اقبال چین میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اُردو شاعر ہیں

محمد کریم احمد  پير 23 مئ 2022
چین کی بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی میں شعبہ اُردو کی سربراہ محترمہ ڈاکٹر چویوان (نسرین) سے خصوصی گفتگو ۔ فوٹو : فائل

چین کی بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی میں شعبہ اُردو کی سربراہ محترمہ ڈاکٹر چویوان (نسرین) سے خصوصی گفتگو ۔ فوٹو : فائل

ڈاکٹر چو یوان
اردو ادب میں غیر معمولی دلچسپی رکھنے والی ڈاکٹر چو یوان،اسسٹنٹ پروفیسر، سربراہ شعبہ ار دو ، بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی بیجنگ ہیں۔ آپ چین کے صوبے انہوئی میں پیدا ہوئیں۔

زمانہ طالب علمی میں یونیورسٹی میں داخلے کے وقت انہوں نے اپنے والد گرامی کے مشورے پر اردو زبان سیکھنے کا فیصلہ کیا جو بعد میں ان کے حق میںبہت سود مند اور درست ثابت ہوا۔ ڈاکٹر چو یوان نے کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنہ ، بیجنگ سے اردو زبان و ادب میں گریجویشن کی۔

بعد ازاں انہوں نے پیکنگ یونیورسٹی ،بیجنگ سے ایم اے کیا اور پھر تعلیم کے حصول کے سلسلے کو جاری رکھتے ہوئے انہوں نے بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی ، بیجنگ سے اردو ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

آپ چینی اردو تصویری ڈکشنری، اردو لرننگ فار بیگنرز ، جدید انڈیا کی مختصر تاریخ،ا ردو سننے اوربولنے کی نصابی کتاب اور چینی ثقافت کی تاریخ نامی کتب کی مصنفہ ہیں
ٓ

اس کے علاوہ آپ نے ـــانتظار حسین کی مختصر نظموں میں جدیدیت، بیسیویں صدی میں اردو ناول اور فکشن کے سکول، اردو کی انڈر گریجویٹ کلاس کے طلباء کے لیے سننے اور بولنے کی تربیتی مہارتیں کے موضوعات پر ریسرچ پیپرز بھی لکھے ہیں۔

آپ پاک چین تعلقات کے حوالے سے چین سے پیش کیے جانے والے دو ٹی وی پروگرامز کی میزبان بھی ہیں۔

سوال : زندگی کا وہ کونسا لمحہ تھا جب آپ لفظ ــــاردو سے شناسا ہوئیں یا یہ لفظ پہلی مرتبہ آپ نے سنا۔
جواب : میں نے پہلی بار اردو زبان کا نام اس وقت سنا جب میں کالج انٹرنس امتحان سے پہلے اپنے میجر (مضمون) کا انتخاب کر رہی تھی۔ چونکہ مجھے بچپن سے ہی غیر ملکی زبان سیکھنے کا بہت شوق تھا اس لیے جب یونیورسٹی میں داخلے کا وقت آیا تومیں نے کسی غیر ملکی زبان کو اپنے میجر ( مضمون) کے طور پر منتخب کرنے کا فیصلہ کیا۔

غیر ملکی زبانوں کے انتخاب کے حوالے سے میرے پاس کئی آپشن تھے جیسا کہ اردو، ہندی، تامل، ہسپانوی اور ہنگیرین۔ ان زبانوں کے بارے میں مجھے کچھ معلومات نہیں تھیں۔ میں نے زبان کے انتخاب کے حوالے سے اپنے والد صاحب سے مشورہ کیا تو انہوں نے اردو زبان سیکھنے کا کہاکیونکہ یہ ہمار ے دوست ملک پاکستان کی قومی زبان ہے ۔ تو میں نے اپنے والد صاحب کے مشورے پر عمل کیا اور اردو زبان سیکھنے کا فیصلہ کیا۔ بعد میں ، میں نے یونیورسٹی کے داخلے کا امتحان پاس کیا اور میرا داخلہ کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنہ کے شعبہ اردو میں ہو گیا۔ یوں میں نے باضابطہ اردو سیکھنا شروع کی۔

سوال : آپ کو اردو نام نسرین کیسے اور کس نے دیا؟
جواب : چین کی جامعات میں غیر ملکی زبانوں کے شعبہ جات میں طلباء کو نام دینے کی ایک روایت ہے۔ جو چینی طالب علم کوئی بھی غیر ملکی زبان مثلا انگلش، عربی ،تامل ،ہندی یا اردو وغیر ہ سیکھنے کے لیے متعلقہ شعبہ میں داخلہ لیتا ہے، تو اس کو اپنے چینی نام کے علاوہ اس زبان کا ایک نام بھی دیا جاتا ہے۔ اسی روایت کے تحت مجھے بھی اردو نام نسرین دیا گیا۔

نام کا پس منظر کچھ یوںہے کہ ہمارے اردو کے استاد تھے جناب نوید چوہان( موجودہ ڈپٹی کنٹرولر ،ریڈیو پاکستان) جو اس وقت سی آر آئی کی اردو سروس میںکام کر رہے تھے۔ جب ہماری پہلی کلاس ہوئی تو انہوں نے ہم چینی طلباء سے ہمارے چینی ناموں کے مطالب پوچھے ۔ کسی کے نام کا مطلب اونچا یا بلند تھا تو اس کو فراز کا نام دے دیا۔ کسی نے کہا کہ میرے نام کا مطلب کوئی جڑی بوٹی ہے تو اسے سنبل کا نام ملا۔ میرے چینی نام کا مطلب سفید پھول ہے تو مجھے اس مناسبت سے نسرین کا نام ملا۔ یوں میں چویوان سے چو یوان (نسرین) بن گئی۔ یہ نام مجھے پسند بھی ہے کیونکہ ایک تو ادائیگی میں آسان ہے اور ہے بھی خوبصورت۔

سوال : کیا آ پ کو دور طالب علمی کی پہلی کلاس یاد ہے؟
جواب : مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ یکم ستمبر2003ء کی سہ پہر کو میں نے کلاس روم میں اپنے استاد جناب پروفیسر انتخاب عالم صاحب سے پہلی مرتبہ ملاقات کی۔ میرے بارہ ہم جماعت اور میں خاموشی سے بیٹھے ان کی آمدکا انتظار کررہے تھے کہ وہ مسکراتے ہوئے کلاس روم میں ٓداخل ہوئے۔

انہوں نے ہمارے نام پوچھے اور اردو سیکھنے کی وجوہات بھی معلوم کیں۔ میں بہت شرمیلی تھی اور انہیں بتایا کہ میں اس زبان اور پاکستان کے بارے میں کچھ نہیں جانتی ہوں، آپ اس معاملے میں ضرور میر ی مدد و رہنمائی کیجئے گا۔ پھر انہوں نے جواب دیا کہ ہاں، فکر نہ کریں، میں ضرور آپ سب کی بھر پور مدد کروں گا اورمجھے یقین ہے کہ آپ لوگوں کو اردو پسند آئے گی۔ اسی دن انتخاب عالم صاحب نے ہمیں اردو کی تاریخ، اردو کی شاعری اور چین پاک تعلقات کا مختصر تعارف کرایا۔ اسی روز سے میرا اردو کے ساتھ تعلق شروع ہوگیا۔

سوال : اردو زبان سیکھنے کے فیصلے پر کوئی تنقید ہوئی ؟
جواب : تنقید تو نہیں ہوئی مگر میری والدہ پریشان ہو گئیں تھیں۔ کیونکہ میری والدہ کا تعلق ایک کاروباری خاندان سے ہے تو وہ میرے مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہو ئیں۔ ان کی نظر میں اردو زبان سیکھنے کے بعد ملازمت یا کیرئیر میں ترقی کے امکانات کم تھے ۔ اردو سیکھ لی تو ملازمت کہاں ملے گی ، کام کیا ہوگا۔ میری والدہ چاہتی تھیں کہ میں اردو کی بجائے انگریزی زبان سیکھ لیتی تو میں کسی سکول میں ٹیچر لگ سکتی تھی۔ مگر میری یونیورسٹی ، کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنہ ، کا شمار چین کی بہترین جامعات میںہوتا ہے تو اس لیے مجھے اردو کے شعبہ میں ہی ملازمت مل گئی۔

سوال : اردو سیکھنے کے دوران ابتدائی مشکلات کیا تھیں؟
جواب : ابتداء میں کافی مشکلات تھیں۔ زیادہ مشکل لکھنے میں تھی۔اردو کے حروف تہجی کو سمجھنا مشکل تھا۔ پھر حروف کو جوڑنا بھی ایک مشکل کام تھا۔کیونکہ اردو حروف تہجی انگریزی اور چینی سے مختلف ہیں۔ لیکن میں نے محنت کر کے بہت جلد سیکھ لیا۔ اردو زبان میں مطلب کا اظہار چینی زبان سے مختلف ہے۔میری خواہش تھی کہ میں اردو اہل زبان کی طرح بولوں۔ تو اس کے لیے مجھے سوچ کا طریقہ بدلنا تھا۔ میں نے پھر اردو کی کتابیں پڑھیں، ٹی وی ڈرامے اور فلمیں دیکھیں تا کہ میں جان سکوں کہ الفاظ کی ادائیگی کیسے ہوتی ہے، تلفظ کیا ہے۔ اس طرح میں ان کا طریقہ کار جان سکوں گی۔ یوں میں نے آہستہ آہستہ اردو زبان سیکھی۔

سوال : آپ کے ساتھ کتنے ہم جماعت تھے اور ان میں سے کتنے بعد میں اردو زبان سے وابستہ ہوئے؟
جواب : ہم تیرہ کلاس فیلوز تھے۔ ہماری کلاس میں سے تین طالب علم بعد میں سی آر آئی کی اردو سروس سے منسلک ہوئے۔ اور میں تدریس کی جانب آگئی۔

سوال : آپ اردو کی تدریس کی طرف کیسے آئیں؟
جواب : میں کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنہ میں اردو کی طالبہ تھی۔ اور میری گریجویشن مکمل ہونے والی تھی۔میرے ایک دوست نے بتا یا کہ بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی میں اردو کا شعبہ کُھلا ہے۔وہاں اردو ٹیچر کی ضرورت ہے۔تو میں نے بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی کی ویب سائٹ دیکھی تو وہاں اردو ٹیچر کی ویکنسی موجود تھی۔ میں نے اپلائی کر دیا اور اپنی سی وی بھیج دی۔

اس کے علاوہ بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی کے شعبہ اردو نے کمیونیکیشن یونیورسٹی آف چائنہ کے شعبہ اردو کے اساتذہ سے کہا تھا کہ وہ ادھر بھی پڑھائیں اور اپنے طلباء کو بھی ہماری طرف بھیجیں۔ تو یہ سلسلہ تھا۔ پھر بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی نے اردو ٹیچر کے لیے میرا امتحان لیا۔ اردو زبان میںلکھنے اور بولنے کا ٹیسٹ ہوا۔ یہ ٹیسٹ میں نے پاس کیا تو میری بطور ٹیچر سیلکیشن ہو گئی ۔ یوں میں اردو زبان کی تدریس کی طرف آئی۔

سوال : طلباء کو اردو سیکھنے کے دوران کس نوعیت کی ابتدائی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے؟
جواب :مشکلات تو آتی ہیں۔لیکن ہرشخص اور طالب علم کا الگ مزاج اور خصوصیات ہیں۔ ذاتی طور پر میرے لیے تلفظ کا مسئلہ نہیں ہے۔ مگر میرے کچھ طلباء ایسے ہیں جن کے لئے اردو حروف تہجی مشکل ہیں۔ ان کے لیے ر اور ڑ ، ع اور غ اور ح اور خ میں فرق کرنا مشکل ہے۔ جبکہ بعض طلباء کے لیے یہ بہت آسان ہے۔ اسی طرح کچھ طالب علم اردو قواعد سیکھنے میں بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

وہ اردو اور انگریزی کا موازنہ کر کے سیکھ لیتے ہیں۔ جبکہ بعض طلباء ایسے بھی ہیں جن کے لیے قواعد مشکل ہیں۔ ان کو اردو سیکھنے کی عادت نہیں ہے۔ لیکن یہ ساری باتیں یا عمل ابتدائی مرحلے کا ہے۔ بعد میں طلباء اردو سے مانوس ہو جاتے ہیں اور پھر جلد سیکھ لیتے ہیں۔

سوال : آپ کی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کب قائم ہوا اور اس کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
جواب : بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی میں شعبہ اردو دو ہزار سات میں قائم ہوا۔ اس وقت بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ یا سی پیک ( پاک چین اقتصادی راہداری) کا وجود نہیں تھا۔ لیکن چین اور پاکستان کے درمیان تجارتی، سیاسی اور ثقافتی تبادلے زیادہ تھے۔ اس وقت چین میں اردو جاننے والوں کی تعداد بھی کم تھی۔ صرف پیکنگ یونیورسٹی میں اردو کا شعبہ تھا۔ بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی، چین میں غیر ملکی زبانوں کی تدریس کے حوالے سے ایک بڑی جامعہ ہے۔ تو اس لیے یہاں پر اردو کا شعبہ قائم ہوا۔

سوال : شعبہ اردو میں ہر سال کتنے طلباء کو داخلہ دیا جاتا ہے؟
جواب : یونیورسٹی میں ہر چار سال بعد داخلہ ہوتا ہے۔ اور پندرہ سے بیس طالب علموں کو داخلہ دیا جاتا ہے۔

سوال : شعبہ ارد و میں کس درجے کی کلاسز کا انعقاد ہوتا ہے؟
جواب : شعبہ اردو میں ا نڈر گریجویٹ ( بی۔اے) لیول کی کلاسز کا انعقاد ہوتا ہے۔ بی اے کی تعلیم کے چار سالوں میں طلباء اردو کے سلسلے میں پڑھنا، لکھنا، بولنا ، سننا اور ترجمہ کرنا جیسے مضامین لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی تاریخ، سیاست، معیشت، ثقافت اور ادب کے کورسز بھی سیکھتے ہیں۔ جبکہ جرنلزم، آئی آر، معاشیات اور لاء میں سے کوئی ایک منتخب کرکے اپنے مائنر کورس کے طور پر سیکھتے ہیں۔

جب طالب علم بی اے کی تعلیم مکمل کر تے ہیں تو وہ مزید پڑھنے کے لیے چین کی کسی جامعہ یا بیرون ملک جاکر جنوبی ایشیا اسٹڈیز کے شعبے میں تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔ کچھ طالب علم سفارت کار، صحافی، اور اساتذہ کے طور پر چین پاک تعاون کے مختلف شعبہ جات میں کام کرتے ہیں۔

سوال : چین میں اردو زبان سیکھنے والے طلباء کے لیے کس نوعیت کا نصاب ترتیب دیا جاتا ہے؟
جواب : پہلے سال میں جب طالب علم اردو سیکھنا شروع کرتے ہیں اور ان کی اردوکی بنیاد بننا شروع ہوتی ہے تو ہم انہیں ایک لازمی کورس پڑھاتے ہیں ” پاکستان کا معاشرہ و ثقافت”، اس میں چینی زبان میں پاکستان کے مشہور مفکرین ،خاص کر تحریکِ پاکستان سے متعلق مفکرین اور شخصیات کے بارے میں بتاتے ہیں، جن میں اقبال بھی شامل ہیں۔ دوسرے سال میں جب ہم “اردو پڑھنا “اور “اردو قواعد “کے کورسز شروع کرواتے ہیں جس میں ہم نئے الفاظ کے استعمال یا افعال کا استعمال سکھاتے ہیں توہم کوشش کرتے ہیں کہ اقبال کی شاعری سے مثالی جملے دیں۔ مثلاً ، فعل حال، “آتی ہے”، تو ہم طالب علموں کو ” لب پہ آتی ہے دعا بن کہ تمنا میری” مثال کے طور پر سکھاتے ہیں۔

اس لیے پہلے دو سالوں کی تعلیم کے بعد طلباء علامہ اقبال کے کئی مشہور اشعار اور ان کے خیالات سے واقف ہو جاتے ہیں۔ تیسرے اور چوتھے سال میں جب طلباء کی زبان فہمی کا معیار قدرے بہتر ہوتا ہے تو ہم انہیں “اردو کی شاعری کا مطالعہ” اور “پاکستان اسٹڈیز” دو مضامین میں اقبال کی فکر و فلسفے کو مزید تفصیل کے ساتھ پڑھاتے ہیں۔

سوال : اردو شاعری میں کس کس شاعر کا کلام چینی طلباء کو پڑھایا جاتا ہے؟
جواب : اردو ایک بہت خوبصورت زبان ہے۔ رسم لخط، الفاظ اور تلفظ سب خوبصورت اور دلکش ہیں، اور اردو کی شاعری بے شک اپنی مثال آپ ہے۔ اردو کی تدریس کے دوران میں ا پنے شاگردوں کو اردو کے مشہور شعرا ء اور ان کی شاعری سے روشناس کراتی ہوں، مثلاً میر، سودا، ذوق، مومن، غالب، حالی ، اقبال اور فیض۔ان میں ہم اقبال اور فیض پر زیادہ لیکچر دیتے ہیں

سوال : کس پاکستانی شاعر کے کلام کا چینی زبان میں ترجمہ ہوا ہے؟
جواب : اردو شعراء میں علامہ اقبال چین میں سب سے زیادہ مشہور ہیں اور اسی وجہ سے علامہ اقبال چین میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے اردو شاعر ہیں۔ چین میں اقبال کی شاعری کا ترجمہ پچھلی صدی کے پانچویں عشرے سے شروع ہوا تھا۔ شروع میں اقبال کے تین منتخب مجموعوں میں شاعری کے زیادہ تر موضوعات سامراجیت اور نو آبادیت کی مخالفت ، حقیقی زندگی کی عکاسی اور مشرقی اقوام کی آزادی کے حوالے سے ہیں۔اس کے بعد زیادہ تر تراجم اقبال کی فلسفیانہ شاعری کے حوالے سے ہوئے۔

سوال : کیا فیض احمد فیض کے کلام کو بھی چینی زبان میں ترجمہ کیا گیا ہے؟
جواب : فیض احمد فیض کے ذکر کے بغیر اردو ادب کی تاریخ ادھوری ہے۔وہ اردو ادب کے ایک جگمگاتے ستارے ، آٹھ کتابوں کے مصنف، اور درجنوں مشہور نغمات کے خالق تھے۔ فیض کی شاعری کو چینی قارئین کے لیے پیش کرنا نہایت ضروری اور اہم ہے۔

یہاں میں اپنے استاد جناب چانگ شی شوان( انتخاب عالم صاحب) کا ذکر ضرور کروں گی، جو کہ بذات خود اردو اور چینی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے ہیںاور اردو زبان کے ایک نامور اورمستند شاعر ہیں۔ جناب چانگ شی شوان( انتخاب عالم صاحب) نے فیض صاحب کے کلام ” نسخہ ہائے وفا” کا چینی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ انتخاب عالم صاحب کا یہ کام چین میں فیض اور اردو شاعری کو مزید جاننے اور پاکستانی ثقافت و معاشرے کو سمجھنے کے لیے بے حد مددگار ثابت ہو گا۔

نسخہ ہائے وفا کا چینی زبان میں ترجمہ کرنا ایک مشکل کام تھا کیونکہ چینی قارئین اردو شاعری کی صنف غزل سے زیادہ واقف نہیں، تو یہ ایک چیلنج تھا غزل کو چینی شاعری کی شکل میں کیسے ترجمہ کریں۔ تو نسخہ ہائے وفا کا ترجمہ کرنے کے دوران جناب انتخاب عالم نے ہر ایک مصرعے پر غور کیا، ۔ انہوں نے ڈرافٹ مکمل کرنے کے بعد ڈاکومنٹ کی ایڈٹنگ، فونٹ ،سائز کا انتخاب اور بک کور کا ڈیزائن ، ہر ایک پہلو پر انہوں نے بہت توجہ دی۔ انہوں نے تمام تر جزئیات کا خیال رکھا۔ جناب انتخاب عالم صاحب کی اردو زبان سے لگن ، محبت اور اپنے کام سے عشق کی ایک اور مثال دوں کہ نسخہ ہائے وفا کا ترجمہ شروع کرنے سے پہلے جب وہ بی ایف ایس یو میں طالب علموں کو اردو زبان پڑھا رہے تھے، تو وہ ہر ایک طالب علم کے گھر کے کام کی خود اصلاح کرتے تھے اور ضعف بصارت کی وجہ سے انہیں عینک کے علاوہ ایک مگنفائنگ گلاس بھی استعمال کرنا پڑتا تھا۔لیکن وہ کبھی شکایت نہیں کرتے تھے، بس طلباء کے لیے بے لوث کام کرتے تھے۔ ان کی سنجیدگی اور کام کا یہ جذبہ میرے لیے قابل تقلید اور مثال ہے جو مستقبل میں میری ہمیشہ رہنمائی کرے گا۔ مجھے اُمید ہے کہ آئندہ میں بھی اپنے استاد کی طرح چین میں اردو کی تعلیم اور پاکستان سے بہتر تعلقات کے فروغ کے لیے اپنی خدمات انجام دوں گی۔

سوال : کیا پاکستانی اساتذہ بھی آپ کی یونیورسٹی سے وابستہ ہیں یا وابستہ رہے ہیں؟
جواب : جی پاکستانی اساتذہ بھی یہاں اردو پڑھاتے رہے ہیں۔ اس وقت بھی ایک پاکستانی پی ایچ ڈی خاتون یہاں اردو پڑھا رہی ہیں۔

سوال : آپ تدریس کے ساتھ ساتھ شعبہ صحافت بھی سے وابستہ ہیں اور بطور ٹی وی میزبان ایک پروگرام بھی کرتی ہیں۔ کیا آپ سجھتی ہیں کہ اردو زبان جاننے کی وجہ سے آپ کو یہ موقع ملا؟
جواب : جی بالکل ایسا ہی ہے۔ اردو زبان جاننے کی وجہ سے ہی یہ مجھے موقع ملا۔ میرا خیال تھا کہ میں پروگرام نہیں کر سکوں گی کیونکہ میں بچپن سے ہی بڑی شرمیلی اور کم گو تھی۔ اور دوسرا اس وقت صرف سی آر آئی میں ہی پروگرام ہوتے تھے اور وہ کافی کم تھے۔ اور چین میں صرف ایک ادارہ ہی پروگرام پیش کر رہا تھا۔ میڈیا کے بہت سے ادارے اردو میں پروگرام کرنا چاہ رہے تھے۔

اس وقت سی پیک منصوبے کا آغاز ہو چکا تھا۔اس منصوبے کے حوالے سے بعض اوقات منفی باتیں بھی ہوتی تھیں۔ سی پیک کو زیر بحث لایا جاتا تھا۔ تو اس وقت سوچا گیا کہ ان باتوں کے حوالے سے ردعمل دینا چاہیے۔تو چین کے ایک انگلش اخبار نے سوچا کہ ہمیں بھی اردو میں پروگرام کرنا چاہیے۔یو ں یہ ٹی وی پروگرام شروع ہوا۔ انگلش اخبار کو پروگرام کے لیے اردو جاننے والے چینی کی ضرورت تھی تو انہوں نے بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی کے صدر سے رابطہ کیا کہ ہمیں ایک اردو جاننے والے چینی کی ضرورت ہے۔ بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی کے صدر نے مجھ سے رابطہ کیا اور یوں یہ ٹی وی پروگرام کا سلسلہ شروع ہوا۔

سوال : اپنے ٹی وی پروگرام کی تیاری کیلئے کیا آپ اردو مواد کا بھی مطالعہ کرتی ہیں؟
جواب : جی میں اردو مواد کو دیکھتی ہوں اور پڑھتی ہوں۔اصل میں پہلے پروگرا م میں ایک پاکستانی میزبان ہوا کرتے تھے۔ تو میں ان کے ساتھ پروگرام میں شریک ہوتی تھی لیکن میرا حصہ پروگرام میں محدود نوعیت کا ہوتا تھا۔

بعد میں پھر مکمل طور پر میں خود پروگرام کرنے لگی۔اس پروگرام میں ہم پاکستان اور چین کے درمیان مختلف شعبوں میں جاری تعاون پر بات کرتے ہیں۔ان کے فوائد اور نقصانات کو زیر بحث لاتے ہیں۔ اس پروگرام کی تیاری کے لیے میں انٹرنیٹ سے بہت مدد لیتی ہوں۔ بہت سے اخبارات ، میگزین اور پروگرامز میں انٹرنیٹ پر دیکھتی ہوں۔

سوال : اردو کے کونسے ادیب یا شاعر آپ کو پسند ہیں؟
جواب : پاکستانی شاعروں میں مجھے اقبال اور فیض احمد فیض پسند ہیں۔ جبکہ احمد ندیم قاسمی، عصمت چغتائی اور سعادت حسن منٹو بطور ادیب پسند ہیں۔

سوال : کیا آپ پاکستانی فلمیں، ڈرامے اور میوزک سنتی ہیں؟
جواب : جی میں بہت شوق سے پاکستانی میوزک سنتی ہوں اور پاکستانی ڈرامے اور فلمیں دیکھتی ہوں۔ ایک پاکستانی مشروب ساز ادارے کے میوزک کے تما م سیزنز میں دیکھ چکی ہوں۔ بہت اچھے نغمات ہیں۔ان کی ویڈیوز بہت شاندار ہیں۔ میں اپنے طلباء کو ویڈیوز دکھاتی ہوں۔ پاکستانی ڈرامے بھی شوق سے دیکھتی ہوں۔پاکستان کے ایک نجی ٹی وی چینل کے ڈرامے مجھے اچھے لگتے ہیں۔ اور کبھی کبھار وقت ملے تو فلم بھی دیکھ لیتی ہوں۔

سوال : آپ کو کون سے گلوکار ، اداکار پسند ہیں۔
جواب : مجھے گلو کار عاطف اسلم، ادکارہ ماہرہ خان، اداکار فواد خان او ر گلوکارہ مومنہ مستحسن پسند ہیں۔

سوال : ڈرامہ کو نسا پسند آیا؟
جواب : پاکستان کے نجی ٹی وی چینل کا ڈرامہ ہم کہاں کے سچے تھے مجھے اچھا لگا۔

سوال : پاکستانی میوزک میں آپ کو کیا بھاتا ہے؟
جواب : پاکستانی میوزک سارا ہی اچھا لگتا ہے۔ شروع شروع میںتو پاپ گیت سنے۔ پاکستانی پاپ میوزک کی اپنی خصوصیات ہیں جو کہ چینی اورکورین پاپ سے مختلف ہے۔ پاکستانی پاپ میوزک پر کلاسیکل میوزک اور فوک میوزک کے اثرات ہیں۔ مجھے قوالی اچھی لگتی ہے۔ اگرچہ سمجھ نہیں آتی مگر میوزک اور انداز اچھا لگتا ہے۔

سوال : کیا شعبہ اردو میں چینی سے اردو یا اردو سے چینی میں تراجم کیے جاتے ہیں؟
جواب : تراجم کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ بیجنگ فارن سٹڈیز یونیورسٹی کی اردو کی چینی معلمہ ’جن کا اردو نام شبنم ہے‘ نے پاکستان کی اردو لوک کہانیوں کا چینی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ میں نے بذات خود انتظار حسین کی مختصر کہانیوں کا چینی میں ترجمہ کیا ہے۔اس کے علاوہ میں نے حال ہی میں ایک کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب میں چین کی ثقافتی تاریخ کو اردو زبان میں لکھا گیا ہے۔

سوال : پاکستانی اور چینی اصناف ادب میں کیا فرق ہے؟
جواب : میرے خیال میں جدید اصناف ناول یا افسانہ خواہ وہ چین میں ہو یا اردو زبان میں ،اس کو مغرب سے متعارف کروایا گیا ہے۔اور اس پر مغرب کے اثرات ہیں۔ ان کے موضوعات میں یا لکھنے کے طریقہ کار میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ سماجی مسائل پر توجہ دی جاتی ہے۔لیکن کلاسیکل ادب یا شاعری مختلف ہے۔ کچھ مماثلتیں بھی ہیں جبکہ اختلافات بھی ہیں۔

سوال : پاکستانی اردو شاعری میں غزل اور نظم دو بنیادی اقسام ہیں ۔آپ کو اردو دان ہونے کے ناطے ان میں سے کیا پسند ہے؟
جواب : غزل اور نظم میں سے مجھے نظم اچھی لگتی ہے۔اگرچہ غزل میں رومانوی جذبات کا اظہار زیادہ ہے۔غزل کا ہر شعر الگ الگ ہے۔ ایک موضوع پر نہیں۔نظم کے اشعار ایک موضوع پر ہیں۔ ان کے خیالات ایک جیسے ہیں۔اظہار زیاد ہ ہے۔ علامہ اقبا ل نے نظمیں زیادہ لکھی ہیں۔ انقلابی عزائم کے اظہار کے لیے فیض نے نظمیں زیادہ لکھیں۔ مجھے ذاتی طور پر بامعنی اور بامقصد شاعری پسند ہے۔ تو اس لیے نظم زیادہ من کو بھاتی ہے۔

سوال : چینی اصناف شاعری اور پاکستانی اصناف شاعری میں کیا فرق ہے؟
جواب : چینی اور پاکستانی شاعری میں فرق ہے۔ چین میں کم لو گ کلاسیکل شاعری کرتے ہیں۔ زیادہ جدید شاعری کرتے ہیں۔ پاکستان میں غزل کلاسیک اورجدید دونوں لکھتے ہیں۔ پاکستان میں آزاد نظم کا تصور بھی ہے۔ شاعری میں عروض کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔جبکہ چین میں بعض اوقات خیالات کے اظہار کے لیے حدود کی پابندی لازمی تصور نہیں کی جاتی۔

سوال : آپ نے پاکستان کا کتنی مرتبہ دورہ کیا ہے اورکن شہروں کا دورہ کیا ہے؟
جواب : میں دس پندرہ مرتبہ پاکستان کادورہ کرچکی ہوں۔ پاکستان کے بڑے شہر لاہور، اسلام آباد، کراچی میں نے دیکھے ہوئے ہیں۔ میرا پاکستان کا دورہ مختلف مقاصد کے لیے ہوتا تھا۔ کبھی سیمینار میں شرکت کے لیے یا کسی تحقیق کے لیے مواد اکٹھا کرنا ہوتا تھا۔ تو اس کے لیے مختلف لائبریریز یا جامعات کا دورہ بھی ہوتا تھا۔ پاکستان میں پنجاب یونیورسٹی اورینٹیل کالج کی لائبریری میں کتابوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور یہاں مختلف نوعیت کے تحقیقی مقالہ جات بھی کافی مل جاتے ہیں۔

سوال : ایک غیر ملکی اردو دان ہونے کے ناطے پہلی مرتبہ پاکستان آتے ہوئے آپ کے کیا خیالات تھے؟
جواب : دو ہزار چھ میں پہلی مرتبہ میں پاکستان آئی تھی۔ تو اس وقت میری خوشی دیدنی تھی۔ میں بہت زیادہ خوش تھی کیونکہ میں اُس ملک کا دورہ کررہی تھی جس کے بارے میں لوگوں سے سنا تھا اور کتابوں میں پڑھا تھا۔

پھر میں نے اپنی آنکھوں سے پاکستان کو دیکھا۔ میں جہاں جہاں گئی وہیں پاکستانیوں سے اردو میں بات کی۔ اور یہی میری خواہش تھی کہ میںاہل زبان عوام کے ساتھ زیادہ سے زیادہ اردو میں بات کروں تاکہ میں جان سکوں کہ لوگ میری بات سجھ سکتے ہیں کہ نہیں۔

سوال : جب پاکستان میں اردو بولتی تھیں تو مقامی لوگوں کے کیا احساسات ہوتے تھے؟
جواب : مقامی لو گ خوش ہوتے تھے کہ ایک چینی لڑکی اردو بول رہی ہے۔اس وقت پاکستان میں چینی شہری کم تھے ۔اب تو زیادہ ہیں۔ مقامی لوگوں کا خیال تھا کہ ایک چینی لڑکی اردو نہیں بول سکتی۔ جب میں اردو میں بولتی تھی تو دکاندار اور عام لوگ بہت خوش ہوتے تھے۔دکاندار چیزوں کی قیمتیں کم کر دیتے تھے اور تحائف بھی دیتے تھے۔

سوال : کیا کوئی بھی زبان سیکھنے کیلئے متعلقہ ملک میں قیام یا تعلیم کا حصول ضروری ہے؟
جواب : جی بالکل ۔ کسی بھی زبان کو سیکھنے کے لیے متعلقہ ملک میں قیام یا تعلیم کا حصول بہت فائدہ مند ہوتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ کوئی زبان سیکھتے ہیں تو گرامر اور قواعد کو مدنظر رکھتے ہیں۔ مگر جب آپ اس ملک میں قیام پذیر ہوتے ہیںتو آپ کو اس زبان کے مختلف لہجے ، الفاظ کے مختلف مفہوم اور ان کا استعمال، ان کی ادائیگی ، خواندہ ، نیم خواندہ اور ان پڑھ افراد کی زبان سے آشنائی ہوتی ہے۔

سوال : کیا سی پیک کی وجہ سے چین میں اردو زبان سیکھنے کے رجحان میںاضافہ ہوا ہے؟
جواب : جی بالکل اضافہ ہوا ہے۔ چین کی مختلف جامعات میں اردو کی تدریس شروع ہوئی ہے۔ اب طلباء اردو کو بطور میجر مضمون کے لے رہے ہیں۔

سوال : کیا آپ سمجھتی ہیں کہ اردو صحافت میں چین کے موقف کی ترویج کے لیے اردو دان چینی شخصیات کی ضرورت ہے؟
جواب : یہ ضروری ہے۔ اردو پاکستان کی قومی زبان ہے ۔ ہر کوئی پاکستانی اس کو سمجھ لیتا ہے۔ انگلش زبان میں یہ خاصیت نہیں ہے۔اگر پاکستانی عوام تک رسائی حاصل کرنی ہے یا کوئی پیغام پہنچانا ہے تو اردو سب سے بہتر آپشن ہے۔ہم پاکستانی دوستوں کو زیادہ اچھے انداز میں اردو میں موقف بتا سکتے ہیں۔

سوال : ایک صحافی اور معلمہ ہونے کے ناطے آپ کے نزدیک چین میں اردو کا مستقبل کیا ہے؟
جواب : چین میں اردو کا مستقبل بہت روشن ہے۔ کیونکہ اب اردو زبان سیکھنے کے بعد روزگار کے مواقع زیادہ ہیں۔ چین میں طلباء اردو زبان سیکھنے کے بعد اب صحافتی اداروں میں کام کرنے لگے ہیں۔ کچھ سی آر آئی میں کام کررہے ہیں اورکچھ شنخواہ میںِ، تو اس طرح مواقع بڑھ رہے ہیں۔

سوال : آپ کے ٹی وی پروگرام میں کن موضوعات کا احاطہ کیا جاتا ہے؟
جواب : ہمارے پروگرام میں چین اور پاکستان کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ چین اور پاکستان کے درمیان زرعی تعاون ، تجارتی تعاون کے امکانات اور پیش رفت کے بارے میں بات کی جاتی ہے۔ہم اپنے پروگرام میں جدید زرعی ٹیکنالوجی، کھاد ، کیڑے مار ادویات متعارف کرواتے ہیں۔ اگر کسی پاکستانی کو یا کسی کمپنی یا ادارے کو ہماری مصنوعات میں دلچسپی ہو تو وہ ہم سے رابطہ کرے۔

سوال : اردو سے وابستگی کے اعتبار سے آپ کی شخصیت کی تین پرتیں ہیں ۔ بطور طالب علم ، استاد اور صحافی۔ ان تینوں میں سے کونسی جہت آپ کو زیادہ پسند ہے؟
جواب : مجھے ان میں سے اپنا بطور ٹیچر کردار بہت اچھا لگتا ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ میں بہت خوش قسمت ہوں کہ میں اردو ٹیچر بنی۔ ایک تو میرا نوجوان طلباء سے رابطہ رہتا ہے۔ان کے ساتھ رہ کر مجھے توانائی اور جوانی کا احساس ہوتا ہے۔ میری طلباء کے ساتھ دوستی ہے اور میں پاک چین دوستی کا پیغام اگلی نسل تک پہنچانا چاہتی ہوں۔ میں نوجوانوں کو پاکستان کے بارے میں معلومات اچھے طریقے سے دے سکتی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ یہ معلومات پھیلائیں۔ دوسرے نوجوانوں کو بتائیں۔ میرے طلباء اردو سیکھ کر صحافی بنیں اور چین پاکستان تعلقات کے فروغ کے لیے کام کریں ۔ مجھے بطور ٹیچر اپنے کام پر فخر ہے۔

سوال : کیا شعبہ اردو کے تحت پاکستانی فلموں، ڈراموں کو چینی میں ڈب کیا جاتا ہے؟
جواب : جی کیا جاتا ہے۔ لیکن ایسا کم ہوتا ہے۔کچھ فلمیں منتخب کی ہیں۔ان پر کام جاری ہے

سوال : آپ کے خیال میں کیا ڈراموں ، فلموں کے ذریعے کسی ملک کے کلچر یا زبان کو فروغ دیا جا سکتا ہے؟
جواب : جی بالکل دیا جا سکتا ہے۔ اگر عوام ایک دوسرے کو جاننا چاہتے ہیںتو فلمیں اور ڈرامے ایک اچھا طریقہ ہے جن کے ذریعے ایک دوسرے کو جانا جا سکتا ہے۔

سوال : اگر چین میں پاکستانی ڈراموں یا فلموں کی نمائش ہو تو اس کے مثبت سماجی اثرات ہوں گے؟
جواب : اس کے مثبت اثرات ہوں گے۔ پچھلے سال بیجنگ میں پاکستانی فلم فیسٹیول کا انعقاد ہوا تھا۔بہت سے لوگ سینما گئے۔ مگر چین میں لوگ نیٹ پر آن لائن زیادہ فلمیں دیکھتے ہیں۔ اگر پاکستانی فلمیں یا ڈرامے ویب سائٹس پر اپلوڈ کی جائیںتو زیادہ لوگ دیکھیں گے۔ چین میں زیادہ تر پاکستان کے پڑوسی ملک کی فلمیں آن لائن دستیاب ہیں۔

سوال : آپ کا اردو زبان سے وابستہ یا جڑا کوئی دلچسپ یا یاد گار واقعہ کونسا ہے؟
جواب : میرے لیے اردو زبان سے وابستگی بڑے اعزاز کی بات ہے۔ میں نے اردو زبان کی وجہ سے بہت کچھ سیکھا۔ میں اردو زبان کے چینی شاعر جناب چانگ شی شوان ( اردو نام انتخاب عالم) کی شاگرد بنی۔جن سے اردو، اردو شاعری سیکھی اور سب سے بڑھ کر ان سے تہذیب یافتہ یا مہذب بننے کا سلیقہ سیکھا۔ یہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے۔ اگر میں اردو زبان سے وابستہ نہ ہوتی تو میں انتخاب عالم صاحب جیسی صاحب علم و ادب شخصیت سے ملاقات اور ان سے فیض یاب ہونے سے محروم رہ جاتی۔ اردو زبان کی وجہ سے ہی میری ملازمت ہو گئی۔

میری والدہ مجھے سکول ٹیچر دیکھنے کی خواہشمند تھیں اور میں یونیورسٹی کی ٹیچر بن گئی۔ میں سمجھتی ہوں کہ میں خوش قسمت ہوں کہ اردو زبان سیکھنے کے اپنے والد کے مشورے پر عمل کرنے سے مجھے بہت فوائد ملے۔ میرے والد کے مشورے پر عمل بھی ہو گیا اور میری والدہ کی خواہش بھی پوری ہو گئی۔ یہ سب اردو زبان کی وجہ سے ہوا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔