سارے رنگ؛ ہم حکیم محمد سعید کی فوج کے سپاہی ہیں!

رضوان طاہر مبین  اتوار 22 مئ 2022
بچوں کے لیے ان کے پہلے سفرنامے ’یہ ترکی ہے‘ ان کے ایک طویل سفری احوال کا حصہ تھا۔ فوٹو : فائل

بچوں کے لیے ان کے پہلے سفرنامے ’یہ ترکی ہے‘ ان کے ایک طویل سفری احوال کا حصہ تھا۔ فوٹو : فائل

خانہ پُری
ر۔ ط۔ م

ہمارے ملک کے نام وَر دانش وَر حکیم محمد سعید کا شمار ہماری زندگی کی ان چنیدہ شخصیات میں ہوتا ہے، جن کے ہماری شخصیت اور نظریات پر بہت گہرے اثرات ہیں۔ ہم نے ان کی سرپرستی میں شایع ہونے والے بچوں کے معروف رسالے ’ہمدرد نونہال‘ سے خوب استفادہ کیا، جس کے مدیر مسعود احمد برکاتی ہوا کرتے تھے۔

یہی نہیں بلکہ ان کی شہادت کے بعد ان کے سفرناموں اور دیگر کتب سے بھی اکتساب کیا ہے۔ اپنی کتابوں میں وہ زندگی کے بہت سے چھوٹے بڑے مسائل اور پہلوؤں پر ہم جیسے بچوں کی خوب تربیت کرتے جاتے تھے، سیاست، سماج اور سائنس سے لے کر طب اور اخلاقیات تک، کون سا ایسا موضوع تھا، جہاں حکیم سعید نے اس ملک کی نئی نسل کی راہ نمائی نہیں کی تھی۔۔۔

وہ اعلانیہ یہ بات کہتے تھے کہ ’’یہ بچے میری فوج ہیں۔۔۔!‘‘ اور وہ انھیں پاکستان میں باقاعدہ ایک انقلاب لانے کے لیے تیار کر رہے ہیں، ان کی کتابیں بچوں کے لیے ایسی دعوتِ ’’بغاوت‘‘ سے بھری پڑی ہیں۔ اپنی کتابوں کے ہر دوسرے صفحے اور ہر تیسرے باب میں وہ نونہالوں کو جھنجھوڑتے تھے کہ اس ملک کی خدمت کرتے ہوئے کہاں، کس نے، کس کے ساتھ اور کیسا سلوک کیا؟ کیا برتاؤ رکھا؟ خود اُن سے کہاں غلطی ہوئی؟ انھیں کسی کام کو کیسے کرنا چاہیے تھا؟ اخلاقیات کا تقاضا کیا ہے اور اچھی تربیت کیا ہوتی ہے۔۔۔؟ انسان کو کیسی زندگی گزارنی چاہیے؟

انھوں نے زندگی کے تجربات سے کیا سیکھا؟ ان کی کمزوریاں کیا ہیں؟ حتیٰ کہ ایک بار اپنے بیت الخلا میں چھوٹی چوہیا کو انھوں نے ’فلیش ٹنکی‘ کے پانی سے نالی میں بہا دیا، تو اپنی کتاب میں یہ دکھ بھی لکھ دیا کہ بعد میں مجھے احساس ہوا کہ میں نے یہ غلط کام کیا۔ الغرض انھوں نے نہایت بھرپور طریقے سے اسکول پڑھنے والے بچوں اور پھر نوجوانوں کی مکمل اخلاقی اور سماجی تربیت کی اور اس میں کسی قسم کی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ انھیں قوی امید تھی کہ ان کے یہ ’نونہال‘ جب عملی زندگی میں آئیں گے، تو یقیناً اس ملک کی سیاست، اس کے انتظام وانصرام میں واضح طور پر بہتری پیدا کریں گے۔ اس ملک میں ہر بچے کو تعلیم ملے گی، سارے مذہبی، نسلی اور سیاسی تعصبات اور نفرتیں دور ہوں گی۔

دھیرے دھیرے ہمارے سارے دلدر دور ہو جائیں گے، امن وانصاف کا بول بالا ہوگا، دنیا میں ہم متحد ومستحکم اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے۔ خطے کے ممالک کے ساتھ مل کر ایک بڑی قوت بنیں گے، قرضون سے نجات پا کر عالمِ مشرق کے ماتھے کا جھومر ہوں گے۔ فخر سے عالم اسلام کی قیادت کریں گے۔ سماج دشمنوں کو بچوں کو یہ سب بتانا اور تربیت کرنا بالکل برداشت نہ ہوا اور وہ 17 اکتوبر 1998ء کو اپنے مطب کے باہر روزے کی حالت میں شہید کر دیے گئے!

حکیم سعید کی یہ ساری تعلیمات ہم تک ان کی شہادت کے بعد ان کی فکرانگیز کتب کی صورت میں پہنچیں اور دل میں اترتی چلی گئیں، آج بھی کسی بھی سیاسی وسماجی معاملے پر یک دم ان کی کہی ہوئی کوئی نصیحت سامنے آجاتی ہے اور ہماری راہ نمائی کرتی ہے۔ کبھی خیال آتا ہے کہ فلاں معاملے پر حکیم سعید کس قدر سچی اور اچھی بات کہہ گئے ہیں اور پھر ہم اپنی راہ متعین یا احتساب کرنے لگتے ہیں۔

حکیم محمد سعید کے قتل کو 24  برس بیتنے کو ہیں۔ یقیناً آج ان کے باقاعدہ تربیت یافتہ ہزاروں ’’نونہال‘‘ عملی زندگی میں آچکے ہیں اور بہت سے مختلف بڑے عہدوں پر بھی فائز ہوں گے۔ حکیم محمد سعید کے انقلاب کی تحریک شاید اس طور کام یاب نہیں ہو سکی۔۔۔! لیکن ہمیں یہ یقین ہے کہ اگر حکیم سعید کو اپنا مرشد ماننے والے اس وقت کے ’’نونہالوں‘‘ کی کوئی باقاعدہ انجمن بنائیں، تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ ان کی زندگی عام لوگوں کی زندگی سے زیادہ غووفکر والی اور بہتر ہوگی۔

آج ہمیں یہ سب باتیں یوں یاد آئیں کہ بدقسمتی سے کچھ حلقے حکیم محمد سعید کے حوالے سے گاہے گاہے ایسی باتوں کا اظہار کرتے پائے جاتے ہیں کہ حکیم سعید بچوں کے لیے لکھی گئی اپنی کتابیں، بالخصوص سفرنامے وغیرہ خود نہیں لکھا کرتے تھے، بلکہ لکھوا کر اپنے نام سے شایع کرواتے تھے۔۔۔! گذشتہ دنوں ایک صاحب کا یہ کہنا تھا کہ ’اُن کا طریقہ یہ تھا کہ ایک آدھ صفحہ لکھتے… ایئر پورٹ سے ایئرپورٹ کے سفر کا احوال اور اپنے ادارے کے کئی جرائد کے ایک لائق ایڈیٹر کو اس ملک یا شہر کے محکمۂ سیاحت کا لٹریچر پکڑا کر کہتے، آگے اس کا ترجمہ یا خلاصہ کر کے لگا دیں، کچھ باتیں زبانی بھی بتا دیتے۔‘‘

ہمیں یہ سب پڑھ کر بہت افسوس ہوا، اگرچہ ہم مختلف اسلوب میں کم وبیش ایسی ہی باتیں پہلے بھی سنتے آئے ہیں، لیکن اس بار سوچا کہ اصل حقیقت تک پہنچنا چاہیے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ اس ملک کے لیے اپنا سب کچھ لٹا دینے والے ایک بے لوث مفکر کے حوالے سے بار بار ایسے سنگین الزامات لگائے جاتے رہیں، اور اس کے سنوارے گئے ’نونہال‘ منہ میں گھنگھیاں ڈال کر بیٹھے رہیں، سو ہم سے بھی رہا نہ گیا، ہم نے ’ہمدرد‘ میں بچوں کی کتب کے شعبے ’نونہال ادب‘ کے اُس وقت کے ڈائریکٹر رفیع الزماں زبیری صاحب (اللہ انھیں صحت وعافیت دے) کو زحمت دی اور ان کے سامنے یہ معاملہ رکھا، تو انھوں نے سختی سے اس بات کی تردید کی اور کہا کہ ’میں حلفیہ یہ بات کہتا ہوں کہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے، حکیم محمد سعید تو ہوائی جہاز میں دوران سفر بھی لکھتے رہتے تھے۔

بچوں کے لیے ان کے پہلے سفرنامے ’یہ ترکی ہے‘ ان کے ایک طویل سفری احوال کا حصہ تھا، جس میں سے ترکی کے سفر کو میں نے ضرور ایک کتاب کی شکل دی تھی، لیکن باقی سارے سفرنامے انھوں نے اسی طرح لکھے اور پھر اپنے ہر سفر پر بچوں کے لیے ایک سفرنامہ ترتیب دیا۔‘

رفیع الزماں زبیری نے بتایا کہ انھوں نے حکیم سعید کی زندگی میں ان کے ایک پرانے سفر کے احوال کو بھی شایع کیا، جو ان کی شہادت کے بعد بہ عنوان ’نقشِ سفر‘ سامنے آسکا۔ ان کے سفرناموں کو ’سعید سیاح‘ کا مقبول ومعروف نام بھی رفیع الزماں زبیری ہی کا تجویز کردہ تھا، جس میں سعید سیّاح چین میں، سعید سیّاح امریکا میں، سعید سیّاح ٹورنٹو میں، وغیرہ شامل ہیں۔ ’نونہال ادب‘ کے ذمہ دار شخصیت کی جانب سے وضاحت کے بعد اب اس حوالے سے چہ مگوئیاں ختم ہونی چاہئیں اور اپنی کتاب کا ’’صرف ایک آدھ صفحہ لکھنے‘‘ جیسی افسوس ناک اور غیر حقیقی باتوں کو ترک کرنا چاہیے۔

ساتھ ہی ہم یہ چاہیں گے کہ ’ہمدرد‘ فاؤنڈیشن یا حکیم محمد سعید کے کسی اور چاہنے والے کو یہ کام ضرور کرنا چاہیے کہ وہ حکیم محمد سعید کی جانب سے بنائی گئی ’’بچوں کی فوج‘‘ کا بھی کوئی باقاعدہ ’حلقہ‘ ترتیب دے، جس سے کم از کم یہ بات واضح ہو کر سامنے آسکے کہ حکیم محمد سعید کی تربیت یافتہ نسل آج کون کون سے عہدوں پر فائز ہے اور ان کی تعلیمات نے ان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی، اخلاقیات وروایات اور اصول وضوابط میں کس قدر اور کیسا اثر ڈالا۔۔۔ کہ آخر ہم بھی تو حکیم محمد سعید کی فوج کے ایک چھوٹے سے سپاہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔