چارجنگ کے دوران کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کرنے والی ایجاد

ویب ڈیسک  بدھ 25 مئ 2022
(فوٹو: کیمبرج یونیورسٹی)

(فوٹو: کیمبرج یونیورسٹی)

کیمبرج: سائنس دانوں نے ایک بیٹری نما ڈیوائس بنائی ہے جو چارجنگ کے عمل کے دوران اپنے اطراف میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کو کشید کرلیتی ہے۔

یونیورسٹی آف کیمبرج کے محققین کی جانب بنائے جانے والے اس سُپر کیپیسیٹر کا سائز پانچ روپے کے سکّے کے برابر ہے اور اس کو کم لاگت والی پائیدار اشیاء جیسے کے ناریل کے خول اور سمندرکے پانی سے بنایا جا سکتا ہے۔

اس ایجاد کے متعلق یہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ اس کو کاربن کشید کرنے والی ٹیکنالوجیز کو مزید باصلاحیت بنانے میں استعمال کیا جاسکے گا۔

ماحول سے کاربن کو علیحدہ کرنے والی موجودہ ٹیکنالوجی کے لیے بڑی مقدار میں توائی درکار ہوتی ہے اور ان پر خطیر رقم خرچ ہوتی ہے۔

یہ سُپر کیپیسیٹر دوبارہ چارج ہوجانے والی بیٹری کے جیسی ہے، لیکن چارج کو ذخیرہ کرنے اور چھوڑنے کے لیے کیمیکل ری ایکشن کا استعمال کرنے کے بجائے اس کا انحصار الیکٹروڈز کے درمیان الیکٹرونز کی حرکت پرہوتا ہے۔

یہ دو الیکٹروڈز سے بنا ہوتا ہے جس میں ایک پر مثبت جبکہ دوسرے پر منفی چارج ہوتا ہے۔

محققین نے متعدد تجربوں میں وقفے وقفے سے مثبت سے منفی پلیٹ کی جانب والٹیج چھوڑاجس سے یہ بات سامنے آئی کہ ایسا کرنے سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی زیادہ مقدار کشید کی جاسکتی تھی۔

جس کے بعد کاربن ڈائی آکسائیڈ جمع کر کے یا تو دوبارہ استعمال کر لی جائے یا ضائع کر دی جائے۔

کیمبرج یونیورسٹی کے یوسف حمید شعبہ کیمیا کے ڈاکٹر ایلگزینڈر فورس، جن کی رہنمائی میں یہ تحقیق کی گئی، کے مطابق یہ سُپر کیپیسیٹر موجودہ صنعتی معیار سے ممکنہ طور پر زیادہ مؤثر ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کیپیسیٹر کا چارجنگ-ڈِس چارجنگ کا عمل ممکنہ طور پر موجودہ انڈسٹری میں استعمال کیے جانے والے امائن ہیٹنگ عمل سے کم توانائی کا استعمال کرتا ہے۔

نینو اسکیل میں شائع ہونے والی تحقیق کی شریک مصنفہ گریس میپ اسٹون کا کہنا تھا کہ یہ سُپر کیپیسیٹر اتنا چارج جمع نہیں کر سکتے جتنا بیٹریاں کر لیتی ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان سُپر کیپیسیٹرز کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ ان کو بنانے کے لیے استعمال کی جانے والی اشیاء سستی اور کثیر مقدار میں موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ محققین ایسی اشیاء کا استعمال کرنا چاہتے ہیں جو بے کار ہوں، ان سے ماحول کو کوئی نقصان نہ پہنچتا ہوں اور ان کو پھینکنے کی کم سے کم ضرورت پڑے۔ مثال کے طور پر کاربن ڈائی آکسائیڈ پانی پر مبنی الیکٹرولائٹ میں حل ہوجاتی ہے، جو در حقیقت سمندر کا پانی ہے۔

محققین کو امید ہے کہ یہ نئی ڈیوائس موسمیاتی تغیر سے نمٹنے کے لیے مزید مدد دے سکتی ہے اور ہر سال ماحول میں خارج ہونے والی 35 ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے مسئلے کے لیے فوری حل فراہم کر سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔