غریبوں کا پاکستان

جاوید قاضی  اتوار 22 مئ 2022
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

کبھی کبھی خون دل میں انگلیاں ڈبو کے لکھنا پڑتا ہے ۔ سحر ہو نہ ہو ہمیں ٹھہرنا پڑتا ہے،اس رات کی ماتم گھڑی میں جو میرے ارض وطن پر آن پڑی ہے۔

ایک بند گلی ہے کسے کچھ بھی خبر نہیں ہے،ہم جو محلوں میں رہتے ہیں ، کتنے فاقے پڑتے ہیں، ان غریبوں کے گھروں میں ، بچوں کی فیس کے پیسے نہیں ہیں کہ اب تعلیم پرائیویٹ اسکولوں میں ملتی ہے، سرکاری اسکولوں میں اب میرے وڈیرے نے بھینسیں باندھ دی ہیں، اسپتالوں سے ڈاکٹر زاب پرائیویٹ کلینک پرچلے گئے ہیں، دوائیاں جو ضروری ہیں وہ ملتی نہیں اور غیر ضروری دوائیں ڈاکٹر صاحب نے ڈھیر ساری لکھ کے دی ہیں کہ اس کو کمپنیاں اور لیبارٹری والے کمیشن دیتے ہیں۔ دریا سوکھ گیا ہے ، زمینیں بنجر پڑی ہیں۔

آمدنی ہے کہ بڑھتی نہیں ہے اور افراط زر ہے کہ رکتا نہیں۔ ڈالر تھمتا نہیں اب کے کوئی مقتل جاتا نہیں کسی کو کوئی مارتا ہو ،شاید لیکن غربت ہے کہ اندر سے مار دیتی ہے۔ خود اپنے ہاتھ میں خنجر لے کے پھرتا ہے ، خود اپنے وجود پر وار کردیتا ہے اب۔ وہ ماں جس نے معصوم بچوں کو نیٹی جیٹی پل سے پہلے پھینکا پھر خود چھلانگ لگا دی۔ ملتا ن میں ایک ماں نے پہلے بچوں کو مارا ،پھر اپنے آپ کو۔ وہ میرا تھر، وہ کنواں، وہ درخت کی شاخ پر لٹکی ہوئی لاش ،کسی کو کچھ نظر آتا بھی ہے کہ نہیں۔ کس طرح پولیس ان کے گھروں کے اندر کود پڑتی ہے کہ ان کی چادر اور چار دیواری ہوتی نہیں۔

اور ایک یہ شرفا کی بٹالین ہے کہ ان کی آپس میں گھمسان کی جنگ ہے۔ تقاریر پر تقاریر ہیں۔ دھمکیاں، گالیاں، آئین کا ٹوٹ جانا اور بے حیائی سے گردن اونچی کرکے چلنا کہ جیسے کچھ کیا ہی نہیں ۔ کوئی کارکردگی نہیں، تباہی کی اس حد تک پہنچا یا، اب لکھتے ہیں کہ یہ سب جو ، اب ہوا ہے اس حکومت کے ایک مہینے میں ہوا ہے اور یہ حکومت وہ اقدام اٹھاتی نہیں جو ضروری ہیں کہ کہیں مہنگائی نہ بڑھ جائے اور وہ عوام میں غیر مقبول نہ ہوجائیں۔ اقدامات نہ اٹھانے سے بے چینی سے مارکیٹ دھڑام سے گرتی ہے اور ڈالر ،بلڈ پریشر کے آلے میں موجود پارے کی طرح چڑھ جاتا ہے۔

سب نفی ہے اس ملک کی تاریخ میں ، سیاہ در سیاہ باب ہیں مگر فقط ایک ہی کام تھا جو عظیم تھا ، جس کی وجہ سے یہ ملک اب بھی اتنی ساری بربادیوں کے بعد بھی ٹوٹا نہیں ہے، وہ ہے 1973 کا آئین ۔ مگر نظریہ ضرورت اب بھی اس کا تعاقب کرتا ہے،یہ جو سب عکس ہے یہ اسی جنگ کا تسلسل ہے جو اب تک جاری و ساری ہے آئین اور نظریہ ضرورت کا آپس میں گتھم گتھا ہوجانا۔ عزیز ہم وطنوں کی باز گشت ہے ۔ گدھ ہیں جو کھانے کو دوڑتے ہیں۔

خان صاحب نے احتساب کے نام پر جو کام کیے کیا وہ کسی کو نظر نہیں آتے۔ کیا کوئی ایف آئی اے کے سابق ڈی جی کو کٹہرے میں کھڑا کر کے پوچھے گا، وہ جو ایک وزیر تھا ،جو کہتا تھا ’’جان اللہ کو دینی ہے‘‘ اور کس طرح پھر رانا ثناء اللہ کی گاڑی سے منشیات ملتی ہے ، یہ جو شہزاد اکبر تھے وہ کیا کرتے تھے کس طرح نیب کے ذریعے اپوزیشن کو ہراساں کرنے کے لیے جھوٹے کیس بنائے گئے ۔ کس طرح صحافیوں کو اٹھایا گیا، مارا گیا ، کیوں سب چپ تھے پھر اس وقت۔

اسی ملک کو اس حال پر جمہوریت نے نہیں آمریتوں نے پہنچایا ہے۔ کس نے 2018 کی انتخابات میں کھلم کھلا آر ٹی ایس سسٹم کو خراب کیا ، اتنی بڑی میگا دھاندلی کی؟ اور بہت سے لوگوں کو بلیک میل کیا گیا، ان کی وڈیو منظر عام پر آئیں۔یہ سب ہوا ،اس کے اوپر کارکردگی صفر بٹہ صفر۔ کہ ملک کی تاریخ میں ستر سالوں تک ڈالر بڑھ کے ایک سو دس روپے تک پہنچا ۔ لاڈلے کے ساڑھے تین برس میں ایک سو نوے تک پہنچا ۔یہ وہ وقت ہے جب لوگ غدار اور محب وطن کے لیبل کا بازار گرم کرتے ہیں۔ Cowardice is last refuge of scounderal

یہ جو آئین اور نظریہ ضرورت کا جھگڑا ہے وہ کیا ہے ۔ یہ حدوں کا جھگڑا ہے ۔ آئین کہتا ہے کہ ہر کوئی اپنے حد میں رہ کے کام کرے۔ نظریہ ضرورت کہتا ہے کہ حالات بہت خراب ہیں ایسا ممکن نہیں ہے۔ اب تو آئین کے بنیادی ڈھانچے کی تھیوری بھی مبہم ہوگئی ہے۔ کسی کو خان صاحب کی گوگی نظر نہیں آتی۔ کتنی ہزاروں ایکڑ زمینیں نام نہاد یونیورسٹیوں کے نام ہتھیائی گئی ہیں۔ کس طرح کنسٹرکشن مافیا کام کرتا ہے مزید اس کالم میں پوراسچ لکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ہم نے کب کہا کہ پارلیمانی جمہوریت ٹھیک ہے، مگر آپ نے اسے کام کرنے دیا ہو نہ، آمریتیں دس دس سال نکال جاتی ہیں اور جو مشکل سے دو چار سال جمہوریت آتی ہے اس کے پیچھے سوموٹو شروع ہوجاتے ہیں ، نظریہ ضرورت چل پڑتا ہے ۔

بنگلہ دیش میں یہ جنگ بند ہوچلی۔ آمریتیں وہاں سے اپنا بوریا بستر لپیٹ چلیں۔ وہ جب تک یہاں تھے ہمیں کہتے رہے کہ آئین چاہیے، ہم نے آئین بنانے کے لیے انتخابات کرائے اور پھر اس کے نتائج کو ماننے سے انکار کر بیٹھے۔ وہ چلے گئے، اس بحث میں تو خیر نہیں جاتے کہ پھر نہ مجھے پورا دل کچھ اس طرح سے رکھنا پڑے کہ جس طرح کسی شکرے کو ماس کھلانا پڑتا ہے، وہ اور ان کا ٹکہ جسے ہم دو ٹکے کا سمجھتے تھے آج ہمارے روپے سے ڈھائی گنا بہتر ہے۔ وہاں پارلیمانی جمہوریت عروج پر ہے اور یہ ہوتا ہے کہ کوئی ذوالفقارعلی بھٹو کی طرح سول ڈکٹیٹر بھی نظر آنا شروع ہوجاتا ہے، مگر کچھ وقت کے لیے جس طرح نہرو تھے ، اس کا مطلب یہ نہیں کہ نظریہ ضرورت لے آئیں۔ ابھی اسی حکومت کو آئے ہوئے مہینہ بھی نہیں ہوا، صدر پاکستان ہیں کہ حکومت سے تعاون نہیں کررہے۔ پنجاب کا گورنر ہے کہ بغاوت پر اتر آیا ہے۔

پوری دنیا میں فوڈ کرائسز آئے ہوئے ہیں اور ہم ہیں کہ ابھی بھی اس لنگڑی لولی جمہوریت کو مانتے نہیں ہیں۔ اسی سے ہی تمام راستے نکلتے ہیں ، یہی ہے جو منزل ہے۔ آپ اس طرح بھی دیکھیں کہ ان کو عوام میں غیر مقبول ہونے کا ڈر اتنا ہے کہ وہ تیل کی قیمتیں نہیں بڑھا رہے ہیں اور اس کا بوجھ برداشت کررہے ہیں۔ یہ ہے ایک طرح سے پارلیمانی جمہوریت کا حسن بھی کہ خواہ کتنے ہی کرپٹ ہوں ،یہ سیاستدان ان کو الیکشن کی بڑی فکر ہوتی ہے کہ کہیں وہ ہار نہ جائیں، جب کہ آمریتوں کو نہیں ہوتی، وہ لوٹ کھسوٹ بھی کرتی ہیں اور ا ن کا احتساب بھی نہیں ہوتا اور کسی کو جرات بھی نہیں ہوتی۔نہ ان کو ووٹ کی ضرورت ہے ، وہ آر ٹی ایس سسٹم کو فیل کردیتے ہیں۔

یہ غربت ایک رات میں ختم نہیں ہوگی یقین سے کہتا ہوں پارلیمانی جمہورہت ہی ایک راستہ ہے جو آہستہ آہستہ چلتا ہے مگر پائیدار ہوتا ہے اور غربت اسی کو سمجھ آتی ہے آمریتوں کو نہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔