کیا عمران خان خودپسندی کا شکار ہیں؟

سیدہ کنول زہرا زیدی  پير 30 مئ 2022
خودپسند شخص کبھی بھی منطقی اور عقلیت کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتا۔ (فوٹو: فائل)

خودپسند شخص کبھی بھی منطقی اور عقلیت کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتا۔ (فوٹو: فائل)

امریکی ماہر سیاسیات اور پولیٹیکل سائنس کے ممتاز پروفیسر پیٹ ہیٹیمی کی ریسرچ ’’سیاست میں خود پسندی‘‘ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی حلقوں میں خودپسندی کی حامل شخصیات کی تعداد زیادہ ہوتی ہیں۔

ارجنٹائن کے معروف ماہر نفسیات، ٹامس چمورو- پریموزک نے دلیل دی ہے کہ خودپسند حضرات اپنی کرشماتی اور خودپسند شخصیت کی وجہ سے سیاست میں زیادہ حصہ لیتے ہیں، وہ عوام پر اثر ڈالنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

چند عادتیں خودپسندی کو واضح کرتی ہیں۔

خودپسند شخص پختہ اور مستقل فیصلے کرنے کا بہت کم اہل ہوتا ہے۔ ان کی پسند ناپسند بدلتی رہتی ہے۔ خودپسند شخصیات کے سیاسی تجزیوں اور تقریروں میں تضادات آسانی سے مل سکتے ہیں۔ وہ اپنے الفاظ محض سیاسی چالبازی کے ذریعے اپنے پیروکاروں کو دھوکا دینے اور عوامی پذیرائی حاصل کرنے کےلیے استعمال کرتے ہیں۔ وہ نظریاتی ہونے کا اچھا ڈھونگ رچا کر عوام کو ڈھیروں خواب دیکھا کر بہت سے وعدے کرتے ہیں، تاہم ان میں اسے پورا کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی، کیونکہ وہ غیر مستقل مزاج اور کسی کی سننے والے نہیں ہوتے بلکہ ان کی نظر میں وہ خود ہی ہر میدان کے بہترین کھلاڑی ہوتے ہیں۔

خودپسندی کے عمل سے متاثر افراد اپنے آپ کو اصولی، ناقابل معافی اور قابل اعتماد تصور کرتے ہیں۔ یہ لوگ اگر سیاسی میدان میں ہوتے ہیں تو یہ دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں کہ میرے علاوہ سب بے ایمان اور غیر ملکی ایجنٹ ہیں۔ یہ شخصیات شعلہ بیان تقاریر کے ذریعے عوام سے اپنے آپ کو آخری امید کا لیبل لگوانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔

مشہور امریکی ماہر تعلیم Charles A. O’Reilly کا کہنا ہے کہ خودپسند اپنے آپ کو افضل یا کسی کا تابع ظاہر نہیں کرتا ہے۔

خودپسند شخص کبھی بھی منطقی اور عقلیت کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتا بلکہ عوامی حمایت حاصل کرنے کےلیے ہمیشہ جذبات کو بروئے کار لاتا ہے۔ وہ اپنی مرضی کے حصول کےلیے تمام ذرائع کو داؤ پر لگا دیتا ہے اور اپنی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتا بلکہ اپنی غلطی کی ذمے داری کسی اور پر عائد کرکے غلطی پر غلطیاں دہراتا رہتا ہے۔

ان عناصر میں ہمدردی کی کمی اور تکبر کی کثرت ہوتی ہے۔ وہ صرف اپنے بارے میں فکرمند اور دوسروں کےلیے بے حس ہوتے ہیں۔ خودپسند لوگ اپنی تعریف اپنے منہ سے کرتے ہیں۔

مذکورہ تحقیق کے تناظر میں ہٹلر اور مسولینی کو خودپسند سیاسی شخصیت کہا جاسکتا ہے جبکہ عصری عالمی سیاست میں ڈونلڈ ٹرمپ کو خودپسند شخص سمجھا جاتا ہے۔

اگر مذکورہ تحقیق کی روشنی میں پاکستان کی ان سیاسی شخصیات پر نظر ڈالیں جو حکمراں بھی رہ چکی ہیں تو ہمیں ان میں صرف ایک ہی نام نظر آتا ہے۔

عمران خان کے اندر مستقل مزاجی اور سیاسی پختہ فیصلوں کا فقدان دیکھا گیا ہے۔ ان کا موقف بدلتا رہتا ہے، جس کا دورانیہ بھی زیادہ نہیں ہوتا۔ وہ ایک دن نیوٹرل کی ٹرم کے حق میں، دوسرے دن اسے جانور اور اسلام کے منافی کہتے نظر آتے ہیں۔ وہ ہر ایک کو سازشی، غدار کہتے ہیں جبکہ اپنے آپ کو امید کی آخری کرن سمجھتے ہیں۔ وہ اپنے آپ کو عقل کل باور کرانا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے زبردست مداح ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے وہ اپنے آپ کو بہت پسند کرتے ہیں۔ جسے ماہر نفسیات خودپسندی کا عارضہ کہتے ہیں، جو احساس کمتری کی طرح مناسب نہیں ہے۔ کیونکہ احساس برتری یا کمتری، دونوں ہی متوازن شخصیت کےلیے بہتر نہیں ہیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔