پاکستان کوئلے سے بجلی کیوں نہیں بناتا؟

سید عاصم محمود  پير 23 مئ 2022
دور جدید میں بجلی اور تیل ترقی و خوشحالی لانے کے بنیادی ذرائع کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

دور جدید میں بجلی اور تیل ترقی و خوشحالی لانے کے بنیادی ذرائع کی حیثیت رکھتے ہیں ۔ فوٹو : فائل

دانش وروں کا کہنا ہے کہ ایک قوم کو زوال، پسماندگی اور غربت سے نکالنے میں حکمران طبقہ اور قومی نظام حکومت بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔

یہ بات صد فیصد درست ہے۔ سنگاپور اور ملائشیا کو جب لی کیوان اور مہاتیر محمد جیسے اہل،قابل اور دیانت دار حکمران میّسر آئے تو وہ چند عشروں میں ترقی یافتہ اور خوشحال ملک بن گئے۔جبکہ جن ملکوں میں نااہل اور کرپٹ نظام حکومت تشکیل پایا، وہ پیچھے رہ گئے۔وہ اتنی زیادہ ترقی و خوشحالی نہیں پا سکے جو قدرتی وسائل کی بہتات دیکھتے ہوئے انھیں حاصل ہونی چاہیے تھی۔اس امر کی ایک مثال پاکستان ہے۔

رب عظیم نے مملکت خدا داد کو عظیم قدرتی وسائل سے نوازا تاہم ہمارا حکمران طبقہ ان سے بھرپور استفادہ نہیں کر سکا۔اس کی نااہلی نے ملک وقوم ہی کو نقصان پہنچایا۔ کوئلے کی قدرتی دولت ہی کو لے لیجیے۔ جس کے ذریعے ہم اربوں ڈالر بچا سکتے ہیں۔

 غفلت اور آلکسی

دنیا بھر میں کوئلہ اپنی افادیت وخصوصیات کے سبب ’’سیاہ سونا ‘‘کہلاتا  ہے۔یہ سیاہ سونا ہی دنیا میں سب سے زیادہ بجلی بناتا ہے۔پھر یہ کھاد اور گریفائٹ جیسی مفید اشیا بنانے میں بھی کام آتا ہے۔ پاکستان میں نصف صدی قبل پتا چل گیا تھا کہ تھر، سندھ میں کوئلے کے وسیع ذخائر موجود ہیں مگر پاکستانی حکمران طبقے نے ان سے فائدہ اٹھانے کی ٹھوس کوششیں نہیں کیں۔

اس کی غفلت اور آلکسی کا اندازہ یوں لگائیے کہ محض تین سال قبل تھرمیں وہ بجلی گھر لگایا گیا جو مقامی کوئلے سے بجلی بنا رہا ہے۔جبکہ 1984ء سے پاکستانی عوام لوڈشیڈنگ کا عذاب سہہ رہے ہیں۔آج بھی موسم گرما آئے تو ایک بار ضرور کراچی سے پشاورتک عوام پہ لوڈشیدنگ کی بلا نازل ہوتی ہے۔عوام بھی اس عفریت کے اتنے عادی ہو چکے کہ لطیفے بنا کر اپنا غم وغصّہ بُھلانے کی سعی کرتے ہیں۔

معیشت کو نقصان

بجلی کی کمی نے مگر پاکستان کو معاشی طور پہ نقصان پہنچایا۔جب بجلی نہ ہو تو کارخانے اور کاروبار بند ہو جاتے ہیں۔ان کی بندش لاکھوں پاکستانیوں کو بے روزگار کر دیتی ہے۔یوں پاکستانی عوام مصائب و مشکلات میں گھرے رہتے ہیں۔

آج بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے بھی پاکستانی عوام پریشان ہیں۔بجلی کی کمی اور بجلی مہنگی ہونا، ان دونوں مسائل کا بہترین حل یہ تھا کہ ہماری حکومتیںمقامی کوئلے کے بجلی گھر قائم کر دیتیں مگر انھوں نے اس جانب توجہ ہی نہیں دی۔اس لاپروائی اور غفلت کے سبب پاکستان کا شعبہ توانائی کئی خرابیوں کا نشانہ بن چکا۔ پہلے ان کا ذکر کر دیا جائے تاکہ ہمارے حکمران طبقے کے’ کارنامے‘ سامنے آ سکیں۔

 ترقی و خوشحالی کے بنیادی ذرائع

دور جدید میں بجلی اور تیل ترقی و خوشحالی لانے کے بنیادی ذرائع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آج جو ممالک ان دونوں ذرائع ایندھن میں خودکفیل ہیں، وہاں عوام کے تینوں بڑے مسائل…غربت، جہالت اور بیماری قصّہ پارنیہ بن چکے۔ پاکستان میں اول اول  ڈیم بنا کر کارخانوں، کاروباروں اور عوام تک بجلی پہنچائی گئی جو درست حکمت عملی تھی کیونکہ ڈیموں میں بنی بجلی سستی ہوتی ہے۔

آبادی بڑھنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی طلب میں اضافہ ہوا مگر حکمران طبقہ اپنی نااہلی کے سبب سے یہ ادراک نہیں کر سکا کہ مستقبل میں بجلی کی طلب زیادہ ہو گی لہذا مزید ڈیم بنانے چاہیں۔پاکستان میں آخری بڑا ڈیم،تربیلا 1974ء میں مکمل ہوا۔پھر حکومتیں لمبی تان کر سو گئیں۔جب دس سال بعد لوڈشیڈنگ کا عفریت نمودار ہوا تو حکمران بیدار ہوئے۔انھوں نے نئے ڈیم بنانے کا ڈول تو ڈالا مگر بجلی کی کمی وقتی طور پہ ٹالنے کے لیے کرائے کے بجلی گھر قائم کر دئیے۔ حالات سے واضح ہے کہ یہ فیصلہ پاکستان کے لیے اچھا ثابت نہیں ہوا۔

کرائے کے بجلی گھر

یہ کرائے کے بجلی گھر فرنس آئل اور دیگر اقسام کے رکازی ایندھن(Fossil fuels)استعمال کرنے لگے۔مزید براں ان سے ایسے معاہدے کیے گئے جن کی بعض شرائط ریاست پاکستان کے حق میں نہیں تھیں۔ماہرین دعوی کرتے ہیں کہ حکمران طبقے نے یہ معاہدے کرتے ہوئے کمیشن کھایا، اسی لیے نجی شعبہ من مانی شرائط منوانے میں کامیاب رہا۔آج یہ عالم ہے کہ پاکستان میں نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے چالیس سے زائد بجلی گھر کام کر رہے ہیں۔

یہ ملکی ضروریات کے لیے پچاس سے ساٹھ فیصد بجلی فراہم کرتے ہیں۔انھوں نے بجلی فراہم کر کے ملک و قوم کی ضروریات پوری کر دی مگر اس عمل میں طویل المعیاد طور پہ ریاست اور عوام، دونوں کو کئی مسائل میں بھی گرفتار کرا دیا۔سب سے بڑا مسئلہ بجلی کا مسلسل مہنگا ہوتے چلا جانا ہے۔

مہنگائی کا شیطانی چکر

بجلی و تیل مہنگا ہونے کا منفی اثر دیگر ہر قسم کی اشیائے ضرورت پر بھی پڑتا ہے۔ان کی تیاری اور ٹرانسپوٹیشن کے مختلف مراحل میں یہ دونوں ذرائع ایندھن استعمال ہوتے ہیں۔لہذا جب یہ دونوں مہنگے ہوں تو اشیا کی قیمتیں بھی لاگت بڑھنے سے بڑھ جاتی ہیں۔یوں مہنگائی جنم لیتی ہے۔

اوپر سے حکومت مزید ٹیکس لگا دے تو مہنگائی میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔پی ٹی آئی حکومت آنے کے بعد اسی عجوبے کے باعث پاکستان میں یک دم مہنگائی بڑھ گئی اور پھر اس میں اضافہ رک نہیں سکا کیونکہ حکومت ٹیکسوں کی شرح بڑھاتی چلی گئی بلکہ مزید نئے ٹیکس بھی لگا دئیے گئے۔

اس وقت پاکستان میں 60 سے 65 فیصد بجلی رکازی ایندھن مثلاً ایل این جی،قدرتی گیس، فرنس آئل اور کوئلے سے بن رہی ہیں۔یہ بیشتر رکازی ایندھن بیرون ممالک سے خریدے جاتے ہیں۔پچھلے دو برس میں طلب میں اضافے، ٹرانسپورٹیشن کے مسائل،امریکا و چین کی تجارتی جنگ اور اب روس یوکرائن لڑائی کے باعث رکازی ایندھنوں کی قیمتوں میں بہت اضافہ ہو چکا۔

مثلاً دو سال قبل بجلی گھر میں استعمال ہونے والا کوئلہ 100 ڈالر فی ٹن دستیاب تھا۔اب اس کی قیمت 400 ڈالر فی ٹن کے قریب پہنچ چکی۔اسی طرح ایل این جی کی قیمت فی ایم ایم بی ٹی یو(MMBtu) دس بارہ ڈالر تھی۔اب وہ چوبیس پچیس ڈالر کے آس پاس ہے۔ظاہر ہے، پاکستانی نجی بجلی گھر مہنگا ایندھن خرید کر سستی بجلی مہیا نہیں کر سکتے۔چناں چہ وہ حکومت کو بجلی مہنگی کر کے فروخت کرنے لگے۔

ہماری حکومتیں عرصہ دراز سے تین سو یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو سستی بجلی مہیا کر رہی ہیں۔مگر ایندھن کی قیمتیں بڑھی اور آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کا موقع آیا، تو اس مالی ادارے کے دباؤ پر بھی فیصلہ ہوا کہ بجلی کہ قیمت مرحلے وار بڑھائی جائے۔چناں چہ پچھلے دو سال کے دوران قیمت میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا۔ یہ عمل مگر بجلی کی قیمت بڑھانے کا محض ایک عنصر ہے۔

 ’’سرکلر ڈیبٹ‘‘

دوسری اہم وجہ شعبہ توانائی کے قرضے ہیں جو حکومت نے نجی وسرکاری بجلی گھروں  اور پاور سیکٹر سے منسلک دیگر اداروں کو ادا کرنے ہیں۔یہ قرضے اصطلاح میں ’’سرکلر ڈیبٹ‘‘یا گردشی قرضے کہلاتے ہیں۔2018ء میں حکومت نے ان نجی وسرکاری اداروں کو گیارہ سو ارب روپے ادا کرنے تھے۔یہ رقم اب ڈھائی ہزار ارب روپے تک پہنچ چکی۔یہ قرضہ کم کرنے کے لیے بھی حکومت بجی مہنگی کر رہی ہے تاکہ اسے زیادہ آمدن ہو سکے۔

اور اسی سرکلر ڈیبٹ کے باعث بجلی کی کمی بھی واقع ہوتی ہے۔جب کسی نجی بجلی گھر کو حکومت سے رقم نہ ملے تو وہ کام کرنا بند کر دیتا ہے۔یوں اس کی بجلی قومی گرڈ سے نکلنے پر مجموعی پیداوار میں کمی لے آتی ہے۔تب لوڈشیڈنگ کا سہارا لے کر کمی دور کی جاتی ہے۔

 ’’کیپسٹی پے منٹس‘‘

بجلی مہنگا ہونے کا تیسرا سبب ’’کیپسٹی پے منٹس‘‘کا عجوبہ ہے۔حکومت پاکستان نے تقریباً سبھی نجی بجلی گھروں سے معاہدے میں یہ شق منظور کر رکھی ہے کہ اگر ان میں بنی بجلی استعمال نہ ہوئی تب بھی وہ انھیں بجلی کی قیمت ادا کرے گی۔یہ رقم کیسپسٹی پے منٹ کہلاتی ہے۔ اس عجوبے کی وجہ سے بھی حکومت بجلی کی قیمت بڑھا رہی ہے۔

وجہ یہ ہے کہ موسم سرما میں اہل پاکستان کم بجلی استعمال کرتے ہیں۔مگر نجی بجلی گھروں میں بجلی بنتی رہتی ہے۔چناں چہ حکومت معاہدوں کی وجہ سے مجبور ہے کہ وہ بجلی خرید لیے…چاہے وہ کسی کام نہ آئے۔حتی کہ بعض معاہدے تو ایسے بھی ہو چکے کہ نجی بجلی گھر میں بجلی نہ بننے کے باوجود حکومت پاکستان انھیں کیپیسٹی پے منٹ ادا کرنے پر مجبور ہے۔2017ء میں حکومت نے نجی بجلی گھروں کو کیپیسٹی پے منٹ کی مد میں 305 ارب روپے ادا کرنے تھے۔یہ رقم اب 860 ارب روپے تک پہنچ چکی۔

چونکہ نئے نجی بجلی گھر تعمیر ہو رہے ہیں، لہذا ماہرین کا دعوی ہے کہ 2023ء سے پاکستان کو ہر سال 1455 ارب روپے کیپیسٹی پے منٹ کے طور پر نجی بجلی گھروں کو ادا کرنا ہوں گے۔یہ کوئی معمولی رقم نہیں۔اس کی وسعت کا اندازہ یوں لگائیے کہ پچھلے سال کے بجٹ میں دفاع کے لیے 1370 ارب روپے رکھے گئے تھے۔گویا محض اگلے تین برس میں نجی بجلی گھروں کو دی جانے ولی کیپیسٹی پے منٹ ہمارے دفاعی بجٹ سے بھی بڑھ جائے گی۔یہ لمحہ فکریہ ہے۔

اور انسان سوچتا ہے کہ آخر ہمارا حکمران طبقہ کس قسم کی منفی اور ملک وقوم کے لیے نقصان دہ پالیسیاں بنا رہا ہے؟عقل سلیم کہتی ہے کہ پاکستانی حکومت کو نجی بجلی گھروں سے ایسے معاہدے کرنے ہی نہیں چاہیں جن میں کیپیسٹی پے منٹ کی شق شامل ہو۔یہ تو حکومت کو مقروض بنانے اور بجلی مسسلسل مہنگی کرنے کا سودا ہے۔

ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا ناقص نظام

پاکستان میں بجلی مہنگی ہونے کی ایک اور وجہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کا ناقص نظام ہے۔پاکستان میں کے الیکٹرک سمیت بارہ ڈسٹری بیوشن کمپنیاں ہیں جو پورے ملک میں بجلی سپلائی کرتی ہیں۔ان کا نظام ٹیکنیکل خرابیاں رکھتا ہے جو دور نہیں کی جاتیں۔وہ اس لیے کہ کمپنیاں سرکاری ہیں اور ترقی پذیر ملکوں میں سرکاری شعبہ اپنی نااہلی، سستی اور کرپشن کے باعث جانا جاتا ہے۔

بہرحال ان ٹیکنیکل خرابیوں کے سبب ہر سال ایک سے ڈیرھ ہزار میگا واٹ بجلی ضائع ہو جاتی ہے۔حکومت بجلی کی قیمت بڑھا کر ضائع شدہ بجلی کی قیمت بھی صارفین سے وصول کرتی ہے۔یوں صارفین پہ مزید مالی بوجھ ڈال دیا جاتا ہے۔

 بجلی چوری

ایک اہم وجہ بجلی چوری بھی ہے۔کہیں مکاری سے بجلی چوری ہوتی ہے تو کہیں میٹر ریڈر کی ملی بھگت سے یہ گناہ انجام پاتا ہے۔ایک اندازے کی رو سے پاکستان میں ہر سال ایک سے ڈیرھ ہزار میگاواٹ بجلی چوری کی جاتی ہے۔

حکومت بجلی کی قیمت بڑھا کر چوری شدہ  بجلی کا معاوضہ بھی صارفین سے وصول کرتی ہے۔ یوں پاکستان میں ایمان دار صارفین قربانی کی بکرا بن چکے۔وہ بے ایمان اور کرپٹ پاکستانیوں کے جرائم کی قیمت ادا کرتے ہیں۔

کوئی سرمایہ کاری نہیں کی

ہمارے حکمران اپنی کرسیاں بچانے پہ بیشتر توانائی ضائع کر دیتے ہیں۔وہ پاکستان کو ترقی یافتہ اور خوشحال بنانے کے منصوبوں اور پالیسیوں پہ بہت کم توجہ دے پاتے ہیں۔اسی لیے بجلی کا شعبہ بھی زوال وتنزلی کا شکار ہے۔

حکمران طبقے کی ناہلی ملاحظہ فرمائیے کہ اس نے عرصہ دراز سے ہائی وولٹیج ٹرانسمیشن اور بجلی کی تقسیم کا نظام (ڈسٹری بیوشن سسٹم نیٹ ورک)بہتر بنانے کے لیے کوئی سرمایہ کاری نہیں کی۔یہی وجہ ہے، پاکستان میں بجلی کا ٹرانسمیشن نظام زیادہ زیادہ 25 ہزار میگاواٹ بجلی لے سکتا ہے۔اس سے زیادہ بوجھ آنے پر وہ بیٹھ جائے گا، جیسا کہ اکثر ہوتا رہتا ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں 33 سے 39 ہزار میگاواٹ بجلی بنانے والے نجی و سرکاری بجلی گھر لگ چکے۔اصل مسئلہ کیپیسٹی پے منٹ والے نجی بجلی گھر ہیں۔ان کی پیدا شدہ بجلی حکومت نے ہر حال میں خریدنی ہے، چاہے اس کی ضرورت ہی نہ ہو۔یہ عجیب وغریب مالی بوجھ بجلی مہنگی کرنے کا بڑا سبب بن چکا۔اور بجلی و پٹرول وڈیزل مہنگا ہونے سے سبھی اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان مقامی کوئلے سے چلنے والے بجلی لگا کر کئی سنگین مسائل حل کر سکتا ہے۔اس اقدام سے سب سے پہلے تو قیمتی زرمبادلہ بچے گا۔ہمیں مہنگا فرنس آئل اور ایل این جی باہر سے نہیں خرینا پڑے گی۔دوسرے اہل پاکستان کو سستی بجلی میسّر آئے گی۔یہ دونوں تبدیلیاں پاکستان میں مہنگائی کا جن ختم کرنے میں معاون ثابت ہوں گی اور عام آدمی سکون کا سانس لے سکے گا۔

طاقتور عناصر کے لیے کمائی کا ذریعہ

سوال یہ ہے کہ جب کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر لگا کر اہل پاکستان کو زبردست فوائد حاصل ہو سکتے ہیں تو آخر انھیں کیوں نہیں لگایا جا رہا؟ اس بابت ماہرین دعوی کرتے ہیں کہ پاکستان میں شعبہ ایندھن حکمران طبقے میں شامل بعض طاقتور عناصر کے لیے کمائی کا ذریعہ بن چکا۔وہ عناصر ایندھن کی خریداری سے لے کر گاہک کوپہنچنے تک، ہر مرحلے میں کمیشن کھاتے اورملک وقوم کا خانہ خراب کرتے ہیں۔

ان کی بھرپور کوشش رہتی ہے کہ پاکستان میں بدستور درآمدی ایندھن سے بجلی بنتی رہے تاکہ انھیں ناجائز کمائی کا موقع ملے۔ظاہر ہے، پاکستان میں مقامی کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر لگ گئے تو ان کی کمائی ٹھپ ہو جائے گی۔المیہّ یہ ہے کہ پوری دنیا میں مہنگے فرنس آئل اور ڈیزل کو ترک کیا جا چکا مگر پاکستانی بجلی گھروں میں یہ مہنگے ایندھن بدستور استعمال ہو رہے ہیں۔ کیا یہ عمل ملک وقوم پہ ظلم کے مترادف نہیں؟

ایک سو اسی ٹن کوئلہ

اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں 180 ارب ٹن کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔ان ذخائر کا بڑا حصہ تھر کی کان میں محفوظ ہے۔ان کی مدد سے پاکستان ساٹھ سال تک پچاس ہزار میگا واٹ بجلی بنا سکتا ہے جو قومی ضروریات سے زیادہ ہے۔یہ عیاں ہے کہ ہماری حکومتوں کو بہت پہلے یہ کوئلہ استعمال کرنے کی سبیل کرنا چاہیے تھی۔بہرحال اب حکمران طبقہ کوئلے کے ذخائر کی افادیت سے آگاہ ہو کر انھیں استعمال میں لانے لگا ہے۔شکر ہے کہ وہ خواب ِغفلت سے جاگ گیا۔نہ جاگتا تو عوام کیا کر لیتے؟

اس وقت تھر کی کان سے ہر سال 38 لاکھ ٹن کوئلہ نکل رہا ہے۔یہ عدد سال رواں کے اختتام تک 76 ارب ٹن پہنچ جائے گا۔جبکہ اگلے سال کوئلے کی پیداوار ایک کروڑ پچیس لاکھ ٹن پہنچانے کا منصوبہ ہے۔فی الحال تھر سے کوئلہ نکالتے ہوئے فی ٹن   50ڈالر لاگت آتی ہے۔مگر پیداوار بڑھنے سے یہ لاگت کم ہو گی۔اختتام سال تک یہ 40 ڈالر اور اگلے سال 30 ڈالر تک پہنچ جائے گی۔اس طرح پاکستان مقامی کوئلہ اپنے بجلی گھروں میں استعمال کر کے سالانہ اربوں ڈالر کی بچت کر سکے گا۔

ابھی تھر کے کوئلے سے بنی بجلی کی لاگت 18 روپے فی یونٹ ہے۔مگر جب تھر سے وسیع پیمانے پر کوئلہ نکلنے لگے گا تو یہ لاگت کم ہو کر دس بارہ روپے فی یونٹ رہ جائے گی۔جبکہ فی الوقت پاکستانی بجلی گھروں میں درآمدی کوئلے سے 30 روپے فی یونٹ بجلی بن رہی ہے جو ظاہر ہے بہت مہنگی ہے۔حقائق سے آشکار ہے کہ مقامی کوئلہ استعمال کرنے پر اہل پاکستان کو کہیں زیادہ سستی بجلی میسر آئے گی۔

نئی ٹیکنالوجی

کوئلے کے خلاف یہ دلیل دی جاتی ہے کہ وہ ماحول دشمن ایندھن ہے۔یہ بات درست ہے کہ اسے جلانے سے کثیر تعداد میں کاربن ڈائی آکسائیڈ جنم لیتی ہے جو زمین کا درجہ حرارت بڑھا رہی ہے۔ مگر امریکا، چین، بھارت، جاپان، انڈونیشیا، روس ،جرمنی، پولینڈ وغیرہ میں چھ ہزار سے زائد کوئلے کے بجلی گھر کام کر رہے ہیں۔وجہ یہی کہ ان میں سستی بجلی بنتی ہے۔

لہذا پاکستان اپنا کوئلہ کیوں استعمال نہیں کر سکتا؟جبکہ اس سے پاکستان کو کئی فوائد حاصل ہوں گے۔ویسے بھی اب ایسی ٹکنالوجی ایجاد ہو چکی جو کوئلے کی کان اور بجلی گھر سے خارج شدہ آلودگیاں ماحول میں شامل ہونے سے پہلے پکڑ لیتی ہے۔انھیں پھر زمین میں دبایا جا سکتا ہے۔

کوئلے کے فوائد

حالات سے واضح ہے کہ پاکستانی حکومت کو جلد از جلد مقامی کوئلہ زیراستعمال لانا چاہیے۔ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ سبھی بجلی گھر مقامی کوئلے ہی سے بجلی بنانے لگیں۔اس اقدام سے نہ صرف قیمتی زرمبادلہ محفوظ رہے گا بلکہ اہل پاکستان کو وافر و سستی میسّر آئے گی۔تھر میں ایسے اقدامات کرنا بھی ضروری ہیں کہ کوئلہ وہاں سے پورے پاکستان پہنچ سکے۔مثلاً ریل پٹڑیوں اور سڑکوں کی تعمیر۔

بجلی بنانے کے علاوہ پاکستانی کوئلے کے دیگر استعمال بھی ہیں۔اس سے گریفائیٹ بن سکتا ہے جو کاربن کی ایک نایاب قسم ہے۔یہ مختلف اشیا بنانے میں کام آتی ہے جیسے شمسی پینل، بیٹریاں، الیکٹرویڈ، پنسلیں وغیرہ۔یہی عنصر شدید دباؤ پر ہیرے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔اسی لیے عالمی مارکیٹ میں ایک ٹن گریفائیٹ کی قیمت فی ٹن آٹھ ہزار ڈالر ہے۔جبکہ مصنوعی گریفائیٹ فی ٹن بیس ہزار ڈالر میں ملتا ہے۔

کوئلے سے تالیفی قدرتی گیس بھی بنتی ہے۔یہ قدرتی گیس کے مانند گیس ہے ۔اس سے گھر میں کھانا پک جاتا ہے۔یا پھر اسے گاڑیوں میں بطور ایندھن استعمال کرنا بھی ممکن ہے۔گویا ہم اپنے کوئلے سے تالیفی قدرتی گیس بنانے لگے تو تیل کی خرید پر جو اربوں ڈالر خرچ ہوتے ہیں، وہ بچاسکیں گے۔اسی خرید نے ہمیں تجارتی خسارے سے دوچار کرر کھا ہے۔یاد رہے، قدرتی گیس کے پاکستانی ذخائر تیزی سے کم ہو رہے ہیں۔ان کے خاتمے پرکوئلے سے بنی تالیفی قدرتی گیس بہترین نعم البدل ثابت ہو گی۔

کوئلے کی افادیت یوں بھی عیاں ہے کہ یہ کاربنی مادہ ایمونیا اور یوریا بنانے میں بھی کام آتا ہے۔یہ دونوں کھادیں غذائیں اگانے میں کام آتی ہیں۔گویا مقامی کوئلے کی بدولت پاکستان کھادیں بنانے میں بھی خودکفیل ہو جائے گا۔

دور جدید میں کھاد نے بہت اہمیت حاصل کر لی ہے کیونکہ اس کی بدولت وافر غذا اگانا ممکن ہے۔اس باعث عالمی منڈی میں کھاد کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔پاکستان کوئلے کی مدد سے کھاد بنانے لگے تو یہاں غذائی بحران جنم نہیں لے گا۔اس بحران نے سری لنکا اور لبنان میں ہنگامے کرانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

قابل تجدید ذرائع توانائی

کوئلے کے علاوہ قدرت الہی نے پاکستان کو دھوپ اور تیز ہوا کی نعمتوں سے بھی نوازا ہے۔پاکستان ان دونوں قابل تجدید ذرائع توانائی سے بھی ہر سال ہزارہا نہیں بلکہ لاکھوں میگا واٹ بجلی ن سکتا ہے۔

ایک حالیہ تحقیق کی رو سے پاکستان کے ساحلی علاقوں میں ہوائی چکیاں نصب کی جائیں تو وہ ہر سال کم از کم پچاس ہززار میگا واٹ بجلی بنا سکتی ہیں۔اب تو ان دونوں قابل تجدید ذرائع توانائی کی ٹکنالوجی بھی کافی سستی ہو چکی۔اگر شمسی توانائی یا ہوائی چکیوں کا بڑا منصوبہ شروع کیا جائے تو اس پہ اتنی ہی لاگت آتی ہے جو تیل یا کوئلے سے والے بجلی گھر پہ آئے۔اسی لیے خصوصاً چین اور بھارت میں دھوپ و ہوا سے لاکھوں میگا واٹ بجلی بنانے والے منصوبے جنم لے رہے ہیں۔

مگر ہمارے نااہل ارباب اختیار اس طرف بھی توجہ نہیں دیتے۔حالت یہ ہے کہ دنیا میں ریل، بسیں، کاریں ،موٹر سائیکلیں حتی کہ سائیکلیں بھی بجلی سے چلنے لگی ہیں۔مگر ہماری افسر شاہی نے لاہور سے خانیوال تک بجلی سے چلنے والی ٹرین ختم کر دی۔اب ساری ریلیں مہنگے درآمدی ایندھن سے چلائی جا رہی ہیں۔

اسی لیے ریلوے خسارے میں ہے۔ہونا یہ چاہیے کہ پاکستان میں کوئلے ، شمسی توانائی اور ہوا کی طاقت سے وافر بجلی پیدا کی جائے۔اس طرح کارخانوں کو سستی بجلی ملے گی۔وہ پھر سستا سامان بنا کر عالمی منڈی میں اپنا حصّہ بڑھا سکیں گے۔پھر ریلیں بھی بجلی سے چلائی جائیں تاکہ عوام کو سستا اور تیزرفتار ذریعہ آمدورفت میّسر آئے۔

سستی بجلی پاکستان میں ترقی و خوشحالی کا انجن پوری رفتار سے چلا سکتی ہے…مگر ہمارے حکمران طبقے کی ترجیحات میں سستی بجلی بنانا جیسے شامل ہی نہیں۔اس کے عمل سے تو یہی ظاہر ہے۔ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے جولائی 21 ء تا اپریل 22 ء تک کے عرصے میں سترہ ارب ڈالر کا ایندھن باہر سے منگوایا ہے جو بہت بڑی رقم ہے۔

وطن عزیز کو ربّ تعالی نے آبی توانائی سے بھی نوازا ہے۔یہ بھی سستی بجلی بنانے کا عمدہ طریقہ ہے۔مسئلہ مگر یہ ہے کہ پاکستانی دریاؤں میں پانی کی قلت جنم لے چکی۔آب وہوائی اور موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے اب دریاؤں میں اتنا پانی نہیں آ رہا کہ ڈیم بھر کر اس سے وافر بجلی بنائی جائے۔اسی لیے جو ڈیم بن چکے، وہ سال کے چند ماہ ہی پوری بجلی بنا پاتے ہیں۔لہذا ڈیم اب بجلی بنانے کے قابل اعتماد ذرائع توانائی نہیں رہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔