کراچی میں پینے کے پانی کا بحران

شبیر غوری  اتوار 22 مئ 2022
فوٹوفائل

فوٹوفائل

کراچی میں پینے کے پانی کے بحران کو حل کرنے کے لیے ہر سطح پر منصوبہ بندی فوری طور پر ہونا ضروری ہے۔ کراچی میں فراہمی آب اور نکاسی آب کے ادارے کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور اس ادارے میں اعلیٰ سطح پر افسران کی کشمکش سے ادارے کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

کراچی میں طویل عرصے سے پینے کے پانی کا بحران ہے ، شہر کے بہت سے علاقوں میں پینے کے پانی کے مسائل موجود ہیں۔ مضافاتی بستیوں میں بھی پانی نہیں ہے۔ بی بی سی کی کچھ عرصے پہلے کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں پینے کے پانی کی تجارت عروج پر ہے اور واٹر مافیا منظم طریقے سے سرگرم عمل ہے ، جو پورے شہر میں پانی کی مصنوعی قلت پیدا کر کے پانی بیچنے کے منافع بخش کاروبار میں ملوث ہے۔

بعض رپورٹوں کیمطابق کراچی کے بعض علاقوں کے پانی کی تجزیاتی تحقیق سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ پانی حفظان صحت کے اصولوں کے خلاف ہے جس سے بیماریاں پھیل سکتی ہیں۔ طبی ماہرین اس سلسلے میں پہلے بھی کئی رپورٹیں پیش کرچکے ہیں۔کراچی میں ’’ واٹر مافیا ‘‘ بھی تیزی سے اپنے اثرات بڑھا رہی ہے۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے افسر شاہی کے ساتھ مل کر بعض علاقوں میں پانی فراہم نہیں کیا جاتا ، جس کی وجہ سے ان آبادیوں کے مکین مہنگے داموں پانی خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور پانی کی تجارت اب پھیلتی جارہی ہے۔

واٹر مافیا شہریوں کی اس مجبوری سے فائدہ اٹھا کر منہ مانگی قیمت میں پانی بیچتی ہیں اور پانی کیونکہ ہر انسان کی بنیادی ضرورت میں شامل ہے اس لیے پانی کی تجارت فروغ پا رہی ہے۔ کراچی میں آبادی کے اضافے کے ساتھ ساتھ پانی کی فراہمی کا تناسب کم ہورہا ہے۔ کراچی ایک بین الاقوامی شہر ہے جس کی آبادی تیزی سے پھیل رہی ہے ، اس لیے واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کی ذمے داری ہے کہ وہ پینے کے پانی کی فراہمی کا بندوبست کریں اور ایک ایسا لائحہ عمل طے کریں کہ جس کی بنیاد پر کراچی میں مستقبل میں پانی کی قلت پیدا نہ ہوسکے اور شہری پانی کو خریدنے پر مجبور نہ ہوں۔

کراچی کے شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے کے لیے وفاقی حکومت کو بھی اضافی فنڈز دینے چاہئیں۔کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے مالی حالات ابتر ہیں وفاقی اور صوبائی حکومت کے محکموں پر اس کے کثیر رقم کے بل واجب الادا ہیں جن کی ادائیگی کے لیے طریقہ کار وضع ہونا ضروری ہے۔ عام صارفین تو ہر ماہ بلوں کی ادائیگی کردیتے ہیں مگر بڑے صارفین ادائیگی سے گریز کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو شدید بحران کا سامنا ہے۔ صنعتی مقاصد کے لیے استعمال ہونیوالے پانی کے بلوں کی ادائیگی میں بھی تاخیر ہوتی ہے۔

کراچی میں پینے کے پانی کی فراہمی میں عملی مشکلات بھی موجود رہی ہیں۔ 2002میں حکومت سندھ نے دریائے سندھ سے کینجھر جھیل تک پانی پہنچانے کے متعلق ایک اسٹڈی کرائی تھی۔ کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے بھی کینجھر جھیل سے کراچی تک پانی کی فراہمی کے متعلق رپورٹ تیار کی تھی۔ عظیم تر کراچی فراہمی آب منصوبہ K-IV کے لیے حکومت سندھ نے دریائے سندھ سے کراچی کو پانی کی فراہمی کی تجویز کو تسلیم کرلیا تھا۔

اس سے پہلے حکومت سندھ کے بعض ذرایع کا خیال تھا کہ اگر دریائے سندھ کے پانی کوکراچی کے شہریوں کے پینے کے لیے فراہم کیا گیا تو سندھ کی زراعت کے لیے فراہم کیا جانے والے پانی کا کوٹہ متاثر ہوسکتا ہے۔ جس سے زرعی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں لیکن اب باہمی مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ سندھ کی زرعی معیشت کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ کے پانی کی کراچی میں فراہمی ممکن ہوگی یہ ایک اچھا فیصلہ ہے لیکن جس وقت دریائے سندھ میں پانی کم ہوتا ہے اسی وقت کراچی کو پانی کی فراہمی متاثر ہونا فطری امر ہے۔

کراچی میں پینے کے پانی کی ضروریات بڑھتی جارہی ہیں اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ پینے کے پانی کے بحران کو حل کرنے میں ناکام نظر آتا ہے۔ سندھ حکومت کی یہ بنیادی ذمے داری ہے کہ وہ کراچی اور شہر کے دیگر بڑے شہروں ، دیہاتوں ، قصبوں کے لیے پینے کے پانی کی فراہمی کے منصوبوں کی تکمیل پر توجہ دیں اور ایسے اقدامات کیے جائیں کہ شہریوں کو صاف و شفاف پانی فراہم ہوسکے۔

پینے کا پانی ایک انسانی ضرورت ہے اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کو پینے کے پانی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے حتی المقدورکوششیں کرنی چاہئیں یہ حقیقت ہے کہ کراچی کی مضافاتی بستیوں کو پینے کے پانی کا سنگین بحران کا سامنا ہے اور اس بحران سے نمٹنے کے لیے کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ نے ابھی تک قابل عمل اقدامات نہیں کیے ہیں۔ مضافاتی بستیوں کے مکین پینے کے پانی کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں واٹر مافیا مضافاتی بستیوں کے ساتھ ساتھ اب شہر کے پوش رہائشی علاقوں میں بھی پینے کے پانی کا بحران پیدا کر کے اپنی منفعت بخش پینے کے پانی کی تجارت کو وسیع کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے۔

حکومت کو صورتحال کی سنگینی کا نوٹس لینا چاہیے اور جن علاقوں میں پانی کی مصنوعی قلت واٹر مافیا کے مفاد میں کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے حکام پیدا کررہے ہیں ان کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔