حکومتی مدت پوری کرنے کا درست فیصلہ

محمد سعید آرائیں  جمعرات 26 مئ 2022
m_saeedarain@hotmail.com

[email protected]

گیارہ جماعتوں پر مشتمل اتحادی حکومت نے تقریباً ڈیڑھ ماہ بعد یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ وہ اپنی بقایا مدت پوری کرے گی ، جس کے بعد آیندہ سال ہی اسمبلی کی مدت پوری ہونے کے بعد آئین کے مطابق انتخابات ہوں گے جس طرح ماضی کی تین اسمبلیوں نے اپنی مدت پوری کی یہ اسمبلی بھی اپنی مدت پوری کرے گی۔

ڈیڑھ ماہ کی سوچ بچار اور پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے اعلان شروع کرنے کے بعد اتحادی حکومت نے یہ فیصلہ کیا جو تحریک عدم اعتماد میں کامیابی کے بعد نئی حکومت کے ابتدائی دنوں ہی میں ہونا چاہیے تھا۔ تحریک عدم اعتماد کے موقع پر ہی تحریک پیش کرنے والوں نے فیصلہ توکر ہی لیا ہوگا کہ نئی حکومت اسمبلی کی مدت پوری ہونے تک اپنی بقایا مدت پوری کرے گی۔

2002 میں (ق) لیگ کی حکومت قائم ہونے کے بعد پی ٹی آئی کی چوتھی حکومت تھی جس میں کوئی وزیر اعظم اپنی 5 سالہ مدت پوری نہیں کرسکا تھا مگر 2018 تک حکومت نے اپنی مدت اس لیے پوری کی کہ اسمبلیاں 5 سال برقرار رہی تھیں۔

(ق) لیگ کی حکومت میں تین وزیر اعظم منتخب کیے گئے تھے جو جنرل پرویز مشرف کی وجہ سے تبدیل ہوئے تھے جب کہ بعد میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومتوں میں عدالتی فیصلے سے دونوں کے وزرائے اعظم کو ہٹایا گیا اور میاں نواز شریف اور یوسف رضا گیلانی بھی (ق) لیگ حکومت کی طرح اپنی 5 سالہ مدت پوری نہیں کرسکے تھے مگر تینوں اسمبلیوں نے اپنی اپنی 5سالہ مدت مکمل کی تھی جو ملک میں پہلی بار قائم ہونے والا ریکارڈ تھا۔

1972 میں بھٹو کی حکومت نے 1973 میں ملک کو ایک متفقہ آئین دیا تھا جس کے بعد 1999 تک دو غیر جمہوری حکومتیں بھی آئیں مگر شکر ہے کہ 1973 کا آئین برقرار رکھا گیا ، جس کا کریڈٹ سیاسی حکومتوں سمیت دوغیر جمہوری حکومتوں کو بھی جاتا ہے۔

ہرغیر سویلین اور سویلین حکومت نے اس آئین میں ترامیم بھی کیں جو آئینی تھیں۔ دو غیر سویلین حکومتوں میں 1973 کے آئین کو معطل تو کیا گیا مگر بعد میں بحال کردیا گیا تھا جس کے تحت جنرل ضیا الحق نے غیر جماعتی اور جنرل پرویز مشرف نے جماعتی انتخابات کرائے تھے جس کے نتیجے میں چار سویلین وزیر اعظم منتخب ہوئے تھے اور کوئی اپنی مدت پوری نہیں کر سکا تھا۔

جنرل ضیا الحق کی شہادت کے بعد 1988 میں جماعتی انتخابات ہوئے تھے جن میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو وزیر اعظم بننا پڑا تھا مگر دونوں بااختیار نہیں تھے۔ جنرل ضیا الحق کے بعد غلام اسحاق خان اور بعد میں ان کی جگہ سردار فاروق لغاری سویلین صدر منتخب ہوئے تھے مگر دونوں نے ہی بعض وجوہات کے باعث اپنی ہی حکومتیں 18-2(B) کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرکے برطرف کی تھیں۔ صدر غلام اسحاق اور سردار فاروق لغاری دونوں اچھی شہرت کے ایماندار صدور تھے اور دونوں نے ہی اپنے ہی وزرائے اعظم کو کرپشن و دیگر الزامات کے تحت برطرف کیا تھا۔

بے نظیر بھٹو حکومت دو بار اور میاں نواز شریف کی حکومت ایک بار اپنے ہی سویلین صدر کے ہاتھوں اور نواز شریف حکومت 1999 میں جنرل پرویز مشرف کے ہاتھوں برطرف ہوئی تھی جو تمام مدت پوری نہیں کرسکی تھیں اور ملک میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کو بھی توڑا گیا تھا جس کی وجہ سے کوئی وفاقی یا صوبائی حکومت اور اسمبلیاں مدت پوری نہیں کرسکی تھیں۔

جنرل پرویز مشرف بااختیار صدر تھے جنھیں آئین میں ترامیم کا اختیار بھی تھا جو صرف پارلیمنٹ کا اختیار تھا مگر اس وقت صدر مکمل طور پر بااختیار تھا ۔ اپنے ہٹائے جانے کو عمران خان نے امریکی سازش قرار دیا اور نئی حکومت کو امپورٹڈ قرار دے کر قومی اسمبلی میں بیٹھنے سے انکار کردیا اور اپنی پارٹی کے اکثر ارکان قومی اسمبلی سے اجتماعی طور پر استعفے لیے اور اپنے ہی ڈپٹی اسپیکر سے انھیں منظور بھی کرا لیا اور اب قومی اسمبلی تحلیل کرنے کی تحریک شروع کر رکھی ہے جس کے تحت اسلام آباد میں دھرنے کا اعلان کیا گیا کہ قومی اسمبلی کی تحلیل تک تحریک جاری رکھنے اور قومی اسمبلی کے انتخابات کی تاریخ دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

صرف قومی اسمبلی کو قبل از مدت تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور عمران خان کسی بھی صوبائی اسمبلی کی تحلیل کا مطالبہ نہیں کر رہے کیونکہ کے پی میں ان کی اپنی حکومت ہے۔ 2014 میں بھی انھوں نے قومی اسمبلی کے نئے الیکشن کا مطالبہ کیا تھا اور اس وقت کے پی میں ان کی اپنی حکومت تھی۔ اس وقت بھی ان کا مطالبہ نہیں مانا گیا تھا اور انھوں نے 2018تک اسمبلیوں کی مدت مکمل ہونے کا انتظار کیا تھا۔

اب اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے میں سوا سال باقی رہ گیا ہے مگر عمران خان سوا سال موجودہ اسمبلی کو برقرار رکھنے کے حق میں نہیں جب کہ اتحادی حکومت کی تمام پارٹیوں نے قبل ازوقت عام انتخابات کرانے سے انکار کر دیا ہے۔ (ن) لیگ قبل ازوقت انتخابات کے لیے تیار ہو جاتی اور اپنے اتحادیوں کو بھی منا لیتی مگر اب اتحادی حکومت نے قومی اسمبلی کی بقایا مدت پوری کرانے کا فیصلہ کیا ہے جو آئینی طور پر بہتر فیصلہ ہے۔

عمران خان نے اپنی پنجاب حکومت کو بچانے کی بھی کوشش کی تھی اور اپنا اقتدار بچانے کے لیے وزیر اعلیٰ پنجاب سے استعفیٰ لے لیا تھا مگر اپنی کے پی حکومت برقرار رکھی تھی۔ اب وہ پنجاب اسمبلی کی تحلیل نہیں چاہتے اور صرف قومی اسمبلی تحلیل کرا کر دوبارہ وزیر اعظم بننے کی تحریک چلا رہے ہیں۔ عمران خان اگر سوا سال انتظار کر لیں تو موجودہ قومی اسمبلی کی مدت بھی سابقہ کی طرح پوری ہو سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔