کچھ وقت فرہنگ ِآصفیہ کے ساتھ

سہیل احمد صدیقی  پير 23 مئ 2022
نئے سرے سے پھر مسودہ تیار کیا جو آخر کو دس یا پندرہ ضخیم جلدوں میں چھپ کر شایع ہوا ہے‘‘ ۔ فوٹو : فائل

نئے سرے سے پھر مسودہ تیار کیا جو آخر کو دس یا پندرہ ضخیم جلدوں میں چھپ کر شایع ہوا ہے‘‘ ۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی 140

یہ سوال گزشتہ دو عشروں سے دنیا بھر میں گاہے گاہے کیا جارہا ہے کہ آیا انٹرنیٹ کی طلسماتی دنیا میں کتاب کی کوئی وقعت کُجا، ضرورت بھی باقی رہ جائے گی۔ اس کے جواب میں بہت کچھ کہا جاچکا ہے اور کہا جاسکتا ہے، مگر ہمارے نیم خواندہ (بعض دل جلوں کے نزدیک ناخواندہ) معاشرے کے ہرشعبے میں، بغیر سیکھے، سکھانے اور بغیر جانے، بتانے اور پڑھانے، کم علمی ولاعلمی پر ڈٹ جانے اور فخر کرنے جیسی خصوصیات پائی جاتی ہیں تو ایسے میں کوئی دلیل فوری طور پر کارگر ہونا اَمرِ محال ہے۔

اسی حیرت کدہ معلومات میں بہت سی زبانوں کی متعدد لغات بھی دستیاب ہیں، مگر اُردو لغات کے معاملے میں ابھی بہت زیادہ کام باقی ہے۔ ہرکَس وناکَس نے اس خاص جہت میں بھی اپنی ’بقراطی‘ کا اظہار شروع کردیا ہے اور یوں محض لغات ہی نہیں، دیگر اقسام کے علمی کام میں بھی کتابی تحقیق کا پلڑا، مجازی (Virtual/Online) تحقیق پر بھاری نظر آتا ہے اور اس ضمن میں متعدد موضوعات پر لکھی گئی بے شمار اردو کتب کی مثالیں بھی پیش کی جاسکتی ہیں۔ مجھے اپنے محدود، مگر متنوع مطالعے میں جو کتب بہت زیادہ پسند آئی ہیں۔

ان میں (زمرہ لغات میں شامل) فرہنگ آصفیہ، مؤلفہ سید احمد دہلوی (مؤلفہ‘ یعنی اس کا مؤلف۔ یہاں یہ مؤلف کی مؤنث نہیں، اسی طرح مرتبہ‘ کا معاملہ ہے) بہت مرغوب و متأثر کُن ہے۔ میں اسے اردو کی پہلی ’’دائرہ معارف نُما‘‘ (Encyclopaedic Dictionary) قرار دیتا ہوں جو بجائے خود (یا بذاتہ) حوالہ یا حوالہ جاتی کتاب ہے۔ چونکہ ماقبل شایع ہونے والی ’’امیراللغات‘‘ (مؤلفہ حضرت امیر ؔ مینائی) میری دسترس میں نہیں، اس لیے اس بیان میں فی الحال ترمیم کا امکان محدود ہے۔ امیرؔمینائی (بہ یک وقت غزل اور نعت کے) بڑے شاعر ہوگزرے ہیں، جن کے بعض اشعار ضرب المَثَل کا درجہ رکھتے ہیں، جیسے یہ:

؎ ہوئے نام وَر بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

بات کی بات ہے کہ سید احمد دہلوی نے اپنے معاصر پر الزام لگایا تھا کہ انھوں نے ’’اس اَخیر عمر میں ’امیراللغات‘ کے دو باب، صرف الف ممدودہ و مقصورہ کے، ہوبہو، ’ارمغان ِدہلی‘ کا چربہ اتار کر شایع فرمائے‘‘….مگر ماضی قریب میں جب ’امیر اللغات‘ کی طویل عرصے بعد، اشاعت ہوئی تو استفادہ کرنے والوں نے اس الزام کی تردید کی۔ بندہ ہنوز تردید کی ’تصدیق‘ کرنے کے قابل نہیں کہ یہ لغات ابھی میری دسترس میں نہیں، کبھی نصیب ہوجائے تو پھر دیکھ کر کچھ عرض کیا جاسکتا ہے۔ اس کے بعد ’’نوراللغات‘‘ (مؤلفہ مولوی نورالحسن نیّربن محسن کاکوروی) پر بھی مولوی سید احمددہلوی صاحب نے چربے کا الزام دھرا۔ اس لغات میں البتہ متعدد مقامات پر ایسا محسوس ہوا، بہرحال، سرِدست اس بارے میں تفصیل سے گریز کرتا ہوں۔

اس موضوع کے چننے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سہل پسند طلبہ واساتذہ کو باور کرایا جائے کہ کتاب لکھنا، ترتیب دینا یا تالیف کرنا اس قدر آسان کام نہیں جتنا ان دنوں سمجھا جاتا ہے اور ہر موضوع پر ہر کتاب کی تحقیق، تحریروترتیب، اہل علم کا کام ہے، ہر کَس وناکَس کے بس کی بات نہیں۔ ان دنوں اکثر لوگ کتاب لکھتے نہیں، ’’بناتے‘‘ ہیں، کیونکہ ’’کاپی۔پیسٹ‘‘ (Copy-paste) کا دور ہے۔

خاکسار کے نجی کتب خانے میں موجود فرہنگ آصفیہ کے نسخے کا ناشر اُردو سائنس بورڈ (لاہور) اور اشاعت ـثانی کا سن 1987ء ہے (اولین اشاعت : 1977)، جبکہ درحقیقت یہ عظیم وضخیم لغات بالاقساط (بِل اقساط) جون 1883ء میں پہلی بار اور مجلّد ، جلد اوّل (تجدیدوترمیم شدہ) 1918ء میں شایع ہوئی۔ نئی اشاعت میں پیش لفظ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مولوی سید احمد دہلوی صاحب کا انتقال بھی اسی سال ہوا تھا۔

(ہرچند کہ لفظ لغت /لغات مذکر ہے، مگر بطور کتاب مؤنث کہنا رَوا ہے۔ اس کی دلیل بھی فرہنگ آصفیہ سے مل جاتی ہے۔ یہ بات اس لیے احتیاطاً دُہرائی کہ ناقدین بغیر پورا مضمون پڑھے یہی اعتراض جڑکر، جھنڈا اونچا کرنے میں کامیاب نہ ہوجائیں۔س ا ص)۔

اس اولین مجلد اشاعت میں سرَوَرق (یہ سرے ورق نہیں) پر محرابی صورت میں زبان ریختہ یعنی اردو کی شان میں یہ شعر لکھا ہے:

؎ سند ہے جو کہ ہم کہہ دیویں عارفؔ
زبانِ ریختہ اپنی زباں ہے

جب ہم لغت کا مطالعہ کرتے ہوئے لفظ ’ریختہ‘ پر پہنچتے ہیں تو اِسی شاعر کا ایک اور شعر میرؔ کے شعر سے بھی پہلے درج نظر آتا ہے:

؎ عارفؔ یہ ریختہ بھی نہیں فارسی سے کم
دیوان سیکڑوں مِرے ایراں تلک گئے

یہ شاعر یونہی تعلّیٰ کا اظہار نہیں کررہا، (تَعل لا) بلکہ غالبؔ کا چہیتا شاگرد اور لے پالک، اُن کی بیوی کا بھانجہ ہے۔ پورانام نواب زین العابدین خان عارف (1817 – 1852 )ؔ ہے اور اُن کے والد غلام حسین خان خسروؔ بھی شاعر تھے۔ عارفؔ پہلے شاہ نصیر اور پھر غالب ؔ کے شاگرد ہوئے۔ غالبؔ انھیں بہت سراہتے تھے اور اُن کی ناگہانی وفات پر غالب ؔنے بہت دکھ سے کہا تھا:

ع کیا تیرا بگڑتا جو نہ مرتا کوئی دن اور

یہ پوری غزل اپنی ہَیئت (ہَے اَت) سے قطع نظر، عارفؔ کا مرثیہ ہے اور غالباً پورے کلام غالبؔ میں اپنی نوعیت کی واحد مثال ہے۔ انٹرنیٹ پر عارفؔ کے بعض اشعار دستیاب ہیں، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ کسی نے بھی محولہ بالا، یہ دو شعر نقل نہیں کیے۔

ہمارے انتہائی مشفق کرم فرما، بزرگ معاصر ڈاکٹر اَنور سدید مرحوم نے بھی اپنی مشہور کتاب ’’اردو اَدب کی مختصر تاریخ‘‘ میں اُن کا ایک اور شعر نقل کیا ہے، غالباً انھوں نے بھی کسی سبب سے فرہنگ آصفیہ کا بیان نظراَنداز کردیا ہوگا۔ عارفؔ کا ایک اور شعر فرہنگ آصفیہ کے مقدمے میں:
یہ ریختہ وہ یہ ہے کہ کوئی ڈھا نہیں سکتا+عارفؔ نہیں دیکھی ہے یہ تعمیر کسی نے
(یہاں شاعر نے ریختہ بمعنی پکا مکان و پختہ عمارت باندھا ہے۔ س ا ص)

آگے بڑھنے سے پہلے ایک لطیف نکتہ بیان کردوں، سید احمد دہلوی کا آبائی وطن بِہار تھا، اُن کے والد عبدالرحمن مونگیری نے دہلی میں سکونت اختیار کی اور خود سید صاحب وہیں پیدا ہوئے، اس لیے دہلوی لکھنا اور کہلانا پسند کیا۔ بِہاری حضرات اس بات پر فخر کرسکتے ہیں کہ ایسا جیّد ماہر ِلسان ہمارے یہاں سے اُٹھا۔ اب واپس آتے ہیں فرہنگ آصفیہ کے مندرجات کی طرف۔

جب یہ لغات پہلے پہل جون 1883ء میں بالاقساط منظر عام پر آنے لگی تو اسے بشکل اشتہار یوں پیش کیا گیا:
(بنیادی تفصیلات کے اندراج کے بعد): ’’ تاریخ سال نو
اس کے اب بے مثال ہونے میں+گفتگوئے کلام کس کو ہے
لکھیے مشتاقؔ ، عیسوی تاریخ + کانِ معنی لغات ِ اردو ہے
۔1883ء ۔‘‘

(یہاں شاعر کا کوئی تعارف موجود نہیں، البتہ یاد رکھنے کی بات ہے کہ مولوی سید احمد دہلوی خود بھی شاعر تھے اور انھوں نے پوری فرہنگ میں جابجا اپنے اردو اور فارسی کلام کے نمونے پیش کیے۔ یہ غالباً اپنی نوعیت کی واحد مثال ہے۔ اُن کا ایک شعر تالیف لغت کے احوال میں یوں درج ہے:
گُل زمیں سے جو نکلتے ہیں برنگ ِ شعلہ
کوئی جاں سوختہ جلتا یہ تہِ خاک نہ ہو) ۔
آگے لکھا ہے : ’’ہندوستانی اردو لغات

یہ نئی اور مکمل اردو ڈکشنری جس میں ہندوستانی زبان کے تقریباً کُل الفاظ یعنی عربی ، فارسی، ترکی ، ہندی ، بلکہ لغات ِ انگریزی مخلوط بہ اُردو اور عدالتی وبیگماتی محاورے بھی شامل ہیں، ما ہ نومبر 1882ء سے چوبیس صفحے پر (مگر جولائی سے بتیس صفحے پر) بطور ِ رسالہ ٔ ماہوار، ہر مہینے کی بیسویں تاریخ کو شایع ہوتی ہے اور ہمیشہ چار مہینے کی پیشگی قیمت ساڑھے چار آنے ماہوار کے حساب سے لی جاتی ہے، بصورت مابعد، دوچند۔یا۔ترسیلِ رسالہ بند۔ پورے رسالے کی قیمت بھیجنے پر کوئی سا نمبر اور صرف ایک آنہ ارسال کرنے پر ردّی پروُف نمونۃ ً(نمونتن) ارسال ہوسکتا ہے۔

یہ کتاب مُنشی سید احمد صاحب، مؤلفِ لغات ِمذکور، ساکنِ حویلی مظفر خاں، واقع دہلی سے درخواست کرنے پر مل سکتی ہے‘‘۔ باقی مندرجات کے بعد آخر میں لکھا ہے: ’’ مطبع یوسفی، دہلی میں میر علی حسین مالک ِ مطبع کے اہتمام سے چھپی‘‘۔ (یہ عبارت نقل کرتے ہوئے خاکسار کو خیال آیا کاش! میں بھی کوئی لغات یا اسی لغت کی تصحیح، ترمیم واضافہ جیسا اہم کام قسط وار رسالے کی صورت کرسکتا….مگر اس کے لیے سرپرستی کی بھی اشدّ ضرورت ہے، وہ کہاں سے آئے۔ س ا ص)۔ فاضل مؤلف نے دیگرنقصانات کے علاوہ، آتش زدگی میں اپنے گھر، مسودات اور دیگر سامان کی بربادی، نیز ایک بچی کی ہلاکت کا نوحہ بھی رقم کیا ہے۔

خواجہ الطاف حسین حالیؔ نے اُن کے نام خط، (مؤرخہ ستائیس فروری سن انیس سو بارہ، بمقام پانی پت) میں لکھا:’’…….آپ کے اس حادثے کے قریب قریب، انگلستان کے ایک مشہور مصنف، ڈاکٹر لِین پر جو آپ ہی کی طرح ڈکشنری نویس یعنی عربی کی مبسوط ڈکشنری ’مَدُّ القاموس‘ کا جامع تھا، یہی آتش زدگی کا واقعہ گزرا تھا۔ اُس کی تقریباً بیس برس کی محنت، دم کے دم میں برباد ہوگئی تھی اور کتاب کے شایع ہونے سے پہلے تمام مطبوعہ اور زیرِطبع کتابیں جل کر خاکستر ہوگئی تھیں، مگر واہ رے استقلال کہ اُس کی پیشانی پر بَل نہیں آیا۔

نئے سرے سے پھر مسودہ تیار کیا جو آخر کو دس یا پندرہ ضخیم جلدوں میں چھپ کر شایع ہوا ہے‘‘۔ (حالیؔ بھی اپنی طرز کے منفرد شخص تھے کہ انگریزی زبان وادب براہ راست پڑھنے کی بجائے تراجم کی صحت جانچتے جانچتے اس سے قدرے واقف ہوئے اور یوں حوالہ دینے لگے کہ گویا باقاعدہ انگریزی داں ہوں۔ سرسید تو خیر اتنی بھی نہیں جانتے تھے، مگر اردو نثر میں انگریزی الفاظ کی بے جاآمیزش بہت کی)۔ آگے حالیؔ نے مولوی صاحب کی دل جوئی کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ وہ ایسی ہی نظیر ہندوستان میں قائم کریں گے اور واقعی ایسا ہی ہوا۔ ایسے کام کے دھنی یا انگریزی کے Workaholicآج کے دور میں شاید ہی کہیں ملیں۔

انھیں حیدرآباد، دکن کے نظام نواب میر محبوب علی خاں بہادر آصف جاہ سادس اور نواب میر سَر عثمان علی خاں بہادرآصف جاہ ہفتم کی سرپرستی ودیگر ذرایع سے امداد کے طفیل اپنے مشن میں کامیابی ہوئی۔ انھوں نے نظام عثمان کی شان میں نثری قصیدہ لکھا تو سَرِنامہ پر یہ مطلع لکھا اور پھر باقاعدہ اس کی توضیح وتشریح کا مضمون رقم کیا:

حضرت نظام ِ سابع، تم فیض کے دھنی ہو
حاتم سے کیا ہے نسبت، عثمان ہو غنی ہو

تنقیدی مزاج کے حامل قارئین کرام سے گزارش ہے کہ اس شعر پر کوئی تبصرہ کرنے سے پہلے وہ تحریر پڑھ لیں جو نظام دکن کے متعلق مولوی صاحب نے لکھی۔
فرہنگ آصفیہ کے مقدمہ طبع اول کی ابتداء میں خدا ورسول ﷺ کے اسمائے کریمہ سے آغاز کرنے کے بعد شعر درج ہے جو یقیناً مولوی سید احمد دہلوی ہی کا ہے: تُو حمد کے قابل ہے ذرا شک نہیں اس میں+لیکن ہے کہاں حمد تِری ذات کے قابل

(بخدا! حمدیہ شاعری میں ایسا خیال پہلے نظر سے نہیں گزرا۔ اگر مولوی صاحب اپنے اس کارنامے اور نثرنگاری سے مشہور نہ ہوتے تو اپنے وقت کے ممتاز شعراء میں بھی شمار ہوتے۔ س ا ص)۔
ابتداء یوں ہوتی ہے: ’’ اردو زبان کی پیدایش اور ترقی

ہماری اردو زبان جو فی زمانہ، علوم وفنون کا خزانہ بھی جمع کررہی ہے کیا بلحاظ ِ فصاحت، کیا بخیال ِ بلاغت ، ہندوستان کی جان ہے۔(یہ دیکھیے صاحبو! مولوی صاحب اپنی فرہنگ میں خود لکھتے ہیں کہ فی زمانہ نہیں، بلکہ فی زمانا یعنی ہمارے زمانے میں درست ہے، مگر رَوانی میں وہی لکھا جو عوام وخواص کی زبان پر ہے۔

س ا ص)۔ ایک زمانہ وہ تھا کہ اِ س زبان نے قلعہ معلّیٰ اور دہلی شاہجہان آباد کی چاردیواری سے قدم باہر نہیں نکالا تھا (یہاں مولوی صاحب کی معلومات کی کمی آڑے آئی، ورنہ اردو اُس وقت تک ہندوستان کے طول وعرض میں کسی نہ کسی شکل میں رواج پاچکی تھی۔س اص)، ایک زمانہ یہ ہے کہ کشمیر سے راس کُماری، اور کلکتہ سے کراچی تک، اردو مادری زبان کا درجہ حاصل کرتی جاتی ہے، بلکہ پیشاور (پشاورکا قدیم تلفظ۔س ا ص)، شیلانگ، کوئٹہ، افغانستان بھی اس کے الفاظ سے بوسیلہ تجارت وسلطنت ِ موجودہ خالی نہیں پایا جاتا (انگریز سرکار کی خوشامد۔س ا ص)، خدا رکھے، اب تو ہندوستان کے باہر بھی قدم رکھنا شروع کردیا ہے۔ عدن (کبھی الگ ملک، اب یمن کا حصہ۔س ا ص)، مالدیپ، جزائر سیلون، لنکا (یعنی سری لنکا۔ س ا ص)، انڈمان (اب بھارت میں شامل۔س ا ص)، سنگاپور، ہانگ کانگ، شانگھی (شنگھائی، چین۔س ا ص) میں بھی اس کے شیدا پیدا ہوچلے ہیں (یعنی چین میں اردو کا رواج بیسویں صدی کے آغاز سے پہلے ہوچکا تھا۔س ا ص)، عرب میں حاجیوں نے، بغدادشریف، نجفِ اشرف، (اب عراق میں شامل۔س ا ص)، مشہد (ایران) اور بیت المقدس (اب مقبوضہ فلسطین، اردن و گرد ونواح۔ س ا ص) میں زائروں (زائرین) نے، مصر، شام اور روم (یعنی ترکی کے وہ علاقے جو کبھی سلطنت روما کا حصہ تھے۔ س ا ص) میں سیاحوں نے، انگلستان میں طلبائے ہند اور پینشن یافتہ انگریزوں نے اِس کا چرچا پھیلادیا ہے (چرچا کرنا بھی درست ہے۔ س ا ص)، رُوس کی عمل داری میں بھی اِس کا رواج ہوچلا ہے۔

یہاں تک کہ ایک ہندوستانی زبان کا پروفیسر (ہندوستانی زبان کا ایک پروفیسر) بھی وہاں بلایا گیا ہے، بلکہ سنا ہے کہ قسطنطنیہ (درست: قسطن طی نیہ۔ س اص بحوالہ لغات کشوری از مولوی تصدق حسین رضوی) میں بھی سلطان المعظم (یعنی عثمانی خلیفہ۔ س ا ص) نے اِس طرف گوشہ چشم منعطف فرمایا ہے (یعنی توجہ فرمائی ہے۔س ا ص)۔ اور تو اور، تبّت تک پہنچ گئی ہے۔ وہاں کے مسلمان تاجر مذہبی مسائل کے اردو ترجمے خرید کر لے جاتے ہیں۔ جس تبتی مقام سے پولو کا کھیل ایجاد ہوا ہے، وہاں کی زبان کی جو ایک انگریز نے ڈکشنری لکھی ہے، اُس میں اردو زبان کے بہت سے الفاظ، ذراذرا سے تغیر سے موجود ہیں (یہ تاریخی انکشاف ہے۔

اردو اور تبتی کے اشتراک پر آج تک کوئی تحقیق خاکسار کی نظر سے نہیں گزری۔ قارئین خصوصاً تحقیق کے جویا حضرات سے گزارش ہے کہ اس باب میں میری مدد فرمائیں۔ س ا ص)۔ تبتی مسلمان تاجروں سے ہم نے خود بھی مل کر دریافت کیا ہے……………..زنجبار (موجودہ ملک تنزانیہ کا ایک حصہ، دوسرا ٹانگانیکا کہلاتا تھا۔س ا ص)1894…ء میں یہاں دھوم دھام سے تعزیہ داری اور اردومرثیہ خوانی ہوئی، جس میں ہندوستانی اور زنگباری (یعنی زنجباری۔ یہ فارسی اور عربی کے اشتراک کے نتیجے میں تلفظ بدلا۔س ا ص) شریک تھے۔ (گویا اسماعیلی فرقے کا وہاں قدم جمانا بھی غالباً اسی دور کی بات ہے۔ س ا ص)………..ہمیں اب اس خیال سے آگے قدم بڑھانا چاہیے کہ ہمارے ملک میں دس کروڑ آدمی اردو زبان بولتے اور اسی قدر، اُسے سمجھتے ہیں، کیونکہ جو سمجھتے ہیں ، وہ ٹوٹی پھوٹی بول بھی لیتے ہیں، ورنہ اُن کا سمجھنا نہ سمجھنا برابر تھا۔ (ہمارے یہاں کے بہت سے نادان اور ہندوستانی مشاہیر میں شامل بعض لوگوں کا یہ خیال کس قدر غلط اور گمراہ کُن ہے کہ اردو مہاجرین لے کر پاکستان آئے۔ س ا ص)۔ آگے چل کر مولوی صاحب نے لسانی بحث کو بہت جامع اور سہل انداز میں بیان کیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔