باپ کی شفقت کا سایہ

سلمان عابد  منگل 24 مئ 2022
salmanabidpk@gmail.com

[email protected]

ان کے سائے میں بخت ہوتے ہیں

باپ گھر میں درخت ہوتے ہیں

23مئی 2005نماز عصر کا وقت تھا والد گرامی عبدالکریم عابد معمول کے مطابق اپنا کالم یا تجزیہ لکھ رہے تھے اور وہ اپنی یہ آخری تحریر مکمل نہیں کرسکے تھے کہ وہ رب کے حضور پیش ہوگئے ۔موت برحق ہے، مجھ سمیت سب نے ہی دنیا سے اپنے اپنے وقت کے مطابق جانا ہے، مگر کچھ شخصیات بالخصوص والدین کی جدائی یا رخصتی کا احساس دکھی کردیتا ہے۔

مجھے یا د ہے کہ میرے والد گرامی ہمیشہ اپنی اس خواہش کا اظہار سب گھرو الوں سے کیا کرتے تھے کہ میں جب دنیا سے میری رخصتی کا وقت ہو تو میرا آخری عمل میری تحریر ہو او رمیرے ہاتھ میں قلم ہو ۔ اللہ تعالی نے ان کی اس خواہش کا احترام کیا او روہ عملا لکھتے لکھتے دنیا سے رخصت ہوئے ۔ میرے والد گرامی عبدالکریم عابد علم اور پروفیشن میں ایک ادارے کی حیثیت رکھتے تھے ۔

وہ ایک نامور صحافی، اداریہ نویس اور کالم نگار تھے ۔ انھیں ملک کے کئی قومی اخبارات، رسائل کا مدیر ہونے کا اعزاز حاصل ہوا بلکہ اگر یہ کہوں تو غلط نہیں ہوگا کہ ان کا شمار ان صحافیوں میں ہوتا تھا جن کو سب سے زیادہ اخبارات و رسائل کے مدیر ہونے کا اعزاز حاصل رہا ۔

ان کے بعض صحافتی دوست ان کو ’’ ایڈیٹرز کا استاد ‘‘ کہا کرتے تھے۔ والد گرامی کا مطالعہ وسیع تھا او راہم بات یہ تھی کہ ان کی بڑی خوبی میں عملا اپنی سوچ، فکر، نظریہ او رخیالات کے ساتھ ساتھ دوسروں کی فکر اور سوچ کا مطالعہ تھا۔

وہ ہمیشہ اس بات کی تلقین کرتے تھے کہ اگر تم اپنی سوچ اور فکر کو پختہ کرنا چاہتے ہو او راس کی گہرائی کو درست سمت میں سمجھنا چاہتے ہو تو اپنے متبادل علمی و فکری مطالعہ بھی ضرور کیا کرو۔ وہ دائیں بازو کی سوچ او رفکر سے جڑے ہوئے تھے اور اسی سوچ او رفکر کی بنیاد پر انھوں نے خوب لکھا مگر کوشش کی کہ ان کی تحریریں کسی بھی طرح کے تعصب ، تنگ نظری اورنفرت سے پاک ہو۔

میری زندگی کا بڑا اثاتہ میرے والد گرامی ہی تھے ۔ ان ہی سے نظریات مستعار لے کر لکھنا شروع کیا اور ٹی وی اسکرین پر بولنے کی ہمت پیدا ہوئی۔

ان کا نظریہ تھا کہ سیاسی ، صحافتی یا علمی و فکری مخالفت کا مطلب اندھی دشمنی نہیں ہوتا کیونکہ شخصیت پرستی یا اندھی دشمنی تباہ کن ہوتی ہے ۔اداریہ نویسی او رتجزیہ کاری میں ان کو کمال کا درجہ حاصل تھا او راہم عالمی ، علاقائی او رداخلی سیاسی ، سماجی ، معاشرتی او رمعاشی امور پر ان کی دسترس تھی ۔جمہوریت، قانون کی حکمرانی، آئینی بالادستی، اسلام او راخلاقی عمل کی جنگ اپنی تحریروں سے آخری دم تک بڑی جرات او ربہادری سے لڑتے رہے ۔

جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے خلاف ان کی لکھی ہوئی تحریریں کمال کی تھیں اور سیاسی و فوجی آمرانہ پالیسیوں پر انھوں نے دوٹوک انداز میں لکھا ۔ان کی سوانح عمری ’’ سفر آدھی صدی کا‘‘ عملی بنیادوں پر پڑھنے کے قابل ہے کیونکہ یہ محض ان کی اپنی سوانح عمری تک محدود نہیں بلکہ ان تمام ادوار کا سیاسی اور صحافت کی تاریخ سے جڑی ہوئی کہانی ہے جو ان کی جگ بیتی پر مبنی ہے۔ سوشلزم او رمارکس ازم پر ان کی تحریریں ہر طبقہ میں پڑھی جاتی تھیں اور اور اس سوچ و فکر پر ان کا مطالعہ کافی تھا ۔

میں نے جب ہوش سنبھالا تو میں نے اپنے والد گرامی کو محض پڑھتے او رلکھتے ہوئے ہی دیکھا ۔ کتابوں سے دوستی ان کا محبوب ترین مشغلہ تھا اور ان کی ذندگی کا بیشتر وقت اسی شوق میں گزرا ۔ اس کے علاوہ جو وقت بچتا وہ گھر او رکچھ مخصوص دوستوں کے لیے رکھتے تھے

میرے بغیر تھے سب خواب اس کے ویراں سے

یہ بات سچ ہے کہ مرا باپ کم نہ تھا ماں سے

مجھے اس بات کا فخر ہے کہ میرے والد گرامی کی صحافت ایک اصول او رنظریہ کی بنیاد پر تھی اور انھوں نے وہی کچھ لکھا او ربولا جسے وہ سچ سمجھتے تھے ۔اگرچہ سب ہی لوگوں کو اپنح والدین جن میں والد گرامی بھی ہیں فخر ہوتا ہے ، مگر میرا یہ فخر کچھ زیادہ ہی نمایاں ہے کیونکہ میں عملا خود کو ان کے بغیر کچھ نہیں سمجھتا ۔

والد گرامی نے اپنے ہی بارے میں ایک تحریر لکھی تھی جو پیش خدمت ہے ۔

’’ کبھی کبھی میں پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں ، کتنی طویل زندگی خوابوں ، خواہشوں ، خیالوں میں گزرگئیں ۔کتنی ہی آرزوئیں تھیں جو ناتمام رہ گئیں ، کتنے نقش تھے جو اجاگر نہ ہوسکے ۔کتنے لفظ ان کہے رہ گئے ۔

کیسے کیسے لحمے ہاتھوں سے پھسل گئے، کتنے دن بیکار بیت گئے او رکتنے سوچ بے سبب ڈوب گئے ۔ مگر اس اس لمبی خالی زندگی میں کچھ جاگتی سوچتی ہوئی راتیں بھی ہیں او راگر مجھے خود ستائی کے معاف کیا جائے تو کچھ جگماتے ہوئے لحمے بھی ۔ وہ لحمے جب خد ا نے مجھے سچ لکھنے او رحق پر گواہی دینے کی توفیق عطا کی ۔میں ان لحموں کو یاد کرتا ہوں توبے اختیار ہاتھ دعا کے لیے اٹھ جاتے ہیں ۔ اے سچے رب ، جب تک سانسوں کی آواز باقی ہے ، جب تک دل سینے میں دھڑکتا ہے ،مجھے سچ پر گواہی دینے کی توفیق عطا کر ، خواہ میںاس ہجوم میں اکیلا رہ جاوں گا ، جس کی آنکھیں معلوم نہیں کھلیں گی ۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔