کیا جذبہ خودی ہمیں پار لگا سکتا ہے؟

صدر مملکت عارف علوی  پير 23 مئ 2022

میری والدہ نے میری میز سے ہیرالڈ رابن کا ناول ” دی کارپٹ بیگرز” اٹھاتے ہوئے کہا “عارف ، آپ افسانے پڑھنا چھوڑ دیں ، اور فلسفہ سیکھیں ” اور مجھے افلاطون کی ‘دی ری پبلک’ تھما دی۔ افلاطون کی یہ کتاب ایک انصاف پر مبنی شہری ریاست کے نظام اور کردار کے بارے میں سقراط کا ایک مکالمہ ہے۔

سقراط اپنے نوجوان ساتھی گلوکون کے ساتھ اس مکالمے میں یہ بیان کرتا ہے کہ ایک ‘انصاف پر مبنی ‘ ریاست میں بہتر فیصلہ سازی کے لیے جمہوریت کے ساتھ ساتھ آزادانہ تجارت کے مواقع ہونا ضروری ہیں۔ گلوکون استفسار کرتا ہے کہ کیا ایک انصاف پر مبنی ریاست کے لیے صرف جمہوریت اور آزادانہ تجارت کے دو اجزائے ترکیبی ہی کافی ہیں ؟ سقراط اس کا نفی میں جواب دیتے ہوئے کہتا ہے کہ “تھائموس”کے بغیر ایک منصفانہ ریاست نہ تو بن سکتی ہے اور نہ ہی اس کا دفاع کیا جاسکتا ہے۔ “تھائموس ” یونانی زبان میں جوش یا جذبے کو کہتے ہیں۔ افلاطون نے اس مکالمے کے ذریعے 375 قبل مسیح کے قریب ایک مکمل انسان اور ایک منصفانہ ریاست کے تین پہلو اجاگر کیے۔

افلاطون سے تقریباً دو ہزار سال بعد فرانسس فوکویاما نے اپنی ایک کتاب میں یہ دعویٰ کیا کہ تاریخ اختتام پذیر ہو چکی ہے اور انسان کا دماغ اور جسم فیصلہ کن حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ فوکویاما کے مطابق لبرل جمہوریت طرز ِ حکمرانی کے تمام نظاموں جبکہ آزاد منڈی کی صورت میں سرمایہ دارانہ نظام تمام معاشی نظریات کی ارتقائی جنگ میں مکمل طور پر فتح یاب ہو چکے ہیں ۔ یہ دونوں نظام بنی نوع انسان کی حکومتی اور معاشی ضروریات پورا کرنے کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں ۔

سیموئیل ہنٹنگٹن نے فوکویاما کے اس دو رْکنی تجزیے کو چیلنج کیا اور سقراط کے سہ جہتی نظریے سے اتفاق کیا۔ اس کے مطابق تاریخِ انسانی میں مذہب، زبان، نسل، یا مشترکہ تاریخ پر مبنی شناخت جیسے جذبات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ وقت کے دھارے میں تہذیبوں کی نوعیت تو بدلتی رہے گی مگر تہذیبوں کا تصادم موجود ہے اور مستقبل میں بھی موجود رہے گا۔ قوموں کی تعمیر میں صرف جمہوریت اور معیشت کی بجائے انسانی جذبات کلیدی حیثیت کے حامل ہیں۔

قرآن کریم بھی حکمرانی کیلیے باہمی مشاورت اور حصول ِ معاش کیلیے تجارت کی تلقین کرتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک ‘امت’ کے تصور کی صورت میں لوگوں کو ایک تشخص بھی دیتا ہے۔ امت سے مراد وہ لوگ ہیں جو نہ صرف مخصوص عقائد پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ ایک عدل اور انصاف پر مبنی ریاست کیلیے ان عقائد پر قائم معاشرے کا دفاع بھی کرتے ہیں۔

انسانی روح مختلف اجزاء کے ساتھ ساتھ محبت، نفرت اور خوف کے جذبات کا مرکب ہے اور یہ جذبات فیصلہ سازی کے عمل پر گہرا اثر رکھتے ہیں۔ یہ جذبات فرد، خاندان، قبیلے اور قوموں کے طور پر ہماری زندگیوں میں بھی تبدیلی رونما کرتے ہیں۔

آج دنیا میں مغرب کی متضاد پالیسیوں کی وجہ سے مایوسی میں اضافہ ہورہا ہے۔ مغربی تعصبات اور دوہرے معیارات کو آفات اور انسانی بحرانوں میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جنگوں اور پناہ گزینوں جیسے معاملات میں بھی نسل، رنگ اور مذہب کی بنیاد پر ہی رحم دلی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ بڑی طاقتیں ’قواعد پر مبنی عالمی نظام‘ کے لیے صرف زبانی جمع خرچ پر ہی اکتفا کرتی ہیں۔ نتیجتاً، دوسری عالمی جنگ کے بعد قائم ہونے والے بین الاقوامی ادارے صرف مغربی مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں۔

اس عالمی منظر نامے کے پیش نظر ، مجھے کامل یقین ہے کہ دنیا ایک ایسے ‘اخلاقیات اور انسانیت پر مبنی عالمی نظام ‘ کی خواہشمند ہے جس کی طاقت اور افادیت کا منبع بندوق کی نال یا کسی خاص مذہب، نسل یا رنگ کے لوگ نہیں۔ اس ساری صورتحال میں پاکستان کس مقام پر کھڑا ہے؟ کیا پاکستان خود کو اور پوری امت مسلمہ کو ایک انصاف پر مبنی عالمی نظام کی جانب لے جانے کے لیے اٹھے گا؟

مجھے اس بات کا پختہ یقین ہے کہ پاکستان اپنا کردار ضرور ادا کرے گا لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ یہ معاشی طور پر مضبوط نہیں ہو جاتا اور اخلاقی، فکری اور تکنیکی طور پر خود کو تیار نہیں کر لیتا۔ دور ِ حاضر میں اگرچہ عظمت کا راستہ زیادہ طویل نہیں مگر اس کے لیے جذبے، اتحاد اور مسلسل جدوجہد کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔

پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو مغلیہ سلطنت کے زوال، اندرونی ریشہ دوانیوں اور نوآبادیاتی نظام کی بربریت سے ابھر کر سامنے آیا ہے۔پستی کی انتہا ملاحظہ فرمائیں کہ ولیم ڈیلریمپل لکھتے ہیں کہ 1857 میں دہلی کی گلیوں میں انسانی خون اور گوشت کی بو ہفتوں پھیلی رہتی تھی۔

اختصار کے لیے بس اتنا ہی عرض کروں گا کہ اس زوال میں سے سرسید احمد خان ابھر کر سامنے آئے اور مسلمانوں کو علم کی جانب راغب کیا۔ پھر علامہ اقبال نے ‘عزتِ نفس ‘کے جذبے کو جلا بخشی اور امت کو ‘خودی’ کا تصور دیا۔ بعد ازاں ، قائداعظم محمد علی جناح نے ہمیں ایک جغرافیائی قومی ریاست کی صورت بخشی۔ مجھے کامل یقین ہے کہ اپنی تاریخ پر فخر ، اقبال کا تصور ِاتحادِ امت ِاسلامی ، جناح کا وڑن اور اپنی شناخت اور وقار کا والہانہ اظہار ہی وہ اجزائے ترکیبی ہیں جن کی بنیاد پر ہم اپنے خوابوں کا پاکستان حاصل کر سکتے ہیں۔

آج پاکستان ایک دوراہے پر کھڑا ہے اور ہمارے ملک میں جذبات کو بھاپ کی طرح بھڑکایا جارہا ہے۔ بحران سے نکلنے کیلیے ہم یا تو اس توانائی کا مثبت استعمال کر سکتے ہیں اور اپنی قوم کو متحد کر سکتے ہیں یا پھر ہم اپنے لوگوں کے مابین مزید تفریق پیدا کر کے خود کو برباد کر سکتے ہیں۔ سمت کا انتخاب ہم پر ہی منحصر ہے اور قیادت کی ذمہ داری پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہے۔ درپیش بحرانوں سے نمٹنے کے لیے ہمیں قربانی کی ضرورت ہے ، مگر یہ قربانی صرف غریبوں نے نہیں بلکہ اس اشرافیہ نے دینی ہے جو قوم کا استحصال کر رہی ہے۔ ہم صرف اسی صورت میں ہی ترقی کر سکتے ہیں۔ اداروں اور سیاسی رہنماؤں دونوں سے رہنمائی حاصل ہو سکتی ہے۔ مگر کیا وہ واقعی اپنے کردار اور ذمہ داری کو سمجھتے ہیں ؟ یہ ایک سوال ہے جس کا جواب جلد ہی مل جائے گا۔

پاکستان اپنے قیام کے بعد سے اپنی شناخت کے حوالے سے مسلسل بحث کا شکار رہا اور مشرقی پاکستان کھونے کے بعد یہ بحثیں مزید شدت اختیار کرگئی۔ کئی دہائیوں بعد بانیان پاکستان کے دو قومی نظریے کو ہندوتوا بھارت کی متعصبانہ کاروائیوں سے تقویت ملی ہے۔ ہمیں آج بھی وہ چیلنج درپیش ہیں جن کا قائد اعظم نے اپنی تقاریر میں ذکر کیا اور ان میں بدعنوانی، اقربا پروری اور رشوت ستانی شامل ہیں۔

میں اپنی قوم کی 75 سالہ جدوجہد کو حضرت موسیٰ ؑکی قوم کے صحرا میں 40 سال تک بھٹکنے کی طرح دیکھتا ہوں۔ کیا ہم نے اس جدوجہد سے کچھ سیکھا ہے اور کیا ہم اپنی قومیت کے تصور کے قریب پہنچ چکے ہیں یا ہم اب بھی کنفیوژن کا شکار ہیں؟ یہ بات اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر میں دنیا کے 5ویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک میں بیداری کی ایک بڑی چنگاری دیکھ رہا ہوں۔

آج ہم جس دوراہے پرکھڑے ہیں وہ من جانب اللہ ہے۔ ہمارے ملک میں جذبات بھاپ کی طرز پر بھڑک اٹھے ہیں۔ ہم متحد ہو کر خود کو بچا سکتے ہیں یا تقسیم کا شکار ہو کر خود کو برباد کر سکتے ہیں۔ بحران ہمیشہ مواقع لے کر آتے ہیں اور ہمیں یا تو پاتال میں گر ا سکتے ہیں یا پھر اوج ثریا کی جانب لے جاتے ہیں۔ بقول اقبالؔ

تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب

یہ تو چلتی ہے تجھے اونچااڑانے کے لیے

اس موقع پر ہمیں ہی انتخاب کرنا ہے۔ ذمے دار قیادت کو پہلے سے کہیں زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ اشرافیہ کی قربانی کے بعد ہی ادارے اور متحرک سیاسی قیادت رہنمائی فراہم کر سکتے ہیں۔ ہمیں جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے اور ایسے ادارے قائم کرنا چاہیے جو معاشرے میں محبت، ہمدردی، انصاف، آزادی اور مساوات کو فروغ دیں۔

صرف انسانی فطرت کی بنیاد پر ادارے قائم کرنا مناسب نہیں۔ انسان کی فطرت میں بھلائی بھی ہے اور انسانی فطرت میں لالچ کے ساتھ جذبات اور بدی بھی شامل ہے۔ یہی ہماری جدوجہد ہے اور درحقیقت یہ تمام مذاہب کی جدوجہد ہے کہ ایسے ادارے قائم کیے جائیں جو معاشرے میں محبت، ہمدردی، انصاف، آزادی اور مساوات کو پروان چڑھائیں۔

’’کیا تم نے ’دی ری پبلک‘ ختم کر لی ؟‘‘ میری والدہ نے ایک مہینے کے بعد مجھ سے سوال کیا۔ ہم نے ’منطق اور دلیل‘ پر وہ گفتگو کی جسے وہ ایک 16 سال کے بچے کے ذہن میں ڈالنا چاہتی تھی۔ میں نے اپنی ماں کے ساتھ فیصلہ سازی میں جذبات کے کردار پر کبھی بات نہیں کی، لیکن اگر وہ آج زندہ ہوتیں تو اس بات سے ضرور اتفاق کرتی کہ ’’اماں! جذبے کے بغیر منطق اور استدلال پر مبنی زندگی ایک خشک، بے رنگ اور نامکمل زندگی ہے۔‘‘

آج بہترین وقت ہے ، لہٰذا میں آپ سب سے ایک جذباتی اپیل کرتا ہوں، کیونکہ جذبے کے بغیر ہماری امت اپنے خواب کی تعبیر نہیں پا سکتی۔ ’’میرے ملک کے باسیو ، اٹھو ! جاگو! ماضی تمہیں روکنے نہ پائے ! دنیا تمہاری منتظر ہے ‘‘۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔