ملک و قوم سے محبت کے دعوے

ڈاکٹر نوید اقبال انصاری  پير 3 مارچ 2014
apro_ku@yahoo.com

[email protected]

اسکول کے زمانے میں جب بھی اسکول کی چھٹیاں پڑتی تھیں میں اپنے ایک ہم جماعت (کلاس فیلو) کے گھر جایا کرتا تھا۔ ان کے پڑوس میں ایک چوہدری صاحب رہا کرتے تھے۔ ان چوہدری صاحب کا مکان نہایت خوبصورت ہی نہیں بلکہ انتہائی صاف ستھرا ہوا کرتا تھا۔ محلے کی دیگر گلیوں کی بہ نسبت ان کی گلی بھی نہایت صاف ستھری دکھائی دیتی تھی۔ میں اکثر ان کے مکان کی خوبصورتی اور صفائی ستھرائی کے بارے میں سوچتا تھا۔ ایک مرتبہ جب اسکول کی چھٹیوں میں، میں اپنے دوست کے گھر ملنے گیا تو محسوس ہوا کہ گلی میں صفائی ستھرائی پہلے جیسی نہیں۔ چوہدری صاحب کے مکان کی بات بھی پہلے جیسی نہیں لگ رہی تھی۔ معلوم کرنے پر دوست نے بتایا کہ چوہدری صاحب یہ مکان کرائے پر دے کر کسی ڈیفنس سوسائٹی میں منتقل ہوگئے ہیں۔ خیر کچھ عرصے بعد دوست کے ہاں پھر جانا ہوا تو دیکھا کہ چوہدری صاحب کا گھر پہلے سے بھی بدتر حالت میں ہے اور گلی میں بھی جگہ جگہ غلاظت کے ڈھیر ہیں۔ میں نے اپنے دوست سے احوال معلوم کیا تو قریب بیٹھے ہوئے ان کے والد نے کہا کہ بیٹا چوہدری صاحب یہ مکان فروخت کرگئے ہیں جب تک وہ محلے میں رہتے تھے ان کا گھر اور گلی بھی صاف ستھری ہوتی تھی لیکن جب وہ ڈیفنس چلے گئے تو ان کی توجہ اس مکان اور گلی محلے سے ہٹ گئی۔ میرے اس سوال پر کہ گھر تو پھر بھی چوہدری صاحب ہی کا تھا اگر انھوں نے کرائے پر کسی اور کو دے کر کہیں اور رہائش کرلی تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ میرے دوست کے والد صاحب نے جواب دیا کہ بیٹا آدمی جہاں رہتا ہے وہیں کے مفادات کی فکر کرتا ہے یہی چوہدری صاحب نے کیا۔ یہاں سے جانے کے بعد ان کا مکان بے شک یہی تھا مگر گھر کہیں اور لہٰذا انھوں نے گھر پر توجہ دی مکان پر نہیں، یوں وہ مکان جو کبھی قابل دید تھا خستہ حالی کا شکار ہوگیا اور بالآخر انھیں یہ مکان فروخت کرنا پڑا۔مذکورہ واقعہ راقم کو اس وقت پاکستان کے دو اہم مسئلوں کے سلسلے میں یاد آیا کیونکہ ان مسئلوں کا براہ راست تعلق اس گھر یعنی پاکستان سے ہے جس کو گھر سے مکان بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایک مسئلے کے خوش آیند انداز میں حل کیے جانے کی اطلاع ہے لیکن دوسرے اہم مسئلے کا حل مخالف سمت میں نکالنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔

ایک مسئلے کے حل کی خوش آیند اطلاع اس طرح سے ہے کہ سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے کیپٹل ایڈمنسٹریشن و ڈیولپمنٹ ڈویژن نے سرکاری افسران کی بین الاقوامی تنظیموں، بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور بین الاقوامی این جی اوز میں بلااجازت یا سرکاری چھٹی لے کر ملازمت حاصل کرنے پر پابندی کا بل اتفاق رائے سے منظور کرلیا ہے۔ یہ بل سینیٹر سیدہ صغری امام نے سینیٹ میں پیش کیا تھا، ان کا موقف تھا کہ بعض سرکاری ملازمین ملازمت چھوڑے بغیر بین الاقوامی اداروں میں ملازمت اختیار کرلیتے ہیں جس کی وجہ سے ان افسران کے مفادات غیر ملکی اداروں کے ساتھ وابستہ ہوجاتے ہیں، وہ اپنے مفادات کے لیے ملک کے ساتھ وفاداریاں تبدیل کرلیتے ہیں اور ملکی مفادات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اس لیے ان پر پابندی عاید ہونی چاہیے۔ بل میں سول سروس ایکٹ کے رول 10-A میں ترمیم کرنے اور سرکاری ملازمین پر بغیر ملازمت چھوڑے بیرون ملک ملازمت کرنے پر پابندی عاید کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔

راقم کے خیال میں سینیٹر سیدہ صغریٰ امام نے یہ بل پیش کرکے اس ملک و قوم کی بہت بڑی خدمت کی ہے اور اپنے فرائض کو نہایت ایمانداری اور فرض شناسی سے نبھایا ہے، اس پر انھیں جتنا خراج تحسین پیش کیا جائے کم ہے، کیونکہ یہ وہ مسئلہ ہے جس سے اس ملک کی بنیادیں ایک عرصے سے کمزور ہو رہی ہیں۔ سینیٹر سیدہ صغریٰ امام کا یہ موقف صد فی صد درست ہے کہ بعض سرکاری ملازمین ملازمت چھوڑے بغیر بین الاقوامی اداروں میں ملازمت اختیار کرلیتے ہیں جس کے باعث ان افسران کے مفادات غیر ملکی اداروں کے ساتھ وابستہ ہوجاتے ہیں اور وہ اپنے مفادات کے لیے ملک کے ساتھ وفاداریاں تبدیل کردیتے ہیں اور ملکی مفادات پس پشت ڈال دیتے ہیں۔

یہ تو ایک وہ مسئلہ تھا جس کا اس ملک کے عوام کی خوش قسمتی سے مثبت حل نکل آیا، امید ہے کہ اس قانون پر اب عملدرآمد بھی ہوگا تاہم دوسرا مسئلہ بھی قریب قریب ایسا ہی ہے اور وہ ہے اس ملک کی تقدیر کے فیصلے کرنے والوں کا پاکستان کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کی شہریت رکھنا۔ دہری شہریت کا مسئلہ بھی اسی طرح حساس اور اہم ترین ہے کہ جس طرح سرکاری ملازمین کا سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے بغیر بین الاقوامی اداروں میں ملازمت کرنے کا ہے۔

بات بالکل سیدھی سی ہے کہ جو لوگ غیرملکی شہریت حاصل کرلیتے ہیں تو ایک جانب تو انھیں قانوناً اس ملک کی وفاداری کا بھی عہد کرنا پڑتا ہے جس کی وہ شہریت حاصل کرتے ہیں پھر یہ فطرتی بات بھی ہے کہ انسان جہاں کا ہوکر رہے وہیں کے مفادات کی نگہبانی بھی کرتا ہے کیونکہ اس کے اپنے مفادات بھی اسی سے منسلک ہوجاتے ہیں۔ پھر اس بات پہ بھی غور کرنا ضروری ہے کہ کوئی شخص بیک وقت دو ملکوں سے وفاداری کس طرح کرسکتا ہے۔ گلوبل ایج کے اس دور میں کہ جب تمام ممالک کے مابین آگے بڑھنے کی تگ و دو لگی رہتی ہے پھر خصوصاً ایسے ممالک سے وفاداری کیسے نبھائی جاسکتی ہے کہ جن کے مفادات ہمارے وطن عزیز کے مفادات سے ٹکراتے ہوں۔ یہاں مفادات کے ٹکراؤ سے متعلق پاکستان و بھارت کے امریکا کے ساتھ معاملات پر صرف دو چھوٹے سے واقعات کا ذکر ہی کافی ہے پوری خارجہ پالیسی تو ایک طرف۔ پاکستان میں ریمنڈ ڈیوس نے جو کچھ کیا اس پر پاکستانی مفادات کا تقاضا تھا کہ اس ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان ہی میں سزا کا سامنا کرنا پڑتا مگر سب نے دیکھا کہ مفادات کے اس ٹکراؤ میں امریکا بہادر کے مفادات جیت گئے۔ دوسرا واقعہ بھارتی سفیر کا ہے کہ کس طرح امریکی پولیس نے نہ صرف اس خاتون سفیر کے خلاف کارروائی کی بلکہ اس کے ساتھ انتہائی غیر انسانی سلوک کی ویڈیو دنیا بھر میں دیکھی بھی گئی۔

سینیٹر سیدہ صغریٰ امام کا جب یہ موقف کہ غیر ملکی اداروں کی ملازمت اختیار کرکے پاکستانی سرکاری ملازمین ملک کے ساتھ وفاداریاں تبدیل کرلیتے ہیں درست تسلیم کرلیا جاتا ہے (اور یقیناً کرنا چاہیے) تو پھر یہی اصول پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوئے اراکین کے لیے کیوں درست نہیں؟ جب سرکاری ملازمین اپنی وفاداریاں پاکستان کے ساتھ رکھنے میں ناکام ہوسکتے ہیں تو کیا ہمارے ممبر پارلیمنٹ انسان نہیں ان سے یہ غلطیاں سرزد نہیں ہوسکتیں؟ جان بوجھ کر ہی نہ سہی کسی دباؤ کے تحت تو وفاداریاں پاکستان کے خلاف جاسکتی ہیں کیونکہ دہری شہریت میں تو غیر ملک سے وفاداری کا بھی حلف نامہ بھرنا پڑتا ہے۔ جن ممبران پارلیمنٹ نے اس ملک کے آئین کا حلف اٹھایا ہوتا ہے اور جنھوں نے اس ملک کے عوام سے انتخابات کے وقت وعدے کیے ہیں ان کے وفادار رہنے کے ان کے مسائل حل کرنے کے تو بھلا جب اس ملک اور عوام کے مفادات کے برعکس اس ملک سے وفاداری کی بات ہوگی جس کی شہریت حاصل کرتے وقت وفاداری کا حلف اٹھایا گیا تھا تو ان میں سے کس کے مفادات کو پس پشت ڈالا جائے گا؟ اگر غیرملکی مفادات پس پشت ڈالنے کی کوئی بات کرے تو سوال یہ ہے کہ بھئی آپ کو دہری شہریت کے حصول کے وقت حلف وفاداری اٹھانے کی کیا ضرورت تھی؟ اور اگر اس حلف کے بغیر غیر ملکی شہریت نہیں ملتی تو شہریت حاصل کرنا ہی کیوں ضروری تھی؟

محب وطن ہونے کا سیدھا سا ثبوت یہ ہے کہ غیر ملکی شہریت ہی اختیار نہ کی جائے تاکہ کسی قسم کی قانونی اور اخلاقی پابندی وطن کے مفادات کے راستے میں نہ آئے۔ اس ملک و قوم سے محبت کے دعوے کرنے والوں کو پارلیمنٹ میں بیٹھنے کے لیے دہری شہریت کو قربان کردینا چاہیے اور خود اس ملک کے ماحول میں عوام کے درمیان رہ کر ملک و قوم کی خدمت کرنی چاہیے نہ کہ دہری شہریت کے ذریعے خراب حالات میں ملک سے فرار ہونے کا راستہ کھلا رکھنا چاہیے۔ ہماری قوم کے تو ایسے لوگ ہیرو ہیں جو سمندر پار جاکر اپنی کشتیاں جلادیتے ہیں کہ یا غازی یا شہید دوسرا راستہ کوئی نہیں۔

ہمارے ملک کے مسائل حل نہ ہونے کی اصل وجہ بھی شاید یہی ہے کہ ان کے مسائل حل کرنے والوں کے مفادات ان مسائل سے نہیں کسی اور کے مسائل حل کرنے سے وابستہ ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ دہری شہریت کے حق میں بل پارلیمنٹ میں پیش کرکے منظور کیا جا رہا ہے۔ اگر سینیٹر سیدہ صغریٰ امام اور دیگر سینیٹر اس بل کے خلاف پیش رفت کرتے ہیں تو یہ ملک و قوم کی بڑی خدمت ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔