وزیر اور زنجیر بدلنا

سعد اللہ جان برق  جمعـء 27 مئ 2022
barq@email.com

[email protected]

انسان ایسے میں کرے بھی تو کیا؟ جب ہر چیز پہلی سے بھی بدتر اور دل آزار ہو یعنی ’’گل یوم بتر‘‘ ہر نیا دن گزرے ہوئے دن سے زیادہ برا ہو۔ چاہے حکومت ہو، نرخ ہوں، مہنگائی ہو، مسئلہ ہو، انسان ہو یا وقت، چنانچہ انسان پرانے وقتوں اور پرانی چیزوں کو یاد کر کے روتا رہتا ہے۔

یار بچپن کا کوئی پرانا ملے

کاش گزرا ہوا زمانہ ملے

کاغذکی کشتی اور بارش کا پانی

محلے کی بڑھیا پرانی

کیوں کہ پچھتر سال میں توہم نے ایسا کچھ بھی نہیں دیکھا، ایک کفن چور مرے تو اس کی جگہ اچھا بندہ آ جائے۔ خدانخواستہ، خدانخواستہ، ہمارا اشارہ اب تک برپا ہونے والی حکومتوں کی طرف نہیں ہے، وہ تو سب کی سب ایک دوسرے سے بڑھ کر اچھی تھیں، اگر اچھی نہ ہوتیں تو وہ پارٹیاں اب تک ’’اچھی‘‘ کیوں ہوتیں۔ مسلم لیگ ابھی تک بانی پاکستان ہے، پیپلز پارٹی ابھی تک روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگائے جا رہی ہے۔

اے این پی ابھی تک لورپختون کے نعرے پر لوگوں کو الو بنا رہی ہے، جے یوآئی ایک ہی خاندان کی سربراہی میں اسلام نافذ کروا رہی ہے، جماعت اسلامی ستر برس سے کشمیر اور فلسطین کو آزاد کروا رہی ہے، بی این ایم وغیرہ بلوچ عوام کی گردن پر سوار ہوکر ان کے حقوق کی جنگ لڑنے میں، ایم ایم کیو مہاجر لفظ کو قوم کے معنی میں تبدیلی کرکے قومی حقوق حاصل کر رہی ہے، آخر میں تحریک انصاف تبدیلی کے سونامی کو لے کر آئی اور واقعی اس نے پہلے ملک بھر میں اور گزشتہ روز اسلام آباد میں سونامی برپا کیا۔

ان وبالوں کے بعد ’’مستقبل کا تو سوچ بھی نہیں سکتے کہ کل ہو نہ ہو، ویسے بھی اس دنیا میں آج تک نہ تو کبھی ’’کل‘‘ آئی ہے اور نہ آسکتی ہے، ماضی کی طرح کل بھی وہ چڑیا ہے جو ہوا میں ہے، شاعر لوگ صرف اس کا ذکر کرتے ہیں، آئی کبھی نہیں کہ آگر آبھی جاتی ہے تو ’’آج‘‘ بن کرآتی ہے۔ آج نقد کل ادھار، مطلب اگر کبھی کل آئی تو۔

ہم نے تو اس کا صرف ذکر سنا ہے، فیض احمد فیض اور دوسرے صاحبان فیوض وبرکات ہے۔۔

ہم دیکھیں گے، تخت گرائے جائیں گے

تاج اچھالے جائیں گے راج کر ے گی

خلق خدا…کب؟ ’’کل‘‘؟

مطلب یہ کہ ہمارے پاس صرف ماضی ہی ایک ذریعہ ہے دل بہلانے کا، جھوٹا ہی سہی تو کیوں نہ قصیدہ ماضیہ، شانداریہ، وارنیہ وخوشحالیہ پڑھیں۔ مگرمجھ کودے دو، وہ کاغذ کی کشتی، وہ بارش کا پانی، وہ صدیوں پرانی نانی کی کہانی۔ اب ذکر چھڑ ہی گیا ہے تو ماضی میں ایک اور غوطہ لگا کر ہم اپنے چند شعروں کو یاد کرتے ہیں۔ یہ اس دور کی بات ہے جب بھٹو نے ایوب خان اور یحیٰی خان کا تیا پانچہ کیا اور پھر بھٹو کا تیا پانچہ ضیاء الحق نے کیا، بیچارا جونیجو بیرون ملک دورے پر گیا تو وزیراعظم تھا اور جب واپس آیا تو کچھ بھی نہ تھا۔ پہلا شعر یہ تھا،

ہم ھغہ قید ھغہ قیدی دے خو زنزیربدل کڑی

باچادے نہ بدلوی مونگ لہ دے تقدیربدل کڑی

ترجمہ: وہی قید،وہی قیدی ہوتاہے، صرف زنجیربدل دیتے ہیں، ہمارابادشاہ مت بدلو ہماری تقدیربدل دو۔

دوسراشعرتھا۔

باچاہم ھغسے معصوم اوربے گناہ پاتی شی

خپل گناہونہ ورپسرکڑی اووزیربدل کڑی

ترجمہ:بادشاہ ویسے کاویسا معصوم اوربے گناہ رہ جاتاہے کیوں کہ وہ اپنے سارے گناہ اس پر لاد کر وزیربدل دیتاہے۔

اب یہ بتا کر ہم اپنے کاندھے سر سے ہلکا نہیں کرنا چاہتے کہ وہ ’’بادشاہ‘‘ کون ہے جو اپنے گناہوں کو وزیر کے سر پر لاد کر اس بیچارے کو بدل دیتا ہے۔ البتہ یہ تو ہمارے سامنے کی بات ہے کہ جتنی بھی حکومتیں اب تک آئی ہیں، سب کی سب پاک و صاف بلکہ شفاف تھیں ورنہ ان کے ’’مزار‘‘ نہ بنتے، لیکن یہ پتہ کوئی بھی نہ لگا پایا کہ وہ چور کون ہے جو انگریزوں سے بچا ہوا سارا مال بھی ہڑپ کرگیا، ہر پاکستان کو ڈیڑھ لاکھ روپے کا قرضدار بنا کر وہ قرضہ بھی ہڑپ کر گیا، پل بھی ہڑپ رہا ہے، سڑکیں بھی ہڑپ رہا ہے، ریلوے، ٹی وی، واپڈا، پی آئی اے وغیرہ بھی نگل چکا ہے اور اب ’’عوام‘‘ کو براہ راست چبا رہا ہے، ٹیکسوں اور نرخوں کے پھندے میں پھنسا کر۔

کرے فریاد امیر اے داد رس کس کی

کہ ہردم کھینچ کرخنجرنئے سفاک آئے ہیں

جب تبدیلی اور بدلنے سے کچھ بھی نہ ہوا تھا نہ ہوسکتا ہے اور نہ ہوگا تو پھر یہ روز روز بدلنے کا ڈراما کیوں جب تقدیر ہی نہیں بدل رہی ہے تو وزیر بدلنے کا مطلب؟ جب قید اور قیدی وہی ہے تو نئی نئی زنجیروں پر زرکثیر صرف کرکے بدلناچہ معنی دارد۔

اس چوڑی فروش کا قصہ تو سنا ہی ہوگا جس کی پٹیھ پر لدے ہوئے چوڑیوں کے گٹھڑ پر ایک سپاہی نے ڈنڈا مارتے ہوئے پوچھا تھا، کیا ہے اس میں؟تو چوڑیوں والے نے جواب دیا کہ ایک ڈنڈا اور ماریے تو کچھ بھی نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔