ایک ’’فضول‘‘ کہانی

سعد اللہ جان برق  بدھ 25 مئ 2022
barq@email.com

[email protected]

ہمیں پکا پکا یقین ہے کہ اس وقت ملک میں دانائی اوردانشوری کے جو دریا بہہ رہے ہیں، جوٹی وی چینلز، اخباری کالموں، نہ بکنے والی کتابوں ،رسالوں اور تقریروں کی صورت میں موسلادھاربہہ رہے ہیں، اس سے آپ ناک ناک تک آئے ہوئے ہوں گے۔

اس لیے ہم آپ کوایک بے مطلب بلکہ بے فضول سا قصہ سنائے دیتے ہیں، ہمارامطلب نہ تواس قصے سے کسی کو سبق دلانا،نہ غیرت پکڑوانا اوراگرکوئی ایسی ویسی بات اس میں آگئی تواسے ہماری یاکمپوزنگ کی غلطی سمجھ کر درگزرکردیجیے۔ قصہ بھی کوئی نیا نویلا نہیں ہے، پرانا اورکئی کئی بارکا سنایاہوا ہے لیکن یہ ہے ہی ایسا سدا بہار قصہ کہ جب بھی سنیے نیا پایے۔بلکہ بقول حمزہ شینواری یہ گڑکی ڈلی ہے اورگڑ کی ڈلی کوجس طرف سے بھی چکھئیے میٹھاہی ہوتاہے ۔

ہوا یوں کہ کسی خاندان میں ایک ایسا بابرکت اورقسمت کادھنی لڑکا پیداہواجس نے پیداہوتے ہی سب سے پہلے اپنے ماں باپ کونگل لیا، سارے عزیزوں نے ترس کھاکراس کی پالن پوسن شروع کی، وہ دن بھر یہاں وہاں کھیلتاکودتا رہتا تھا اورکھانے پینے کے وقت جس گھرمیں جاکربیٹھ جاتا لوگ اسے کھلاپلادیتے۔

یوں پورے محلے میں چرتے چرتے وہ بچہ جوان ہوگیا توعزیزوں نے سوچاکہ اب اس کی شادی کردینی چاہیے، ذمے داری کااحساس پیداہوجائے گا اوراپنا کوئی کام دھندہ بھی شروع کردے گا،محلے ہی میں ایک لڑکی ڈھونڈکر اس کی شادی کردی گئی۔

پہلے کچھ دنوں تک لوگ خوشی خوشی اسے کھانے پینے کے لوازمات بھیجتے رہے، پھرکم ہوتے ہوگئے اور آخرکارتھم گئے لیکن اب اس نے مانگنے کاسلسلہ شروع ہوگیا،کبھی ایک گھرسے کبھی دوسرے گھر سے، کبھی اپنے عزیزوں سے، کبھی بیوی کے عزیزوں سے۔ مانگنے میں وہ شرم کوکبھی بیج میں نہیں آنے دیتا تھا، کبھی روٹی، کبھی سالن،کبھی آٹا کبھی گھی، گڑ، چائے،نمک مرچ جس چیزکوبھی جی چاہتاتھا یاکسی کے ہاںدیکھ لیتے تھے فوراًبیوی کودوڑاکر کمال ڈھٹائی اورہنرمندی سے حاصل کرلیتا تھا، مانگنے اوربھیک کے بھی مختلف درجات ہوتے ہیں جیسے سرکاری دفتروں یا سیاسی پارٹیوں میں ہوتے ہیں چنانچہ مزید تجربہ حاصل ہوا تو ’’نقد‘‘پر بھی اترآئے۔ اس طرح بھی چند سال گزاردیے۔

شوہرکی غیرت اورمنہ کوتوپکے پکے ’’تالے‘‘ پڑے تھے لیکن بیوی نے ایک دن آخرکارمنہ کھول دیا، شوہرسے بولی ،اس طرح کب تک چلے گا،اب نہ تو میرے عزیزوں،نہ تمہارے رشتہ داروں میںایسا کوئی بچاہے جس کے درپرہم باربارکشکول لے کرنہ گئے ہوں بلکہ اس ’’مہم‘‘ میں، ہم نے بہت سے پرائیوں کو بھی اپناعزیزبنا لیا ہے ۔ میری اورتمہاری کم سے کم چار چارپانچ پانچ منہ بولی مائیں، باپ، بہن بھائی، خالائیں اورپھوپھیاں بھی ’’ختم ‘‘ ہوگئی ہیں ،کچھ سوچنا چاہیے۔

آخر ایساکب تک چلے گا۔ شوہرنے ’’سوچنے‘‘ کے ضروری کام کے لیے گھر میں کسی سے مانگ کرایک جھلنگی چارپائی ڈالی ہوئی تھی جوایک طرح سے اس کے ’’غور‘‘کاحوض یعنی ’’تھنک ٹینک‘‘ تھی ،فوراًہی اٹھ کر دھوپ میں پڑی ہوئی اس چارپائی یا ’’تھنک ٹینک ‘‘میں غروب ہوگیا۔

بیوی نے پکارا، میں نے تجھے ’’سوچنے‘‘کے لیے کہاہے۔ بولا ،وہی توکررہا ہوں۔ پھرتھوڑی دیربعد فاتحانہ اندازمیں اٹھ کرنعرہ لگایا۔سوچ لیاہے؟ بیوی خوش ہوکربولی کیاسوچاہے۔کوئی کام دھندہ سوچا ہے؟ بولا،نہیں۔بلکہ یہ سوچاہے کہ فلاں گاؤں میں تمہاری ایک خالہ رہتی ہے اورمیرابھی فلاں گاؤں میں ایک منہ بولابھائی رہتاہے۔ان کے پاس جاؤں،آخر ان کابھی توفرض بنتاہے کہ ہماری مدد کریں۔

کچھ دن ان نئے دریافت شدہ رشتہ داروں کوبھی اپنا ’’فرض‘‘ یاددلایاگیا،بیوی نے پھرمسئلہ سامنے رکھا توشوہرپھر اٹھ کر اپنے ’’ تھنک ٹینک ‘‘کی طرف جانے لگا، بیوی نے کہا اب سوچنے کا نہیں کرنے کا وقت ہے ،کوئی کام دھندہ، مزدوری شروع کروبلکہ بیوی نے ہی اس کے لیے کام بھی ڈھونڈا، اس دن بیوی نے بڑی دعاؤں اورنیک تمناؤں کے ساتھ اسے روانہ کیا لیکن تھوڑی دیرگزری تھی کہ میاں تیزی سے واپس آیا اورسیدھااپنی چارپائی یاتھنک ٹینک میں جاکرغروب ہوگیا۔

بیوی نے پاس آکرپوچھا،کیوں واپس آگئے، تم تو مزدوری پر جانے کے لیے نکلنے تھے۔ بولا !ہاں نکلاتھا لیکن راستے میں خبرملی کہ کسی کی گھوڑی نے بچہ دیا ہے لیکن اس کے کان نہیں ہیں۔ بیوی اپناسرپیٹ کربولی، گھوڑی اوراس کے بچے سے ہمیں کیا لینا دینا۔بولا ، تم سمجھ نہیں رہی ہو،یہ بچہ بڑاہوجائے گا اورکسی دن دلدل میں گر کر پھنس گیاتولوگ اسے کہاں سے پکڑکرنکالیں گے۔اس مسئلے پرسوچنے کے لیے تومیں واپس آیا ہوں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔