نیشنل ایکشن پلان کی تفصیل

جمیل مرغز  جمعـء 27 مئ 2022
jamilmarghuz1@gmail.com

[email protected]

NAP کے 20نکات میں سے پچھلے کالم میں چار نکات کا جائزہ لیا گیا تھا، اب اگلے نکات کا مختصر جائزہ۔ (5)۔نفرت انگیز مواد ’انتہا پسندی‘ فرقہ واریت اور تشدد کا پرچار کرنے والے اخبارات‘ لٹریچر اور رسالوں کے خلاف سخت اقدامات کرنا ‘ اس سلسلے میں کتنی پراگرس ہوئی ہے۔

اس کا مجھے تو پتہ نہیں ہے، اگر ہوئی تو برائے مہربانی آگاہ فرمائے۔ مذہبی انتہا پسند اور فرقہ پرست قوتیں متحرک ہیں‘ میرے پاس مکمل معلومات تو نہیں ہیں لیکن ایک امر واضح ہے کہ ان قوتوں کو اب بھی کام کی آزادی ہے۔ سابق حکومت تو دہشت گردوں، ان کے سہولت کاروں کے بجائے مخالف سیاسی قیادت کو چور ڈیکلئر کرکے انھیں پکڑنے، ان پر مقدمات درج کرانے میں مصروف تھی‘ دہشت گرد اور ان کے سہولت کاروں کو پکڑنا سابق حکومت کے منشور میں ہی شامل نہیں ہے اور نہ وہ ایسا کرنے چاہتے ہیں۔

(6)۔دہشت گردوں اور ان کی تنظیموں کے مالیاتی ذرایع بند کرنا‘ آج بھی ایسی تنظیموں کے کھلے عام چندے جمع کر رہے ہیں‘ ان پر آج تک کوئی کارروائی نہیں کی گئی‘ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ اس سلسلے میں پراگرس کچھ نہیں بلکہ حالات جوں کے توں ہیں۔

(7)۔کالعدم تنظیموں کو دوسرے ناموں سے کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی‘ اس شق پر حکومت کا شاید عمل درآمد کا کوئی ارادہ ہی نہیں ہے‘ کالعدم تنظمیوں کے عہدیدار کسی دوسرے نام کے ساتھ کام کر رہے ہیں‘ حکومت شاید ناموں پر پابندی لگاتی ہے نہ کہ افراد اور پروگرام پر‘ جب کہ یورپ اور اقوام متحدہ کسی تنظم کے نام کے ساتھ اس کے تمام عہدیداروں پر پابندیاں لگاتے ہیں‘ نام پر پابندی کا حشر ہم نے دیکھ لیا ہے‘ اسی لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس نکتے پر بھی کوئی پراگرس نہیں ہوئی۔

(8)۔ایک جدید ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں سے لیس، جری اور ذہنی طور پر مضبوط افسروں اور سپاہیوں پر مشتمل انٹی ٹیرر ازم فورس کا قیام۔ 2اگست 2015 کے اخبارات کے مطابق حکومت نے فیصلہ کرلیا تھا کہ تمام خفیہ ایجنسیوں پر مشتمل ادارہ (Joint Intelligence Directorate -JID) قائم کیا جائے ‘اس ادارے کے قیام کا مقصد دہشت گردی کے خلاف مہم کو منظم کرنا ہے۔

اخباری اطلاعات کے مطابق اس مقصد کے لیے طویل بحث مباحثہ ہوا‘ فنڈ کی فراہمی اور دیگر مسائل پر کافی عرصہ ضائع کر دیا گیا‘ دوسری طرف یہ خبر بھی آئی تھی کہ بجٹ اور اسٹاف نہ ہونے کی وجہ سے نیکٹا کے پہلے چیف حامد علی خان نے ذاتی وجوہات کی بناء پر استعفا دے دیا ہے‘ بے چارہ بغیر اسٹاف اور بجٹ کے ادارے میں کیا کرتا؟ ابھی تک کوئی پراگرس نہیں ہے۔

(9)۔مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ اور اقلیتوں کے تحفظ کی ضمانت دینا‘ ابھی تک اس سلسلے میں کوئی خبر نہیں ملی‘ اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ پراگرس نہیں ہے۔ اقلیتوں کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے۔

(10)۔دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ان کو ریگولیٹ کرنا۔ خبروں کے مطابق ‘مرکزی حکومت کوشش کر رہی تھی کہ ایک اسلامک ایجوکیشن کمیشن (IEC)بنایا جائے‘ تاکہ NAPکے تحت دینی مدارس کو منظم کیا جا سکے‘ یہ ادارہ دینی مدارس کے سلیبس کو بنانے میں اہم کردار ادا کرے گا اور کوالیفائیڈ اساتذہ کی بھرتی اور دوسرے مسائل میں دینی مدارس کی مالی مدد بھی کرے گا۔

یہ ادارہ ان مدارس کی ڈگریوں اور سرٹیفیکیٹ کی تصدیق بھی کرے گا‘ اس سلسلے میں کوئی بھی خبر نہیں آئی۔ (11)۔ میڈیا میں دہشت گردوں کو گلوریفائی کرنا اور انھیں ہیرو بناکر پیش کرنے کے رجحان کو روکنا لیکن یہ بیانیہ بنانے والے اینکرز، تجزیہ کار اور کئی کالم نگار اب بھی سرگرم ہیں۔(12)۔فاٹا میں انتظامی اور ترقیاتی اصلاحات کرنا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ان علاقوں کو خیبر پختونخوا کا حصہ بنانے کے بعد یہاں پر انتظامی اور عدالتی انفرااسٹرکچر تعمیر کیا جائے۔

امن و امان کی طرف توجہ دی جائے ،ایسی قانون سانی اور لینڈ ریفارمز کی جائیں جس سے ان علاقوں میں مڈل کلاس پیدا ہو اور پھل و پھول سکے، دوسرے صوبوں کے سرمایہ کار یہاں بلاخوف وخطر سرمایہ کاری کرسکیں لیکن اس سلسلے میں گراونڈ پر کوئی پراگرس نظر نہیں آرہی‘بلکہ آجکل ان علاقوں میں دہشت گردی زیادہ ہوگئی ہے‘بلکہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد TTPزیادہ متحرک ہو گئی ہے۔

(13)۔دہشت گردوں کا مواصلاتی نظام مکمل طور پر ختم کیا جائے گا‘یہ بات صحیح ہے کہ برے طالبان کے خلاف آپریشن ضرب عضب نے بڑی کامیابیاں حاصل کی ہیں‘لیکن اچھے طالبان اب بھی سرگرم ہیں‘ جن کی وجہ سے پاکستان کی دونوں سرحدیں غیر محفوظ ہیں۔

(14)۔انٹر نیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے دہشت گردی کے خلاف ٹھوس اور منظم مہم چلانا ‘اس مہم کے چلانے کا ذمے دار کون ہوگا؟لبرل ذہن کے لوگ تو اپنے طور پر دہشت گردی کے خلاف سوشل میڈیا پر سرگرم ہیں لیکن حکومتی سطح پر کسی اقدام کے متعلق کوئی خبر نہیں ہے۔(15)۔ملک میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کی ترویج کے لیے کوئی محفوظ مقام نہیں چھوڑا جائے گا‘اس نکتے پر عمل درآمد کے لیے شمال مغربی سرحد کو انتہائی محفوظ بنانا ہے ، پھر خیبرپختونخوا، پنجاب ، بلوچستان اور سندھ میں قائم انتہاپسندوں کے نیٹ ورک کو تباہ کرنا ہے۔

(16)۔کراچی میں امن قائم کرنے کے لیے جاری آپریشن کو اپنے منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا‘اس پر عمل درآمد ہو ا ہے ‘لیکن محسوس ہوتا ہے کہ اس کی زد میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے لوگ آئے‘ حالانکہ کراچی انتہا پسند تنظیموں کا مضبوط گڑھ ہے۔

اس طرف توجہ زیادہ ہونی چاہیے تھی ‘اس کا ثبوت حالیہ دہشت گردی کے واقعات ہیں۔ (17) بلوچستان حکومت کو مکمل با اختیار بنایا جائے گا۔اختیار تو اب تک بلوچستان تو کیا کسی بھی صوبے کو نہیں ملا لیکن بلوچستان میںدہشت گردی زیادہ ہوگئی ہے بلکہ اب تو خواتین بھی میدان عمل میں آگئی ہیں۔ بلوچستان کوخصوصی توجہ کی ضرورت ہے کیونکہ وہاں صرف مذہبی نہیں بلکہ سیاسی دہشت گردی بھی ہو رہی ہے‘ان کے سیاسی مسائل کو حل کرنا چاہیے۔

(18)فرقہ واریت پھیلانے والے عناصر کے خلاف اقدامات۔ اس پر کام ہوا ہے لیکن اس محاذ پر اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔(19)۔افغان مہاجرین کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک پالیسی کی تشکیل کرنا ۔اس سلسلے میں کوئی پراگرس نظر نہیں آتی ‘ لاکھوں افغان باشندوں کو بلا روک ٹوک پاکستان آنے اورانھیں پناہ دینے کے ذمے دار ضیاء الحق، حمید گل، جنرل فضل الحق، اختر عبدالرحمن اور ان کے دیگر ساتھی پالیسی ساز تھے۔

ان کے بعد آنے والی حکومتوں نے بھی اس مسئلے کو مسئلہ نہیں سمجھا‘یہ بھی زیادتی ہے کہ ان لوگوں کو بے عزت کرکے پاکستان سے نکالا جائے ‘ ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی اداروں کے ساتھ مل کر ان کے واپس جانے کا پروگرام بنایا جائے‘ اس مسئلے پر وفاق اور صوبوں کی پالیسی یکساں ہو‘اب تو افغانستان میں ایک مستحکم حکومت بھی قائم ہو گئی ہے۔ افغان مہاجرین کے بااثر حضرات کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے وطن جائیں اور وہاں سرمایہ کاری کریں۔ (20)۔فوجداری نظام عدل میں اصلاحات لانا۔دہشت گردی کا تو ذکر کیا ؟موجودہ فوجداری قوانین اور عدالتی نظام اصلاحات کا متمنی ہے‘ قانون میں اصلاحات اور عدالتی نظام کی بہتری کے لیے ابھی تک کچھ بھی نہیں ہوا۔

دہشت گردی سے مقابلے کے لیے ’’ہمارے پاس وقت کم ہے اور مقابلہ سخت ‘‘۔ملک کو پچھلے 40سالہ گند سے صاف کرنا اتنا آسان نہیں ہے‘ملک کے ہر شعبے کو مذہبی انتہا پسندی نے متاثر کیا ہے‘ NAPکے ایجنڈے کے ان 20 نکات میں ہر نکتہ اپنی جگہ اہم اور سنجیدہ توجہ کا مستحق ہے ‘اس کے لیے ضروری ہے کہ ایجنڈے کے ہر پوائنٹ پر کام کرنے کے لیے الگ الگ ماہرین کے گروپ یا تھنک ٹینک بنائے جائیں اور ان کو ایک متعین مدت میں ٹھوس سفارشات اور لائحہ عمل تیار کرنے کا کہا جائے۔ فوج اور سول حکومت کے فیصلوں کے بعد نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد میں اب واحد رکاوٹ صرف حکومت کی نااہلی ہی ہو سکتی ہے ‘دہشت گردی کے دوسرے پہلو بھی ہیں جن کا ذکر بعد میں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔