بُک شیلف

رضوان طاہر مبین  اتوار 22 مئ 2022
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

’’نقشِ آزاد‘‘ کے ’نئے نشاں‘


یہ ’نقش آزاد‘ کی اشاعتِ نو کا تذکرہ ہے، جس کا پہلا ایڈیشن 1959ء میں شایع ہوا تھا، جس کے بارے میں اِس کتاب کے مرتب مشہور صحافی مولانا غلام رسول مہر کے تحقیقی ورثے کے امین صاحب زادے امجد سلیم علوی کا کہنا ہے کہ اُس میں بہت سی سطور شایع ہونے سے رہ گئی تھیں، یا پھر اس وقت متعلقہ کردار حیات تھے، تو شاید اس سے گریز کیا گیا ہوگا۔

اب انھیں قوسین میں شایع کیا گیا ہے۔ نیز بہت سے خطوط جو نہ جانے کیوں کر شایع ہونے سے رہ گئے تھے، وہ بھی اس کتاب میں شامل کر دیے گئے ہیں۔ یوں مجموعی طور پر 20 صفحات کا اضافہ ابوالکلام آزاد کے عقیدت مندوں کے لیے تحفہ ہے۔

امجد سلیم علوی کی جانب سے یہ اپنے والد کی کتب کی ازسرنو اشاعت کے باب میں ایک اور اہم اضافہ ہے، جس میں امام الہند ابوالکلام آزاد کے خطوط شامل ہیں، ان مکاتیب میں ذاتی راہ و رسم سے زیادہ مسائل صحافت وسیاست اور لسانیات کی بازگشت ملتی ہے، بہت سی جگہوں پر علمی و تاریخی مباحث، بالخصوص 1857ء کے واقعات سمیت مندرجات غالب اور دلی کے آس پاس بھٹکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

بالخصوص ’غدر‘ کے بعد کس طرح سام راج نے بدمست ہاتھی کی طرح ہندوستان کی راج دھانی کو کچلنا شروع کیا کہ شہر کے شہر کو مسمار کر کے رکھ دیا گیا۔۔۔ صرف تصور ہی کیا جا سکتا ہے کہ یہ کیسی آفت تھی کہ محلے کے محلے آبادیوں سے خالی کرا کے نیست ونابود کر دیے گئے! شیخ غلام علی اینڈ سنز (042-37352908,042-37323951) سے شاید شدہ اس نسخے میں مولانا غلام رسول مہر کی کتاب ’غالب‘ پر مولاناآزاد کے حواشی بھی شامل ہیں، صفحات 320 اور قیمت 900 روپے رکھی گئی ہے۔

ایک محقق ’قاضی‘ سے انصاف


کتاب ’’قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی، احوال وآثار‘‘ کی مصنفہ رئیس فاطمہ لکھتی ہیں کہ یہ کتاب دراصل ’اکادمی ادبیات پاکستان‘ کے معروف سلسلے ’پاکستانی ادب کے معمار‘ کے تحت شایع ہونی تھی، جو بعضے تعصبات کے سبب نہ ہو سکی۔

جنوری 2020ء میں ’ایکسپریس‘ میں شایع ہونے والے انٹرویو میں ہم سے بھی رئیس فاطمہ نے اس کا تذکرہ کیا تھا کہ مسند نشیں ’اکادمی ادبیات‘ افتخار عارف کی وہاں سے رخصتی کے باعث یہ کتاب شایع ہونے کا معاملہ کھٹائی میں پڑ گیا۔ کثیرالجہت شخصیت قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی (1897ء تا 1955ء) مسلم لیگ کی ہم وزن جماعت ’انجمن اتحاد المسلمین‘ کے نائب صدر اور ’انجمن ترقی اردو‘ کے شریک معتمد بھی رہے۔

ان کی وفات پر بابائے اردو ہی نہیں شاہد احمد دہلوی جیسی نابغہ روزگار شخصیت نے بھی تعزیت کی کہ ’ہم ان کا نام بچپن سے دیکھتے آرہے ہیں، وہ جرمن، فرانسیسی اور انگریزی کا بھی یک ساں درک رکھتے تھے۔‘ قاضی احمد میاں اختر جوناگڑھی کی علمی وادبی زندگی کا آغاز محض 17 سال کی عمر میں ہوا اور پھر یہ سلسلہ بٹوارے کے ہنگام کے بعد سرحد کے اِس پار بھی اسی طرح تشنگانِ علم کو سیراب کرتا رہا۔ اس کتاب میں ان کے خاندانی پس منظر، آبا و اجداد کی عراق سے سندھ آمد اور پھر گجرات میں قیام سے لے کر ہجرت اور تقسیم سے پہلے اور بعد کی تمام خدمات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اُن کی ادبی خدمات بالخصوص اقبالیات اور اس کے مختلف سیاسی، تاریخی اور ادبی پہلو اور ان کا تنقیدی جائزہ شامل ہے۔

اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر ’ولی گجراتی‘ کے اصل وطن کی تحقیق بھی قاضی صاحب کا کارنامہ ہے، جنھیں ہم عام طور پر ’ولی دکنی‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر مقالات، تحقیقی مضامین اور کتب سمیت پانچ ایسے مضامین بھی اس کتاب میں شامل ہیں، جو طاقِ گُم نامی میں تھے۔ قاضی صاحب صرف تحقیق کی دنیا ہی میں معروف نام نہ تھے، بلکہ انھوں نے شعر و سخن کی نگری کو بھی آباد کیا، قیاس کیا جاتا ہے کہ اگر وہ تحقیق سے فرصت لے کر اس جانب توجہ دیتے، تو ان کے مختصر مجموعہ کلام کے بہ جائے ایک ضخیم دیوان بھی منصہ شہود پر آسکتا تھا۔

یہی نہیں اردو میں پہلے ’سانیٹ‘ (چودہ مصرعوں کی صنف) کہنے کا اعزاز بھی قاضی صاحب کے پاس ہے، جب کہ کچھ لوگ اس کا سہرا اختر شیرانی کے سر باندھتے رہے ہیں۔ بقول مصنفہ کے کہ قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی سے آج کی نسل کو اردو، عربی اور فارسی ادب کے معمار کی حیثیت سے واقف اور آگاہ ہونا چاہیے، رئیس فاطمہ موجودہ ’بدذوقی‘ میں بڑوں کی غفلت کا بھی اعتراف کرتی ہیں، لیکن رئیس فاطمہ نے اس کمی کا خوب حق ادا کیا ہے۔

قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی نے اپنے زمانے اور بہت سے پچھلے عرصے کی کیسی کیسی نابغہ روزگار ہستیوں کو بُہتیری کتابوں، مقالوں اور مضامین میں محفوظ کیا، آج اُن کے تمام کارناموں کو اختصار کے ساتھ آنے والی نسلوں تک پہنچانے کے لیے ان کی قابل فخر بہو کے ہاتھوں یہ اہم کام انجام پایا۔ مکمل حوالہ جات سے مرصع 180 صفحات کی اس کتاب میں گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا گیا ہے، قیمت 500 روپے ہے۔

’ہم‘ میں موجود ’احفاظ الرحمن‘


معروف صحافی احفاظ الرحمن کی وفات ہمارے عہد کا ایک ایسا واقعہ ہے، جو ایک اداس باب کے طور پر موجود رہے گا، بالخصوص ان سے اکتساب کرنے والوں کے لیے یہ ایک اَن مٹ سانحہ ہے۔۔۔ اپنے اصولوں پر ڈٹ جانے والے اور بے اصولیوں پر نہایت درشت اور سخت برہم محسوس ہونے والے احفاظ صاحب کو ان سے ملنے جلنے والے خوب اچھی طرح جانتے ہیں۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی دنیائے اجل سے رخصتی کو انھوں نے قلبی طور پر بہت زیادہ محسوس کیا اور اس پر اپنے اپنے محسوسات سپردِ قلم کیے بنا نہ رہ سکے۔

جب احفاظ صاحب کے لفظ تحریکوں میں مزاحمت اور کٹھنائیوں میں راہ نمائی بن جاتے ہیں، تو اُن سے قریبی تعلق رکھنے والے کچھ احباب کا خراج عقیدت بھی کسی حوالے کی طرح نمایاں ہے۔ زیرِتبصرہ کتاب ’احفاظ الرحمن اور مزاحمت‘ کچھ ایسے ہی مضامین کا گُل دستہ ہے، جسے معروف محقق ڈاکٹر جعفر احمد نے سجایا ہے۔ جس میں پہلے حصے بہ عنوان ’میزان‘ میں پروفیسر سحر انصاری، فہمیدہ ریاض، زاہدہ حنا، مبین مرزا اور ڈاکٹر جعفر احمد کے مضامین جمع ہیں۔ جب کہ دوسرے حصے ’کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں‘ میں مہ ناز رحمن، خاور نعیم ہاشمی، امجد اسلام امجد، شہناز احد، توصیف احمد خان، ڈاکٹرناظر محمود، نرجس ملک، وارث رضا، رمیز رحمن، عبداللطیف ابو شامل، محمد عامر خاکوانی اور احمد اقبال شامل ہیں۔

تیسرے حصے ’قلم سرخروئی‘ میں احفاظ الرحمن کی 26 مختلف تحریریں شامل ہیں، جس میں معروف امریکی دانش وَر نوم چومسکی، واحد بشیر اور علی احمد کرد پر اظہار خیال کے علاوہ سیاسی جبر واستبداد اور صحافتی اخلاقیات پر مختلف مضامین آراستہ کیے گئے ہیں۔ آخری حصے میں 11 نظمیں بھی اس کتاب کا حصہ ہیں۔ کتاب کے ابتدائی حصے میں احفاظ صاحب کے صاحب زادے رمیز رحمن کا لکھا ہوا مختصر سوانحی خاکہ ’ہم جیتے جی مصروف رہے‘ بھی شامل ہے۔ 323 صفحاتی کتاب کی قیمت 800 روپے ہے، جب کہ کتاب کے ناشر انسٹیٹیوٹ آف ہسٹاریکل اینڈ سوشل ریسرچ‘ کراچی (021-34140035) ہیں۔

ایک مؤدب ’’بے ادبی‘‘


’اردو بے ادبی کی مختصر تاریخ‘ کا عنوان مندرجات کے ہلکے پھلکے اور پرمزاح ہونے کا پتا دیتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مصنف امجد محمود چشتی اردو ادب کے کسی سکہ بند اور صف اول کے مزاح نگار کی طرح طنز کے نشتر برساتے ہیں، تاہم مندرجات کو ٹٹولیے تو دل اَش اَش کر اٹھتا ہے کہ کس طرح انھوں نے اردو کے زبان وبیان کے حوالے سے قلم آرائی فرمائی ہے، جسے فقط مزاح یا ہلکا پھلکا قرار دینا خاصی ’ہلکی‘ بات لگتی ہے، کیوں کہ جیسے ہمارے ہاں ایک روایتی نصابی کتاب ہوتی ہے، جو زیادہ تر خشک موضوعات کو سپاٹ طریقے سے بیان کرتی جاتی ہے۔

بالکل ایسے ہی کوئی بھلا استاد انھیں بہت سہل انداز سے طالب علموں کے ذہنوں تک پہنچا دیتا ہے اور نئی نسل کی داد وتحسین ہی نہیں سمیٹتا، بلکہ انھیں یہ یقین بھی دلاتا ہے کہ یہ بات اتنی مشکل ہر گز نہیں تھی کہ جتنی کسی روایتی نصاب میں کر دی گئی تھی، بعینہٖ اس کتاب میں اردو زبان وبیان، ادب وسخن، لفظیات، رسم الخط، قواعد وانشا اور املا وغیرہ وغیرہ جیسے درجنوں بنیادی اور اعلیٰ ثانوی درجے کے بہتیرے خشک اور سنجیدہ مسائل بہت اختصار اور دل چسپ پیرائے میں قلم بند کیے گئے ہیں کہ بے ساختہ داد دینے کو جی چاہتا ہے۔

168 صفحات پر مشتمل اس کتاب کے انتساب کا ماجرا کچھ یوں ہے ’’آئین کی دفعہ 251 کے نام، جس میں اردو زبان کو قومیانے کی نوید بھی زبانِ غیر میں رقم ہے۔‘‘ ’نستعلیق مطبوعات‘ (03004489310, 03314489310) لاہور سے شایع شدہ اس کتاب کی قیمت 500 روپے ہے۔

’’کتابوں کی کتابیں‘‘

روزنامہ ایکسپریس میں ’’کتابوں کی باتیں‘‘ کے عنوان سے کالم لکھنے والے رفیع الزماں زبیری کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں، یوں تو وہ کوچۂ صحافت کے راہی بھی رہے، لیکن ہم جیسے 1990ء کے بچوں کے لیے وہ ’ہمدرد نونہال‘ میں اپنے مستقل مضمون ’سچی بات‘ کے ذریعے متعارف ہوئے، جہاں وہ ’نونہال ادب‘ کی آنے والی کتب کے حوالے سے بتاتے تھے کہ فلاں فلاں موضوعات پر کتاب زیرِ طبع ہے اور فلانی کتب فلاں تاریخ تک دست یاب ہو جائے گی۔۔۔ پھر جب انھوں نے ’کالم نگاری‘ کی راہ چُنی، تو اِسے نہ تو اپنی عمومی رائے دہی کا ذریعہ بنایا اور نہ ہی اور کسی موضوع پر گفتگو کی، بلکہ اِسے ’کتابوں کی باتیں‘ کے عنوان سے صرف نئی کتابوں پر تبصروں تک محدود کر دیا۔۔۔ اردو صحافت میں پہلے کبھی یہ رِیت رہی ہو تو ہمارے علم میں نہیں، لیکن ماضیٔ قریب سے آج کے زمانے تک ایسا باقاعدہ اور مستقل مزاجی سے جاری رہنے والا سلسلہ تو یقیناً کوئی نہیں، البتہ ادبی صفحات اور جرائد پر بہت سے لوگ نئی کتابوں پر تبصرے ضرور کرتے رہے ہیں، جیسے اس صفحے پر ہم بھی یہی کام انجام دے رہے ہیں، لیکن مستقل عنوان کے ساتھ ’ادارتی صفحے‘ پر ہر بار ایک کالم کسی ایک کتاب کے لیے مختص کردینا رفیع الزماں زبیری ہی کا خاصہ ہے۔ ’ایکسپریس‘ میں شایع ہونے والے ان کے مذکورہ کالموں کے نصف درجن سے زائد مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔ زیر تبصرہ پانچ مجموعوں کو شمار کیجیے، تو سوا دو سو کے قریب کتب کے خلاصے مع اقتباسات اور تبصروں سے آگاہی حاصل ہو سکتی ہے۔

٭ ان مجموعوں میں ایک ’’کتاب اور صاحبِ کتاب‘‘ ہے، جس میں سرگزشت (عبدالمجید سالک)، لوح ایام (مختار مسعود)، خود سر شہزادی (شہزادی عابدہ سلطان)، اعمال نامہ (سر رضا علی)، میرے ہم سفر (احمد ندیم قاسمی)، سرمایہ سخن (علی سردار جعفری)، فقیر کا تکیہ (اشفاق احمد) ورکنگ ود ضیا (جنرل کے ایم عارف)، کوئٹ ڈپلو میسی (جمشید مارکر)، بلا کم وکاست (مہدی علی صدیقی)، تاریخ خانہ کعبہ (محمد طاہر بن عبدالقادر الکروی) اور دیگر پر 54 کالم شامل کیے گئے ہیں، گویا 256 صفحات میں آپ لگ بھگ 54 کتابوں کے بارے میں آگاہی حاصل کر لیتے ہیں۔ کتابوں کے عنوان کو ہی ’کالم‘ کا عنوان بنایا گیا ہے، کالموں پر تاریخِ اشاعت موجود نہیں، بہت سے کالموں میں اگرچہ کتابوں جیسے ہی مندرجات کا دل نشیں تذکرہ ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہو پاتا کہ یہ کالم کسی مخصوص کتاب کے بارے میں ہے یا نہیں؟ بہت سی جگہوں میں کالم کتاب کے مندرجات میں گھل مل جاتا ہے، اندازہ نہیں ہو پاتا کہ کالم نگار نے مِن وعن نقل کیا ہے، یا پھر یہ خلاصہ یا تبصرہ ہے۔ اس میں نئی کتابوں کے ساتھ کچھ تاریخی کلاسیکی کتابوں پر بھی اظہار خیال ملتا ہے، جیسے مولانا ابوالکلام آزاد کی کتاب غبارِخاطر وغیرہ۔ قیمت 295 روپے ہے۔

٭ 220 صفحات کا مجموعہ ’’نقشِ کتاب‘‘ 49 کتابوں سے تعارف کراتے ہوئے کالموں سے مرصع ہے۔۔۔ مردم دیدہ (چراغ حسن حسرت)، روبرو (حکیم محمد سعید کے انٹرویو)، غبار (قیسی رام پوری)، بارِ شناسائی (کرامت اللہ غوری کی خود نوشت)، سرکاری اداروں کی اصلاح (ڈاکٹر عبدالوہاب کے تجربات)، در در کی ٹھوکر کھائے (ڈاکٹر مبارک علی کی خود نوشت)، خاکوں کی کتاب اوراقِ ناخواندہ (ڈاکٹر طاہر مسعود)، اردو کے نادرو کم یاب شخصی خاکے (راشد اشرف)، مٹھی بھر یادیں (کشور ناہید) ابراہیم جلیس ایک جائزہ (ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم)، ریڈیو پاکستان میں تیس سال (انور سعید کی یادداشتیں)، Creation of Bangladesh Myths Exploded (جنید احمد)، قائداعظم کے نام بچوں کے خطوط (ڈاکٹر ندیم شفیق ملک) وغیرہ شامل ہیں۔ قیمت 395 روپے ہے۔

٭ اسی طرح ’’آپ بیتی اور جگ بیتی‘‘ کے 198 صفحات 43 کالموں کو سموئے ہوئی ہے، اس کی ورق گردانی کیجیے، تو اس میں سیرت رسولﷺ تاریخ کے تناظر میں (ڈاکٹر سید معین الحق)، ذکر آزاد (ابوالکلام آزاد پر مولوی عبدالرزاق ملیح آبادی کی کتاب)، دو مسافر دو ملک (مسعود احمد برکاتی)، کہاں سے لائوں انھیں (مظہر محمود شیرانی)، وقت میرے حصے کا (جسٹس ایس اے ربانی کی خود نوشت)، ڈاکٹر حمید اللہ، حیات، خدمات، مکتوبات (راشد شیخ)، گوہر گزشت (الطاف گوہر کی یادداشتیں)، The Last Nizam (نظامِ حیدر آباد پر جان زبر کری کی تصنیف)، ہوا کے دوش پر (ڈاکٹر فیروز عالم)، انجمن (فقیر سید وحید الدین)، ہم نفسانِ خوش گزراں (حمزہ فاروقی کے شخصی خاکے)، افکارِ پریشاں (جسٹس محمد رستم کیانی کی تقاریر) ودیگر شامل ہیں۔قیمت 300 روپے ہے۔

٭ ’’حرفِ کتاب‘‘ کے 228 صفحات کے دامن میں 49 کالموں کو سجایا گیا ہے، حرف شوق (مختار مسعود)، منزلیں گرد کے مانند (خلیق ابراہیم خلیق)، نکات (ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے مضامین کا آخری مجموعہ)، مختصر سفرنامے ورپورتاژ (راشد اشرف)، یادوں کا سفر (اخلاق احمد دہلوی)، ذکر کچھ دلی والوں کا (محمود عزیز)، بزم صبوحی (اشرف صبوحی کی تحریریں)، زیرِلب (صفیہ اختر کے خطوط)، شکار گزشت (ناصر علی خان)، ایوانِ صدر میں سولہ سال (م۔ب خالد)، یاران نجد (مقبول جہانگیر)، ہم نفسوں کی بزم (شمیم حنفی)، ارتقا (سید ارتقا احمد زیدی کی آپ بیتی)، شبلی مکاتیب کی روشنی میں (معین الدین احمد انصاری)، روداد ریل کی (فضل الرحمن قاضی)، خود ستائیاں (ڈاکٹر اشفاق احمد ورک)، سفرِ امریکا کی ڈائری (اختر حمید خان)، فروزاں چہرے (خوش بخت شجاعت)، غیر فوجی کالم (بریگیڈیر صولت رضا)، ضرب ظرافت (امیر الاسلام کی مزاحیہ شاعری) شامل ہے، قیمت 300 روپے ہے۔

٭ ’’کتابیں ہیں چمن‘‘ میں 123 صفحات میں 32 کالم یک جا کیے گئے ہیں، جن میں شام کی منڈیر سے (ڈاکٹر وزیر آغا)، خطوطِ آزاد (مالک رام)، گنج ہائے گراں مایہ (پروفیسر رشید احمد صدیقی)، مشاہدات (ہوش بلگرامی)، لال سبز کبوتروں کی چھتری (ڈاکٹر اسلم فرخی)، یادوں کا جشن (کنور مہند سنگھ)، سید مودودی- مردِ عصر صورت گر مستقبل (ڈاکٹر تصدق حسین راجا)، رفت وبود (ڈاکٹر ابواللیث صدیقی)، انشائے ماجد (عبدالماجد دریاآبادی)، آشنائیاں کیا کیا (حمید اختر)، وہ کہاں گئے (مظہر محمود شیرانی)، جو ہم پہ گزری (سید سبط یحییٰ نقوی کی سفارتی سرگزشت)، نایاب ہیں ہم (آصف جیلانی کے لکھے گئے خاکے)، دنیا میرے آگے (مفتی تقی عثمانی)، عربی ادب کی تاریخ (محمد کاظم)، قلم چہرے (ضیا شاہد) وغیرہ شامل ہیں، قیمت 400 روپے ہے۔یہ تمام مجموعے فضلی سنز، (0335-3252374, 021-32629724) کراچی سے دست یاب ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔