دیگیں کیوں جلیں؟

اشفاق اللہ جان ڈاگیوال  جمعرات 26 مئ 2022
ashfaqkhan@express.com.pk

[email protected]

گزشتہ کالم میں ہم ایماندار نائی سے دیگیں جلنے اور چوہدری صاحب کی رسوائی کی بات کرچکے ہیں‘ آج کے کالم میں ہم اس بات کا تجزیہ کرنے کی کوشش کریں گے کہ آخر دیگیں جلنے کی اصل وجہ کیا تھی۔

جب نائی ایماندار تھا تو دیگیں خراب کیوں ہوگئیں؟ حقیقت یہ ہے کہ جسے نائی بنا کر پیش کیا گیاتھا وہ نائی تھا ہی نہیں وہ تو کپڑا بننے والا جولاہا تھا، اس کی اصل مہارت تو کپڑا بننا تھی، اس کے ہاتھ کے بنے کپڑوں کو بڑی پذیرائی ملتی تھی، لوگ ہاتھوں ہاتھ خرید لیتے تھے۔ علاقے میں دور دور تک اس کے بنے کپڑوں کے چرچے تھے، اس نے کپڑا سازی میں کئی قومی و بین الاقوامی ایوارڈز بھی اپنے نام کر رکھے تھے۔

دنیا کے سب سے بڑے مقابلے میں ایک بار سب سے بڑا انعام شیشے کا مرتبان جیتنے میں بھی کامیاب ہوگیا تھا۔ اس کے بعد علاقے کے لوگ اس کے مداح ہوگئے مگر جب عمر بڑھنے لگی اور کپڑا بننے کے قابل نہیں رہا تو پریشان ہوگیا کہ اب کیا کروں، ایک دن گھر میں کوئی نہیں تھا بہت بھوک لگی تھی تو زندگی میں پہلی بار اپنے لیے انڈے کا سالن اور ایک آڑھی ترچھی، کچی پکی روٹی بنائی۔ بھوک کی وجہ سے پوری روٹی اور سالن کھا گیا اور بہت مزے سے لیٹ گیا۔ اسی دن سے اس نے سوچا کہ کپڑا بننے سے آسان کام کھانا پکانا ہے۔

وہ پہلے سے خود پسند تھا مگر شیشے کا مرتبان جیتنے کے بعد تو وہ خود پرستی کی معراج پر جا بیٹھا۔ اپنی تعریف اور دوسروں کو ذلیل و رسوا کرنے میں وہ ہر حد پار کر جاتا تھا خاص کر اپنے دوستوں کے سامنے روز اپنے سچے ہونے اور ایماندار ہونے کا لیکچر دیتا رہتا تھا اور اس کے دوست اس کو ایماندار سمجھنے لگے۔

لوگ سادہ لوح تھے جب کہ وہ سبز باغ دکھانے کا ماہر تھا‘ وہ جب بھی دوستوں اور محلے والوں کے ساتھ بیٹھتا تھا تو اپنے ہاتھ کے کھانوں کی لذت پر ایسی تقریر کرتا تھا کہ ہر بندے کی منہ میں پانی آجاتا تھا اور خاص کر وہ لوگ متاثر ہوتے تھے جو اپنے گھر کے کھانوں اور ذائقے سے ناخوش تھے، اپنے کھانوں کی تعریف سے زیادہ وہ دوسرے نائیوں کے کرپٹ اور بد عنوان ہونے پر زور دیتا تھا تاکہ مارکیٹ میں اپنی جگہ بنا لے۔

اس کے دل کی تمنا اس دن بھر آئی جب علاقے کے چوہدری کو اس کی خبر ہوئی کہ کوئی ایماندار نائی گاؤں میں موجود ہے تو وہ بہت خوش ہوئے۔ چوہدری صاحب علاقے کے پرانے نائیوں سے ناخوش تھے، اگرچہ کھانا وہ بہترین بناتے تھے مگر چوہدری صاحب کو شک تھا کہ یہ چاول، گوشت اور دیگر سامان میں دکانداروں سے کمیشن لیتے ہیں اور اس کے علاوہ ان کا آپس میں گٹھ جوڑ ہے۔

اسی عناد میں چوہدری صاحب نے نئے نائی سے راہ رسم بڑھایا۔چوہدری صاحب کے چھوٹے بھائی جو لندن سے قانون کی ڈگری لے کر آئے تھے‘ انھوں نے جذبات میں آکر اس نائی کونائی ایماندار کا لقب بھی دیا جس کے بعد نائی ایماندارکے پاؤں زمین پر ٹکنے کا نام نہ ہی لیتے، وہ ہواؤں میں اڑنے لگا۔ چوہدری صاحب نے پہلی بار اپنی بیٹی کی شادی پر بارات کے کھانے کی ذمے داری اس ایماندار نائی کو دی۔

ایماندار نائی خود ساٹھ سال سے زیادہ عمر کا ہوچکا تھا تو چوہدری صاحب نے پرانے نائیوں کے ساتھ کام کرنے والوں کو لالچ اور ڈرا دھمکا کر بتایا کہ پرانے کرپٹ اور بد عنوان نائیوں کا زمانہ گزر چکا ہے تبدیلی آچکی ہے لہذا وہ اس نائی ایماندار کے ساتھ کام کریں۔ چوہدری صاحب کے اس تعاون پر نائی ایماندار بہت خوش ہوا کہ چلو یہ پرانے تجربہ کار نائیوں کے نائبین رہ چکے ہیں اور کئی سال سے علاقے اور چوہدری صاحب کے کھانے بنانے کا تجربہ رکھتے ہیں تو ان کی آڑ میں عزت بچ جائے گی۔

بارات سے دو تین دن پہلے سامان کی خریداری شروع ہوگئی نائی ایماندار کو چوہدری صاحب نے کھلی چھوٹ دے دی۔ نائی ایماندار کو یہ مغالطہ تو یقین کی حدتک ہوگیاتھا کہ وہ ایماندار ہے بلکہ پورے علاقے میں صرف اپنے آپ کو ہی ایماندارسمجھ بیٹھا۔ مگر اس کو پتا تھا وہ نا تجربہ کار اور کھانا بنانے کے فن سے مکمل ناواقف ہے۔ اسے کچھ پتا نہیں تھا کہ چاول کونسا اور کہاں سے لینا ہے، گوشت کے لیے جانور کس عمر کے اور کتنے لینے ہیں اور کون کون سے مصالحہ جات ڈالنے ہیں۔ تو اس نے پرانے نائیوں کے نائبین کو یہ ذمے داری دے دی اور اسی لمحے سے وہ اپنے ساتھ ہاتھ کر گیا۔

دوسرے نائیوں کے نائبین نے خراب چاول، قریب المرگ جانور اورناقص مصالحہ جات خریدنے کے بعد نائی ایماندار کو پوری تفصیل سے بتایا کہ جب بھی ہم نے اس ریسپی کے ساتھ کھانا بنایا ہے پورے علاقے کے لوگوں نے واہ واہ کرکے کھایا ہے اور چوہدری صاحب نے تو انعامات سے بھی نوازا ہے۔ نائی ایماندار ان کی باتیں سن کر یہ تاثر دے رہا تھا جیسے اسے ان سب باتوں کا علم ہے، بلکہ وہ جو کچھ بتارہے ہیں، یہ کچھ بھی نہیں، نائی ایماندار تو اس سے بھی زیادہ جانتا ہے۔

چوہدری صاحب تو اس زعم میں خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے تھے کہ گاؤں کو ساٹھ ستر سال بعد ایماندار نائی ملا ہے۔ خرچہ کم اور کھانا بہترین ہوگا۔ مگر پھر بھی گھر والوں کی تسلی اور اتمامِ حجت کے لیے چوہدری صاحب نائی ایماندار سے پوچھ لیتے تھے کہ ہاں بھائی نائی ایماندار حالات کنٹرول میں ہیں؟ اور نائی ایماندار بھڑک مار کر کہتا کہ چوہدری صاحب جب دیگیں کھلیں گی تو باراتی اور گاؤں کے لوگ کھانا کھا کر عش عش کر اٹھیں گے اور آپ خرچ کا بل دیکھ کر کہیں گے کہ اتنے کم خرچ میں لاجواب پکوان تیار کیے ہیں۔

میں اپنی تعریف آپ کروں یہ تو اچھا نہیں لگتا۔ یہ باتیں سن کر چوہدری صاحب اپنے انتخاب پر نازاں ہو کر اپنی خواب گاہ میں چلے جاتے تھے۔ نائی ایماندارنے تھوڑی دیر بعد اپنے نائبین کی میٹنگ بلائی اور پوچھا کہ ہاں بھائی کیا صورتحال ہے، کھانا وقت پر اور بہترین ہوگا ؟ تو وہ کہتے تھے نائی ایماندار ہم اگر کرپٹ اور بد عنوان نائیوں کے لیے اچھا کھانا بناتے رہے ہیں تو ایک ایماندار نائی کی لاج کیوں نہیں رکھیں گے۔

سب نائبین نے نائی ایماندار کو کہا کہ آپ بے فکر ہوجائیں ہم آپ کو بارات آنے سے کچھ دیر پہلے دیگیں کھول کر ذائقہ چیک کروا دیں گے۔ اور حسب وعدہ جب بارات آنے سے دس پندرہ منٹ قبل پہلی دیگ کھولی گئی تو چاول اور گوشت جل کر راکھ ہوگئے تھے۔

مگر ان کا خیال تھا یہ ایک دیگ ہی خراب ہوئی ہوگی مگر جب ساری کی ساری دیگیں کھلیں تو سب جل کر راکھ ہوچکی تھیں۔ اب نائی ایماندار کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ اسی لمحے اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ صرف خودساختہ ایمانداری سے بات نہیں بنتی، تجربہ اور کام میں مہارت بھی ضروری ہے۔ بہرحال اب اس نے اپنے نائبین سے کہا کہ بھائی حل بتائیں چوہدری صاحب کو کیا کہیں گے اور یہاں سے نکلیں گے کیسے۔

ہر ایک اپنی طرف سے کچھ نہ کچھ بولتا گیا‘ نائی ایماندار اس صورتحال میں شدید پریشان تھا کہ مالکان کو کیسے بتایا جائے‘ سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا۔ اس کے دماغ میں ایک آئیڈیا آیا‘ نائبین میں اپنے دو تین مشیروں سے مشورہ کیا اور وقت ضائع کیے بغیر جاکر چوہدری صاحب سے کہا کہ’’بارات والوں کو منع کریں کہ وہ کسی قسم کی کوئی آتش بازی نہ کریں، اگر انھیں اس کام سے نہ روکا گیا تو دیگوں میں موجود کھانا جل جائے گا‘‘۔

اب مالک بہت پریشان ہواکہ نائی ایماندار نے انھیں کس مصیبت میں ڈال دیا ہے، باراتیوں کو آتش بازی سے کیسے روکیں؟ اسی کشمکش میں بارات آگئی، خوب ڈھول ڈھمکا، باجوں گاجوں کے ساتھ بھنگڑا ڈالتے ہوئے باراتی آگے بڑھ رہے تھے، جیسے ہی بارات پنڈال کے پاس پہنچی، ایک باراتی نے پٹاخہ چلا دیا۔ نائی نے اپنا صافہ کندھے پر رکھا اور یہ کہہ کر چل دیا، کھانا خراب ہونے میں میرا کوئی قصور نہیں، میں نے پہلے خبردار کردیا تھا۔

چوہدری صاحب کو ہوش آگیا اور نائی ایماندار اور اس کے نائبین کو جوتے مار کر اپنے ڈیرے سے نکال باہر کیا۔ مگر چوہدری صاحب حیران و پریشان ہوگئے کہ گاؤں کے کچھ لوگوں اور کچھ باراتیوں نے ڈیرے کے باہر نائی ایماندار کو اپنے کاندھوں پر اٹھایا اور نائی ایماندار زندہ باد اور چوہدری مردہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیے، نائی ایماندار نے جب اپنے مداحوں کا جنون دیکھا تو تقریر شروع کر دی کہ میرے خلاف پرانے نائیوں اور چوہدری صاحب نے مل کر سازش کی ہے۔

اور پرانے نائیوں کے نائبین جو چوہدری صاحب کے کہنے پر میری ٹیم میں شامل ہوئے تھے‘ ان میں سے چند پرانے نائیوں سے ملے ہوئے تھے اسی وجہ سے کھانا خراب ہوا، اور چوہدری صاحب نے بے عزت کرکے گاؤں سے نکلنے کا حکم لیکن ہم اس گاؤں میں کسی پرانے نائی کو کھانا پکانے نہیں دیں گے اور اگر کوئی ان سے کھانا بنوائے گا تو ہم ان کے گھروں کے سامنے احتجاج کریں گے۔ قارئین‘ آپ خود اندازہ لگا سکتے  ہیں کہ نائی ایماندار کے ساتھ ہاتھ کس نے کیا؟

یہ کہانی ہمارے سیاسی حالات کی بڑی خوبصورت عکاسی کرتی ہے، ایک سیاست و حکومت چلانے میں اناڑی نے نیا پاکستان بنانے کے چکر میں پرانا بھی تباہ کردیا۔ مولانا فضل الرحمان ٹھیک کہتے ہیں کہ ملک دیوالیہ ہونے نہیں جارہا بلکہ وہ کرکے گیا ہے۔

اب اس نے اپنے غیر ذمے دارانہ سیاسی ہتھکنڈوں اور اداروں کو دھمکیاں دے کر ملکی معیشت کی تباہی میں رہی سہی کسر پوری کرنے، ملک میں خانہ جنگی اور عدم استحکام کی ٹھان لی ہے۔ یہ اعصاب کی لڑائی ہے اگر حکومت خلوص نیت کے ساتھ ثابت قدم رہی اور اسٹیبلشمنٹ نے ساتھ دیا تو مصیبت ٹل جائے گی۔ اگر سیاسی لبادے میں چھپی متشدد ذہنیت کے سامنے ریاست بے بس ہوگئی تو یہ روایت بن جائے گی، اور یہ ملک و ملت کی وحدت کے لیے زہر قاتل ہوگی ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔