نوجوانوں کو سیاست کی نہیں تربیت کی ضرورت ہے

ذوالفقار احمد چیمہ  بدھ 25 مئ 2022
zulfiqarcheema55@gmail.com

[email protected]

پاکستانی قوم کے نوجوانوںکو کرکٹ کے بعد اگر کسی نشے کی لت پڑی ہے تو وہ سیاست ہے۔دونوں نشے ہمارے نونہالوں کے لیے بھی مضر ہیں اور قوم کے لیے بھی نقصان دہ۔حقیقت یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو سیاست کی نہیں تربیت کی ضرورت ہے۔

تربیت کے لیے بلاشبہ بہترین درسگاہ گھر ہے۔ گھر ہی کی طرح دوسری انتہائی اہم درسگاہ اسکول ہے، گھر اور اسکول میں بچوں کو، جب کہ وہ موم کی طرح نرم ہوتے ہیں کسی بھی جانب موڑا جاسکتا ہے اور کوئی بھی شکل دی جاسکتی ہے۔ ان کے ننھے کانوں میں جب مسلسل یہ بات ڈالی جائے گی کہ ’اچھے بچے ہمیشہ سچ بولتے ہیں، جھوٹ بولنا بہت بری بات ہے۔ اچھے بچے بڑوں کا احترام کرتے ہیں بڑوں سے بدتمیزی سے بولنا گناہ ہے۔

نشہ کرنا صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے اور جرم بھی ہے۔ چوری کرنا بہت بری حرکت ہے، یہ حرکت انتہائی گندے بچے کرتے ہیں، چوری کرنے والا کئی سال جیل میں بند رہتا ہے، اچھے آدمی قانون پر عمل کرتے ہیں‘ تو وہ مفید اور متوازن شہری بنیں گے۔

اگر ہمارے پاس اپنے ذاتی اور گروہی مفادات سے ہٹ کر یہ سوچنے کا وقت ہے اور اس بات پر ہمیں تشویش ہے کہ ہماری نئی نسل اخلاق کی انتہائی پست سطح تک گرچکی ہے تو پھر سب سے بڑا جہاد یہ ہونا چاہیے کہ بچوں اور ٹین ایجرز کو گھر اور اسکول میں اچھے اخلاق اور Ethics صرف پڑ ھائے ہی نہ جائیں بلکہ ان کے رگ و پے میں اتار دیے جائیں۔ نوجوانوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرنے والی تیسری درس گاہ پہلی دونوں سے زیادہ بااثر ہے، میڈیا ! پہلے صرف ٹی وی اسکرین تھی، اب اس کی جگہ موبائل کی اسکرین نے لے لی ہے۔ ٹی وی اسکرین پر سیاست اور شوبز کا قبضہ ہے۔

سیاسی چہرے اسکرین پر آتے ہیں تو الزام اور دشنام کی گردان شروع ہوجاتی ہے، سیاست بازی کے علاوہ اداکاروں، بھانڈوں اور ایکٹر سوں کے وعظ سنائے جاتے ہیں۔ حتی کہ اسلامی اور قومی تہواروں پر بھی رقاصاؤں کو بلایا جاتا ہے کہ وہ اس تاریخی دن کے موقعے پر قوم کو اپنے ارشاداتِ عالیہ سے نوازیں، اہم قومی ایام پر کامیڈینز اور جگت بازوں سے پوچھا جاتا ہے کہ ’’آپ نے یہ مقام اور مرتبہ کس سے inspire ہوکر حاصل کیا ہے۔‘‘

وہ کسی سینئر اداکار، ادکارہ یا جگت باز کا نام لے کر جواب دیتا ہے ،’’…صاحب بہت بڑے آدمی تھے‘‘۔ تو یہ سب کچھ دیکھنے اورسننے والا سادہ لوح نوجوان، ان جگت بازوں اور اداکاروں کو ہی اپنا آئیڈیل سمجھے گا۔

وہ ٹین ایجر جو اداکاراؤں کے ارشادات سن کر جوان ہوں گے، ان کے ذہن وکردار کی جس طرح تشکیل ہوگی ، وہ ہمارے سامنے ہے۔ اگر ہم فرض شناس استادوں، ایثار پیشہ ڈاکٹرز، باضمیر اور بہادر پولیس افسروں، محنتی سائنس دانوں اور قابل انجینئروں کو رول ماڈل کے طور پر پیش نہیں کریں گے تو قوم کے شوبز کے لوگوں کوہی آئیڈیلائز کریں گے اور انھیں ہی رول ماڈل بنالیں گے۔

تلخ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کی اکثریت بدزبان ہے، بڑوں سے بدتمیزی کرنا ان کے نزدیک ذرا بھی معیوب نہیں رہا، سوشل میڈیا پر کسی خاتون نے اختلافی بات لکھ دی تو اسے گندی گالیاں دینا شروع کردیں گے۔ دنیا کے اکثر ملکوں میں ہمارا سفارتخانہ جب یہ بتاتا ہے کہ ’’یہاں کی بڑی جیل میں سب سے زیادہ پاکستانی ہیں‘‘  تو سر شرم سے جھک جاتا ہے۔

مسلمانوں کے مقدس ترین شہروں مکہ اور مدینہ میں پاکستان کے نوجوان ایسے جرائم میں ملوث ہوئے جنھیںسن کر روح تک کانپ جاتی ہے۔ زندہ قوم کے ان ’شیروں‘ کے ’کارناموں‘ کو جانتے ہوئے دل سے یہ دعا نکلتی تھی کہ اﷲ کرے ان کا رخ کبھی ترکی کی طرف نہ ہو، کیونکہ پوری دنیا میں اگر کسی ملک کے باشندے پاکستان کے ساتھ دل سے محبت کرتے ہیں تو وہ ترکی ہے۔

میری پہلی کتاب میں ترکی پر لکھے گئے دو مضامین شامل ہیں، ایک میں لکھا تھا’’کُرّہ ارض پر صرف ایک ملک ایسا ہے جہاں کے قریے قریے اور کونے کونے سے پاکستان کے ساتھ محبت کے نغمے پھوٹتے ہیں، ترکی میں آپ کو کسی تعارف کی ضرورت نہیں، پاکستان کا نام ہی کافی ہے۔ آپ وطنِ عزیز کا نام لیں اور پھر محبت کی پھوار سے مسحور ہوتے چلے جائیں۔‘‘

میں آخری مرتبہ جب ترکی گیا تو سفیرِ پاکستان سے خاص طور پر کہا کہ ترکوں کے دل میں پاکستان کے لیے جو محبت ہے وہ ہمارا قیمتی سرمایہ ہے، ہماری پوری کوشش ہونی چاہیے کہ اس میں کبھی کمی نہ آئے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان سے صرف ڈاکٹرز اور انجینئرز یہاں آئیں، نان پروفیشنل لوگ یہاں کسی صورت نہیں آنے چاہئیں۔ مگر وہی ہوا جس کا خطرہ تھا، پاکستان سے کچھ نوجوان وہاں پہنچ گئے اور وہاں بھی بداخلاقی کا مظاہرہ کرنے سے باز نہ آئے، بیرونِ ملک چونکہ کسی فرد کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، ہر فرد اپنے ملک کا نمایندہ ہوتا ہے۔

ان کے اچھے طرزِ عمل سے ان کے ملک کی عزت اور قدر میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کی بداخلاقی اور بری حرکتوںسے ان کے ملک کے لیے ناپسندیدگی کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔ یہی ترکی میں ہوا ہے، پاکستان اور پاکستانیوں کو ٹوٹ کر چاہنے والوں کی آنکھوں میں وطنِ عزیز کے لیے نفرت کے جذبات اتر آئے۔ اﷲ نہ کرے کہ ہم اپنے ترک بھائیوں کی محبت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوجائیں۔ اس کا فوری طور پر ازالہ ہوناچاہیے، پاکستانی سفارتخانے کے ذریعے ان بدبختوں کے کوائف معلوم کیے جائیں اور انھیں واپس منگوا کر عبرتناک سزا دی جائے۔

سوال یہ ہے کہ مقدس شہروں میں اور سگے بھائیوں جیسے دوست ملک میں جاکر بھی جرائم سے باز نہ آنے والے سیاہ بختوں کا تعلق پاکستان سے ہی کیوں جُڑتاہے؟ یہ اس لیے ہے کہ ہم نے نئی نسل کی تربیت ہی نہیں کی، نوجوانوں کو اچھے اخلاق سکھانا اور ان کی کردار سازی ہماری ترجیحات میں ہی نہیں۔ ہم سیاست بازی میں اتنا الجھ گئے ہیں کہ اپنے بچوں کو اچھائی اور برائی اور حلال حرام کا فرق بتانا ہی بھول گئے ہیں۔

ٹین ایجرز کوethics سکھانے والی ہماری درسگاہیںغیر فعال ہوچکی ہیں، سچ بولنے، نرمی سے گفتگوکرنے ، بڑوں کا احترام کرنے، چوری، فراڈ اور چیٹنگ سے نفرت کرنے، نشہ آور ڈرگز سے بچنے، ڈسپلن قائم کرنے اور قوانین کا احترام کرنے کی تعلیم نہ اسکولوں سے ملتی ہے اور نہ میڈیا سے، قومی سیاسی رہنما ہماری چوتھی اہم درسگاہ ہیں جو اپنے پیروکاروں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کی تربیت کرسکتے ہیں۔

مگر بدقسمتی سے ہمارے سیاسی رہنماؤں کے منہ سے نفرت کی آگ نکل رہی ہے اور وہ ایک دوسرے پر آگ کے گولے برسارہے ہیں۔ اپنے آپ کو بہت مقبول سمجھنے والے لیڈر بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ ہزاروں لوگوں کے سامنے جھوٹ بولتے ہیں ۔ انھیں اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ اگر لیڈر سرِعام جھوٹ بولے گا اور اپنے مخالف کو گالی دینے سے گریز نہیں کریگا تو اس کے پیروکار جھوٹ کو اچھائی اور دوسروں کو گالی دینا نیکی شمار کریں گے۔

دیدہ دلیری کا یہ عالم ہے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ صرفpower politics  کررہے ہیں اور ان کی ساری مہم اقتدار حاصل کرنے کے لیے ہے، اپنے احتجاج کو جہاد کا مقدس نام دینے پر بضد ہیں اور ساتھ ہی عذابِ الٰہی کی وعید سناتے ہیں کہ ’’محشر کے روز اﷲ تعالیٰ آپ لوگوں سے یہ سوال پوچھے گا کہ آپ نے پاکستان میں سازش کے تحت بننے والی حکومت کا ساتھ کیوں دیا؟ اگر آپ اس حکومت کے خلاف ہمارے ساتھ لانگ مارچ میں شامل نہ ہوئے تو آپ اﷲ کو کیا جواب دیں گے؟‘‘ اندازہ کریں کہ یہ کیا سیاست ہے۔

تربیت کے فقدان کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک سیاستدان اپنے ایک ساتھی کو ملک کا سب سے مقدس قانون یعنی آئین توڑنے پر اُکساتا ہے تو کوئی ہلچل نہیں ہوتی اور وہ عہدے دار جس نے یہ حلف اُٹھایا ہے کہ وہ کسی fear اور favour کے بغیر اپنی آئینی ذمے داری ادا کرے گا، اپنے لیڈر کے دباؤ میں آکر اپنے لیڈر اور پارٹی کو favour کرتے ہوئے اپنی آئینی ذمے داریاں ادا کرنے سے انکار کردیتا ہے اور اس پر کوئی طوفان کھڑا نہیں ہوتا اور آئین کی پاسبان بھی اس کا کوئی نوٹس نہیں لیتے ۔ گورنر کو لگانے اور ہٹانے کا اختیار صرف وزیرِاعظم کا ہے مگر گورنر یہ ماننے سے انکاری ہے۔

ایک صوبے کی اسمبلی کاا سپیکر (جس کے خلاف عدمِ اعتماد کی تحریک جمع ہوچکی ہے) اسمبلی کا گھیراؤ کرکے چھٹی کے روز اجلاس بلاتا اور چند منٹ میں اعلان کردیتا ہے کہ عدمِ اعتماد کی تحریک ناکام ہوگئی ہے۔

اگر کسی مہذّب ملک میں آئین کے ساتھ اسطرح کا کھلواڑ ہوتا تو پورے ملک میں ایک طوفان کھڑا ہوجاتا، آئین شکنوں کو اسی وقت عدالتوں کے کٹہرے میں کھڑا کیا جاتااور انھیں قانون کے مطابق سزا ملتی۔ مگر یہاں اپنوں کے ہر جرم کو جائز سمجھنے کا چلن نشوونما پاچکا ہے۔

اگر میری پسندیدہ پارٹی کا رہنما آئین شکنی کرتا ہے تو میں اس کی مذمت کرنے کے بجائے اس کا دفاع کروںگا، یہ اخلاقی اور ذہنی گراوٹ ہے جو ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور اس کا حل صرف تربیت ہے۔

اس سے نکلنا ہماری ترجیح ِ اوّل ہونی چاہیے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ بچوں اور ٹین ایجرز پر موبائل استعمال کرنے کی پابندی لگا دی جائے اور تمام ٹی وی چینلز کو چاہیے کہ وہ ہفتے میں صرف دو دن سیاسی ٹاک شوز رکھیں اور باقی پانچ دن قوم کی تربیت اور کردار سازی کے لیے مختص کردیں۔ ڈسپلن اور تربیت کے لیے سختی درکار ہے، چین جیسی نہ سہی سنگاپور جیسی تو لازمی ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔