انسانوں کو کسی سماج کی عمومی حالت سے الگ تھلگ کر کے انہیں دیکھا جا سکتا۔ کسی معاشرے میں عمومی سطح پر پائے جانے والے عوامی روئیے لا محالہ زندگی کے تمام شعبوں میں نمایاں ہو کر سامنے آتے ہیں۔ ان میں سرکاری محکمے بھی شامل ہیں، سیاسی و مذہبی جماعتیں، عوامی انجمنیں بھی حتیٰ کہ کھیل کے میدان اور ادبی و فنی مقاصد کے لیے قائم تنظیمیں بھی اس عمومی عوامی رویئے کے اثرات سے محفوظ نہیں رہتیں۔ یہ بات بھی اپنی جگہ درست ہے کہ ہر معاشرے میں روبہ عمل انسانی روئیے کے مقابل تخصص کی مثالیں بھی موجود ہوتی ہیں اور یہ مثالیں انفرادی اور ادارہ جاتی سطح پر واضح طور پر نظر آتی ہیں۔ پاکستان میں معاشرتی سطح پر عدم برداشت کا رویہ کوئی نئی بات نہیں۔

پاکستان میں گزشتہ پچاس برسوں میں قتل کی وارداتوں ہی کا مشاہدہ کر لیا جائے تو ان واقعات کی غالب اکثریت کی وجہ لمحاتی طور پر جذبات کی شدت ہو گی۔ ہجوم کے ہاتھوں لوگوں کا قتل بھی عمومی عدم برداشت ہی کا ایک اظہار ہے کہ کس طرح لوگوں کی بڑی تعداد چند لمحوں میں کسی کی جان لینے پر آمادہ ہوجاتی ہے۔ سیالکوٹ میں سری لنکن کا قتل بھی اسی روئیے کا شاخسانہ تھا۔ بھارت میں بہت سے مسلمان محض گائے کا گوشت رکھنے کے شک پر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ جیسے جیسے معاشرہ عدم برداشت کا شکارہوتا ہے بالکل یہی رویہ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں میں بھی نظر آتا ہے۔

سیاسی عدم برداشت کی ایک بڑی وجہ ریاستی اداروں کی سطح پر سیاسی حوالے سے غیر منصفانہ برتاؤ بھی ہے۔ مثال کے طور پر ملک کے ایک منتخب وزیر اعظم ذولفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تو اس وقت جن جماعتوں کو اس پھانسی سے سیاسی فائدہ پہنچا وہ اس پھانسی پر خوش تھیں یا انہوں نے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ آج صورت یہ ہے کہ ہماری عدلیہ بھٹو کیس کی نظیر قبول کرنے کو تیار نہیں ا ور اس وقت اس قتل سے مطمئن سیاسی جماعتیں آج اسے عدالتی قتل قرار دیتی ہیں۔ جب عوامی سطح پر یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ کسی مخصوص سیاسی گروہ کو ناحق دبایا جا رہا ہے تو معاشرتی عدم برداشت زیادہ شدت کے ساتھ سیاسی رویوں میں نظر آنے لگتا ہے۔

اس ساری بحث کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ آیا سیاسی جماعتیں سیاسی رویوں کی تربیت کا احتمام کرنے کو بھی اہمیت دیتی ہیں یا نہیں، توبد قسمتی سے یہ اہم کام معمولی تخصص کے ساتھ بڑی سیاسی جماعتوں کی ترجیحات میں شامل نہیں۔ سیاسی جماعتوں کو ایک ادارے کے طور پر کام کرنا ہوتا ہے اور ایک کامیاب سیاسی جماعت کا کام یہ ہے کہ اس کے کارکنان منفی عوامی سماجی رویوں سے آلودہ نہ ہوںکیونکہ انہوں نے عوام کی رہنمائی کا فریضہ انجام دینا ہوتا ہے۔ سیاسی جماعت کا اصل کام یہ ہے کہ معاشرے کی بدنمائی اس کے اندر سرایت نہ کرے بلکہ پارٹی اس معاشرتی بدنمائی کو دور کرنے کا باعث بنے۔

٭پاکستان میں عدم برداشت کا ایک اور اہم سبب

پاکستان میں عدم برداشت کے بنیادی اسباب وہی ہیں جو اوپر بیان کیے گئے ہیں۔ انہی بنیادوں پر جب تجزیہ کیا جائے گا تو ایک سبب یہ بھی نظر آتا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں کی پیدائش اور پرورش ویسی نہیں ہوتی جیسی جمہوری معاشروں میں ہوتی ہے۔ یہاں فوجی ڈکٹیٹرشپ کے ادوار میں پہلے سے موجود سیاسی جماعتوں کی ہئیت تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔انھیں مجبور کیا گیا کہ وہ جمہوری انداز میں اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے فوجی ڈکٹیٹرشپ کے اشارہ ابرو پر ناچیں۔ پھر فوجی ڈکٹیٹرز کے بطن سے سیاسی جماعتیں جنم لینے لگیں۔ حالانکہ ایک آزاد معاشرے میں سیاسی جماعتیں خودبخود پروان چڑھتی ہیں، یوں معاشرہ ارتقا کا سفر طے کرتا ہے۔ تاہم پاکستان میں فوجی ڈکٹیٹرز کے ہاتھوں یرغمال سیاسی نظام میں، تبدیل شدہ سیاسی جماعتوں اور نئی سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں معاشرے میں صحت مند ، جمہوری ماحول معدوم ہوتا چلا گیا۔

سیاسی جماعتیں جمہوریت کا حسن ہوتی ہیں۔ وہ نہ صرف رائے عامہ کو ہموار کرتی ہیں بلکہ معروف پالیٹیکل فلاسفر ڈیوڈ ایسٹن کے سیاسی نظام کی تعریف میں رائے عامہ کو مطالبات میں ڈھال کر حکومت تک بھی پہنچاتی ہیں۔ رائے عامہ ہی نہیں بلکہ مفادعامہ یا قومی مفاد کو تشکیل دینے میں سیاسی جماعتوں کے کردار سے منکر نہیں ہوا جا سکتا۔ سیاسی جماعتوں کے بغیر نمائندہ جمہوریت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ آمرانہ نظام حکومت میں اختیارات فرد واحد کے ہاتھ میں ہونے کے باوجود بھی آمر کو اپنے نظریات کو حقیقت بنانے اور مقاصد پورے کرنے کے لئے کسی نہ کسی سیاسی جماعت کی ضرورت پڑتی ہے۔

پاکستان میں بھی بارہا ایسا ہی ہوا ہے۔ ملک کی سیاسی بقا اور نظم و ضبط کم ا ز کم آج کے دور میں سیاسی جماعتوں کے بغیر ناممکن ہے۔ سیاسی جماعتیں عوام میں سیاسی حقوق کی سمجھ بوجھ پیدا کرتی ہیں، عوام کے سامنے ایک ٹھوس واضح معاشرتی و سیاسی نصب العین رکھتی ہیں۔ عوامی حکومت کے ذریعے قومی مفادات کے تحفظ سے لے کر عوام کی تربیت تک ، سب کچھ سیاسی جماعتوں کی مرہون منت ہے۔

دنیا کا کوئی بھی ملک سیاسی جماعتوں کے بغیر جمہوریت کو پروان نہیں چڑھا سکتا۔ یہاں تک کہ آزادی کے وقت جب امریکی آئین تشکیل دیا گیا تو اس میں سیاسی جماعتوں کا ذکر موجود نہیں تھا بلکہ جارج واشنگٹن کی طرف سے سیاسی جماعتوں کے کردار پر تنقید بھی سننے کو ملی۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ انھیں سیاسی جماعتوں کی اہمیت کا اندازہ ہوا۔

پاکستانی سیاست کی موجودہ صورت حال

اس وقت ملک جس سیاسی ہیجان سے دوچار ہے شاید وہ پہلے دیکھنے کو نہیں ملتا۔ گزشتہ دس برسوں میں معاشرتی اور سیاسی عدم برداشت تیزی سے بڑھی ہے۔ اگرچہ اس کی جڑیں بہت پرانی ہیں۔1947ء میں آزادی کے وقت ابتدائی مسائل کے علاوہ پاکستان کو جس سیاسی ہیجان سے گزرنا پڑا ۔ یہاں مختلف گروہوں میں مفادات کا ٹکراؤ پیدا ہوا ، یوں سیاسی نظام مضبوط ہونے کے بجائے کمزور ہوا۔ معاشرہ بقائے باہمی اور امن کی بجائے تشدد اور عدم برداشت کی طرف بڑھا۔ پاکستان کی خالق سیاسی جماعت پاکستان بننے کے بعد مفادات کے ٹکراؤ کا اس حد تک شکار ہوئی کہ سیاسی نظام پر گرفت قائم نہ رکھ سکی۔ اس کے برعکس بھارت میں سیاسی جماعتوں کی گرفت سیاسی نظام پر مضبوط رہی۔

اسلام ، زبان اور ثقافت کے نام پر بننے والے پاکستان میں بنگالی زبان کو قومی درجہ دئیے جانے کے نعرے سے انحراف نے بھی معاشرے کو تشدد کی راہ پر ڈالا۔ سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مختلف نعرے حتیٰ کہ اسلام کا نام بھی استعمال کیا گیا۔ آزادی کے بعد تحریک ختم نبوت اس کی واضح مثال ہے۔ جنرل ایوب خان نے بھی مسند اقتدار پر قا بض رہنے کے لئے شدت پسندی کا راستہ اختیار کیا۔ انھوں نے سیاست دانوں کے ساتھ جو کچھ بھی کیا، اس کا جائزہ لینا ہو تو صرف محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ان کے سلوک ہی کو دیکھ لیا جائے۔ اس باب میں انتہائی افسوس ناک واقعات کتابوں میں موجود ہیں۔ بالخصوص محترمہ فاطمہ جناح کو شکست دینے کے لئے جو حربے اختیار کیے گئے ، وہ انتہاپسندی کے بدترین مظاہر ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار کو دوام دینے کیلئے جو اقدامات کیے، وہ بھی شدت پسندی پر مبنی تھے ، پھر انھیں ہٹانے کے لیے جو راستہ اختیار کیا گیا ، وہ مزید شدت پسندی کا باعث بنا۔ جنرل ضیاالحق کے دور میں بھی اسلام کا نام حکومتی جائزیت کو برقرار رکھنے کے لئے استعمال کیا گیا۔ اس دور میں اسلام کے نام پر ایسی شدت پسندی کا کلچر پروان چڑھا جو آگے چل کر سیاسی شدت پسندی کی بنیاد بھی بنا۔

جنرل ضیا الحق کے بعد مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی سیاسی میدان میں بدترین قسم کی شدت پسندی سے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار رہیں۔ وہ بھول گئیںکہ سیاسی جماعتوں کا بنیادی فرض صرف سیاسی طاقت کا حصول نہیں بلکہ عوام کی سیاسی تربیت کرنا بھی ہوتا ہے۔ بعدازاں جنرل مشرف کے دور میں، ایک طرف مذہبی انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے کوششیں کی گئیں مگر دوسری طرف انتہا پسندی کی جڑیں مزید مضبوط کی گئیں۔ پچھلے کچھ عرصہ کے دوران میں بھی منتخب حکومتوں کو یرغمال بنانے کے لیے شدت پسند مذہبی گروہوں کو استعمال کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ کنٹینر کی سیاست نے بھی سیاسی شدت پسندی کی آگ بھڑکائی ۔ اس آگ کے شعلے اب بھی مسلسل بھڑکائے جا رہے ہیں۔ شدت پسندی کے ان شعلوں کو مین سٹریم میڈیا اور سوشل میڈیا پر بخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔

گزشتہ ماہ پاکستان میں حکومت کی تبدیلی کے دوران میں جو کچھ ہوا ، اس میں سیاسی شدت پسندی کے بدترین مظاہرے ہوئے۔ ہمارے ملک میں حکومت کی تبدیلی کا حالیہ واقعہ بھی شدت پسندی میں مزید اضافے کا باعث بنا ہے۔ اس حوالے سے جو متنازع صورت حال پیدا کی گئی اس کے نتیجے میں تصادم کی صورت پیدا ہونا ناگزیر تھا۔ اس سارے معاملے میں عوام کی غالب اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ امریکی ایما پر ملک میں حکومت گرانے کی رسہ کشی شروع ہوئی تو بیرونی اشارے پر عمل کرنے والوں کو پورا موقع فراہم کیا گیا جبکہ حکومت کی راہیں مسرود کر دی گئیں جس سے عمومی سطح پر لوگوں میں شدید غصہ پایا جاتا ہے۔

عدم اعتماد کی تحریک کے بعد ، صورت حال سے جس طرح نمٹا گیا اس کے اثرات صوبوں تک بھی پہنچے۔ مرکز کی طرح پنجاب میں بھی پوری کوشش کی گئی کہ تحریک عدم اعتماد پیش نہ کی جا سکے۔ جب تحریک پیش ہوئی تو مرکز کی طرح یہاں بھی ووٹنگ کا عمل موخر کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا گیا۔ پنجاب اسمبلی کو خاردار تاروں سے بند کردیا گیا۔ ووٹنگ والے دن پنجاب اسمبلی میں جو کچھ رونما ہوا ، اسے کون بھول سکتا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں بھی عدم اعتماد کی تحریک کے بعد جو مچھلی بازار سجایا گیا اس کی وجہ سے پہلی بار پولیس کو مداخلت کرنا پڑی۔ تشدد نے جمہوری عمل کو پٹری سے اتار دیا ہے۔

بعدازاں نومنتخب وزیراعلیٰ کے حلف کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں۔ اس سارے عمل میں عدالت کے تمام تر احکامات کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جاتا رہا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ پنجاب ایک بدترین سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔ اگرچہ بیوروکریسی اور دیگر ادارے نومنتخب وزیراعلیٰ کے احکامات کے تحت کام کر رہے ہیں لیکن وزیراعلیٰ اپنی کابینہ منتخب کرنے کی ہمت نہیں کر پا رہے ۔

اسے ملک و قوم کی بدقسمتی کے سوا کیا نام دیا جا سکتا ہے کہ سیاست میںگالم گلوچ کا رجحان ایک بار پھر بڑھ چکا ہے۔ مخالفین کو ہراساں کرنا، ان کے گھروں کے باہر مظاہرے کرانا سیاسی کلچر کا حصہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

تحریک عدم اعتماد کے بعد جس سیاسی شدت پسندی کو ایک نئی طرح ملی، اس پر اب قابو پانے کا سوچا جا رہا ہے لیکن حکومت اس کے لئے کسی قسم کے اقدامات کرنے سے بھی ڈر محسوس کر رہی ہے۔ مختلف حلقوں کا خیال ہے کہ صرف حکومت ہی نہیں دیگرسٹیک ہولڈرز بھی سیاسی شدت پسندی کے خاتمے کے لئے سنجیدہ نہیں جیسے وہ ماضی میں مذہبی انتہا پسندی کے لیے سنجیدہ نہیں تھے۔

اس میں کوئی دوسری رائے نہیںکہ شدت پسندی پاکستان کی سالمیت کے لئے بڑا خطرہ ہے۔ اس سے بدترین معاشرتی بگاڑ پیدا ہو رہا ہے۔ شدت پسندی کی راہ میں رکاوٹ کھڑی نہ کی گئی تو خدشہ ہے کہ مستقبل میں پاکستانی معاشرہ مزید پُرتشدد ہوگا۔ سیاسی جماعتوںکی طرف سے ڈنڈا بردار فورس کی تربیت اور اس کی رونمائی بہت خطرناک رجحان ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام سٹیک ہولڈرز خاص طور پر سیاسی جماعتیں وفاقی اور صوبائی سطح پر ملک کے استحکام کے لیے تمام سیاسی اختلافات کو بھلا کر اس سیاسی شدت پسندی کو سنجیدگی سے لیں کیونکہ اس میں ہی ملک و قوم کی بقا ہے۔ ملک اور قوم باقی رہی تو یہ سیاسی جماعتیں بھی باقی رہیں گے۔ اس موقع پر یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں قوم کی تربیت تب ہی کر سکتی ہے جب ان کے نزدیک قومی مفاد سب سے اہم ہو۔

 معاشرے میں برداشت کیسے پیدا ہو؟

فاروق عادل اس سوال کا جواب یوں دیتے ہیں :’’ اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی ایک کام کر لینے سے منزل نہیں مل جائے گی۔ بے شمار اقدامات ناگزیر ہیں لیکن سب سے پہلے ہمیں حقیقی سیاسی جماعتوں کاقیام یقینی بنانا ہو گا۔ اسی کے نتیجے میں شخصیت پر نظریہ اور مقصد غالب آئے گا اور معاشرے میں اعتدال اور برداشت پیدا ہو سکے گا۔‘‘

جبکہ یوسف ابراہیم کے خیال میں ’’ تعلیمی اداروں کے ساتھ گھریلو ماحول ، معاشرہ ، میڈیا اور سیاسی رہنمائی افراد کی ذہن سازی میں بڑا کردار ادا کرتے ہیں۔ بالخصوص میڈیا اور رہنما آج کی نوجوان نسل کے ذہنوں میں زہر گھول رہے ہیں۔ یوں ہمارے نام نہاد سیاسی رہنما مہذب معاشروں کی مثالیں تو دیتے ہیں مگر ان کے اپنے قول و فعل میں اس کی جھلک نہیں ملتی۔ ایک دوسرے کو گالی دینا ، تضحیک ، تذلیل اور برے ناموں سے پکارنا ایک کلچر بن چکا ہے۔ ایسے میں ہماری نوجوان نسل بھی یہی کچھ سیکھے گی۔ ایک دوسرے کی عزت کوئی نہیں کرے گا۔ معاشی ابتری کا ازالہ دنوں میں ہو سکتا ہے مگر ذہنوں میں بھرنے والے زہر کا مداوا، نسل در نسل چلتا ہے۔ ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ ‘‘

دیگر مختلف تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا ایک حل طویل المدتی ہے کہ ریاست کے تمام ادارے اور تمام سیاسی جماعتیں ایسی سفارشات پر متفق ہوں جن کے نتیجے میں جمہوری اصولوں کے عین مطابق صاف شفاف سیاست کا آغاز کیا جا سکے۔ وراثتی اور خاندانی سیاست ختم کی جائے اور ایسی سیاست رائج کی جائے جس میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہو اور پاکستان کے تمام افراد کو بلا تفریق بلاامتیاز سیاست میں حصہ لینے کے مواقع ملیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب اقدامات کچھ وقت لیں گے تاہم پائیدار نتائج فراہم کریں گے۔

اس مسئلے کے حل کے لئے بعض اقدامات فوری کرنے کے ہیں ۔ اس حوالے سے سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستانی معاشرے میں عدم برداشت کے بجائے تحمل اور برداشت کے فروغ میں سیاسی جماعتوں کی قیادت کا کردار نہایت اہم ہے۔ وہ صورت حال کی خطرناکی کا ادراک کریں۔ انھیں سوچنا چاہیے کہ وہ کسی کے لئے کنواںکھودیںگے تو اس میں ایک نہ ایک دن خود بھی گریں گے۔ وہ سیاسی مخالفوں کو گالی دیں گے تو سیاسی مخالفین انھیں گالی دیں گے۔ وہ سیاسی مخالفین کے گھروں کا گھیراؤ کریں گے تو ان کے گھروں کا بھی گھیراؤ ہوگا ۔ سیدھی اور سادہ بات ہے کہ وہ جیسا کریں گے ، ویسا بھریں گے۔ یہ ایک کائناتی سچائی ہے جو ہمیشہ ، ہرجگہ اپنی حقانیت ثابت کرتی ہے۔

٭ پاکستان میں سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر فی الفور اندازہ لگانا چاہیے کہ پاکستانی معاشرے میںکتنے فیصد لوگ عدم برداشت کا شکار ہیں؟ ان کی عدم برداشت کی سطح کیا ہے؟ یہ جائزہ لینا شاید کسی قدر آسان ہو لیکن اس مرض کے اسباب کا اندازہ لگانا آسان نہیں ہوگا۔ تاہم یہ جائزہ پالیسی سازی میں بہترین انداز میں معاونت کرے گا۔

٭ مذہبی انتہاپسندی کے سدباب کے لئے ہمارے ہاں جو پالیسیاں بنائی گئیں، انہی جیسی پالیسیاں ہر قسم کی انتہاپسندی اور شدت پسندی کے لئے بنائی جائیں اور پھر ان کی روشنی میں نہایت اخلاص اور جاںفشانی کے ساتھ کام کیا جائے۔ سیاست دانوں اور سیاسی جماعتوں کے لئے ایک ضابطہ اخلاق مرتب کیا جائے، ان کے بیانات، پالیسی اور حکمت عملی کا مسلسل نہایت باریک بینی سے جائزہ لیا جاتا رہے۔ خلاف ورزی پر ان سے ہرگز رعایت نہ برتی جائے، سزائیں دی جائیں ، بھاری بھرکم جرمانے کئے جائیں۔

کچھ باتیں عام پاکستانیوں سے
یقیناً اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کرنا آسان نہیں ہوتا۔ سبب یہ ہے کہ ہم اپنے ہی تجربات پر زیادہ انحصار کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم دنیا کو جس نظر سے دیکھتے ہیں، وہی درست ہے۔ یقیناً دوسروں کے نقطہ نظر کو تسلیم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ہم آسانی سے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے کہ دوسروں کا نقطہ نظر بھی ہمارے جتنا اہم ہو سکتا ہے۔ لیکن ہمیں سمجھنا چاہیے کہ امن اور ہم آہنگی کے ذریعے ہم اپنی اور دوسروں کی زندگی کو پرسکون بنا سکتے ہیں۔

ہم مندرجہ ذیل چار باتوں کی مدد سے اپنے اندر تحمل اور برداشت پیدا کرسکتے ہیں:

اول : کوئی فردآپ کے احساسات و جذبات کو ( آپ کی اجازت کے بغیر ) تبدیل نہیں کرسکتا۔ اگر آپ ناراض ہیں ، پریشان ہیں ، اپنے آپ کو زخمی محسوس کر رہے ہیں ، تو آپ ہی اپنی یہ کیفیات بدل سکتے ہیں۔ آپ کو مزید اس انداز میں نہیں سوچنا چاہیے کہ ’’ فلاں فرد نے مجھے پریشان کیا۔‘‘ بلکہ سوچنا چاہیے: ’’ ہاں ! ٹھیک ہے ، فلاں بندے کی بات یا حرکت نے مجھے پریشان کیا تاہم میں مزید پریشان نہیں رہوں گا۔ میں نے ہی فیصلہ کرنا ہے کہ مجھے ردعمل کس انداز میں دینا ہے۔

دوم: اکثر اوقات ہم جب دوسروں کے بارے میں عدم برداشت کا شکار ہوتے ہیں ، اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ ہم اسے سمجھ نہ سکے۔ ایسے میں ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے ذہن کو کھلا رکھیں، دوسرے افراد اور ان کے کلچر کو جاننے کی کوشش کریں ، اپنے افق کو وسیع کریں۔ اسی انداز میں ہم دوسروں کو سمجھنے اور قبول کرنے کی صلاحیت پیدا کرسکتے ہیں اور اسے پروان چڑھا سکتے ہیں۔

سوم : بعض اوقات اس وقت ہمارے احساسات زخمی ہوتے ہیں ، اور ہم اس وقت عدم برداشت کا شکار ہوتے ہیں جب ہمیں مخالف فرد کے پس منظر ہی کا علم نہیں ہوتا۔ ہم دوسروں کے تجربات کے بارے میں مکمل معلومات نہیں رکھتے۔ اس لئے ہمیں دوسروں کے نقطہ نظر کی بنیادیں سمجھے بغیر فوراً اختلاف رائے سے گریز کرنا چاہیے۔

چہارم : ہم دوسرے کے نقطہ نظر سے متفق نہ ہوں تو کم از کم اس کے نقطہ نظر کا احترام ضرور کریں کہ اسے بھی اپنی رائے رکھنے کا حق حاصل ہے۔ وہ جو بھی اعتقاد رکھنا چاہے، اسے انتخاب کا حق ہے۔ ہم بھی اپنا ایک نقطہ نظر رکھتے ہیں ۔ کیا ہم پسند کریں گے کہ کوئی دوسرا فرد ہم سے اپنا نقطہ نظر قائم کرنے کا حق چھین لے؟ ہم جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں ، وہی دوسرے انسانوں کے لئے پسند کرنا چاہیے۔ جو حقوق ہمارے ہیں ، وہی دوسروں کے ہیں۔

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ جیسے جیسے ہمارے اندر برداشت کا مادہ پیدا ہوتا اور بڑھتا جائے گا ، ہم اپنے اندر خوشی میں اضافہ محسوس کریں گے، اپنے اندر اور اپنے اردگرد سکون محسوس کریں گے۔ دوسروں کے لئے تحمل اور برداشت کا مادہ پیدا کرنا ایک طویل المدتی کام ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم اور باقی معاشرہ مضبوط ہوتے ہیں، ایسا معاشرہ جہاں ہم اور ہمارے بچوں نے زندگی بسر کرنی ہے۔آخر ہمارے بچوں کو بھی فکر و عمل میں آزادی کا حق حاصل ہونا چاہیے۔

اختلاف رائے اور شخصی آزادی فراہم کرنے والے چوٹی کے ممالک

دنیا کے بعض حصوں میں جوں جوں غیرجمہوری تحریکیں پروان چڑھ رہی ہیں، دنیا میں خندہ پیشانی غائب ہوتی چلی جا رہی ہے۔ تاہم دنیا میں اب بھی ایسے معاشرے ہیں جہاں اختلاف رائے کا احترام کیا جاتا ہے اور شخصی آزادی کو خاص اہمیت دی جاتی ہے۔ ایسے ممالک میں کینیڈا سرفہرست ہے۔ اسے ثقافتی تنوع اور شخصی آزادی کے حوالے سے پہلا نمبر دیا جاتا ہے۔ سن 2019ء میں جب دنیا تارکین وطن کو قبول کرنے سے انکار کر رہی تھی ، کینیڈا میں انھیں خوش آمدید کہا جا رہا تھا۔

معاشرے میں برداشت کے حوالے سے سویڈن، ناروے، ڈنمارک، سوئٹزرلینڈ بالترتیب پہلے چاروں نمبر پر آنے والے ممالک میں شامل ہیں۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق نیدر لینڈ شخصی آزادی کے معاملے میں اور البانیا مذہبی آزادی کے حوالے سے ایک نمایاں ملک کے طور پر سامنے آیا ہے۔2014ء میں عیسائی دنیا کے رہنما پوپ فرانسس نے بلقان میں کہا تھا:

’’ دنیا البانیا سے سبق سیکھے کہ وہاں عیسائی اور مسلمان کس مثالی انداز میں مل جل کر رہ رہے ہیں۔‘‘

ورلڈ ویلیو سروے کی ایک جائزہ کے مطابق بر طانیہ، امریکہ ، نیوزی لینڈ اور کینیڈا کے شہریوں کو اس سے کوئی فرق نہیں کہ ان کے ہمسائے میں رہنے والے لوگوں کا تعلق کس نسل سے ہے اور یہی معاشرتی برداشت ہے جو کسی بھی قوم کی ترقی اور خوشحالی کی ضامن ہے۔

2013ء تک پاکستان بھی دنیا کے ان چوٹی کے ممالک میں شامل تھا جہاں برداشت کا عنصر اچھا بھلا موجود تھا ۔ ہمسائیہ کیسا ہونا چاہیے ؟ یہ سوال کسی بھی پاکستانی کے لئے اہمیت کا حامل نہیں تھا ۔ دنیا کے 80 ممالک کے باشندوں سے پوچھا گیا تھا کہ وہ کس قسم کے لوگوں کو اپنی ہمسائیگی میں قبول کرنا پسند کریں گے؟

زیادہ تر پاکستانیوں نے جواب دیا کہ کوئی بھی ہو، انھیں قبول ہے۔ صرف چھ فیصد پاکستانیوں کا کہنا تھا کہ وہ فلاں اور فلاں نسل کے ہمسائیوں کے ساتھ زندگی بسر کرنا پسند نہیں کریں گے۔ تاہم اب محض نو برسوں کے دوران میں پاکستان میں تحمل اور برداشت کی صورت حال اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ لوگ محض اختلاف رائے پر ایک دوسرے کو قتل کر رہے ہیں ۔ بدقسمتی سے اب گوگل پر ایسے ممالک تلاش کیے جائیں جہاں کی پارلیمان میں لڑائی مار کٹائی ہوتی ہے ، پہلے صفحات پر پاکستان ہی کا نام نظر آتا ہے۔

سیاسی عدم برداشت کا معاملہ ہمیں یورپ کے بیشتر ممالک میں بہت کم نظر آتا ہے مگر دنیا میں وینزویلا اور تائیوان جیسے ممالک بھی موجود ہیں جہاںسیاسی عدم برداشت پوری شدت کے ساتھ نظر آتی ہے، وہاں سیاسی مخالفین ایک دوسرے کو برداشت کرنے کو قطعی طور پر تیار نہیں ہوتے۔ اس کے علاوہ مشرق وسطی اور وسطیٰ ایشیا کے ممالک میں بھی حکومتی سطح پر عدم برداشت نظر آتا ہے۔ وہاں عوام کو رائے دینے کی اس قدر آزادی حاصل نہیں جتنی کسی آزاد ملک کے عوام کو ہونی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔