- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
چارجنگ کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے والی ایجاد
کیمبرج: سائنس دانوں نے ایک بیٹری نما ڈیوائس بنائی ہے جو چارجنگ کے عمل کے دوران اپنے اطراف میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کشید کرلیتی ہے۔
یونیورسٹی آف کیمبرج کے محققین کی جانب بنائے جانے والے اس سُپر کیپیسیٹر کا سائز پانچ روپے کے سکّے کے برابر ہے اور اس کو کم لاگت والی پائیدار اشیاء جیسے کے ناریل کے خول اور سمندرکے پانی سے بنایا جا سکتا ہے۔
اس ایجاد کے متعلق یہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ اس کو کاربن کشید کرنے والی ٹیکنالوجیز کو مزید باصلاحیت بنانے میں استعمال کیا جاسکے گا۔
ماحول سے کاربن کو علیحدہ کرنے والی موجودہ ٹیکنالوجی کے لیے بڑی مقدار میں توائی درکار ہوتی ہے اور ان پر خطیر رقم خرچ ہوتی ہے۔
یہ سُپر کیپیسیٹر دوبارہ چارج ہوجانے والی بیٹری کے جیسی ہے، لیکن چارج کو ذخیرہ کرنے اور چھوڑنے کے لیے کیمیکل ری ایکشن کا استعمال کرنے کے بجائے اس کا انحصار الیکٹروڈز کے درمیان الیکٹرونز کی حرکت پرہوتا ہے۔
یہ دو الیکٹروڈز سے بنا ہوتا ہے جس میں ایک پر مثبت جبکہ دوسرے پر منفی چارج ہوتا ہے۔
محققین نے متعدد تجربوں میں وقفے وقفے سے مثبت سے منفی پلیٹ کی جانب والٹیج چھوڑاجس سے یہ بات سامنے آئی کہ ایسا کرنے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادہ مقدار کشید کی جاسکتی تھی۔
جس کے بعد کاربن ڈائی آکسائیڈ جمع کر کے یا تو دوبارہ استعمال کر لی جائے یا ضائع کر دی جائے۔
کیمبرج یونیورسٹی کے یوسف حمید شعبہ کیمیا کے ڈاکٹر ایلگزینڈر فورس، جن کی رہنمائی میں یہ تحقیق کی گئی، کے مطابق یہ سُپر کیپیسیٹر موجودہ صنعتی معیار سے ممکنہ طور پر زیادہ مؤثر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کیپیسیٹر کا چارجنگ-ڈِس چارجنگ کا عمل ممکنہ طور پر موجودہ انڈسٹری میں استعمال کیے جانے والے امائن ہیٹنگ عمل سے کم توانائی کا استعمال کرتا ہے۔
نینو اسکیل میں شائع ہونے والی تحقیق کی شریک مصنفہ گریس میپ اسٹون کا کہنا تھا کہ یہ سُپر کیپیسیٹر اتنا چارج جمع نہیں کر سکتے جتنا بیٹریاں کر لیتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان سُپر کیپیسیٹرز کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ان کو بنانے کے لیے استعمال کی جانے والی اشیاء سستی اور کثیر مقدار میں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ محققین ایسی اشیاء کا استعمال کرنا چاہتے ہیں جو بے کار ہوں، ان سے ماحول کو کوئی نقصان نہ پہنچتا ہوں اور ان کو پھینکنے کی کم سے کم ضرورت پڑے۔ مثال کے طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ پانی پر مبنی الیکٹرولائٹ میں حل ہوجاتی ہے، جو در حقیقت سمندر کا پانی ہے۔
محققین کو امید ہے کہ یہ نئی ڈیوائس موسمیاتی تغیر سے نمٹنے کے لیے مزید مدد دے سکتی ہے اور ہر سال ماحول میں خارج ہونے والی 35 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مسئلے کے لیے فوری حل فراہم کر سکتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔