- دانیہ شاہ ویڈیو وائرل کیس؛ مدعی مقدمہ عامر لیاقت کی بیٹی کو پیش ہونے کا حکم
- بتایا جائے لاپتا افراد زندہ ہیں مرگئے یا ہوا میں تحلیل ہوگئے؟ عدالت وزارت دفاع پر برہم
- شادی ہال مالک کو ایک لاکھ 80 ہزار روپے کسٹمر کو واپس کرنیکا حکم
- سہیل خان نے کوہلی سے جھگڑے کی وجہ بتادی، ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل
- ممنوعہ فنڈنگ کیس میں پی ٹی آئی کی درخواست مسترد، الیکشن کمیشن فیکٹ فائنڈنگ درست قرار
- ایشیاکپ کے مستقبل کیلئے پی سی بی کی دو رکنی ٹیم آج بحرین روانہ ہوگی
- امریکا کی جنگی مشقیں صورتحال کو ریڈ لائن کی انتہا پرلے جا رہی ہیں، شمالی کوریا
- وزیراعظم نے کراچی نیوکلیئر پاور پلانٹ کے تیسرے یونٹ کا افتتاح کردیا
- عمران خان نے آصف زرداری پر جھوٹے اور من گھڑت الزامات لگائے، شرجیل میمن
- پنجاب میں چکی آٹے نے سارے ریکارڈ توڑ دیے، قیمت 165 روپے تک جاپہنچی
- سندھ میں گھریلو صارفین گیس سے کیوں محروم ہیں؟ حکام نے وضاحت پیش کردی
- پی ٹی آئی کے 43 ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج
- مکی آرتھر کی عدم موجودگی میں یاسر عرفات کو جُزوقتی ہیڈکوچ بنانے کا فیصلہ
- ایف بی آر کا عوام کے ٹیکسز سے اپنے افسران کو بھاری مراعات دینے کا فیصلہ
- سودی نظام کو فروغ دے کر اللہ و رسولؐ سے جنگ نہیں لڑسکتے، وزیر خزانہ
- پشاور دھماکا؛ پولیس جوانوں کو احتجاج پر نہ اکسائیں، لاشوں پر سیاست نہ کریں، آئی جی کے پی
- ایران کا حالیہ ڈرون حملوں پر اسرائیل سے بدلہ لینے کا اعلان
- حفیظ بھی نمائشی میچ میں شرکت کرینگے، مگر بطور کھلاڑی نہیں!
- بابراعظم نے ٹرافیز اور کیپس کیساتھ تصاویر شیئر کردیں
- پی ٹی آئی دور میں تعینات 97 لا افسران کو کام سے روکنے کا نوٹیفکیشن معطل
جبری گمشدگی بادی النظر میں آئین سے انحراف قرار

وفاقی حکومت کے لیے آخری موقع ہے عدالت کو مطمئن کریں جبری گمشدگی ریاست کی پالیسی نہیں ہے، عدالت
اسلام آباد ہائیکورٹ نے مدثر نارو سمیت پانچ لاپتہ افراد کو آئندہ سماعت پر پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے جبری گمشدگی کو بادی النظر میں آئین سے انحراف قرار دے دیا۔
چیف جسٹس ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے پانچ لاپتہ افراد کے کیسز پر سماعت کی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ تسلیم شدہ ہے کہ ایک چیف ایگزیکٹو نے ’اِن دا لائن آف فائر‘ میں کہا جبری گمشدگی ریاست کی پالیسی ہے، لیکن اب ریاست کے عمل سے نظر آنا چاہیے کہ جبری گمشدگی ریاست کی پالیسی نہیں، یہ رائے عامہ کہ آرمڈ فورسز جبری گمشدگی میں ملوث ہیں یہ پبلک پالیسی اور مفاد عامہ کے خلاف ہے ، وفاقی حکومت کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ آرمڈ فورسز یا کسی بھی سیکورٹی ایجنسی کے جبری گمشدگی میں ملوث ہونے کے تاثر کو ختم کرے ، وفاقی حکومت کے لیے آخری موقع ہے عدالت کو مطمئن کریں جبری گمشدگی ریاست کی پالیسی نہیں ہے، ناکامی کی صورت میں کیوں نا چیف ایگزیکٹوز کے خلاف آئین سے انحراف کے تحت کارروائی کی جائے ؟۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چار سال ، چھ سال ، دس سال کے لاپتہ افراد کے کیسز اس عدالت کے سامنے ہیں، گزشتہ سماعت پر عدالت کو بتایا گیا کہ کچھ افراد پہلے مسنگ رکھا جاتا ہے پھر کہا جاتا ہے حراست میں ہیں، ایسے لوگوں کو کون ذمہ دار ٹھہرائے گا ؟ وزیراعظم کو یہ معاملہ بھیجا گیا تھا کہ وہ مدثر نارو کی متاثرہ فیملی سے ملیں، عدالت کو توقع تھی کہ وفاقی حکومت لاپتہ افراد کی تلاش کرنے کی کوشش کرے گی ، لیکن وفاقی حکومت کا ردعمل وہ نہیں تھا جو ہونا چاہیے تھا۔
عدالت نے کہا کہ سیکرٹری داخلہ پانچ لاپتہ افراد کو پیش کریں ورنہ موجودہ اور سابق وزرائے داخلہ کو طلب کرینگے، سیکرٹری داخلہ بتائیں کیوں نہ موجودہ اور سابق وزرائے اعظم اور وزرائے داخلہ کے خلاف کارروائی کی جائے؟ کیا صدر مملکت اور گورنروں نے جبری گمشدگیوں کی سالانہ رپورٹس جمع کرائیں؟۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔