سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو ایچ نائن اسلام آباد میں احتجاج کی اجازت دیدی

ویب ڈیسک  بدھ 25 مئ 2022
ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، بنیادی طور پر حکومت کاروبار زندگی ہی بند کرنا چاہ رہی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن

ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، بنیادی طور پر حکومت کاروبار زندگی ہی بند کرنا چاہ رہی ہے، جسٹس اعجاز الاحسن

 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو ایچ نائن اسلام آباد میں احتجاج کی اجازت دیتے ہوئے حکومت کو پی ٹی آئی رہنماؤں و کارکنوں کے گھروں اور دفاتر پر چھاپے مارنے سے بھی روک دیا جبکہ تحریک انصاف نے سرکاری و نجی املاک کو نقصان نہ پہنچانے کی یقین دہانی کرادی۔

سپریم کورٹ نے لانگ مارچ روکنے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست کی سماعت کی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ ہے، اسکولز اور ٹرانسپورٹ بند ہے، تمام امتحانات ملتوی، سڑکیں اور کاروبار بند کر دیے گئے ہیں، معاشی لحاظ سے ملک نازک دوراہے پر ہے اور دیوالیہ ہونے کے در پر ہے، کیا ہر احتجاج پر پورا ملک بند کر دیا جائے گا؟، بنیادی طور پر حکومت کاروبار زندگی ہی بند کرنا چاہ رہی ہے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ معیشت کے حوالے سے عدالت کو ایسی بات نہیں کرنی چاہیے، میڈیا کو ریمارکس چلانے سے روکا جائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ملک کی معاشی صورتحال تو ہر انسان کو معلوم ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لانگ مارچ؛ اسلام آباد سے پشاور اور کراچی تک اہم شاہراہیں بند، ریڈ زون سیل

اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ مجھے تفصیلات کا علم نہیں، معلومات لینے کا وقت دیں۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا آپکو ملکی حالات کا علم نہیں؟ سپریم کورٹ کا آدھا عملہ راستے بند ہونے کی وجہ سے پہنچ نہیں سکا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ خونی مارچ کی دھمکی دی گئی ہے، میں بنیادی طور پر راستوں کی بندش کے خلاف ہوں، لیکن عوام کی جان و مال کے تحفظ کیلئے اقدامات ناگزیر ہوتے ہیں، راستوں کی بندش کو سیاق و سباق کے مطابق دیکھا جائے، مسلح افراد کو احتجاج کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے؟۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ خیبرپختون خوا کے سوا سارے ملک کی شاہراہوں کو بند کردیا گیا ہے، لوگوں کو ہراساں کیا جا رہا ہے، گھروں میں گھسا جا رہا ہے، حکومتی اقدامات غیر آئینی ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ماضی میں بھی احتجاج کیلئے جگہ مختص کی گئی تھی، میڈیا کے مطابق تحریک انصاف نے احتجاج کی اجازت کیلئے درخواست دی تھی، اس پر کیا فیصلہ ہوا۔

صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار شعیب شاہین نے کہا کہ پولیس وکلاء کو بھی گھروں میں گھس کر گرفتار کر رہی ہے، سابق جج ناصرہ جاوید کے گھر بھی رات گئے چھاپہ مارا گیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانون ہاتھ میں لینے کا اختیار کسی کو نہیں۔

شعیب شاہین نے کہا کہ مولانا فضل الرحمان دو مرتبہ سرینگر ہائی وے پر دھرنا دے چکے ہیں، بلاول بھٹو بھی اسلام آباد میں لانگ مارچ کر چکے ہیں، اب بھی مظاہرین کیلئے جگہ مختص کی جا سکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے چیف کمشنر اسلام آباد ،ڈی سی اسلام آباد، آئی جی سیکریٹری داخلہ اور ایڈووکیٹ جنرلز کو طلب کرتے ہوئے تمام افسران سے صوتحال پر تفصیلی رپورٹ جمع کرانے کا حکم دیا۔ عدالت نے اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیر التواء کیس میں جاری احکامات بھی طلب کرلئے۔

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو لانگ مارچ کے لئے متبادل جگہ دینے کے لیے چیف کمشنر اسلام آباد کو انتظامات کرنے کی ہدایت کردی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے چیف کمشنر اسلام آباد کو حکم دیا کہ لانگ مارچ کے لئے مناسب جگہ فراہم کی جائے، لانگ مارچ کی جگہ تک رسائی کے لیے ٹریفک پلان ترتیب دیا جائے، پی ٹی آئی والے اپنا احتجاج کریں اور گھروں کو جائیں، حکومت سے توقع رکھتے ہیں راستوں کی بندش ختم کرے گی، پی ٹی آئی سے یقین دہانی بھی لیں گے۔

عدالت نے پی ٹی آئی کے وکیل فیصل چوہدری کو قیادت سے ہدایت لینے کے لیے اڑھائی بجے تک کا وقت دیدیا۔ سپریم کورٹ نے تحریک انصاف اور ضلعی انتظامیہ کو متبادل جگہ کے تعین کی ہدایت کرتے ہوئے متبادل جگہ کا انتظام کرکے آگاہ کیا جائے، اڑھائی بجے تک متبادل جگہ کا تعین کرکے آگاہ کیا جائے، پی ٹی آئی قیادت کو مذاکرات کیلئے مکمل تحفظ فراہم کیا جائے گا۔

عدالت نے آئی جی اسلام آباد اور سیکرٹری داخلہ کی سرزنش بھی کی۔ جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ آئی جی صاحب پولیس کے کارناموں کا وزن بہت زیادہ ہے، کیا آپ کو معلوم ہے آپ پہلے ہی کتنا وزن اٹھائے ہوئے ہیں، کنٹرول میں رہتے ہوئے اپنے اختیارات کو استعمال کریں۔

عدالت نے سیکرٹری داخلہ اور پولیس کو فوری طور پر پالیسی پر نظرثانی کی ہدایت بھی کی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئی جی اسلام آباد ریاست کے ملازم ہیں، عوام اور وکلا کو ہراساں نہ کیا جائے، احتجاج کرنے والے بھی آپ کے اپنے لوگ ہیں ، کچھ ہوا تو ذمہ داری ائی جی اسلام آباد پر ہوگی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ احتجاج پر امن ہوگا، املاک کو نقصان نہ پہنچے، نہ تشدد نہ ٹریفک بلاک ہو، سیکرٹری داخلہ ، چیف کمشنر، ڈپٹی کمشنر،آئی جی اور اٹارنی جنرل معاملے کا حل نکالیں، پی ٹی آئی کے وکیل ہدایات لیکر انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کی ٹیبل پر بیٹھیں، سب بہاریں پاکستان کے ساتھ ہیں، اگر پی ٹی آئی کو گرفتاری کا خدشہ ہے تو لسٹ دے دیں، جنھیں گرفتاریوں کا خدشہ ہے انھیں تحفظ دینگے، سیاسی جماعتوں کے مفاد ہیں لیکن عوام اور ملک کے سامنے سیاسی مفادات کی کوئی حیثیت نہیں، آپس کی لڑائیوں میں ملک کی بہاروں کو خزاں میں تبدیل نہ کریں، سیاست میں آج ایک اور کل دوسرا ہوگا، انتظامیہ مکمل پلان پیش کرے کہ احتجاج بھی ہو اور راستے بھی بند نہ ہوں۔

عمران خان پر خودکش حملے کا خطرہ ہے، اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل نے کہا کہ عمران خان کی زندگی کو خطرہ ہے، حساس اداروں کی رپورٹ کے مطابق عمران خان پر خودکش حملے کا خطرہ ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ان سے کہا کہ آپ اصل ایشو سے دور جا رہے ہیں، کیا پولیس چھاپے مار کر لیڈرز اور کارکنوں کو حفاظتی تحویل میں لے رہی ہے؟ راتوں کو گھروں میں چھاپے مارنے کا کیا مقصد ہے، حکومت کو سرینگر ہائی وے کا مسئلہ ہے تو لاہور سرگودھا اور باقی ملک کیوں بند ہے؟۔

جسٹس مظاہر علی اکبر نے ہدایت کی کہ وزارت داخلہ اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرے۔ سپریم کورٹ میں کیس کی مزید سماعت سہہ پہر تک ملتوی کردی گئی۔

وقفے کے بعد سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو تحریک انصاف نے دھرنے کا دورانیہ عدالت کو بتانے سے معذرت کر لی۔ بابر اعوان نے کہا کہ یہ سیاسی فیصلہ ہے اس کو سیاسی فورم پر ہی ہونے دیں، ہمارا مطالبہ نئے انتخابات کا ہے اس پر اٹارنی جنرل سے بات نہیں کروں گا۔

تحریک انصاف نے دوبارہ شاہراہ کشمیر جی نائن سے ملحقہ گراؤنڈ کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاج پر امن رکھنے کی یقین دہانی کرائی۔ عدالت نے تحریک انصاف کے مطالبات پر حکومت سے موقف طلب کرلیا۔

پاکستان تحریک انصاف نے حکومت ،انتظامیہ سے مذاکرات کیلئے چار رکنی کمیٹی تشکیل دے دی جس میں بابر اعوان ،فیصل چوہدری،عامر کیانی اور علی اعوان شامل ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم اور وزرا پرمشتمل کمیٹی تشکیل دینے کیلئے تیار ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ فیض آباد یا موٹروے بند کرنے سے کام نہیں ہوگا، عدالت جو فیصلہ کریگی اس پر عمل کرائینگے اور بیان حلفی لینگے ، سینیٹر کامران مرتضی نےکچھ عرصہ قبل احتجاج سےمتعلق جووعدہ عدالت سے کیا وہ پورا کیا، کوئی فوڈ چین نہیں ٹوٹے گی۔

تحریک انصاف نے استدعا کی کہ جن کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے انہیں رہا کیا جائے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ احتجاج روکنے کیلئے چھاپے اور گرفتاریاں غیر قانونی عمل ہے، پی ٹی آئی کو موٹروے یا فیض آباد بند نہیں کرنے دینگے، شیلنگ، لاٹھی چارج اور ایم پی او کے حوالے سے باضابطہ حکم جاری کرینگے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے بھی کہا کہ ایم پی او کے تحت ہونے والی ایف آئی آرز نہیں چلیں گی۔

سپریم کورٹ نے شیلنگ فوری روکنے کی استدعا مسترد کر دی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایک گھنٹے میں کچھ نہیں ہوگا، اٹارنی جنرل کو ہدایات لینے دیں، عدالت سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے، حکومت اور پی ٹی آئی میں روابط اور اعتماد کا فقدان ہے، انشاءاللہ عدم توازن ختم ہوجائے گا، تحریک انصاف کے مطالبات واضح ہیں کہ جے یو آئی نے جہاں دھرنا دیا وہاں اجازت دی جائے۔

بابر اعوان نے کہا کہ عمران خان نے انتظامیہ سے مذاکرات کیلئے چار رکنی کمیٹی قائم کر دی ہے، کمیٹی میں میرے علاوہ فیصل چوہدری، عامر کیانی علی اعوان شامل ہیں، عمران خان اور پارٹی کی جانب سے عدالت کا مشکور ہوں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزیراعظم کچھ دیر میں مذاکرات کیلئے وزراء کی ٹیم نامزد کرینگے، وزیراعظم چاہتے ہیں کہ سیاسی معاملہ عدالت سے باہر حل ہو۔

سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کو ایچ نائن میں احتجاج کی اجازت دیتے ہوئے حکومت کو گھروں اور دفاتر پر چھاپے مارنے سے بھی روک دیا جبکہ تمام گرفتار وکلاء کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا۔ تحریک انصاف نے سرکاری و نجی املاک کو نقصان نہ پہنچانے کی یقین دہانی کرائی جس پر اسے احتجاج کی اجازت دی گئی۔

سپریم کورٹ کا حکومت اور اپوزیشن کو رات 10 بجے ملاقات کرنے کا حکم، سماعت کل تک ملتوی

سپریم کورٹ  نے پاکستان تحریک انصاف کی راستوں سے فوری  رکاوٹیں ہٹانے کی استدعا مسترد کردی، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ابھی کیس ختم نہیں ہوا کل بیٹھ کر کیس کو پھر سنیں گے۔

سپریم کورٹ نے انتظامیہ کو گزشتہ 48 گھنٹوں میں پکڑی جانے والی ٹرانسپورٹ چھوڑنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ جس ٹرانسپورٹ کے خلاف سنگین معاملہ نہیں انہیں رہا کردیا جائے۔

دورانِ سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان سے استفسار کیا کہ احتجاج کب ختم ہوگا، جس پر انہوں نے معزز جج کو جواب دیا کہ ہمارا احتجاج آج سے شروع ہوا ہے۔ پھر جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال کیا کہ کیا یہ احتجاج لا محدود ہوگا؟ جس پر پی ٹی آئی کے وکیل کا کہنا تھا کہ پارٹی لیڈر شپ فیصلہ کرے گی، اس بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔

سپریم کورٹ نے حکومت اور اپوزیشن کو رات دس بجے ملاقات کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔