ضمانت ملزم کا حق ہونا چاہیے

مزمل سہروردی  بدھ 25 مئ 2022
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

آج کل ضمانت جیسے معمولی نوعیت کے ریلیف کے لیے رات کو عدالتیں کھولنی پڑ رہی ہیں، حالانکہ دنیا بھر کے نظام انصاف میں کسی ملزم کی ضمانت کوئی ریلیف نہیں ہے بلکہ ضمانت کا حصول ملزم کا قانونی حق سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں ضمانت کو ایک بہت بڑا عدالتی ریلیف بنا دیا گیا ہے اور اس کے لیے عدالتیں رات کو کھل رہی ہیں۔

میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ایف آئی آر کا اندراج گرفتاری کا کوئی جواز نہیں ہونا چاہیے۔ صرف ایف آئی آر کے اندراج کی بنیا د پر گرفتاری کے اختیار نے پاکستان کے نظام انصاف پر نہ صرف غیر ضروری بوجھ ڈ الا ہوا ہے بلکہ نظام انصاف کو مسخ کیا ہوا ہے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ پولیس روزانہ صرف ایف آئی آر کے اندراج پر ہزاروں نہیں لاکھوں لوگوں کو گرفتار کرتی ہے۔ پھر ان کو عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ پھر ریمانڈ لینے کے لیے دوبارہ ملزم کو بار بار عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ملزم کی ضمانت کا ایک کھیل شروع ہوجاتا ہے۔ میری رائے میں اس مشق کے دوران عدالت اور نظام انصاف کا بے پناہ وقت ضایع ہوتا ہے۔

اسی طرح ضمانت قبل از وقت گرفتاری کے لیے بھی لوگ عدالتوں سے رجوع کرتے ہیںجو نظام انصاف کے لیے ایک علیحدہ بوجھ ہے۔ آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن ماتحت عدالت سے لے کر اعلیٰ عدلیہ تک اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ قبل ا ز گرفتاری ضمانت اور بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواستوںکو سننے میں ضایع کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ملک میں ضمانت ایک بہت بڑا ریلیف بن گیا ہے۔

بے وجہ کی گرفتاریوں سے ملک کی جیلوں میں بھی ملزمان کی تعداد بہت زیادہ ہے جب کہ مجرمان کی تعداد بہت کم ہے۔ حالانکہ دنیا بھر کی جیلوں میں مجرمان کو رکھا جاتا ہے۔ ملزمان کو حتمی سزا تک جیل میں رکھنے کی ہر سطح پر حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔

ملزم کے کسی بھی سطح پر بے گناہ ثابت کا چانس ہوتا ہے اور کسی بھی بے گناہ کو ایک دن بھی جیل رکھنا ظلم ہے لیکن ہمارے نظام انصاف میں بے گناہوں کو جیل میں رکھنے کا قانونی جواز موجو دہے، جو کوئی قابل ستائش بات نہیں ہے۔ جب ہمارے نظام انصاف کو اس بات کا احساس ہو جائے گا کہ ایک بھی بے گناہ اگر ایک دن بھی جیل میں رہا تو یہ نظام انصاف اور حکومت کے لیے باعث فخر نہیں ہے تو معاملہ ٹھیک ہو جائے گا۔

قانون کے تحت پولیس اور دیگر تفتیشی ادارے کسی بھی ملزم کو تب تک گرفتار نہیں کر سکتے جب تک تفتیش کے دوران اس کے خلاف نا قابل تردید ثبوت سامنے نہ آجائیں۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ پولیس اور دیگر تفتیشی ادارے جیسے ہی مقدمے کا اندراج ہوتا ہے، وہ ملزم کی گرفتاری کے لیے متحرک ہو جاتے ہیں۔

اس روش کو روکنا ہوگا۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ عدلیہ کے سامنے جب کسی ملزم کو گرفتار کر کے پیش کیا جاتا ہے تو عدالت تفتیشی افسر سے یہ نہیں پوچھتی کہ اس نے کن شواہد کی وجہ سے ملزم کو گرفتار کیا ہے، وہ شواہد پیش کیے جائیں، کیا صرف ایف آئی آر کا اندراج گرفتار کے لیے کافی ہے۔ ویسے بھی جو ملزم تفتیش میں تعاون کے لیے تیار ہو ا س کی گرفتاری کا کوئی جواز نہیں ہونا چاہیے۔

نیب کے خلاف رائے عامہ بھی ان کی گرفتاریوں کی وجہ سے ہموار ہوئی ہے۔ ایک رائے یہ بنی کے نیب بغیر شواہد کے گرفتاریاں کرتا ہے۔ دوسر ا پھر یہ گرفتاریاں لمبی ہو تی رہیں۔ جس نے رائے عامہ کو مزید مضبوط کیا۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ نیب کی گرفتاریوں نے ملک کے عدالتی اور سیاسی نظام دونوں نقصان پہنچایا ہے۔ اگر نیب بغیر تفتیش کے لوگوں کو گرفتار نہ کرتی۔ نوے نوے دن کے بے وجہ ریمانڈ نہ کٹوائے جاتے اور لوگوں کو صرف ملزم ہونے کی بنا پر دو دو سال جیل میں نہ رکھا جاتا تو نیب کے خلاف رائے عامہ ہموار نہ ہوتی۔

آپ حال ہی میں شیریں مزاری کا کیس بھی دیکھ لیں۔ ویسے تو اینٹی کرپشن میں تفیش کے بعد ایف آئی آر درج ہوتی ہے۔ لیکن میں پھر بھی سمجھتا ہوں کہ اینٹی کرپشن کی ایف آئی آر کے فوری بعد بھی گرفتاری کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔ بلکہ ٹرائل کی اہمیت ہونی چاہیے۔

زیادہ سے زیادہ ملزم کو کہنا چاہیے کہ وہ عدالت کو یقین دہانی کرا دے کہ وہ ٹرائل میں شامل رہے گا۔ لیکن اگر اینٹی کرپشن کی سیکڑوں ایف آئی آرز اور سیکڑوں ملزمان میں سے صرف شیریں مزاری کو ہی خصوصی ضمانت کا حق حا صل ہو تو یہ بھی نظام انصاف کے لیے کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ جس طرح شیریں مزاری کو ضمانت ملی ہے، پھر اینٹی کرپشن کے تمام ملزمان کو ضمانت کا حق ہونا چاہیے۔

ویسے آج کل چند صحافیوں کو بھی فوری ضمانت مل رہی ہے۔ میں ضمانت کے خلاف نہیں ہوں۔ لیکن میں خصوصی انصاف کے خلاف ہوں۔ چاہے کسی کے لیے بھی ہو۔ سب کے لیے یکساں انصاف ہی ملک کے لیے بہترین ہے۔ خصوصی انصاف بھی ملک کی کوئی خدمت نہیں ہے۔ اس سے کسی نہ کسی کو اعتراض ضرور ہوتا ہے۔

اگر اعلیٰ عدلیہ گرفتار ملزما ن کو کن شواہد پر گرفتار کیا گیاہے۔ اس بات پر تفتیشی افسران کے خلاف ایکشن لینا شروع کر دے تو ملک کے نظام انصاف کا ماحول ہی بدل جائے گا۔ آپ ملزم کو اطلاع دیں کہ آپ کے خلاف ایف آئی آردرج ہوئی ہے۔ چاہے یہ ایف آئی آر پولیس نے درج کی ہو، اینٹی کرپشن ڈیپارٹمنٹ نے درج کی ہو یا کسی اور تفتیشی ادارے نے درج کی ہو۔ تو ملک میں گرفتاریوں کا رواج ختم ہو جائے گا اور سب اپنے اپنے ملزمان کے ٹرائل پر توجہ دیں گے۔

ابھی ٹرائل پر کسی کی کوئی توجہ نہیں ہے اور ساری توجہ گرفتاری اور ضمانت پر ہے۔ ضمانت کے بعد ملزم بھی سمجھتا ہے مقدمہ ختم ہوگیا اور مدعی بھی سمجھتا ہے کہ مقدمہ ختم ہوگیا۔ اس تاثر نے ملک میں ایک گرفتاری کلچر پیدا کر دیا ہے۔ جہاں گرفتاری ہی انصاف سمجھ لیا جاتا ہے اور ضمانت کو بریت کے ہم پلہ سمجھ لیا جاتا ہے۔ لوگ بڑے سے بڑے وکیل صرف ضمانت کے لیے کرتے ہیں۔ا ٓپ یقین کریں ضمانت کی فیس کر وڑوں روپے میں چلی گئی ہے۔ جب کہ ٹرائل کی فیس کچھ بھی نہیں۔ ضمانت کو بڑا کام سمجھاجاتا ہے۔ اس روش نے ملک کو بھی خراب کیا ہے اور نظام انصاف کوبھی۔

ضمانت کو ملزم کا حق بنائیں۔ نوے فیصد مقدمات میں ضمانت ملزم کا حق ہونا چاہیے۔ وائٹ کالر کرائمز میں ضمانت ہونی چاہیے۔ معمولی جرائم میں ضمانت ملزم کا حق ہونا چاہیے۔ سنگین اور بڑے جرائم میں بھی گرفتاری شواہد کے بغیر نہیں ہونی چاہیے۔ لوگ قتل کے مقدمہ میں جھوٹے ملزمان نامزد کرتے ہیں۔ لوگ اپنے مخالفین کو غلظ نامزد کرتے ہیں۔ اس لیے قتل جیسے مقدمات میں صرف اسی کی گرفتاری ہونی چاہیے جس کے خلاف ٹھوس شواہد موجود ہوں۔ شامل تفتیش ہونے کا ایک نظام بنانا چاہیے جس میں گرفتاری کی کوئی ضرورت نہیں ہونی چاہیے۔

اعلیٰ عدلیہ تفتیشی اداروں کے ساتھ بیٹھ کر ایک ایسا نظام وضع کرنا چاہیے کہ ضمانت جیسے معمولی ریلیف کے لیے رات کو عدالتیں کھولنے کے ضرورت نہ پڑے کیونکہ ہر کیس کاملزم چاہے کہ اس کی فوری ضمانت ہوجائے لیکن عدالتیں مسلسل رات کو تو نہیں کھل سکتیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔