- سائنس دان سونے کی ایک ایٹم موٹی تہہ ’گولڈین‘ بنانے میں کامیاب
- آسٹریلیا کے سب سے بڑے کدو میں بیٹھ کر شہری کا دریا کا سفر
- انسانی خون کے پیاسے بیکٹیریا
- ڈی آئی خان میں گاڑی پر فائرنگ، چار کسٹم اہلکار اور ایک بچی جاں بحق
- سینیٹر مشاہد حسین نے افریقا کے حوالے سے پاکستان کے پہلے تھنک ٹینک کا افتتاح کردیا
- گوگل نے اسرائیل کو ٹیکنالوجی دینے کیخلاف احتجاج کرنے والے 28 ملازمین کو نکال دیا
- آپریشن رجیم میں سعودی عرب کا کوئی کردار نہیں، عمران خان
- ملک کو حالیہ سیاسی بحران سے نکالنے کی ضرورت ہے، صدر مملکت
- سعودی سرمایہ کاری میں کوئی لاپرواہی قبول نہیں، وزیراعظم
- ایران کے صدر کا دورہ پاکستان پہلے سے طے شدہ تھا، اسحاق ڈار
- کروڑوں روپے کی اووربلنگ کی جا رہی ہے، وزیر توانائی
- کراچی؛ نامعلوم مسلح ملزمان کی فائرنگ سے 7بچوں کا باپ جاں بحق
- پاک بھارت ٹیسٹ سیریز؛ روہت شرما نے دلچسپی ظاہر کردی
- وزیرخزانہ کی امریکی حکام سے ملاقات، نجکاری سمیت دیگرامورپرتبادلہ خیال
- ٹیکس تنازعات کے سبب وفاقی حکومت کے کئی ہزار ارب روپے پھنس گئے
- دبئی میں بارشیں؛ قومی کرکٹرز بھی ائیرپورٹ پر محصور ہوکر رہ گئے
- فیض آباد دھرنا معاہدہ پہلے ہوا وزیراعظم خاقان عباسی کو بعد میں دکھایا گیا، احسن اقبال
- کوئٹہ کراچی شاہراہ پر مسافر بس کو حادثہ، دو افراد جاں بحق اور 21 زخمی
- راولپنڈی؛ نازیبا و فحش حرکات کرکے خاتون کو ہراساں کرنے والا ملزم گرفتار
- حج فلائٹ آپریشن کا آغاز 9 مئی سے ہوگا
چارجنگ کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے والی ایجاد
کیمبرج: سائنس دانوں نے ایک بیٹری نما ڈیوائس بنائی ہے جو چارجنگ کے عمل کے دوران اپنے اطراف میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کشید کرلیتی ہے۔
یونیورسٹی آف کیمبرج کے محققین کی جانب بنائے جانے والے اس سُپر کیپیسیٹر کا سائز پانچ روپے کے سکّے کے برابر ہے اور اس کو کم لاگت والی پائیدار اشیاء جیسے کے ناریل کے خول اور سمندرکے پانی سے بنایا جا سکتا ہے۔
اس ایجاد کے متعلق یہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ اس کو کاربن کشید کرنے والی ٹیکنالوجیز کو مزید باصلاحیت بنانے میں استعمال کیا جاسکے گا۔
ماحول سے کاربن کو علیحدہ کرنے والی موجودہ ٹیکنالوجی کے لیے بڑی مقدار میں توائی درکار ہوتی ہے اور ان پر خطیر رقم خرچ ہوتی ہے۔
یہ سُپر کیپیسیٹر دوبارہ چارج ہوجانے والی بیٹری کے جیسی ہے، لیکن چارج کو ذخیرہ کرنے اور چھوڑنے کے لیے کیمیکل ری ایکشن کا استعمال کرنے کے بجائے اس کا انحصار الیکٹروڈز کے درمیان الیکٹرونز کی حرکت پرہوتا ہے۔
یہ دو الیکٹروڈز سے بنا ہوتا ہے جس میں ایک پر مثبت جبکہ دوسرے پر منفی چارج ہوتا ہے۔
محققین نے متعدد تجربوں میں وقفے وقفے سے مثبت سے منفی پلیٹ کی جانب والٹیج چھوڑاجس سے یہ بات سامنے آئی کہ ایسا کرنے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادہ مقدار کشید کی جاسکتی تھی۔
جس کے بعد کاربن ڈائی آکسائیڈ جمع کر کے یا تو دوبارہ استعمال کر لی جائے یا ضائع کر دی جائے۔
کیمبرج یونیورسٹی کے یوسف حمید شعبہ کیمیا کے ڈاکٹر ایلگزینڈر فورس، جن کی رہنمائی میں یہ تحقیق کی گئی، کے مطابق یہ سُپر کیپیسیٹر موجودہ صنعتی معیار سے ممکنہ طور پر زیادہ مؤثر ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس کیپیسیٹر کا چارجنگ-ڈِس چارجنگ کا عمل ممکنہ طور پر موجودہ انڈسٹری میں استعمال کیے جانے والے امائن ہیٹنگ عمل سے کم توانائی کا استعمال کرتا ہے۔
نینو اسکیل میں شائع ہونے والی تحقیق کی شریک مصنفہ گریس میپ اسٹون کا کہنا تھا کہ یہ سُپر کیپیسیٹر اتنا چارج جمع نہیں کر سکتے جتنا بیٹریاں کر لیتی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ان سُپر کیپیسیٹرز کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ان کو بنانے کے لیے استعمال کی جانے والی اشیاء سستی اور کثیر مقدار میں موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ محققین ایسی اشیاء کا استعمال کرنا چاہتے ہیں جو بے کار ہوں، ان سے ماحول کو کوئی نقصان نہ پہنچتا ہوں اور ان کو پھینکنے کی کم سے کم ضرورت پڑے۔ مثال کے طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ پانی پر مبنی الیکٹرولائٹ میں حل ہوجاتی ہے، جو در حقیقت سمندر کا پانی ہے۔
محققین کو امید ہے کہ یہ نئی ڈیوائس موسمیاتی تغیر سے نمٹنے کے لیے مزید مدد دے سکتی ہے اور ہر سال ماحول میں خارج ہونے والی 35 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مسئلے کے لیے فوری حل فراہم کر سکتی ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔