لانگ مارچ، جلاؤ گھیراؤ اور پاکستان

ایڈیٹوریل  جمعـء 27 مئ 2022
فوٹو : ٹویٹر

فوٹو : ٹویٹر

’’حکومت کو چھ دن کی مہلت دے رہا ہوں، حکومت اسمبلیاں تحلیل کرے اور جون میں انتخابات کا اعلان کرے، ورنہ قوم کے ساتھ دوبارہ آؤں گا‘‘ یہ الٹی میٹم دے کر پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے اپنے لانگ مارچ کے اختتام کا اعلان کر دیا۔

پارلیمانی جمہوری نظام میں سیاسی جماعتیں اس نظام کی مسلمہ روایات کی پابند ہوتی ہیں، جس طرح کسی معاشرے کی روایات اور اقدار ہوتی ہیں اور کوئی فرد، خاندان یا گروہ ان روایات اور قدروں کی پروا نہ کرے اور من مانی شروع کردے تو ایسے معاشرے بدنظمی، بدتہذیبی، بے حسی، نوسربازی اور دھوکا دہی کا نمونہ بن جاتے ہیں۔ معاشرے کی تسلیم شدہ روایات اور اقدار کی پابندی کرکے ہی کوئی فرد یا گروہ عزت و احترام پاسکتا ہے۔ برطانیہ پارلیمانی جمہوریت کی ماں کہلاتا ہے۔

وہاں ریاست کا جو انتظامی، عدالتی اور ادارہ جاتی ڈھانچہ جن برطانوی اقدار اور روایات پر استوار ہے اور ارتقاء پذیر ہے، وہاں کوئی حکومت، کوئی سیاسی جماعت، کوئی ادارہ اپنے حدود سے بڑھنے کا سوچ بھی نہیں سکتا، لیکن پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام کا دعویٰ پوری ریاست کرتی ہے، سیاسی و مہذہبی جماعتیں یک زبان ہوکر اس نظام کو تسلیم کرتی ہیں لیکن عملی صورتحال یہ کہ کوئی بھی پارلیمانی جمہوری اقدار کو تسلیم نہیں کرتا۔ پارلیمانی جمہوریت میں کسی جمہوری مقصد یا ہدف کے لیے یا برسراقتدار حکومت کی غیرآئینی پالیسی کے خلاف لانگ مارچ اور احتجاج کرنا، دھرنا دینا، ہر سیاسی جماعت کا جمہوری اور آئینی حق ہے۔

پارلیمانی جمہوریت نے یہ حق اس لیے دیا ہے کہ اگر کوئی حکومت آئین سے انحراف کر رہی یا ایسی پالیسی لا رہی ہے جو ملک اور عوام کے مفادات کے برعکس ہے تو اس سے ملک کے عوام کو آگاہ کرے لیکن پاکستان جتنی بھی احتجاجی تحریک چلیں یا دھرنے دیے گئے، وہ سب جمہوری روایات اور قوانین کے برعکس رہے جس کے نتیجے میں ریاستی ڈھانچہ بری طرح متاثر ہوا۔ پرتشدد مظاہروں اور ریلیوں کی وجہ سے قومی اور نجی املاک کو تباہ کیا گیا، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور افسروں کے ساتھ تصادم کا راستہ اختیار کیا گیا۔

سرکاری اداروں کے اہلکاروں کا فرض قانون کا نفاذ یقینی بنانا ہوتا ہے، سیاسی قیادت اور سیاسی ورکرز کا فرض قانون کا احترام کرنا اور اس پر عمل کرنا ہوتاہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے اسلام آباد میں جو کچھ کیا، وہ انتہائی افسوس ناک اور خلاف قانون تھا۔ سرکاری اور نجی املاک کو شدید نقصان پہنچایا گیا، اسلام آباد میں بیسیوں درختوں اور پھول دار پودوں کو نذر آتش کردیا گیا۔

اسلام آباد، راولپنڈی میٹرو بس ٹریک پر لگے کھجور کے قیمتی درخت جلائے گئے۔ گرین بیلٹ پر چیڑ کے انتہائی قیمتی درختوں کو جلا دیا گیا۔ میڈیا کے مطابق اسلام آباد کے بلیو ایریا مرکزی شاہراہ پر ہر طرف گندگی کے ڈھیر لگ گئے۔ ٹیلی فون تاروں کو بھی جلایا، بکتر بند گاڑی کو بھی آگ لگائی گئی اور نیوز چینلز کی ڈی ایس این جی پر بھی پتھراؤ کیا گیا۔

پاکستان کے دارالحکومت سے اٹھنے والے آگ کے شعلے اور دھویں کے مناظر پورے پاکستان کے شہریوں نے ٹی وی اسکرینوں پر براہ راست دیکھے، عالمی سطح پر یہ مناظر دیکھے گئے۔ سری لنکا تو دیوالیہ ہونے کی وجہ سے مفلوج ہوا ہے لیکن پاکستان کے کیپٹل سٹی میں جلاؤ گھیراؤ اور ماردھاڑ کے مناظر تھے، یہ سب کیسے ہوا، کیوں ہوا، اس کا ذمے دار کون ہے؟ یہ سوال ہر پاکستانی پوچھنے کا حق رکھتا ہے۔

جب کوئی سیاسی لیڈر یہ کہے کہ لانگ مارچ ہوگا، کوئی کہے کہ حکومت گرا کر ہی واپس جائیں گے تو مطلب واضح ہوگیا تھا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محرومی کے بعد فوری انتخابات کے لیے موجودہ حکومت پر دباؤ بڑھا رہے ہیں، لیکن اس کا بہترین فورم پارلیمنٹ ہیں، لڑائی جھگڑا یا مارچ نہیں ہے اور نہ ہی ایسے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اعلیٰ عدالتوں میں درخواستیں لے کر جانا چاہیے ۔

پارلیمانی جمہوریت میں عام انتخاب کب ہوتے ہیں، اس کی آئین میں مدت مقرر ہے، اگر قبل از وقت الیکشن کی ضرورت ہے تو اس کا طریقہ بھی آئین میں درج ہے، جمہوری حکومت کو ہٹانا کیسے ہے، اس کا طریقہ بھی آئین میں موجود ہے، الیکشن کرانے والا ادارہ موجود ہے تو پھر جلاؤ گھیراؤ کیوں؟ بہرحال پی ٹی آئی کی قیادت نے اسمبلیاں تحلیل کرنے اور نئے الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرنے تک اسلام آباد میں دھرنا جاری رکھنے کا اعلان بھی کیا تھا، پی ٹی آئی کی قیادت کو غور کرنا چاہیے کہ یہ لانگ مارچ ان کے مقصد کے حصول میں کتنا معاون ثابت ہوا؟ اس سوال کا جواب بہت آسان ہے۔

پاکستان میں اس قسم کی سیاسی مہم جوئی کا انجام، اس کی کامیابی اور ناکامی کے پیمانے کبھی ایک جیسے نہیں رہے ہیں۔ نتائج کے اعتبار سے تمام دھرنوں کا انجام مختلف اور منفی رہا، اگر کوئی فائدے میں رہا تو وہ غیرجمہوری طبقے رہے ہیں، ملک اور عوام کو ہمیشہ نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ قومی سیاست ایک ایسے گرد اب میں ہچکولے کھا رہی ہے جہاں آگے کچھ دکھائی نہیں دے رہا، ہمارے سیاستدان ماضی کی غلطیوں سے کیوں سبق حاصل نہیں کرتے اور ہر آٹھ دس سال بعد کسی بھنور میں پھنس جاتے ہیں۔

دنیا کے کسی بھی ترقی یا غیر ترقی یافتہ ملک میں قائم مخلوط حکومت کے لیے ملک کے سیاسی، آئینی، معاشی اور اقتصادی مسائل کا فوری حل آسان نہیں ہوتا، ایسی حکومتوں کی کامیابی کا دارومدار اتحادیوں کے متفقہ فیصلے کرنا، کامیابیوں اور ناکامیوں کا بوجھ مل کر اٹھانے پر ہوتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ ابتر حالات، سیاسی عدم استحکام، ادارہ جاتی مداخلت اور معاشی بحران کی شدت کو عالمی حلقے بھی اب شدت سے محسوس کر رہے ہیں۔

آزادی کی پون صدی گزرنے کے باوجود پاکستان میں مستحکم جمہوری نظام قائم ہی نہیں ہو سکا۔ ملک کی سیاسی پارٹیوں کے قائدین کو جب یہ معلوم تھا کہ کوئی بھی تنہا پارٹی اپنی اکثریت ثابت نہیں کر سکتی تو ایسی صورت میں کوئی بھی فیصلہ کن قدم اٹھانے سے قبل ملک کی اتحادی جماعتوں پر یہ لازم تھا کہ حکومت کی تشکیل سے قبل عوام کے بنیادی مسائل اور طویل سیاسی بحران سے مکمل چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی ایسا عملی فارمولا تیار کرتیں جس سے عوام مہنگائی، بے روزگاری، بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ اور رشوت دے دے کر نڈھال ہونے کے تکلیف دہ عمل سے چھٹکارا حاصل کرسکتے۔ مگر ایک تاثر یہ بھی ابھرتا ہے کہ اتحادی پارٹیوں کا بنیادی فوکس صرف عمران خان حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنا تھا۔

یہ عمل کامیاب تو ہو گیا، حکومت بھی تشکیل دے دی گئی، مگر جو مشکلات پیدا ہوگئی ہیں، شاید ان کے بارے میں اتحادیوں نے پہلے سے کوئی لائحہ عمل تیار نہیں کیا تھا۔ جس کی وجہ سے موجودہ حکومت مشکل سے دوچار ہے۔

برطانیہ ایسا جمہوری ملک ہے جسے دنیا بھر میں ’’جمہوریت کی ماں‘‘ کا غیر معمولی اعزاز حاصل ہے جس کے دیے رول ماڈل پر پاکستان سمیت دنیا کے متعدد ممالک جمہوری عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ماضی میں برطانیہ میں بھی کنزرویٹو پارٹی ، لیبر پارٹی اور لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تھی، یہ مخلوط حکومت بھی برطانوی عوام سے کیے بیشتر وعدے پورے نہ کر سکی۔ لیکن اس حکومت کو گرانے کے لیے کسی نے لانگ مارچ نہیں کیا تھا۔

سب کچھ آئین کے مطابق ہوا اور تمام اتحادی جماعتوں کی لیڈرشپ نے اپنے اپنے حصے کی کامیابیوں کو بھی قبول اور ناکامیوں کو بھی مسلم لیگ (ن) کو زیادہ سیٹیں ملنے پر وزارت عظمیٰ اور چند دیگر وزارتیں پیپلزپارٹی کو وزارت خارجہ اور چند دیگر وزارتیں، اسی طرح ایم کیو ایم‘ جمعیت العلمائے اسلام اور دوسری اتحادی پارٹیوں کے ارکان کو وزارتیں تو دے دی گئیں مگر سخت فیصلوں کا اپنے اپنے حصے کا بوجھ اٹھانے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا لیکن اب اتحادیوں نے سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا ہے اور کامیابیوں اور ناکامیوں کا بوجھ اکٹھے اٹھانے کا فیصلہ کیا جو اچھی روایت ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان کو بذریعہ تحریک عدم اعتماد اقتدار سے ہٹانے کی بنیادی وجہ ہی ملک میں کمر توڑ مہنگائی ، بیڈ گورننس ، کمزور خارجہ پالیسی اور کرپشن میں ریکارڈ اضافہ بتائی گئی تھی ۔ مخلوط حکومت آنے کے بعد بھی مسائل میں اسی شدت سے موجود ہیں۔ سوال یہ نہیں کہ گزشتہ حکومت نے آئی ایم ایف یا دیگر عالمی مالیاتی اداروں سے کن شرائط پر قرضے حاصل کیے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کی اتحادی جماعتوں کو جب سب کچھ معلوم ہے تو بروقت فیصلے کرنے میں دیر کیوں؟ وزیراعظم شہباز شریف اور اتحادیوں کو ملک کی معیشت کو بچانے کے لیے فوری فیصلے کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کے معاشی، سیاسی اور اقتصادی حالات انتہائی مخدوش ہیں۔کاش! ہمارے سیاسی لیڈر سمجھ پائیں۔

پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کو ملک کو درپیش مسائل کی سنگینی کا ادراک کرنا چاہیے، اداروں کو بھی اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنا چاہیے، سیاسی جماعت اپنے منشور کی بات کرتی ہے، جلاؤ گھیراؤ کے نعرے سیاسی جماعتوں کی قیادت نہیں لگاتی۔ پی ٹی آئی کی قیادت ہو یا موجودہ حکومت میں شامل اتحادی سیاسی جماعتوں کی قیادت یا اس ملک کے ریاستی اداروں کے فیصلہ ساز، سب کو دیوار پر لکھی اس حقیقت کو پڑھ لینا چاہیے کہ یہ ملک ہے تو ان کی حاکمیت ، رعب و دبدبہ اور خوشحالی قائم ہے ، اگرانھوں نے اس حقیقت کو نہ پڑھا تو تاریخ اپنا سبق خود پڑھا دیتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔