تنے رسے پر چلنے کا شوق

وسعت اللہ خان  پير 3 مارچ 2014

سرزمین ِ حجاز سے برِصغیری مسلمانوں کا لگاؤ اور الفت شائد حجازیوں اور نجدیوں سے بھی سوا ہے۔ہر مسلمان بچہ اور کچھ جانے نہ جانے مگر اتنا ضرور جانتا ہے کہ مکہ اور مدینہ کس خطے میں ہے۔حجاز میں جو بھی نظریاتی تحریکیں اٹھیں انھوں نے برِصغیر پر اتنا ہی اثر کیا جتنا حجاز پر۔سعودی عرب تو نوے برس پہلے تشکیل پایا مگر اس سرزمین سے جنوبی ایشیا کا تعلق ہزار سال سے زیادہ پرانا ہے۔عربوں کے ناطے ، عربی کے ناطے ، برگذیدگی کے ناطے ، تاریخ کے ناطے یہ ممکن ہی نہیں کہ اس سرزمینِ عرب سے احترام کا رشتہ قطع ہوجائے۔

اتنا ہی گہرا رشتہ برصغیریوں کا ایران سے بھی ہے۔بلکہ ایران کا ہندوستان سے ثقافتی ، لسانی ، سماجی ، جغرافیائی ، تاریخی ، علمی رشتہ عربوں سے بندھنے والے رشتے سے بھی قدیم ہے۔آج کا لگ بھگ نصف پاکستان ( سندھ ، بلوچستان )  کبھی ایران کی زرتشتی بادشاہتوں کی مملکت میں شامل  تھا۔ ہمارے ہاں جو خطاطی و مصوری و دستکاری و تعمیرات و ظروف سازی و پارچہ بافی ہوتی ہے ، جو اردو بولی جاتی ہے ، جو پکوان بنتے ہیں۔جس طرز کی شاعری ہوتی ہے ان سب پر ایرانی اثرات کس قدر ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔بلوچستان کو دیکھئے ، بلوچوں سے ملیے ان کا گنگا جمنی تہذیب سے اگر کوئی  تعلق ہے تو بڑا واجبی سا ہے۔ان کے رہن سہن و لسانیات کے ڈانڈے تاریخ کی پگڈنڈی سے ہوتے ہوئے ایران سے جاملتے ہیں۔مغلوں کا ہندوستان ہو کہ رنجیت سنگھ کی سکھا شاہی، غالب سے اقبال تک درباری و ادبی زبان کی کسوٹی فارسی ہی تھی۔

اور اب آئیے شام کی طرف۔ بچپن میں ہم جو کہانیاں پڑھتے تھے، ان میں کوئی کردار ہو نہ ہو مگر ملک ِ شام کا کوئی نہ کوئی بادشاہ ، شہزادہ یا شہزادی کہانی میں ضرور ہوتے تھے۔نبی کریم کے تجارتی سفر کی داستان ہو کہ غزوہ ِ یرموک ، صلاح الدین ایوبی کا ذکر ہو کہ بی بی زینب کا ، فتح قسطنطینہ کا قصہ ہو کہ صلیبی جنگیں،امویوں کاتاریخی تذکرہ ہو کہ سلطنتِ عثمانیہ کا نقشہ۔ شام کیسے نظرانداز ہوسکتا ہے۔شام نظرانداز ہو بھی جائے تو دمشق کا محاوراتی و علمی حوالہ کون بھلا سکتا ہے۔

تینوں خطے پاکستانیوں کے لیے ہر زاویے سے اہم تھے اور ہیں۔لیکن اب یوں لگ رہا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے ان ممالک کو یکساں انداز میں دیکھنے کی پالیسی ہوا کے رخ کی طرح دانستہ و نادانستہ تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ حالانکہ تینوں ممالک مختلف ادوار میں پاکستان کے کسی نہ کسی طور یکساں حلیف رہے ہیں۔ایران سے پاکستان کی قربت پیدائش کے بعد سے ہی شروع ہوگئی تھی۔رضا شاہ پہلوی پہلے بادشاہ تھے جنہوں نے پاکستان کا دورہ کیا۔ایران اور پاکستان کے درمیان کبھی سرحدی تنازعہ یا ایک دوسرے کے خطے پر دعویِٰ ملکیت نہیں رہا۔پینسٹھ کی جنگ ہو کہ اکہتر کی ایران نے پاکستان کی ہر طرح سے مدد کی۔

ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شاہ فیصل کے سعودی عرب ، زید بن سلطان کی متحدہ عرب امارات ، حافظ الاسد کے شام اور شاہ کے ایران سے یکساں متوازن اور قریبی تعلقات تھے۔ لیکن ضیا الحق کے دور میں سعودی عرب پر پاکستان کا نظریاتی انحصار اور چھاپ گہری ہونی شروع ہوئی۔ایران میں انقلاب آنے کے بعد سے ایرانی قیادت کے جوشیلے بیانات اور ایرانی انقلاب کی ایکسپورٹ کے خدشات کے سبب دوطرفہ تعلقات میںگرمجوشی کا عنصر کم ہونے لگا اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور پھر پی آئی اے کے طیارے کی مبینہ طور پر الذولفقار کے ہاتھوں ہائی جیکنگ نے پاکستان کی فوجی حکومت اور شام کی بھٹو دوست اسد حکومت کے درمیان تعلقات کو نقطہِ انجماد پر رکھ دیا۔

جب افغانستان پر سوویت قبضے کا قصہ شروع ہوا تو ایران اور پاکستان کی افغان پالیسی نے یکجائی کے بجائے متوازی مفاداتی رخ اختیار کیا۔ایران کے نظریاتی حریف سعودی عرب، پاکستان اور امریکا کی افغان پالیسی مشترک ہوتی چلی گئی اور شام سوویت حلیف ہونے کے سبب پاکستان کے خارجہ پالیسی ریڈار سے غائب ہوتا گیا۔لیکن ضیا حکومت نے پھر بھی کوشش کی کہ شیعہ ایران اور سنی عراق کی جنگ میں کسی ایک فریق کی جانب اتنا نہ جھکا جائے کہ دوسرا فریق بالکل ہی سفارتی ہتھے سے اکھڑ جائے۔

اگرچہ ضیا الحق کو بیتے زمانہ ہوا لیکن اس زمانے میں پاکستان کو جو نئی عرب نواز نظریاتی عینک لگی اس کے عدسے پتلے ہونے کے بجائے اور موٹے ہونے شروع ہوگئے اور پھر سعودی عرب اور ایران نے مخاصمانہ فٹ بال کھیلنے کے لیے پاکستان کے گراؤنڈ کا انتخاب کیا۔یوں پاکستان میں فرقہ وارانہ تعلقات میں کشیدگی کا اگلا اور پرتشدد دور شروع ہوا۔ پاکستان میں جوں جوں خلیجی عرب ممالک کی سرمایہ کاری بڑھتی گئی توں توں پاکستان کے خارجہ پالیسی سازوں کا نظریاتی پلڑا بھی روایتی توازن برقرار رکھنے کے بجائے بتدریج ایک جانب جھکنے لگا۔

یہ وہ پس منظر ہے جس نے شام میں مارچ دو ہزار گیارہ میں شروع ہونے والی خانہ جنگی کی بساط پر توازنِ طاقت اپنے حق میں کرنے کے لیے شطرنج کی ابتدا کی۔شروع میں شام کے معاملے پر امریکا اور سعودی عرب ایک ہی صفحے پر تھے جب کہ پاکستان کا شام کے جھگڑے سے کوئی سفارتی لینا دینا نہیں تھا۔

لیکن آج سفارتی نقشہ کچھ یوں بن گیا ہے۔کہ شام کے معاملے پر سعودی اور امریکی ہم آہنگی میں واضح دراڑ ہے۔امریکا اور پاکستان کے موجودہ تعلقات بھی مثالی نہیں ہیں۔امریکا کا ایران کی جانب رویہ بھی کچھ نرم روی کا ہے جس کا اسرائیل اور سعودی عرب کو مختلف وجوہات کے سبب صدمہ ہے۔ایران اور روس اور لبنانی ملیشیا حزب اللہ اور فلسطینی تنظیم حماس شام کی اسد حکومت کی حلیف ہیں جب کہ ترکی ، قطر ، اردن اور سعودی عرب اسد مخالف شامی مسلح تنظیموں کی مدد کرنے پر اتفاق رکھتے ہیں۔

دوسری طرف پاکستان اور ایران کے تعلقات میں جنداللہ کی سرحد پار چھاپہ مار کارروائیوں اور گیس پائپ لائن منصوبے پر چھائی دھند کے سبب خاصی ٹھنڈ پائی جاتی ہے۔ بحرین کی اکثریتی عوام کی سیاسی بے چینی کو دبانے کے لیے سعودی عرب نے بحرین کی بادشاہت کے تحفظ کے لیے دو برس قبل جو فوجی دستے بھیجے اور اس ضمن میں پاکستان سے نجی انداز میں جس طرح بحرین کے لیے بھرتی ہوئی اس بارے میں بھی پاکستان اور ایران باہمی طور پر مشکوک ہیں۔

زرداری حکومت کے ہوتے ہوئے پاکستان سعودی تعلقات میں قدرے کھچاؤ آگیا تھا۔ لیکن نواز شریف کی نو ماہ پرانی حکومت کے دوران سعودی فوج کے سربراہ ، وزیرِ دفاع اور ولی عہد سمیت متعدد اعلیٰ اہلکار جس تواتر سے اسلام آباد آئے ہیں ایسا زرداری دور میں بالکل نہیں ہوا۔خود موجودہ پاکستانی صدر اور وزیرِ اعظم سعودی عرب کے ایک سے زائد دورے کرچکے ہیں اور پاکستان کے نئے چیف آف آرمی اسٹاف بھی جوابی سعودی دورہ کرچکے ہیں۔جب کہ ایران سے صرف توانائی کے وزیر اور وزیرِ خارجہ نے گیس پائپ لائن کے ضمن میں اسلام آباد کا دورہ کیا اور پاکستانی وزیرِ توانائی اور مشیرِ خارجہ بھی ایک دفعہ ایران جاچکے ہیں۔

یہاں تک تو ٹھیک ہے۔لیکن کان تب کھڑے ہوئے جب سعودی ولی عہد کے دورہِ اسلام آباد کے موقع پر مشترکہ اعلامئیے کی بازگشت پاکستانی سینیٹ میں سنائی دی کیونکہ پہلی مرتبہ پاکستان نے شام کے معاملے میں سعودی موقف کی کھل کے تائید کی اور اتفاق کیا کہ بشار الاسد حکومت کی جگہ ایک با اختیار عبوری حکومت قائم کی جائے۔

عجیب بات ہے کہ جب مصر میں گذشتہ جولائی میں صدر محمد مرسی کی منتخب اخوان حکومت کا تختہ الٹا گیا تو پاکستان نے مصر کے جمہوری عمل میں فوجی مداخلت پر ناپسندیدگی کا کھل کے ویسا اظہار نہیں کیا جیسا شام کے معاملے پر کیا۔کیونکہ مصر کے معاملے میں سعودی پالیسی فوج کے حق میں تھی۔جب کہ شیعہ ایران نے کھل کے سنی مصر کی منتخب حکومت کی برطرفی کی مذمت کی۔

پھر بین الاقوامی خبررساں ایجنسیوں میں یہ خبریں آنے لگیں کہ سعودی حکومت پاکستان سے کندھے پر رکھ کے فائر کیے جانے والے عنزہ میزائیل اور ہلکے ہتھیار خرید کر شامی حکومت مخالفوں کو سپلائی کرنا چاہتا ہے۔ پاکستانی وزارتِ خارجہ کی ترجمان نے اس طرح کی قیاس آرائیوں کی کھل کے تردید کی لیکن بہت سے پاکستانی سینیٹر اس تردید سے مطمئن نظر نہیں آتے۔

شبہات تردیدوں کے باوجود شائد اس لیے کم نہیں ہو رہے کہ ان کی تاریخی وجوہات ہیں۔مثلاً ایوب خان کی وزارتِ خارجہ امریکی یو ٹو طیارہ گرنے سے پہلے تک اس بات کی تردید کرتی رہی کہ بڈبیر کا ہوائی اڈہ امریکیوں کو سوویت یونین کی جاسوسی کے لیے دیا گیا ہے۔یحییٰ خان کی وزارِتِ خارجہ آخری وقت تک کہتی رہی کہ ساتواں بحری بیڑہ خلیج بنگال میں پاکستان کی مدد کے لیے بھیجا گیا ہے۔ضیا الحق کے پورے دور میں وزارتِ خارجہ یہی کہتی رہی کہ افغان مجاہدین کی صرف سیاسی و اخلاقی حمایت کی جارہی ہے اور یہ کہ پاکستان کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد آگے بڑھانے کے لیے ہے۔بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت میں یہی کہا جاتا رہا کہ افغان طالبان کی تشکیل سے پاکستان کا کسی بھی سطح پر کوئی لینا دینا نہیں۔نواز شریف کے دوسرے دورِ حکومت میں ابتدا میں یہی موقف اختیار کیا گیا کہ کرگل کے محاذ پر کچھ کشمیری جہادی تنظیموں کے لڑاکے کارروائی کررہے ہیں۔مشرف اور زرداری کی وزارتِ خارجہ مسلسل کہتی رہی کہ ڈرون طیارے نہ تو کبھی پاکستان کی سرزمین سے اڑے نہ ان طیاروں کو قبائلی علاقوں پر حملے کی زبانی یا تحریری اجازت دی گئی، نہ ہی شمسشی اور جیکب آباد ایئربیس امریکی فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہورہے ہیں اور نہ ہی پاکستان کی فضائی حدود سے امریکی اسلحہ افغانستان بھیجا گیا ہے۔پاکستان تو کئی دن اس پر بھی بضد رہا کہ ڈما ڈولا کے مدرسے پر میزائلی حملے میں جو اسی سے زائد طلبا جاں بحق ہوئے تو یہ حملہ امریکی ڈرونز نے نہیں ہم نے کیا۔

اس تناظر میں بھلا بتائیں کہ ترجمانِ وزارت خارجہ محترمہ تسنیم اسلم کی اس بات پر کیسے سو فیصد اعتبار کیا جائے کہ شام کے متعلق پاکستان کی پالیسی میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی اور جو لوگ یہ کہتے ہیں وہ نہ صرف عقل سے پیدل ہیں بلکہ انھیں خارجہ پالیسی کی اب ت بھی معلوم نہیں۔کاش ایسا ہی ہو۔ورنہ اب تک تو پاکستان کی خارجہ پالیسی فارسی کے کلاسیکی شاعر انوری کے اس شعر کی تصویر بنی ہوئی ہے کہ ،

’’آسمان سے جو بھی بلا اترتی ہے پہلے یہی پوچھتی ہے کہ انوری کا گھر کہاں پڑتا ہے ؟؟؟

( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے  bbcurdu.com پر کلک کیجیے )

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔