خالص زنانہ بولی

سہیل احمد صدیقی  اتوار 29 مئ 2022
زبان کو یونہی ماں کے رشتے سے نسبت نہیں، بلکہ درحقیقت ماں ہی زبان کی تشکیل کرتی ہے ۔ فوٹو : فائل

زبان کو یونہی ماں کے رشتے سے نسبت نہیں، بلکہ درحقیقت ماں ہی زبان کی تشکیل کرتی ہے ۔ فوٹو : فائل

زباں فہمی 141

اردو بول چال اور معیاری زبان میں گزشتہ چند عشروں سے ہونے والے ہمہ جہتی زوال کے باب میں ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ لوگ اپنی بولی بولنا بھول گئے ہیں۔ خاکسار نے یہ جملہ بہت سوچ سمجھ کر لکھا، مگر پھر بھی ابہام دور کرنے کے لیے یہ بتانا ضروری ہے کہ اس سے کیا مراد ہے۔

ہوسکتا ہے کہ کوئی بزرگ یہ کہہ کر گرفت فرمائیں، میاں ! کیا پرندوں کا ذکر ہے کہ اپنی بولی بولنا بھول گئے۔ اصل میں تقسیم ہند اور قیام پاکستان سے قبل کی معیاری اردو اور بول چال کی زبان دونوں ہی میں پیشہ، شعبہ، برادری، طبقہ، صنف، عمر، غرضیکہ ہر لحاظ سے فرق اور امتیاز نمایاں ہوا کرتا تھا۔

پھر ایک شہر سے دوسرے شہر، ایک ہی شہر کے خاص اندرونی ونواحی علاقوں اور شہر سے قصبے اور گائوں کی بولی ٹھولی نیز معیاری زبان (ادبی، علمی یا کتابی زبان) کا فرق ایک لحظے (یا ایک منٹ) میں نظر آجاتا تھا۔ ہندوستان (غیرمنقسم) میں قلعہ معلّیٰ، دِلّی، نواحی شہر وقصبات ودیہات اور لکھنؤ ونواحی شہروقصبات کی مخصوص معیاری وعوامی زبان میں کلیدی حصہ اور کردار خواتین کا ہوا کرتا تھا۔ 1884ء میں خاص بیگماتی زبان میں ایک اخبار ’’ہم آہنگ‘‘ جاری ہوا جو دو سال بعد ہی حالات کے تغیر سے، مانگ میں کمی کی وجہ سے بند کردیا گیا۔ اگر آج کوئی علمی وادبی شخصیت ایسا کوئی جریدہ شایع کرنے لگے تو شاید اُس کا چلنا زیادہ دشوار ہو۔

زبان اور بولی ٹھولی کے امتیاز کا یہ سلسلہ، تقسیم ہند کے کوئی پچیس تا پینتیس سال بعد بھی، مختلف وجوہ سے ردّوبدل کے باوجود، یونہی چلتا رہا، مگر پھر وطن عزیز کے ایک بازو کے، منظم سازش کے تحت، الگ کردیے جانے کے بعد (میں کیسے کہہ دوں کہ الگ ہونے کے بعد؟) اور بعداَزآں ہمسایہ ملک میں نجی ٹیلی وژن چینلز کے قیام اور ہمارے یہاں اس ضمن میں پیش رفت بہت تاخیر سے ہونے کے سبب، اُن کی ’’ثقافتی یلغار‘‘ سے فوری طور پر مرعوب ومتأثر ہونے کے سبب، روزمرّہ اور محاورہ دونوں ہی پستی کا شکار ہوگئے۔

اس پر مستزاد ہمارے مشترک خاندانی نظام میں ہونے والی شکست وریخت بھی ایک اہم سبب ہے۔ اب وہ بزرگ ہی خال خال رہ گئے ہیں جو خود کچھ سکھانے جوگے ہوں تو پھر ’’سوال کیسا، جواب کیسا‘‘۔ {ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ اصل شعر یوں ہے: میں اُن کے جلووں کا آئینہ ہوں، وہ میری حیرت کا آئینہ ہیں+جہاں یہ عالَم ہو محویت کا، سوال کیسا ، جواب کیسا}۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ ہماری چالو عوامی بول چال (یعنی Slang) میں بھی ہمہ اقسام کی تبدیلیوں کا ریلہ گویا دَر آیا، ایک سیلاب آگیا۔ اب اس میں یہ ہوا کہ اگر کوئی چھوٹی عمر کا لڑکا یا لڑکی کوئی بھی صحیح یا غلط سلینگ بول رہا ہے تو وہی کسی بزرگ کے منھ پر بھی ہے۔

دور کیوں جائیں، بڑی بوڑھیاں بھی اپنے چھوٹوں سے ’یار، یار‘ کہہ کر بات کرنے لگی ہیں۔ اب لڑکیاں اور پختہ عمر کی خواتین بھی جُگاڑ، پنگا، چراند، ڈھکن، بینڈ بجادی/بجادیا وغیرہ، بغیر مطلب جانے، بلا تکلف و بلا تأمل بولنے لگی ہیں، مرد حضرات تو خیر ویسے بھی ان معاملات میں جلد بدنام ہوتے ہیں۔ لوگ بھول گئے ہیں کہ کس عمر، مزاج، طبقے، برادری، سکونتی تعلق، پیشے اور شعبے کا شخص کیا خاص زبان استعمال کرتا ہے۔

اس اخلاقی ولسانی بگاڑ کی ایک وجہ ہماری تہذیب کے رُوبہ زَوال ہونے کے ساتھ ساتھ، فرنگی زبان کو ذریعہ تعلیم کے طور پر، خود اَپنے آپ پر مسلط کرنا بھی ہے۔ صورت حال یہ ہے کہ اب سب، سبھی کچھ بول رہے ہیں، کہہ رہے ہیں، ماسوائے اس کے جو اُنھیں بولنا اور کہنا چاہیے اور ’’گول مال ہے، بھئی، سب گول مال ہے‘‘۔

خاکسار نے کچھ عرصہ قبل اسی کالم میں اپنے بزرگ معاصر ڈاکٹر رئوف پاریکھ صاحب کی ’’اولین اردو سلینگ لغت‘‘ کے حوالے سے خامہ فرسائی کی تھی۔ اس اہم کتاب کے مطالعے کے ساتھ ساتھ اور مابعد ایسے بے شمار الفاظ، تراکیب، فقرے، محاورے، کہاوتیں اور اصطلاحات یاد آتی گئیں جو فاضل ادیب کسی سبب اپنی اس لغت میں شامل نہ کرسکے۔

ان میں زنانہ بولی کے قدیم وجدید الفاظ وتراکیب شامل ہیں۔ (ویسے بچوں کی بولی بھی سلینگ کا وہ حصہ ہے جسے محولہ بالا سلینگ لغت میں تقریباً نظرانداز کردیا گیا)، لہٰذا بندہ مسکین نے اس کام کا بیڑا اٹھایا تو اچھا خاصہ ضمیمہ تیار ہوگیا اور ابھی نامکمل ہے۔ سلسلہ ابھی جاری تھا کہ چند ماہ پیشتر واٹس ایپ پر اطلاع ملی کہ پاریکھ صاحب کا دعویٔ اولیت تاریخی /تقویمی لحاظ سے غلط ثابت ہوگیا۔

دیکھا تو معلوم ہوا کہ کہنے والے نے بے پر کی نہیں اُڑائی، بلکہ واقعی مدتوں پہلے یہ کام مختلف پیشہ ور افراد کی بولی ٹھولی کے ذخیرہ الفاظ پر مشتمل، سلینگ لغت کی شکل میں کیا جاچکا ہے۔ اسی سلسلے کی کڑیاں، انجمن ترقی اردو پاکستان کی شایع کردہ تین مماثل لغات یا فرہنگوں کی شکل میں موجود ہیں جو اَب نئے سرے سے شایع نہیں ہوتیں، اور خاکسار نے بھی حماقت کی کہ وہی پرانی اشاعت نہیں خریدی بلکہ دوسروں کو خریدنے کی راہ دکھائی۔

یہ تمام لغات یکجا کی جائیں تو ایک بڑی اور ضخیم لغت تیار ہوسکتی ہے۔ میرے فاضل بزرگ نے زنانہ بولی میں مستعمل ’’آنچل‘‘ بمعنی پستان، سینہ درج کیا جو پرانے وقتوں میں خواتین شرم کی وجہ سے کہا کرتی تھیں، اب تو خیر حیا کا معیار بدل گیا ہے، بات کھُل کر کی جاتی ہے۔

اسی ’اولین‘ سلینگ لغت (از پاریکھ صاحب) میں درج ایک محاورہ ہے، ’’بات ہونا‘‘ یعنی مباشرت ہونا، جنسی تعلق ہونا، جیسے ’ہماری اُن سے بات ہے‘۔ یہاں یہ وضاحت ضروری تھی کہ یہ قدیم ریختی اور قدیم اردو نثر میں مستعمل زنانہ بولی کا ایک نمونہ ہے۔ پرانے زمانے ہی میں نہیں آج بھی زنانہ بولی میں بعض جگہ ’’باڈی(Body)‘‘یا ’’بوڈی‘‘ بمعنی اَنگیا (Bra) بولاجاتا ہے، یہ سلینگ ہے جو ڈاکٹر صاحب کی لغت میں شامل نہیں۔ اسی طرح کی غیرمشمولہ مثالوں میں ’’باہر والی‘‘ بمعنی معشوقہ یا داشتہ جیسی منفرد ترکیب بھی شامل ہے۔

خواتین بہت سے الفاظ کی تصغیر (پیار سے یا کسی اور سبب) بناتی ہیں جیسے باجی سے بجّو، بجیا، آپا سے اَپیا، آپو، اَپّو، اَپّی، چھوٹے سے چھُٹکا اور چھوٹی سے چھٹکی (بِہاری بولی) یا چھُٹَنکا /چھُٹَنکی، دادا سے دَدّا (بِہاری)، چھوٹی پوٹلی سے پوٹلیا/پُٹَلیا، جی (یعنی دل) سے جیوڑا (شاعری میں بھی مستعمل )، روپے کی کم مقدار کو روپلی، کلیجے سے کلیجوا وغیرہ۔

دورِجدید میںجہاںزبان میں دیگر بگاڑ دیکھنے میں آئے، وہیں ہم نے یہ بھی دیکھا کہ اب زنانہ بولی اور خالص یا مخصوص نسائی الفاظ، تراکیب، محاورے، کہاوتیں، فقرے، اشارے، کنائے بھی دم توڑ نے لگے۔ اب تو ستّر، بلکہ اَسّی سالہ خاتون بھی اُس مخصوص بولی سے ناواقف ملیں گی جو کبھی صنف نازک تک محدود ہونے کے سبب، ہرکس و ناکس کے لیے قابل فہم نہیں تھی۔

لائق صد افسوس بات یہ ہے کہ ہر طرح کی عوامی چالو بولی کا رواج ایسا عام ہوگیا ہے کہ خواتین کو کہیں روانی میں بات کرتے سنیں تو اثنائے گفتگو ٹوک کر بتانا پڑتا ہے کہ یہ فُلاں لفظ جو ابھی آپ کی زبان سے ادا ہوا، خالص مردانہ اور فُحش ہے یا دُشنام ہے۔ ہائے ہائے! میری عظیم زباں فہم والدہ مرحومہ زندہ ہوتیں تو شاید صدمے ہی سے مرجاتیں۔ وہ اپنے ’’للہی بَیر‘‘ والے دشمن کے وار بہ اطمینان سہہ لیتیں، مگر زبان وتہذیب میں ذرا سا بگاڑ، انھیں گوارا نہ تھا۔

زبان کو یونہی ماں کے رشتے سے نسبت نہیں، بلکہ درحقیقت ماں ہی زبان کی تشکیل کرتی ہے۔ زنانہ بولی یا نِسائی زبان کے متعلق کئی کتب لکھی جاچکی ہیں اور اس موضوع پر پی ایچ ڈی کا مقالہ بھی لکھا جاسکتا ہے۔ راقم یہاں کوشش کرے گا کہ اس کا کچھ انتخاب یعنی چُنیدہ حصہ قارئین کرام کی معلومات کے لیے پیش کرے۔ یہاں یہ بھی عرض کردوں کہ بے شمار الفاظ، تراکیب، محاورے اور اصطلاحات ایسی بھی ہیں کہ عورتوں ہی کی ایجاد ہیں، مگر اب بہت کم کسی لغت میں یہ وضاحت دیکھنے کو ملتی ہے۔ یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نِسائی بولی میں ہر علاقے میں بولے جانے والے مشترک ومختلف الفاظ وتراکیب کا ذخیرہ شامل ہے۔ شاید بڑا حصہ شمالی ہند میں دِلّی ونواح کا اور پھر دکن یعنی جنوب میں حیدرآباد کا ہے۔

استاد کے لیے ایک لفظ ہے،آخوند/ اخوند جو فارسی زبان سے اردو اور بعض دیگر زبانوں میں آیا تو اس کی شکل میں بھی فرق واقع ہوا۔ قدیم اردو میں اسے آخون بھی کہا گیا جو تعظیماً آخون جی یا آخون صاحب پکارا جاتا تھا۔ ع :

بھلا آخون جی صاحب کو آنے دو، کہوں گا میں+کہ اے حضرت سلامت ! آپ سنیے یہ حقیقت ہے۔ یہی کلمہ تخاطب بگڑ کر، زنانہ بولی میں ’’آتوں جی‘‘ ہوگیا۔ {آخوند، اخوند، اَخ وَند، اَخَند اور اَخوندو، یہ سب ایک ہی فارسی اسم کی مختلف شکلیں ہیں جو اُستاد، خصوصاً دینی معلم و رہنما، عالم، رہبر کے معنوں میں ایران، افغانستان، آذربائیجان، تاجکستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں صدیوں سے مستعمل ہے۔

آذربائیجان کی زبان آذری میں یہی نام اخوندوف( Akhundov)کہلاتا ہے جو ظاہرہے روسی زبان کے تسلط کا نتیجہ ہے، ورنہ سیدھا سیدھا اخوند ہی تھا۔ سندھی میں اسے آج بھی آخوند کہتے ہیں، جبکہ بنگلہ میں اس کے مختلف تلفظ ہیں: آکینڈ، آکھینڈ، کھونڈ کر، کھُنڈ کر، کھنڈے کر۔ یہی نسبت تھی سابق صدربنگلہ دیش جناب خوندکرمشتاق احمد کی۔ چینی مسلم قوم ہُوئی(Hui) اپنے امام مسجد کے لیے آہونگ(Ahong) کا نام استعمال کرتی ہے جو اسی لفظ کی متبدل شکل ہے۔ ویسے تو یہ مخلوط قوم معیاری چینی زبان(Mandarin Chinese) ہی بولتی ہے، مگر ان کی اپنی زبان Chamorro ہے۔

ان کے ذخیرہ الفاظ میں بعض عربی وفارسی الفاظ موجود ہیں}۔ عورتیں اپنے سے کم رتبے والی کسی عورت کو (تحقیراً) ’’اَرِی‘‘ کہہ کر مخاطب کرتی تھیں۔ یہ ہندی الاصل حرف ِندا، مخفف کے طور پر، ری بھی ہوگیا تھا۔ اب ذرا کم کم ہی سننے میں آتا ہے۔ دل چسپ انکشاف یہ ہے کہ ویسے تو اس لفظ کا مذکر ’’ارے‘‘ دِلّی میں کوئی اچھا حرفِ ندا نہ تھا (فعل متعدی: ارے تُرے کرنا یعنی اَبے تَبے کرنا، بے ادبی سے بولنا، گستاخی سے پیش آنا)، مگر لکھنؤ والے معزز لوگوں کو بھی ’’ارے صاحب‘‘، کہہ کر مخاطب کیا کرتے تھے۔

آٹے سے بہت کچھ بنتا ہے، مگر آپ شاید جان کر حیران ہوں گے کہ زنانہ بولی میں ایک عجیب ترکیب ہے : آٹے کی آپا۔ یہ ’لقب‘ دیا جاتا ہے کسی بھولی بھالی اور بے وقوف لڑکی یا عورت کو پیار سے (جیسے ہمارے یہاں بزرگ بھی غصے یا مصنوعی خفگی سے کسی کو کہہ دیا کرتے تھے: ’’اُلّو کہیں کا‘‘)۔ آٹے سے جُڑا ہوا ایک زنانہ محاورہ ہے، آٹے کا چراغ۔ مفہوم: کوئی ایسی اہم چیز جو ساتھ رکھی جاسکے نہ اپنے سے جُدا کی جاسکے۔ مثال: ’’آٹے کا چراغ، گھر میں رکھوں تو چُوہا کھائے، باہر لائوں تو کوّا لے جائے‘‘۔

اُلٹی گنگا بہنا: فرہنگ آصفیہ کے بیان کی رُو سے یہ ہندی الاصل، فعل لازم ہے بمعنی خلاف ِ دستور کسی بات کا ہونا۔ اثنائے مطالعہ معلوم ہوا کہ اسے بطورکہاوت استعمال کرنے کا سبب یہ حکایت ہے۔ کسی شخص کی بیوی ہمیشہ خلاف عقل یعنی برعکس کام کیا کرتی تھی۔

ایک مرتبہ اُس کی اپنے شوہر سے تکرار ہوئی تو غصے سے میکے کا قصد کیا، شوہر نے پیار سے روکنا چاہا، مگر ناکام رہا اور وہ حسب عادت بھاگتی چلی گئی اور جب دریائے گنگا راستے میں آیا تو شوہر نے چلّاکر روکنا چاہا، ’’دریاسے آگے نہ جانا‘‘ مگر وہ نہ مانی اور دریا میں کود گئی۔ ایسے میں شوہر نے اُسے مشورہ دیا کہ کنارے سے الٹی طرف تیرو۔ آس پاس کھڑے لوگوں نے اظہار تعجب کیا تو وہ بولا: ’’میری بیوی کی گنگا اُلٹی بہتی ہے۔ یہ براہ راست تو کوئی نِسائی کہاوت نہیں، مگر اس کا تعلق بہرحال خواتین سے ہے۔

اسی طرح بہت سے دیگر مشہور محاوروں اور کہاوتوں کا معاملہ بھی ہے۔ بلّی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا: یہ بہت مشہور محاورہ ہے ، مگر آج کا استعمال کرنے والا مشکل میں پڑجاتا ہے، کیونکہ اسے بھاگوں اور چھینکا کا مفہوم بھی بتانا پڑتا ہے۔ فریج اور فریزر کی ایجاد سے مدتوں پہلے دو چیزیں ہمارے باورچی خانے کی زینت ہوا کرتی تھیں، چھینکا اور نعمت خانہ۔ بعض لوگ نعمت خانہ باورچی خانے کے ساتھ ہی رکھا کرتے تھے۔

خاکسار نے اپنے بچپن میں اپنے گھر میں یہ چیز بھی دیکھی تھی۔ اب جبکہ بجلی کی فراہمی کے بے تحاشا تعطل کی وجہ سے بہت سارے مسائل نے جنم لیا ہے تو جہاں Emergency light/Torch اور لالٹین جیسی چیزوں کا استعمال کرنا پڑتا ہے، فریج اور فریزر کے عارضی طور پر بند ہونے اور اند ر رکھی ہوئی چیزوں کے خراب ہونے کے خدشے کے پیش نظر نعمت خانے کا استعمال بھی ناگزیر محسوس ہوتا ہے۔ (ویسے تو گیس کی فراہمی بھی متأثر ہونے کی وجہ سے لکڑیاں جلانے اور مٹی کے تیل کے چولھے جلانے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے)۔

چھینکا، کسی دھات یا مخصوص دھاگوں، کپڑے، جالی وغیرہ سے بنے ہوئے اس ٹوکرے یا ٹوکری کو کہا جاتا تھا جو خواتین بچے ہوئے کھانے، دودھ، مکھن اور دیگر اشیاء کو بلّی یا دیگر جانوروں اور کیڑے مکوڑوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اونچی جگہ پر ٹانگ دیا کرتی تھیں۔ اگر کبھی اتفاقاً بھی یہ چھینکا گرکر ٹوٹ جاتا تو بزرگ خواتین یہ کہہ کر معاملہ رفع دفع کردیا کرتی تھیں، بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا یعنی اُس کے بھاگ یا نصیب میں تھا، اسی لیے گراکر، توڑکر کھانے میں کامیاب ہوگئی۔ بعد میں اس کا استعمال غیرمتوقع طور پر خوشی ملنے کے موقع پر کیا جانے لگا۔

اب اگر بات کریں خاص زنانہ بولی کے محاورات یا کہاوتوں یا دیگر تراکیب کی تو اس کی فہرست خاصی طویل ہے۔ اس ضمن میں کچھ مثالیں پیش خدمت ہیں:

پرانی عورتیں اپنے اصل مقام یعنی باورچی خانے اور اس سے متعلق چیزوں کو کبھی نہیں بھولتی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے ایسے محاورے معرض وجود میں آئے:’’سات توئوں سے منھ کالا‘‘ یعنی کسی معاملے میں اس درجہ بدنامی ورسوائی ہونا کہ گویا سات عدد تَووں کی کالِک منھ پر مَل لی ہو۔ ’’جو ہانڈی میں ہوگا، ڈوئی میں نکل آئے گا ‘‘یعنی جو بات چھپی ہوئی ہے، ظاہر ہوہی جائے گی،’’نو لکھا ہار پہنانا‘‘ یعنی کسی کو ذلیل کرنا یا جوتیوں کار ہار پہنانا، ’’پھول سونگھ کر جینا‘‘ یعنی کم کھانے کا ڈھونگ رچانا،’’تڑخ تڑخ نور برسنا‘‘ یعنی کسی بدصورت عورت کو طنزاً خوبصورت یا پُر رونق بتانا۔ یہ فہرست اور دیگر مثالوں کا شمار بھی محال ہے۔ ممکن ہے پھر کبھی اس موضوع پر مزید لکھوں، بشرط عافیت۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔