معاشی استحکام، آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی ضروری

ایڈیٹوریل  بدھ 25 مئ 2022
آئی ایم ایف نے ملکی معیشت کو سست کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ فوٹو:فائل

آئی ایم ایف نے ملکی معیشت کو سست کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ فوٹو:فائل

اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعلامیے کے مطابق شرح سود ڈیڑھ فیصد اضافے سے 13اعشاریہ 75 فیصد ہو گئی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق روس یوکرین جنگ اور چین میں نئی کوویڈ لہر کی وجہ سے سپلائی میں نئے سرے سے خلل کی وجہ سے افراط زر میں شدت آئی ہے جس کا اثر دنیا بھر کے بینکوں پر پڑا ہے۔

دوسری جانب وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بیرون ملک روانگی سے قبل گفتگو میں بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی طرف سے عوام پر بوجھ نہ ڈالنے کی ہدایت پر پٹرول مہنگا نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، آئی ایم ایف نے ملکی معیشت کو سست کرنے کا مطالبہ کیا ہے، تاہم آئی ایم ایف سے معاملات طے کرکے اچھی خبر لے کر آؤں گا ۔

درحقیقت پاکستان ان دنوں شدید معاشی بحران کا شکار ہے، ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک گر چکے ہیں۔ ڈالر کی قدر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جب کہ اسٹاک مارکیٹ تیزی سے گر رہی ہے، اس ساری بحرانی کیفیت کی ایک بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام بھی ہے کیونکہ جب مارکیٹ میں بے یقینی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو سرمایہ کار خوف کا شکار ہوتا ہے اور کوئی بھی اہم قدم اٹھانے سے گریز کرتا ہے، اگرچہ ہماری موجودہ حکومت بھی بڑے اور مشکل فیصلوں سے گریز ہی کر رہی ہے۔

ماہرین معیشت کے نزدیک شرح سود میں اضافے سے معیشت سست ہو جاتی ہے ، تاکہ افراط زر ، مہنگائی میں کمی لائی جا سکے۔ اسی ضمن میں صنعتکاروں نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی طرف سے شرح سود میں مزید اضافے پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ان کے مطابق ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافہ سے مجموعی طور پر معیشت کا نقصان پہنچے گا ، کیونکہ پاکستان میں بلند شرح سود نئی سرمایہ کاری اور صنعتی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے پالیسی ریٹ بڑھانے سے نئی انویسٹمنٹ متاثر ہوگی اور سرمایہ تجارتی سرگرمیوں کے بجائے محفوظ منافع کے لیے بینکوں میں رکھنے کو ترجیح دی جائے گی۔

اگر یہی رقم نئی صنعتوں کے قیام میں استعمال ہوگی تو اس سے ملکی صنعتی ترقی میں اضافہ ہوگا اور ملک میں روزگار کے نئے مواقعے میسر آتے ، بے روزگاری میں کمی واقع ہوتی اور صنعتی ترقی کے باعث حکومت کے ریونیو میں بھی اضافہ ہوتا۔ شرح سود میں اضافہ سے کاروباری سرگرمیاں جمود کا شکار ہوںگی اور معیشت کے تمام شعبوں کو بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا، ا جس سے معیشت کے لیے بھی مسائل پیدا ہوںگے۔ اس فیصلے سے معاشی خسارے کو کم کرنے میں مدد نہیں ملے گی کیونکہ ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا، ڈسکاؤنٹ ریٹ میں اضافہ ناقابل فہم ہے۔ پاکستان میں شرح سود خطے کے تمام دیگر ممالک کے مقابلہ میں سب سے زیادہ ہے اس لیے اس میں کمی ضروری ہے۔

پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت کیا ہے؟ کیا پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے؟ جس کی وجہ سے پچھلے دو تین دہائیوں سے نمایندہ حکومتوں کو وقت پورا ہونے سے پہلے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ مسئلہ کرپشن کا نہیں بلکہ معاشی نظام کو درست خطوط پر استوار کرنے اور ٹھوس معاشی پالیسیوں کی ضرورت ہے، اگر بات کرپشن کی ہو تو یورپ میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں کرپشن نہ ہوتی ہو۔ سیاستدانوں کا کرپشن کے نام پر احتساب کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں احتساب با اثر لوگ صرف اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں اور ایسا عرصہ دراز سے چل رہا ہے، پاکستانی حکومتیں ہمیشہ ان با اثر افراد اور اداروں کے زیر اثر رہی ہیں۔ پاکستان میں معاشی مسائل کی ایک بڑی وجہ احتساب کے عمل کا متنازع ہونا بھی ہے۔ جس کے نتیجے میں ملک کے معاشی مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔

حکومت میں آنے کے بعد عمران خان کا سب سے بڑا نعرہ مالی بے ضابطگیوں میں ملوث افراد کے خلاف اعلان جنگ تھا۔ انھوں نے ملک کے لوٹی ہوئی دولت قومی خزانے میں واپس لانے، گڈ گورننس اور مضبوط معیشت قائم کرنے جیسے اعلانات کیے، لیکن یہ احتساب صرف سیاسی مخالفین کے لیے تھا۔ جب ہم احتساب اور بدعنوانی کو سیاسی بنا دیتے ہیں وہ کبھی کرپشن روکتی نہیں ہے، وہ نئے طبقوں کو کرپشن میں لے آتی ہے۔

سابق حکومت کو لوگ اداروں کی اصلاحات اور بہتر معیشت کے لیے اقتدار میں لائے تھے۔ ان دونوں معاملات پر کام کرنے کے بجائے انھوں نے اپنی ساری توانائی غیر ضروری سیاسی لڑائیوں میں صرف کر دی۔ جس کے نتیجے میں ملک میں معاشی سرگرمیاں غیر یقینی کی صورتحال کی وجہ سے محدود ہو گئی۔ جس کی وجہ سے آج اکانومی جمود کا شکار ہے، بڑھتی غربت اور انتہا درجے کی بے روزگاری سے پاکستان کی معاشی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔

کیا کسی نے یہ حساب لگایا کہ احتساب کے اس سارے عمل میں، قومی خزانے میں کتنا پیسہ آیا اور اس خوف کی وجہ سے معیشت کو پہنچنے والے نقصان کا حجم کیا تھا؟ سابقہ حکومت کی طرف سے مبینہ کرپشن کرنے والوں کے احتساب کے پلیٹ فارم کا بغیر سوچے سمجھے استعمال اور اس سے پیدا ہونے والی غیر یقینی کی صورتحال پاکستانی معیشت کے لیے مضر ثابت ہوا ہے۔ جس کے نتیجے میں معاشی بحران نے جنم لیا۔ ڈالر کی اڑان کے باعث روپے کی قدر میں نمایاں کمی واقع ہونے سے ملکی قرضوں میں خاطر خواہ اضافہ ہو چکا ہے۔

پاکستان کے موجودہ بحران کی اصل اور سب سے بڑی وجہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو ہمارے فیصلہ ساز کوئی بڑا مسئلہ سمجھتے ہی نہیں ہیں اور اگر وہ اس کو ایک بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں بھی تو اس کے حل سے بالکل بھی واقف نہیں ہیں۔ آپ یہاں پر دنیا کا بہترین معیشت دان بھی لا کر بٹھا دیں تو مسئلہ جوں کا توں رہے گا جب تک کہ آپ پاکستان کے متحرکات سے واقف نہ ہوں گے۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت اس کی زراعت پر انحصار کرتی ہے، ہماری ایک تہائی سے بھی زیادہ آبادی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر زراعت سے منسلک ہے۔ اور اس شعبے میں جو ترقی ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہو سکی۔ ہم زرعی تحقیق اور پیداوار میں دنیا سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

ہم نے کبھی توجہ ہی نہیں دی بلکہ اس کو اتنا اہم ہی نہیں سمجھا۔ ملک بھر میں محض 10 کے قریب زرعی یونیورسٹیاں ہیں جہاں تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے یا محققین تو موجود ہیں لیکن ان کو وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔

ہم زراعت کے شعبے میں اپنے پڑوسی اور ہر موسم کے دوست چین سے بہت سی مدد لے سکتے ہیں، اس کے ماہرین نے اس شعبے میں وہ کرشمے کر دکھائے ہیں کہ دنیا حیرت کا اظہار کرتی ہے۔ ہم چینی ماہرین سے اپنے زراعت کے شعبے کی کیس اسٹڈی کروا سکتے ہیں جس سے بہت سے مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل سامنے آجائے گا۔ مثال کے طور پر چین سے ماہرین کو بلائیں اور ان کو ٹاسک دیں کہ پاکستان بھر میں زراعت کے شعبے کا ایک سروے کریں کہ کیا وجہ ہے ہم دنیا کی بہترین قابل کاشت زمین رکھنے کے باوجود فی ایکڑ پیداوار بڑھانے میں ناکام ہیں۔

زیادہ سے زیادہ ایک مہینے میں پوری ’’کیس اسٹڈی‘‘ مکمل ہو جائے گی اور تمام کمزوریاں سامنے آجائیں گی۔ پھر چین ہی سے مدد لیں کہ اب اس کا حل کیا کیا جائے۔ وہ آپ کو حل بھی بتائیں گے، ٹریننگ بھی دیں گے اور اس کو عملی جامہ پہنانے میں مدد بھی فراہم کریں گے۔ اس سے نہ صرف ہمارے کسان کو فائدہ ہوگا بلکہ ہماری برآمدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

گزرے برس چین نے 40 ارب ڈالر کا صرف سویا بین برازیل سے درآمد کیا جو کہ پاکستان میں بآسانی پیدا کیا جا سکتا ہے اور پاکستان برازیل کی نسبت چین کو بہت قریب بھی پڑتا ہے، اگر پاکستان سویا بین کی کاشت کر کے چین کی ضرورت کو پورا کرے اور 40 میں سے صرف ایک چوتھائی یعنی صرف 10 ارب ڈالر کی سویا بین کی تجارت کا شیئر حاصل کر لے تو ہماری آمدنی میں قابل ذکر اضافہ ہو سکتا ہے۔

لیکن اس ساری پلاننگ کے لیے آپ کو ٹیم چاہیے جس کے پاس اس شعبے کی مہارت موجود ہو، وژن ہو، تجربہ ہو اور اسے کام کرنے کی آزادی ہو، اگر صرف زراعت پر توجہ مرکوز کرلی جائے اور ہنگامی بنیادوں پر اس شعبے کی بہتری کے اقدامات کیے جائیں تو نہ صرف ہم خوراک کے معاملے میں خود کفیل ہوجائیں گے بلکہ دوسرے ملکوں کے لیے بھی ناگزیر حیثیت اختیار کر جائیں گے، اس سے عالمی سطح پر نہ صرف ہماری قدر میں اضافہ ہوگا بلکہ خوشحالی کا ایک ایسا دور شروع ہوگا جو نسلوں کو فائدہ دے گا۔

ہمیں آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق زرمبادلہ ذخائر مستحکم رکھنے کے لیے اضافی سافٹ ڈیپازٹ حاصل کرنا ہوںگے۔ امریکا ، چین اور یورپ سے پاکستان کے گہرے تجارتی تعلقات ہیں ان ممالک میں کساد بازاری سے پاکستان کی برآمدات کے متاثر ہونا کا شدید خطرہ ہے۔ حکومت نے معیشت کے بارے میں بڑے فیصلے کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ پاکستان میں معاشی استحکام کے لیے آئی ایم ایف پروگرام بحال ہونا بے حد ضروری ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔