آسان اسلامی شادی



فوٹو: فائل

فوٹو: فائل

فرمانِ الٰہی کا مفہوم: ’’اور اپنے غیر شادی شدہ آزاد افراد اور اپنے غلاموں اور کنیزوں میں سے باصلاحیت افراد کے نکاح کا اہتمام کرو کہ اگر وہ فقیر بھی ہوں گے تو اﷲ اپنے فضل و کرم سے انھیں مال دار بنادے گا کہ اﷲ بڑی وسعت والا اور صاحبِ علم ہے۔‘‘ (سورۂ نور)

یہ وہ حکمِ الٰہی ہے، جسے تقریبِِ نکاح میں یاد رکھنا چاہیے۔ کیوں کہ نکاح کی تقریب خالصتاً ایک عبادت الٰہیہ ہے، جس طرح ہم دیگر عبادتوں میں اُن کے آداب کا خیال رکھتے ہیں، اسی طرح اِس عبادت میں بھی ہر اُس چیز کا خیال رکھنا پڑے گا جس سے اﷲ راضی رہتا ہے۔

اسلام کسی طرح کی بھی نمود و نمائش کو پسند نہیں کرتا، کیوں کہ نمود و نمائش انسان کی ترقی میں سوائے رکاوٹ کے کوئی اور اثر نہیں رکھتی، بالخصوص نکاح میں بھاری مہر، بڑا جہیز، دو طرفہ سختیاں اور غیر معقول اور غیر شرعی رسومات کی سختی سے ادائیگی، خاص طور پر مخلوط محفل کہ جس میں عریانیت و فحاشی عام ہوتی ہے اور یہ چیزیں نکاح کی تقریب سے کسی صورت میل و مناسبت نہیں رکھتیں اور شاید یہی وجہ ہو کہ نئی زندگی کا آغاز اﷲ و رسول اکرم ﷺ اور اہلِ بیتِ رسولؐ کی لعنت اور ناراضی کے ساتھ ہونے کی وجہ سے ازدواجی زندگی میں چین، سکون، اُلفتیں، راحتیں، رزق و روزی میں برکت اور گھریلو آرام نصیب نہیں ہوتا۔

تقریبِ نکاح میں تصاویر، فلم بندی اور عکس بندی بھی فساد کی جڑ ہے۔ اگرچہ یہ بات پہلے ہی مسلّمات میں سے ہے کہ کسی خاتون کا حُسن و آرائش کے ساتھ نامحرم کے آگے پیش ہونا، چاہے وہ عکس بندی کرنے والا ہو، یا کیمرہ مین، یا تقریب میں شریک گھر، خاندان اور محلے کے نوجوان لڑکے ہَوں، حرام ہے۔ پھر تصاویر اور فلم بندی پر زر کثیر خرچ کیا جاتا ہے جو کہ بعد میں اختلافات کا سبب اور بُرے ثبوت کے طور پر باقی رہتا ہے۔

اور یہ چیز محبتوں کی راہ میں رکاوٹ، باہمی محبت و اُلفت کا خاتمہ اور اُلجھنوں کا شکار بنا دیتی ہے اور ایسے ماحول میں آنے والا بچّہ اُلفت و محبت سے خالی، ذہنی انتشار کا شکار ہوتا ہے جو کہ کسی بھی معاشرے کے لیے زہر سے کم نہیں۔

ہمارے معاشرے میں اگر بعض اوقات نکاح سے پہلے بڑھ چڑھ کر انتہائی فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہیز کا انکار اِن الفاظ میں کردیا جاتا ہے کہ آپ اپنی بیٹی دے رہے ہیں، یہی بہت ہے۔

ہمارے گھر میں سب کچھ ہے، آپ کی دی ہوئی چیزیں غیر ضروری ہوں گی، جہیز کی کوئی ضرورت نہیں، ہم تو آپ لوگوں سے رشتہ کرنے کو سعادت مندی سمجھتے ہیں اور اگر غلطی سے لڑکی کے والدین اِن الفاظ کو سچ سمجھ کر شادی کرلیں تو پھر شادی کے دوسرے روز ہی سے طعنے اور جملے بازی اور کم ظرفی کا مظاہرہ شروع ہوجاتا ہے۔

بات بات پر احساس دِلایا جاتا ہے کہ کہ تم کیا لائی ہو؟ اِدھر لڑکی بَری (وہ سامان جو کہ لڑکے کی طرف سے شادی میں دیا جاتا ہے) کے اندر عیب نکال کر بدلہ لیتی ہے کہ ہاں! تم نے اپنے یہاں کے جوڑے دیکھے تھے، فلاں فلاں زیور دیکھا تھا وغیرہ۔ اِس مقام پر محبّانِ آلِ رسولؐ غور کریں، جب حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ نے حضرتِ زہرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی خواست گاری کی، تو آنحضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا: ’’شادی کے لیے تمہارے پاس کیا ہے؟‘‘ تو حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ نے فرمایا: ’’ایک زرہ، تلوار اور سواری ہے۔‘‘

آنحضرت ؐ نے تلوار اور سواری کے علاوہ زرہ کو بیچنے کا مشورہ دیا جو کہ پانچ سو درہم میں فروخت ہوئی کہ جس سے حضرتِ فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا جہیز تیار ہوا۔ غور طلب بات یہ ہے کہ ہمارے یہاں جہیز کا بوجھ لڑکی کا باپ اُٹھاتا ہے، جب کہ کائنات کی عظیم ترین شادی میں یہ ذمّے داری داماد کے سر پر رکھی گئی ہے۔

تقریبِ نکاح میں وکیلِ شرعی کا دُولہا اور دُلہن سے اجازت طلب کرنا انتہائی ضروری اور واجب عمل ہے، لیکن یہ ایک رسم سے زیادہ نہیں ہے، کیوں کہ اصل اجازت اُس وقت حاصل کی جانی چاہیے کہ جب رشتہ طے کیا جا رہا ہو۔ اُس وقت سب سے پہلی اجازت اور رضایت لڑکی کی ہونی چاہیے۔

شادی ایک اہم ترین فریضہ ہے۔ چند نِکات کی طرف توجّہ دلانا ضروری ہے۔

لڑکے اور لڑکی کی رضایت: جب حضرت علی کرم اﷲ وجہہٗ کی جانب سے جناب فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے لیے خواست گاری کی گئی، تو رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے اِس کے باوجود کے خود بھی یہ رشتہ پسند فرماتے تھے، جنابِ فاطمۃ الزہراؓ کے پاس جا کر پوچھا: ’’دُخترم! علی ؓ ابنِ ابی طالبؓ کو اچھی طرح پہچانتی ہو، کیا مجھے اجازت دیتی ہو کہ میں تمہارا عقد اُس کے ساتھ کردوں۔؟‘‘

حضرتِ فاطمۃ الزہرا ؓ کو شرم و حیا مانع آئی اور آپؓ نے گردن جُھکا کر سکوت اختیار کیا، جسے آنحضرت ؐ نے رضایت کی علامت سمجھتے ہوئے بی بیؓ کو دُعا دی۔

خطبۂ عقد میں عزیز و اقارب اور اہم شخصیات کو مدعو کرنا: رضایتِ مرد کے بعد آنحضرت ؐ نے حضرت علی ؓ سے فرمایا: ’’مسجد میں جاؤ اور اصحابِ کرامؓ کو تقریبِ عقد کی دعوت دو۔‘‘ آپ ؓجب مسجد میں پہنچے، تو باآوازِ بلند سب سے مخاطب ہوتے ہوئے فرمایا: ’’میں تمہیں فاطمہ ؓ کی شادی کی دعوت دیتا ہوں۔‘‘

خطبۂ عقد کے موقع پر مہر کا تعیّن ضروری ہے: اسلام زیادہ مہر کو مناسب نہیں سمجھتا بل کہ سفارش کرتا ہے کہ اگر تمہیں داماد کا دِین اور اَخلاق پسند آئے تو مہر کے بارے میں سختی سے کام نہ لو اور تھوڑے مہر پر قناعت کرو۔

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم فرماتے ہیں: ’’میری اُمّت کی بہترین عورتیں وہ ہیں جو خوب صورت اور کم مہر والی ہیں۔‘‘

حضرت امام جعفر صادق ؓ ارشاد فرماتے ہیں: ’’عورتوں کی بُرائی اِس میں ہے کہ اِن کا مہر بہت زیادہ ہو۔‘‘

درحقیقت اسلام سمجھتا ہے کہ زیادہ مہر طلب کرنے کا رجحان لوگوں پر زندگی کو سخت کردیتا ہے اور ملّت کے لیے بڑی مشکلات وجود میں لاتا ہے۔ بھاری مہر نئی زندگی کے آغاز میں داماد کی اقتصادی بنیاد کو متزلزل اور کم زور کردیتا ہے۔ میاں بیوی کے درمیان محبت و اِخلاص میں رخنہ انداز ہوتا ہے۔ حضرت علی ؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کی شادی میں وہ رقم مہر کی تھی کہ جس سے جہیز تیار کیا گیا تھا، چناں چہ حضرت فاطمۃ الزہراؓ کا مہر: ایک زرہ۔ یمنی کتان کا ایک جوڑا۔ ایک گوسفند کی خام کھال تھی۔

زرہ کی قیمت لے کر پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے حضرت سلمان فارسیؓ اور حضرت بلالِ حبشیؓ کو بلایا اور اِس میں سے کچھ رقم اِنہیں دے کر فرمایا: ’’اِس سے فاطمہؓ کے لیے اسبابِ زندگی اور لوازمات خرید کر لاؤ۔‘‘ اور کچھ رقم حضرتِ اسماءؓ کو دے کر فرمایا: ’’اِس سے میری بیٹی کے لیے عطر اور خوش بُو مہیّا کرو۔‘‘

آخر میں نیک نیّتی اور خلوصِ دل کے ساتھ دُعا ہے کہ اﷲ رحمن و رحیم ہم سب کو عین اسلامی آداب کے مطابق آسان شادی اور اُس کے نتیجے میں رحمتوں، رافتوں اور برکتوں سے معمور خوش گوار اور پُربہار زندگی گزارنے کی توفیق اور سعادت عطا فرمائے، نیز موجودہ دُنیاوی اسراف، خرافات، نمود و نمائش اور تمام تر غیر اسلامی رُجحانات و رسومات سے محفوظ فرمائے۔ (آمین)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔